’کبھی خوشی کبھی غم ‘کے خالق کرن جوہر نے
جب کہہ دیا کہ اس ملک میں صرف وزیراعظم ہی من کی بات کہہ سکتا ہے تو اروند
کیجریوال نے فوراً ’دوستانہ ‘ نبھاتے ہوئے ان کی تائید کردی ۔ ایسے میں
مودی جی نے امیت شاہ سےضرور کہا ہوگا ’ کچھ کچھ ہوتاہے‘ اور شاہ جی نے جواب
دیا ہوگا ’اے دل ہے مشکل ‘ جینا یہاں ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے دلیّ مری
جاں۔ اس ملک میں من کی بات کہنے کا حق جس کسی کو بھی حاصل ہو لیکن اس پر
کان نہیں دھرنے کا حق ہر کس و ناکس کے پاس ہے اور لوگ باگ وزیراعظم کی حدتک
اس کا بھرپور استعمال کرتےہیں ۔ وقت کے ساتھ مودی جی کو یہ احساس ہوگیا ہے
کہ اب قوم مہینے میں ایک مرتبہ بھی ان کاآکاش وانی سےنشر ہونے والا بھاشن
تک سننا نہیں چاہتی اس لئے اس بار وہ اپنے ساتھ سچن تندولکر اور وشوناتھ کو
لے آئے کہ مبادہ ان کے طفیل کچھ لوگ ان کی جانب توجہ فرما لیں ۔ امتحان کا
موسم چونکہ شروع ہوا چاہتا ہے اس لئے مودی جی نے اپنی تقریرکے اختتام پر
کہا ’کل میرا امتحان ہے۔ کل جب بجٹ پیش ہوگا تو ۱۲۵ کروڈ لوگ میرا امتحان
لیں گے اور میں بہت ہی پراعتماد ہوں‘ ۔
سچن تندولکر اگر کسی میچ سے قبل یہ دعویٰ کرے تو لوگ اگلے دن کھیل کا اسکور
بورڈ دیکھیں گے؟ اس لئےآئیے دیکھتے ہیں دوسرے دن حصص(شئیر) بازار میں کیا
ہوا؟ میچ بہت دلچسپ تھا پہلے تو بہار کی مانند ۱۲۰نکات کااچھال آیا اور اس
کے بعد وہ گرنا شروع ہوا تو ۶۶۰ پوائنٹ نیچے پہنچ گیا لیکن پھر سنبھلنا
شروع ہوا اور جب کھیل کی آخری سیٹی بجی تو ۱۵۲ رن سے مودی جی یہ میچ
ہارگئے ۔ سینسیکس تو خیر ٹسٹ میچ کی مانند تھا لیکن نیفٹی جو ففٹی ففٹی
جیسا ہے اس میں بھی مودی جی کو ۴۳ رنوں سے شکست فاش ہوئی۔ دراصل مودی جی کا
مسئلہ یہ ہے کہ راہ چلتی مصیبت کو غیر ملکی سربراہ سمجھ کر بے ساختہ گلے
لگالیتےہیں ۔ بجٹ بناکر پیش کرنا وزیرخزانہ کا کام ہے اگر مودی جی اس بلا
سے نہ لپٹتے تو لوگ جیٹلی کی ناکامی کا ماتم کرتےلیکن بھلا ہو مودی جی کی
جلد بازی کا جو انہوں نے وزیر خزانہ کو رسوائی سے بچا لیا۔
بھولے ناتھ کے بھکت مودی جی خود بھی بتھ بھولے ہیں وہ بھی (ہندوستان کی
بھولی بھالی عوام کی مانند) رحمت اور زحمت کے درمیان فرق نہیں کرپاتے ہیں
ورنہ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ سمرتی ایرانی کی اداکاری پر خوش ہوکر اس تقریر
پر ’ستیہ میو جیتے ‘ کی مہر ثبت کرتے جو کذب و مکاری کا پلندہ تھی اور
’جھوٹ میو مرتے‘ کہلانے کا سزاوار بھی نہیں تھی۔ اب حال یہ ہے کہ لوگ سمرتی
جی کے بجائے مودی جی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔مودی جی کو سمرتی
ایرانی کی ڈرامہ بازی اس لئے پسند آئی کہ وہ خود بھی نوٹنکی کرتے رہتے
