عجب کرپشن کی غضب کہانی
(Shahzad Saleem Abbasi, )
ارشاد ربانی ہے" اور جب تم بات کہو تو
انصاف کی کہوخواہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا ہی کیوں نہ ہو " ، عدل علیؓدینا
بھر میں ماڈل کا درجہ رکھتا ہے اورآپکاؓ طرزِ حکمرانی اور طرزِ جہاں بانی
اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں شامل ہے اسی مناسبت سے شہرہ ِ آفاق دانشور جارج
جرداق نے" امام علیؓ انسانی عدالت کی آواز" کے نام سے کتاب بھی لکھی۔ عدل
وانصاف پر مبنی معاشرے پر جارج رال کی تھیوری آف جسٹس بھی کمال کی ہے۔
سیاست کے دو بنیادی اصول ہیں ایک ہے اہل شخص کو منصب پر بٹھانا اور دوسر
اہے اس منصب کا پاس رکھتے ہوئے قضاء صادر فرمانا۔ممتاز قادری کے اسلامی ،مذہبی
و انسانی بھونچال کے بعد جہاں موجودہ بہت سے معاملات مردم شماری، تھرپارکر
، ایم کیو ایم کا غم و غصہ،پنجاب اسمبلی کاتحفظ نسواں بل اورجنرل کیانی کے
بھائی کا سکینڈل وغیرہ دب کر رہ گیا اور مصطفی کمال کے لیے " سپر اسپیس "
پیدا ہوگئی وہاں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی" کرپشن فری پاکستان "
مہم بھی مصطفی کمال ، انیس قائم خانی اور ڈاکٹر صغیر کی دھواں دار پریس
کانفرنس، میڈیا کی عدمِ توجہ اور نقطہ شانِ رسالت ماٰب پر تحریک چلانے
کیوجہ سے شاید تعطل کا شکار ہو گئی۔حالیہ مسائل ڈاکٹر عاصم ، عزیر بلوچ، پی
آئی اے اور نکیال کشمیر واقعہ ، الیکٹورل ریفارمز، نیب ریفارمز احتساب کا
نظام ،عزیر بلوچ اور مختلف جے آئی ٹیز اور کمیشنز سب عدل کے راستے میں حائل
رکاوٹیں ہیں۔اس موقع پر سراج الحق کا بیان کہ" بیوروکریسی میں پھیلی کرپشن
داعش اور طالبان سے زیادہ بڑا خطرہ ہے" ناچیز کے سنگ دل کو چھو کر گزر
گیا۔حقیقی جمہوریت کے ستون نواز شریف کا ایک بیانیہ عموماََ سننے کو ملتا
ہے کہ پاکستان کی عزت و ناموس کے لیے ہم سب اکھٹے ہیں کوئی سندھی
پنجابی،پٹھان ،بلوچی یا کشمیری نہیں ہے ،کیا ہی خوبصورت ہو جب تمام سیاسی
جماعتیں، حکمران اور انفرادی لوگ اس تدبر کے ساتھ ایک صفحے پر ہو جائیں کہ
مملکتِ خداداد کو "کرپشن فری" بنانا ہے۔سراج الحق کی یہ مہم دیگر مہمات کی
طرح بہت بڑے پیمانے پر کامیابی کے جھنڈے گارٹی نظرنہیں آر ہی لیکن سراج
الحق کی حالیہ پریس کانفرنس نے کرپشن کے راستوں ، دروازوں ، کھڑکیوں اور
صندقوں کے بہت سے راز افشاں کیے وہاں حقیقت پر مبنی حیرا کن انفارمیشن کے
ذریعے روزانہ کی بنیاد پر کرپشن کو بھی بے نقاب کیا ہے۔اور بتایا کہ روزانہ
اس غریب عوام کے مال پر ڈاکہ مارتے ہوئے فی ورکنگ اوور ڈیڑھ ارب روپے
،روزانہ12 ارب روپے اور 4380 ارب سے زائد کی کرپشن سالانہ ہو رہی ہے۔
(i پاکستان میں کرپشن پر قابو پانے کے دعوے تواتر سے کئے جارہے ہیں اور
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2015ء کی رپورٹ سے غیر حقیقت پسندانہ نتائج
اخذکئے جارہے ہیں گزشتہ ماہ سے حکمران اس بات کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے
رہے ہیں کہ 2015ء میں پاکستان میں کرپشن میں کمی ہوئی ہے۔ اس دعوے کی بنیاد
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی2015ء کی رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے
175ممالک میں سے 116ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ رپورٹ میں پاکستان
کو 100میں سے 30نمبر دیے گئے ہیں جبکہ 2014ء میں 29نمبر دیے گئے تھے جبکہ
اگر کسی ملک کا اسکور 50سے کم ہو تو یہ اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ اس ملک
میں کرپشن کی صورت حال سنگین ہے۔ رپورٹ کے مطابق جو ملک جتنا زیادہ کرپٹ
ہوتا ہے اس کا اسکور بھی اتنا ہی کم ہوتا ہے جبکہ جس ملک کے پبلک سیکٹر کو
نسبتاً کم کرپٹ یا شفاف سمجھا جاتا ہے اس کا اسکور اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔
پاکستان کے 30کے اسکور کے مقابلے میں بھوٹان کا اسکور 65,بھارت کا 38 اور
سری لنکا کا 37رہا یعنی جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں کرپشن پاکستان سے کم
ہے۔
(iiپاکستان میں مالی اور ذہنی (انٹلیکچوئل) بدعنوانی پروان چڑھنے کی وجہ
ملک میں عملاً احتساب کا نظام موجود نہ ہونا ورنیب ، سیاستدان اور سول و
ملٹری بیوروکریسی بھی مک مکا، مٹی پاؤ اور مفاداتی مفاہمت پر عمل پیرا ہونا
ہے اسی لیے جسٹس بھگوان داس نے چیئرمین بننے سے انکار کیا۔ (iiiبدعنوانی
دستاویزات ہونے کے وجود پاکستان سے لوٹ کر مغربی ممالک میں منتقل کرنے والی
رقوم کو قومی خزانے میں واپس لانے کے دعوے گزشتہ 20برسوں سے کئے جارہے ہیں
لیکن اندورنی کہانی یہ ہے کہ ستمبر2000 ء سے اب تک 7 نیب چیئرمینوں نے ملکی
کرپٹ عناصر کو وقتاً فوقتاً ایمنسٹی کے ذریعے تحفظ فراہم کیا اور غلط
اعدادو شمار پیش کیے۔ٹیکس اصلاحات کے ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے 2013ء کے
انتخابی منشور کے مطابق ہرطاقتور اور مضبوط اجارہ دار طبقے کی بھرپور
مخالفت کی جائیگی اور مندرجہ ذیل نقاط بھی پیش کیے کہ" ہر قسم کی آمدنی پر
ٹیکس عائد کیا جائے گا،کالے دھن کو سفید بنانے کے عمل کو روکنے کے لیے
اقدامات اٹھائے جائیں گے،معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا،پی آئی اے کی نج
کاری نہیں کی جائے گی" ، اگر ایسے ہی ہے تو ٹیکس ایمنسٹی کس مرض کی دوا ہے
یہ بھی کالا دھن کو سفید کرنا ہے جسکا دھن 8ہزار ارب سے بھی زیادہ ہے۔ ٹیکس
ایمنسٹی اسکیمیں پہلے ہی ناکام ہو چکیں ہیں۔ بھارت میں ٹیکس اسکیم کے تحت
30 فیص ٹیکس عائد کیا گیا تھا جسے بھار ت میں زبردست پزیرائی ملی ۔ دونوں
ممالک میں واضح فرق ہمارے لیے لمحہَ فکریہ ہے۔
چند ماہ قبل کراچی میں جاپان کے قونصل جنرل اکیراو چی نے کہا تھا کہ جاپان
کی تیز رفتار ترقی کا راز یہ ہے کہ جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین
تعلیمی نظام میں شمارہوتا ہے جاپان میں تعلیم جاپانی زبان میں دی جاتی ہے
