خطہ کے نوجوانوں میں سے کم ہی یہ جانتے ہوں
گے لیکن جو چالیس کے عشرے کے عینی شائد ہیں ان کی اکثریت اس بات سے بخوبی
آگا ہ ہو گی کہ اس وقت ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے پیچھے جو بھی محرکات
رہے ہوں ان سے صرف نظر کرتے ہوئے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اﷲ باری
تعالیٰ نے ہمیں وہ تمام تراخیتارات تفویض کر دئیے تھے جو کسی مظلوم ومحکوم
قوم کو صدیوں کی جدوجہد کے نتیجہ میں کبھی کبھار ملا کرتے ہیں ،اور یہ بھی
حقیقت ہے کہ ان اختیارات کے حصول کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے
لیکن شومئی قسمت ۔۔۔جو سیاست کی ابجد سے نابلد تھے جو صدیوں سے جبرو غلامی
میں جی رہے تھے ان کی زندگیوں میں جب وہ وقت آیا تو ان کے پاس قومی زندگی
کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے سے
آشنا و قومی سوچ کی حامل قیادت نہیں تھی ،اس کا انجام یہ ہوا اس وقت کے
سیاسی کرداروں نے ان تمام حاصل اختیارات کو ۲۸ اپریل ۱۹۴۹ کو معائدہ کراچی
کر کے سیرینڈر کر دیا ۔قارئین کرام ! اس قومی سانحے کے بعد اس وقت کے
سیاستدان اس سے بڑا قومی جرم کے مرتکب ہوئے کہ انہوں نے اپنے اس سیاہ
کارنامے کو چھپانے کے لئے عوام سے جھوٹ بولا اور کہا کہ یہ معائدہ صرف گلگت
بلتستان کے انتظام و انصرام کی حد تک ہے جب کہ کہانی اس سے یکسر مختلف تھی
وہ یہ کہ ۱۹۴۷ کی شورش کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے علاقوں پرمشتمل ایک
انقلابی حکومت کے قیام جس کا ۴،اکتوبر۴۷ کو علان کر تے ہوئے ایک ڈکلیریشن
جاری کیا گیا تھا جس کے تحت محض دفاع اور رسل ورسائل کے علاوہ تمام تر
اختیارات آزاد انقلابی حکومت کو اپنے پاس رکھنے تھے ان تمام اختیارات کو۲۸
اپریل کے معائدہ کراچی کے تحت مکمل طور پر پاکستانی وزیر بے محکمہ کے سپرد
کر کہ اپنے لئے محض ایک ملازم کی حیثیت سے ’’نوکری‘‘ حاصل کی گئی تھی ۔یہ
معائدہ کراچی وہ سیاہ ترین دستاویز ہے جو ریاست پاکستان اور اس کے مقبوضات
کے درمیاں رشتہ کی بنیاد بنا اور یہ دستاویز وہ ہے جس کی بنیاد پر ریاست
پاکستان اس وقت سے آج تلک اس علاقہ میں اپنی من مانیاں کرتی چلی آرہی ہے
اور یہی وہ دستاویز ہے جس کی بنیاد پر تمام تر معاملات بشمول وہ کالے
پہلے’’ایکٹ‘‘جنہیں مختلف اوقات میں ریاست پاکستان کی جانب سے یہاں نافذ کیا
جاتا رہا ہے جن کی بدولت خطہ کی قانون ساز اسمبلی کو عضو معطل بنا دیا گیا
ہے جسے قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے وہ محض ایک عمارت ہے جو خطہ کے
لوگوں کی مظلومیت و غلامی وبے بسی کی تصویرہے ۔اس خطہ میں کبھی عوامی ووٹ
سے حکومت نہیں تشکیل دی جا سکی حکومت کو بنانے اور گرانے کے تمام تر
اختیارات اسلام آباد کے پاس ہیں یہاں نافذالعمل کالونیل ’’ایکٹ۷۴‘‘ میں کسی
بھی نوح کی ترمیم کا اختیار فقط کشمیر کونسل کے چیرمین جوکہ وزیر اعظم
پاکستان ہوتے ہیں کو حاصل ہے جو کہ کسی صورت خطہ کشمیر کے عوام کو جوابدہ
نہیں ہے ۔
ایسے حالات میں ہر پانچ برس بعد یہاں بڑے بڑے نامور سیاستدان عوام کے پاس
ووٹ کے لئے تشریف لاتے ہیں اورانہیں بڑے ہی عجیب وغریب اورتبدیلی کے دلفریب
خواب دکھاتے ہیں اور انتخابی عمل کے بعد سب اپنی راہ لیتے ہیں اور اپنی
ملازمت سے لطف اندوزہوتے ہیں ،اور وقت گواہ ہے کہ ان چند لوگوں کی زندگیوں
میں انقلابی تبدیلیاں ضرور آئی ہیں ہاں اگر تبدیلی نہیں آئی تو اس مظلوم و