ہیں۔ عرصۂ دراز کے بعد پچھلے دنوں وزیراعظم کو جب ممبئی کا خیال آیا تو
ان کی دلجوئی کیلئے وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس نےچوپاٹی پر ’’ میک ان
انڈیا‘‘ کا تماشہ لگادیا ۔ اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت فرماکر وزیراعظم
واپس ہوئے تو پنڈال میں آگ لگی گئی ۔
میک ان انڈیا کی آگ میں تیل ڈالنے کا کام وزیراعظم کی زوجہ محترمہ جسودا
بین نے اسی دن ممبئی مظاہرہ کرکے کیا۔ ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم کے
زیراہتمام احتجاج میں محترمہ جسودہ بین موسمِ باراں کے اندر جھگیوں کو
مسمار کئے جانے کے خلاف بھوک ہڑتال کررہی تھیں جبکہ وزیراعظم امیر کبیر
لوگوں کے ساتھ دعوت اڑا رہے تھے ۔ ان تقریبات کے اندر یہ سوال پوشیدہ ہے کہ
آخر یہ تضاد ہے جہاں بھری برسات میں خود اپنے باشندوں کی چھت کو بچانے
کیلئے وزیراعظم کی اہلیہ کو سڑک آکر نعرہ لگانا پڑتا ہے مگر دیش بھکت
وزیراعظم ان کی التجاء پر کان دھرنے کے بجائے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے
سرخ قالین بچھا کرائیر انڈیا کے مہاراجہ کی مانند ہاتھ جوڑکرمسکراتا ہے۔
میک ان انڈیا کے پنڈال سے امیتابھ بچن اور عامر خان کو صحیح سلامت نکالنے
کے بعد بہت جلدآگ پر قابو پالیا گیا لیکن چوپاٹی سے قریب ہی میں واقع
ممبئی اسٹاک میں جو آگ لگی ہوئی تھی اس کے شعلوں کو دیکھ کر کون احمق
سرمایہ کار ادھر پھٹکنے کی حماقت کرے گابلکہ ان شعلوں کو توقومی بجٹ بھی
بجھا نہیں سکا ۔ فی الحال حصص بازار شعلہ زن ہے ،ہرروز کروڈوں کا سرمایہ
خاک میں مل رہا ہے۔ بجٹ والے دن وہ اس سال کے سب سے کم تر سطح پر پہنچ گیا
اس کے باوجود عصر حاضر کا نیرو ارون جیٹلی چین کی بنسی بجارہا ہے۔یو پی اے
کے زمانے میں وزیراعظم خود ایک ماہر معاشیات تھے اس کے باوجود انہوں نےپی
چندمبرم اور پرنب مکھرجی جیسے ماہرین کووزارت خزانہ کا قلمدان سونپا۔ اب
حال یہ ہے کہ چائے والے وزیراعظم کا وزیرخزانہ دہلی کرکٹ ایسو سی ایشین میں
نوٹ کھیلتا ہے۔ ایسے میں اگر قومی معیشت سکرات کے عالم میں دم توڑنے لگےتو
اس میں حیرت کی کیابات ہے ؟
ارون جیٹلی ایک ماہر وکیل ضرورہیں لیکن معاشی معاملات کا انہیں کو ئی تجربہ
نہیں ہے اس کے باوجود وفاداری کے سبب وہ وزیرخزانہ بنا دئیے گئے۔ اس میں شک
نہیں کہ ارون جیٹلی نے للت مودی جیسے گھپلے بازوں کی وکالت اور نریندر مودی
جیسے سفاکوں کی چاپلوسی کرکے اپنے ذاتی خزانے کو مالا مال کیا ہےلیکن اپنی
جیب بھرنے اورملک کی معیشت کو سنبھالنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہونا تو
یہ چاہئے تھا کہ خام تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کا فائدہ اٹھا کرعوام کی فلاح
