مرتا ہے کوئی گستاخی پہ، کوئی ناموس رسالت صلی الله علیہ وآلہ وسلم پہ

ہائے افسوس ہائے افسوس ہائے افسوس۔ یہ افسوس پاکستانی عوام کو ممتاز حسین قادری شہیدکو تختہ دار پر لٹکائے جانے پر نہیں بلکہ افسوس تو ہمیں اپنے حکمرانوں پر ہو رہا ہے، اور وہ سب اعلی عہدےدار جو ممتاز حسین قادری کو خاموشی سے پھانسی دیئے جانے کے اس ناقابل فراموش عمل میں شامل رہے، ممتاز حسین قادری تو اپنی منزل مقصود تک پہچ گیا، اور شہادت کا عظیم رتبہ پایا، جو کہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا،اس عظیم مقام کو پانے کے لئیے بلند حوصلہ، ہمت،جرات، نصیب ، اور جذبہ ایمانی سے شرشار ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ سب باتیں ممتاز حسین قادری میں موجود تھیں تب ہی تو اس نے اپنی جان ومال کی پروا کئیے بغیر ایک ایسے شخص کو اس کے انجام تک پہچایا جو کہنے کو تو مسلمان اور اس ملک کا سیاستدان تھا۔ پر اپنے ہی اسلامی قوانین کو کالا قانون کہنے والا شخص تھا۔ اور جو شخص اسلامی قوانین کو کالا قانون کہے یہ ہمارے دین اسلام کی بے حرمتی نہیں تو کیا ہے۔ اور کیا بحیثٰیت مسلمان ہم اپنے ہی اسلامی ملک میں رہ کر اسلامی قوانین کے خلاف بات کرنے والے شخص کو برداشت کر سکتے ہیں، یقینا نہیں پر یہ الگ بات ہے کہ ممتاز حسین قادری نے وہ کر دیکھایا جو ہر وہ مسلمان جس کے دل میں ایمان کا جذبہ ابھی باقی ہے کرنا چاہتا ہو گا پر یہ خوش نصیبی، ہمت اور جرات تو خدا نے ممتاز حسین قادری شہیدکے نصیب میں لکھی تھی۔ پر یہ بات ہمارے حکمران، اعلی عہدےدار اور وہ لوگ کیا جانے جو صرف نام کے مسلمان ،انگریوں کے پھٹو، اورخدا سے زیادہ غیر مسلم قوتوں سے ڈرنے والے ہیں۔ ٢٩ فروری ٢٠١٦ بروز پیر پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا۔ اس دن کو پاکستان کی عوام پاکستان کے مسلمان جن کے اندر خدا کا خوف، اور ایمان کا جذبہ ابھی زندہ ہے ہمیشہ یاد رکھے گے کہ اس دن اسلامی ملک پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا فیصلہ کیا گیا جس نے تمام سچے مسلمان پاکستانیوں کے ہوش اڑا دیئے، یہ فیصلہ اسلامی قوانین کو کالا قانون کہنے والے کے ساتھ اور دین اسلام کی حرمت کی خاطر لڑ جانے والے کے خلاف تھا۔ افسوس تو اس بات کا ھے ممتاز حسین قادری کو پھانسی کا حکم جاری کرنے والے اور اس حکم کی خاموشی سے پیروی کرنے والے سب کہنے کو مسلمان تھے۔ کیا یہ سب کرتے ہوئے ان کے ہاتھ اور دل نہیں کانپے، کیا ان کے ضمیر نے ان کی ملامت نہیں کی ہو گی، کہ ہم کس عظیم انسان کی شہادت کا ذمہ اپنے سر لے رہیں ہیں۔ہم کیا غضب کرنے جا رہے ہیں، کس عذاب کو اپنی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ اگر یہ سب واقعی مسلمان ہیں اور اگر ان کے اندر تھوڑا سا بھی خدا کا ڈر اور خوف ہوتا تو انہیں اپنے اقتدار،اپنی نوکریوں سے زیادہ اپنے اعمال کی فکر ہونی چاہئےتھیں۔ یہ اقتدار، یہ دولت شہرت تو ٰآنی جانے والی شئے ہیں پر انسان کے اعمال تو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں اور آخرت میں بھی اس کے ساتھ جائے گے ۔ ممتاز حسین قادری شہیدکوئی دہشتگرد، کوئی خارجی نہیں تھا اس کا کسی دہشتگرد تنظیم سے تعلق نہیں تھا، اور نہ ہی کسی معصوم کی جان لی تھی، اور نہ ہی کسی سکول، یونیورسٹی، ہسپتال، کسی مارکیٹ کو نشانہ بنایا تھا۔ اور نہ ہی کسی سے زیادتی کی تھی۔ بلکہ اپنے دین اسلام جو تمام انسانوں تمام مسلمانوں کے لئیے مکمل بضابطہ حیات ہےکے ساتھ زیادتی کرنے والے، اسلام کو کالا قانون کہنے والے کو مارا تھا ۔ ًمذہب کے معاملے میں ہر مسلمان کو جذباتی ہونا چاہیے۔جیسا کہ اس سے پہلے غازی علم دین شہید نے کیا، اور اسی کی تاریخ اب دوبارہ ممتاز حسین قادری شہیدکی شکل میں دوھرائی گئ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ غازی علم دین شہید بھی ایک سادہ لوح انسان جس نے جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر اور عشق مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم میں اور ان کی عزت وناموس کی خاطر گستاخ رسول رام راج پال جس نےشان مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے خلاف نازیبہ اشاعت شائع کیں اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجرو کیا، جس پر غازی علم دین شہید نے ہمت اور بہادری اور عاشق رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ثبوت دیتے ہوئے گستاخ رسول رام راج پال کو موت کے گھاٹ اتارا اور خود جام شہادت کا عظیم مرتبہ پایا اور ایک تاریخ رقم کی۔ غازی علم دین شہید آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا کیوں کہ الله اور اس کے رسول کی راہ میں مرنے والا کبھی مرتا نہیں۔ غازی علم دین شہید کا واقع تو اس وقت کا ہے جب پاکستان ایک آزاد اسلامی ملک کے طور پر وجود میں نہیں آیا تھا۔ تب غازی علم دین شہید کو پھانسی دیئے جانے پر مسلمان مشتعل تو ہوئے ہو گے پر اتنا افسوس نہ ہوا ہو گا کیوں کہ تب غازی علم دین شہید کی پھانسی کا حکم جاری کرنے والے غیر مسلم تھے جو کہ شروع سے اسلام کے دشمن تھے، پر اب تو نہایت افسوس اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ممتاز حسین قادری کے پھانسی کا حکم جاری کرنے والے اور اسے تختہ دار پر لٹکانے والے سب مسلمان ہیں، ہو سکتا ہے اس کے پیچھے غیر مسلم قوتیں ملوث ہوں جو اسلام اور اس کے چاہنے والوں کے دشمن ہیں۔ پر حیرت تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران، اعلی عہدے دار، افسران، ہمارے سیاستدان کسی نے بھی اس واقع پر بات نہیں کی، اس واقع کی مذمت نہیں کی، یا پھر کچھ کہنے کی اجازت نہیں تھی، میڈیا والےبھی خاموش رہے ، آخر یہ خاموشی کس بات کی تھی، یا پھر ڈر کس چیز سے تھا، کیا خدا سے بھر کر بھی کوئی طاقتور ہے یا پھر ان لوگوں نے خدا کے علاوہ کسی اور سے ڈرنا شروع کر دیا ہے۔ جو زمین پر خدا بنے بیٹھے ہیں۔ پر یہ وقت بے حس ہو کر خاموش رہنے، ڈرنے کا نہیں تھا بلکہ متحد ہو کر اس فعصلے کے خلاف ٰآواز بلند کرنے کا وقت تھا ۔کہیں ہماری یہ خاموشی، یہ بے حسی ہمارے اعمال اکارت نہ کر دے، آخرت میں ہم سے یہ کہیں سوال نہ ہو جائے کہ ہم خاموش تماشائی کیوں بنے رہے،اور کہیں حکمرانوں کے کئیے کی سزا ہمیں بھی نہ مل جائے۔ اے الله ہمیں اور ہمارے وطن عزہز کو ان ظالم حکمرانوں سے بچا، اور ہمارے ملک پاکستان میں حق اور سچ کا بول بالا فرما اور ہمیں اپنے دین پر استقامت عطا فرما، اور ہمارے شہداء کو بلند مرتبہ و درجات عطا فرماِ۔(آمین) تقسیم محبت و الفت اطاعت، عطا ہے میرے الله کی مرتا ہے کوئی گستاخی پہ، کوئی ناموس رسالت صلی الله علیہ وآلہ وسلم پہ
Asma Minhas
About the Author: Asma Minhas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.