محکوم طبقات کو جو آج بھی دو وقت کی روٹی کے لئے دیس بدیس بھٹک رہے ہیں جن
کا کوئی پرسان حال نہیں ہے خطہ کے لوگوں نے جن اغراض و مقاصد کے لئے
قربانیاں دیں تھیں وہ مسائل کم نہیں ہوئے بلکہ ان میں بتدریج اضافہ ہوا ہے
۔ادارے تباہ و برباد ہیں تھانہ کلچر عروج پر ہے عدل انصاف نام کی کوئی چیز
نہیں لوگ وکیل کے بدلے جج ’’کرنے ‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں انفراسٹرکچر تباہ
وبرباد ہے تعلیمی نظام سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا اور صحت ۔۔۔؟ ریاست پاکستان
میں دوا کے نام پر جعلی ادویات کی صورت میں موت فروخت ہو رہی ہے تو اس کے
کالونیل ایریا’’آزادکشمیر‘‘میں محکمہ صحت کیسا ہوگا اس کا اندازہ لگاناآسان
ہے ۔جب کہ ریاستی حکمرانوں نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے آقاؤں کی
دریافت میں کافی ترقی کی ہے پہلے تو صرف جی ایچ کیو کو یہ اعزاز حاصل تھا
اب ریاست میں حکمران ایمپورٹ کرنے کے لئے پاکستان میں کئی ایک کارخانے کام
کر رہے ہیں جہاں ہر وقت تندرست و توانا وزیر اعظم و صدر ہمہ وقت ڈیوٹی دینے
کے لئے ’’سٹینڈ بائی‘‘ رہتے ہیں جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ خطہ میں الیکشن کو
ابھی ایک سال باقی تھا اور بڑی محنت و مشقت سے چند لوگوں نے رایؤنڈ
انسٹیٹیوت میں داخلہ حاصل کیا تھا کہ عین اس وقت جب الیکشن میں محض چند ماہ
باقی ہیں کمپنی ’’چیف‘‘ نے آزاد کشمیر پروجیکٹ کے لئے ایک دم نئے ’’ جنرل
منیجر ‘‘کو شارٹ لسٹ کر دیا جو کہ وہاں بطور وزیر اعظم احکامات بجا لائیں
گے اور کل ہی موصوف نے اپنے آبائی شہر میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے
ہوئے انہیں بڑی انقلابی تبدیلیوں کی نوید سنائی ہے اور ستر برسوں سے بے
وقوف بنائے جانے والے عوام اچھل اچھل کر تالیاں بجاتے رہے اور نئے منیجر کے
حق میں نعرے لگاتے رہے ،یہ سینکڑوں لوگ ستر برسوں میں اتنا نہیں جان سکے کہ
ایکٹ ۷۴ کیا ہے اور اس ایکٹ کے تحت ان کی اس کمپنی منیجمنٹ کے پاس کون سے
اختیار ات ہیں جو یہ کوئی تبدیلی برپا کر سکیں گے اور وہاں سینکڑوں لوگوں
کے درمیاں کھڑے ہو کر اﷲ کی قسمیں کھا کھا کر لوگوں سے تبدیلی کے جھوٹے
وعدے کرنے والے رایؤنڈ میڈ وزیر اعظم کیا عوام کو یہ بتانا پسند کریں گے کہ
کیا آپ اس قانون ساز اسمبلی کو واقعی بااختیار بنانے کے لئے ریاست پاکستان
کے وزیر اعظم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکیں گے کشمیر کونسل و
وزارت امور کشمیر سمیت ایکٹ ۷۴کو منسوخ کر کے صرف دفاع و رسل ورسائل اپنے
پاس رکھیں اور ہمیں اپنے لوگوں کے لئے خود آئین بنانے دیں ۔۔۔؟اگر ایسا
نہیں کر سکتے تو پھر کس تبدیلی کی بات کررہے ہو مسٹر وزیراعظم ۔۔۔۔؟مسٹر
وزیر اعظم آپ قومی تبدیلیوں کو تو رہنے ہی دیجئے آپ سے اتنی سی گزارش ہے کہ
اگر آپ ضلع باغ چھتر ریڑا میں موجود ہائیڈرل پاور پلانٹ جہاں پر پیدا ہونے
۳ میگا واٹ بجلی جو پورے ڈسٹرکٹ باغ کے لوگوں کے لئے کافی ہے اسے پاکستانی
نیشنل گریڈ میں شامل کرنے کے بجائے ڈائریکٹ اپنے آبائی شہر کے لوگوں کو
دلوا سکے تو ہم سمجھیں گے آپ نے واقعی کچھ نیا کیا ہے ۔۔۔جو کہ آپ کے بس ک
بات نہیں ہے اس لئے کہ جو وہاں سے اپنے منظور نظر مسلط کرتے ہیں انہیں
سوائے زاتی مراعات کے کچھ بھی کہنے کا اختیار نہیں ہوتا ۔اﷲ ہمارا حامی و
ناصر ہو ۔آمین |