وبہبود کی جانب توجہ دی جاتی لیکن ایسا کرنے کیلئے جو غریب پرور ذہنیت
درکار وہ اس حکومت کے اندر ندارد ہے۔ مرکزی حکومت کو فی الحال اپنے رائے
دہندگان کے بجائے ان سرمایہ داروں کا اربوں کھربوں کا قرض ستا رہا ہے جنہوں
نے چندہ دے کر پچھلے انتخاب میں مودی جی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچایا
تھا ۔ حق نمک ادا کرنے کی خاطر موجودہ سرکار سرمایہ داروں کا قرض معاف کرکے
آئندہ انتخاب میں اپنی اعانت کو یقینی بنارہی ہے ۔ وہ تو خیر سپریم کورٹ
نے اس پر روک لگا کر قرض چرانے والوں کی فہرست طلب کر لی ورنہ کب کا یہ چور
چور موسیرے بھائی ایک دوسرے کے وارے نیارے کرچکے ہوتے۔
قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے بنک خسارے کے بحران سے گذررہے
ہیں ۔ اسٹیٹ بنک آف انڈیا نےدسمبر کے خاتمہ پر ۶۷ فیصد گھاٹے کا یعنی ۱۲۶۰
کروڈ کے نقصان کا اعلان کیا ۔اس نے یہ بھی بتایا کہ ۲۰۷۰۰ کروڈ کے قرضہ جات
کا واپس آنا مشکل ہے۔ پنجاب نیشنل بنک ، یونین بنک آف انڈیا اور دیگر بنک
بھی اس طرح کے خسارے کا شکار ہیں۔ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ اس معاملے میں
سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور اس نے ریزرو بنک سے ان کمپنیوں کی فہرست
طلب کرلی جن پر ۵۰۰ کروڈ سے زیادہ کا قرض ہے اور انہیں سہولت دی جارہی ہے۔
عدالتِ عالیہ کو اس پر تشویش ہے کہ بغیر کسی واضح رہنمائی اورواپسی کی
ضمانت کے کن بنیادوں پر عوامی بنک اور معاشی ادارے قومی خزانے پر یہ عظیم
بوجھ ڈال رہے ہیں ؟ حکومت کی معاشی کارکردگی کی کھری کسوٹی آئندہ سال
کیلئے خوشنما بجٹ پیش کردینانہیں بلکہ گزشتہ بجٹ پر عملدرآمد ہے اس لئے
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جیٹلی جی کے پچھلے بجٹ پر ایک نگاہ ڈالی جائے اور
دسمبر کے اواخر تک اس پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے؟
گزشتہ سال کے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیرخزانہ چدمبرم نے کہا تھا کہ
اس بجٹ کا زیادہ جھکاؤ صنعتی دنیا اور انکم ٹیکس ادا کرنے والے طبقے کی طرف
ہے جبکہ ملک بڑی آبادی کے مفادات اس بجٹ سے غائب ہیں ۔ یہ لوگ نہ صنعتی
دنیا سے وابستہ ہیں اور نہ انکم ٹیکس چكاتےہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے ان
شعبوں میں بڑی ظالمانہ کٹوتی کی گئی ہے جو حکومت سے مدد وتعاون کی امید سے
رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر پسماندہ طبقات سے متعلق کیلئے۲۰۱۴ میں ۴۳۲۰۸
کروڑ روپے مختص گئے تھے جو گھٹ کر ۳۰۸۵۱ کروڑ روپے ہوگئے۔ درج فہرست قبائل
کے لئے ۲۰۱۴ میں ۲۶۷۱۴ کروڈکا الاٹمنٹ کیا گیا تھا جو کم ہوکر۱۹۹۸۰