اور جاپانی تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاپانیوں نے جن خصوصیات
کو اپنایا ہوا ہے ان میں خلوص، ایمانداری اور یکسوئی سے اپنے فرائض کی
انجام دہی اور نظم و ضبط اور وقت کی پابندی شامل ہیں کیونکہ ان خصوصیات کی
اہمیت اتنی ہی ہے جتنی ٹیکنیکی مہارت حاصل کرنے کی۔آئین کی شق 62-63پر پورا
نہ اترنے والے افراد کا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر پہنچ
جانے اور ان کے نتیجے میں تشکیل دی جانے والی وفاقی ،صوبائی حکومتوں اور
حکومتی اداروں کی ذہنی (انٹلیکچوئل) بد عنوانی بشمول اختیارات کے ناجائز
استعمال کی وجہ سے ہونے والے سالانہ نقصانات اور بد عنوانی ، بد انتظامی،
نااہلی، بدعنوان و نا اہل افراد کی حکومتی اداروں میں تقرریوں و ترقیوں ،
قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرنے اور شاہانہ اخراجات کی وجہ سے قومی خزانے
کو ہونے والے نقصانات کا حجم لگانا ناممکن ہے ۔پاکستان میں ٹیکسوں کی
سالانہ وصولی کی استعداد 8000ارب روپے ہے جبکہ موجودہ مالی سا ل میں وصولی
3000 ارب روپے ہے ۔متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009کے لیے
2015میں تعلیم کی مدمیں مختص کی گئی رقوم کے حجم کاتخمینہ 1350؍ارب روپے
ہے۔آئین کی شقوں25،37 ،38 کے مطاق 5 سے 16 تک بچوں کو مفت تعلیم دلوانا،ہر
شہری کو سستا انصاف، بنیادی سہولت غذا، علاج، مکان، تعلیم دینا ریاست کا
کام ہے۔پاکستان میں 5-16برس کے بچوں کی کل تعداد51ملین جبکہ پاکستان میں
بچوں کی تعداد جو اسکول جاہی نہیں رہے۔ 24ملین(دنیا بھر میں دوسرا نمبر)۔
ملک میں قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والے افراد کا تخمینہ 10ملین جبکہ انکم ٹیکس
کے سالانہ گوشواروں کی تعداد1ملین (2010ء میں یہ تعداد 1.6ملین تھی) ۔ ملک
کے اوپر بیرونی قرضوں وذمہ داریوں کا حجم 68.5؍ارب ڈالر ہے(دسمبر2015ء)۔
بات سمندر پار پاکستانی کی یا اندورنی مگر مچھوں کی نہیں ، نہ ہی ڈیپازٹس ،
باہر کے محلات، برآمدات ، در آمدات، ترسیلات، ہنڈی، حوالہ ، انڈرانوائسنگ،
اوور انوائسنگ، سمگلنگ،چھوٹے بڑے ڈیموں، تجارتی خسارے،قومی تعلیمی پالیسی ،
یا قرضوں کاحجم اور اعلیٰ عدالتوں میں بشمول وفاقی شرعی عدالت میں موجود
سالہا سالوں سے زیرِ التوا فیصلے یہ سب عدل و انصاف سے عاری کرپشن سے
بھرپور رویے ہیں جنکی بات سراج الحق نے کی یہ چیز نئی نہیں ہے کہ لوٹی ہوئی
دولت قومی خزانے میں واپس لائی جا ئے جس سے ہماری معیشت جاپان اور چائینہ
کے مقابلے میں آسکتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ سراج الحق کو کرپشن فری پاکستان
بنانے کے لیے اپنی ذاتی جدوجہد کے ساتھ قومی بیانیے کی ضرورت پڑے گی جسکے
لیے انہیں دوسری پارٹیوں اور عوام کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہوگی،
کیونکہ کرپشن سے پاک پاکستان ہر پاکستانی کی آواز بلکہ عام آدمی کی خواہش
ہے۔ |
|