کروڈہوگیا۔ بچوں کی فلاح بہبود کا بجٹ ۱۸۶۹۱ سے گھٹا کر محض ۸۷۵۴ کروڑ روپے
کردیا گیا۔ قومی سماجی امداد ، چھوٹی اور متوسط صنعتیں ، اقلوترں کے ملٹی
سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام ، ماحولیات اور جنگلات کا شعبہ اور دیہی سڑک
منصوبہ کی مد میں بھی رقم گھٹائی گئی ۔ اس کے برعکس حکومت نے صنعتی ٹیکس
میں پہلے ہی سال ایک فیصد یعنی تقریباً ۲۰ ہزار کروڑ روپے کی راحت دی اور
ہر سال یعنی ۵سالوں تک جملہ ایک لاکھ کروڈ کی سہولت دینے جارہی ہے۔ اس لئے
حکومت کا یہ دعویٰ کہ ترقی ہوگی تو اس کا فائدہ سب کو ملے گاباؤلے کا خواب
لگتا ہے۔
اس سال کے حتمی اعدادوشمار تو مارچ کے اواخر میں آئیں گے لیکن دسمبر تک
یعنی تین چوتھائی سال کا جائزہبھی کم دلچسپ نہیں ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا
کہ ساری وزارتوں میں تقریباً ۷۵ فیصد اخراجات سرف ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ
۱۰ شعبوں نے نصف بھی خرچ نہیں کیا اور ۷ نے ۹۰ فیصد سے زیادہ خرچ
کرڈالاجبکہ ایک چوتھائی سال باقی تھا۔ تفصیل میں جاکر دیکھنے سے پتہ چلتا
ہے کہ میک انڈیا کے نقطۂ نظر سے تکنیکی صلاحیت میں اضافہ کی خاطر قائم
کردہ وزارت نے صرف ۳۳ فیصد خرچ کئے۔ اسمارٹ سٹی بنانے والے شعبے نے صرف ۱۸
فیصد سرف کئے جبکہ اس کے تحت شہروں کی غربت کو دور کرنے کا شعبہ بھی آتا
ہے۔غذائیت کی کمی کے لاکھ شور شرابے کے باوجود غذائی رسد کی وزارت نے صرف
۴۴ فیصد خرچ کئے۔ اقلیتوں کے شعبے کو پہلے رقم کم مختص کی گئی اور اس میں
سے بھی ۹ ماہ کے اندر صرف ۳۸ فیصد کا استعمال ہوا۔ بڑی صنعتوں اور دفاعی
امور جیسی وزارتوں میں ۷۵ کے بجائے ۲۵ فیصد خرچ ہوا۔
اس کے برعکس کوئلہ ،بجلی اور معدنی تیل و گیس کے شعبے نے ۹۰ فیصد سے زیادہ
خرچ کردئیے ۔ وزارتِ آب رسانی ، ہوابازی ، پنچایت راج اور خواتین و واطفال
کے فلاح بہبود کے شبےد تو۱۰۰ سے تجاوز کرکے ۱۳۷ فیصد تک پہنچ چکے تھے اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کے ۳ ماہ میں وہ اپنا کام کیسے چلاتے رہے؟
پچھلے سال بجٹ کی ابتداء میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی کاطنز یہ فرلہ ’’وراثت
میں ہمیں جذباتی عذاب اور اداسی ملی ہے‘‘ اب خودان پر صادق آرہا ہے جبکہ
مزید ۳ سال باقی ہیں ۔ برآمدات کی شرح ایک تہائی ہوچکی اور روپیہ دن بدن
گرتا جارہا ہے ایسے میں جب یہ لوگ اپنا بوریہ بستر گول کر کے جائیں گے تو
قومی معیشت کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ منموہن سنگھ
نے تو اپنی مدت کار میں سینسیکس کو ۸ ہزار سے ۲۴ ہزار تک اٹھایا تھا اب یہ
اسے کہاں تک گرا کر جائیں گے یہ کوئی نہیں جانتا؟
اس موقع پر وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اپنے من کی بات پر خود کان دھریں۔
مثلاً انہوں نے کہا تھا’’ امتحان صرف اعداد کا کھیل نہیں ہے بلکہ اسے اعلیٰ
مقاصد سے وابستہ کرنا چاہئے‘‘۔ اسی طرح بجٹ بھی اعداد و شمار کی کرشمہ سازی
نہیں ہے اسے بھی عوامی فلاح وبہبود سے منسلک کیا جانا چا ہےل ۔ وزیراعظم نے
نظم و ضبط کی جو تلقین کی ہے اس پر اے بی وی پی والے عملدارآمد کریں تو
تعلیم گاہوں میں امن و امان قائم ہوجائیگا۔ وزیراعظم نے طلباء کو اچھی طرح
سونے کا مشورہ بھی دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا امتحان گاہ میں نہ سوئیں اور
کم نمبرآنے پر انہیں موردِ الزام نہ ٹھہرائیں اگر کوئی طالب علم وہاں
موجود ہوتا تو کہتا جناب عالی امتحان گاہ کوئی ایوان پارلیمان تو ہے نہیں
جہاں سمرتی ایرانی کی ہنگامہ آرائی کے دوران بھیاربابِ اقتدار گھوڑے بیچ
کر سوجاتے ہیں۔ وزیرا عظم کا ’’اپنے اہداف طے کرکے بغیر کسی دباو کے کھلے
ذہن سے اسے حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ پر سبقت لے جانے کی کوشش ‘‘ کرنے کی
نصیحت لفاظی اور نرگسیت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اس لئے اسے نظر انداز
کردینا ہی بہتر ہے۔
اس بارمن کی بات میں شریک دیگر شرکاء توایسا لگتا تھا کہ وزیراعظم سے مخاطب
تھے مثلاً وشوناتھ آنند کا مشورہ کہ ’’اپنا دماغ ٹھنڈا رکھو ۔ بیجا
خوداعتمادی یا قنوطیت کا شکار ہونے سے اپنے آپ کو بچاو‘‘ خالص مودی جی
کیلئے تھا۔ سی این آر راو کی نصیت بھی خاص طور وزیراعظم کے لئے تھی جب
انہوں نے طلباء سے کہا ’’ امتحانات ہیجان پیدا کرتے ہیں لیکن پریشان نہ ہوں
بلکہ جو کچھ بہترہوسکتا ہے کریں ۔ملک میں بہت سارے مواقع اورامکانات ہیں‘‘۔
یعنی کل کو وزارت عظمیٰ کی کرسی چلی بھی جائے تو چائے کی دوکان تو موجود ہی
ہے۔ راو نے یہ بھی کہا کہ’’ آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہو یہ طے کرنے کے
بعد اسے چھوڑو نہیں ۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔ مودی جی تو
پہلے ہی اس مشورے پر عمل کرچکے ہیں لیکن جب ملک کی عوام ان سے نجات حاصل
کرنے پر تُل جائیں گے تو راؤ صاحب کی نیک خواہشات کسی کام نہیں آئیں گی ۔
اس صورتحال میں تو میں مودی جی کومراری باپو کی پروچن کا پالن کرنا ہوگا جو
من کی بات میں انہوں نے دیا۔ مراری باپو نے اپنے من کی بات ان الفاظ میں
بتائی کہ ’’ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر کوئی کامیاب ہو اس لئے ناکامی کے ساتھ
جینا سیکھو‘‘۔ مودی جی اگر باپو کی یہ نصیحت گرہ میں باندھ لیں تو وہ آگے
چل کر وہ ان کے بہت کام آئیگی لیکن اڈوانی جی کو اس کی اتباع کرنی چاہئے۔
|