عالمی یوم آب اور بھارتی آبی جارحیت
(Shumaila Javed Bhatti, )
دنیا بھر میں ہر سال بائیس مارچ کو پانی کا
عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد پانی اور اس سے وابستہ مسائل و پینے کے
صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے حوالے سے شعور
بیدار کرانا ہے۔ یوں تو پاکستان میں بھی یہ دن برائے نام منایا جاتا ہے
جیسے بادلِ نخواستہ رسم ادا کرنی ہو دن منانے کی۔ اس سال عالمی یوم آب کا
تھیم ’’بہتر پانی بہتر روزگار‘‘ ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں ایک اعشاریہ پانچ
بلین افراد پانی سے متعلقہ سیکٹرز اور زراعت سے منسلک ہیں جو کہ دنیا بھر
کے ورکروں کا تقریباً نصف بنتے ہیں۔ اس کے باوجود کروڑوں افراد جن کا پانی
سے روزگار وابستہ ہے ان کو بنیادی لیبر رائٹس حاصل نہیں۔ جب سے پاکستان
ایٹمی ریاست بنا ہے پاکستان کا ازلی دشمن بھارت جانتا ہے کہ اب پاکستان کو
روایتی یا ایٹمی جنگ سے زیر نہیں کرسکتا لیکن پاکستان کے وجود کو آج تک
تسلیم نہ کرنے والے بھارت نے پاکستان کیخلاف گزشتہ کئی برسوں سے آبی جارحیت
شروع کررکھی ہے۔ اس مقصد کے لئے دریائے چناب اور جہلم کے پانی کی بندش کے
کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ بھارتی آبی جارحیت کا اصل ہدف پاکستان کو صحرا
میں تبدیل کرکے خوراک کی خودمختاری سے محروم کرکے ایتھوپیا جیسی صورتحال سے
دو چار کرنا ہے۔ بھارت پہلے ہی دریائے چناب سے پاکستان کے حصے کا 2 ہزار
کیوسک پانی چوری کرچکا ہے اور اب دریائے چناب سے پمپس کے ذریعے پانی کی
مزید چوری کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ بھارتی آبی جارحیت اور پانی چوری روکنے
کے لئے بروقت ٹھوس اور مطلوبہ اقدامات نہ کئے گئے اور حکمت عملی نہ اپنائی
گئی تو بھارت سے پاکستان کی طرف دریائے چناب کے پانی کے بہاؤ میں ساڑھے تین
لاکھ ایکڑ فٹ مزیدکمی واقع ہوسکتی ہے۔ برصغیر میں کئی ممالک کے پانی کے
وسائل بہت حد تک آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ بہت سے دریاؤں کا رخ یا تو بھارت سے
نکل رہا ہے یا بھارت سے ہوکر بنگلہ دیش اور پاکستان میں آرہا ہے۔ نیپال اور
بھارت کے درمیان پانی کا رابطہ ہے اور پھر بھارت سے جو دریا نکلتے ہیں وہ
پاکستان اور بنگلہ دیش میں آرہے ہیں۔ بھارت نے پانی کے مستقبل کو بھانپتے
ہوئے کئی منصوبے بنائے ہیں جن میں سے ایک گریٹر واٹر لنک ہے جو کئی دریاؤں
کو آپس میں کینال کے ذریعے ملا کر ان کی سمت اور بہاؤ کو تبدیل کرنے کا
منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کا سب سے زیادہ بُرا اثر بنگلہ دیش پر پڑتا ہے۔ بھارت
کا دوسرا منصوبہ 2014 تک 40 سے زیادہ ڈیم بنا کر پانی کو کنٹرول کرنے کا
منصوبہ ہے جو مختلف مقامات پر بنائے جائیں گے۔ اس میں بھارت ان دریاؤں کے
پانیوں پر بھی ڈیم بنا رہا ہے جن پر بین الاقوامی معاہدوں کے لحاظ سے اس کے
پاس حق نہیں ہے متذکرہ چالیس ڈیموں کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد بھارت کا غیر
قانونی طور پر دریائے چناب اور جہلم کے 90فیصد پانی پر قبضہ ہو جائیگا جو
کہ سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہوگا۔کشن گنگا ڈیم کی
تعمیر بھی تیزی سے کی جارہی ہے جس کے تحت تو دریائے جہلم کا رخ ہی موڑا
جارہا ہے حالانکہ سندھ طاس اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت دریا کا اس طرح
رخ موڑنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز موجود نہیں۔ویسے تو بین الاقوامی
معاہدوں کی پاسداری کرناہر مہذب ملک کے لئے لازمی ہوتا ہے اور ان کی
پاسداری نہ کرنا ایک غیر اخلاقی و غیر مہذب اقدام ہے۔ ان معاہدوں کی ضمانت
ورلڈ بینک نے دی تھی جس نے پاکستان کو سرمایہ بطور قرض اس لئے فراہم کیا
تھا کہ معاہدے کے اثرات کو کم کیا جاسکے کیونکہ معاہدے کے تحت بھارت کو
دیئے جانے والے دریاؤں کی وجہ سے پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہوسکتا تھا
اس لئے اسے قرض دیا گیا تاکہ وہ اپنا نہری نظام بہتر کرسکے اور یہ ایک
ضمانت تھی۔ باقی کے دریاؤں پر پاکستان کا حق بھارت نے تسلیم کیا تھا اور یہ
وعدہ کیا تھا کہ ان کے بہاؤ کو کم کرنے کی کوشش نہیں کریگا۔ یہ حکومت
پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی اور سفارتی ناکامی ہے کہ بھارت بین الاقوامی
معاہدوں اور قوانین کی مخالفت کررہا ہے جن معاہدوں کے گواہ ورلڈ بینک اور
دیگر بڑے ممالک ہیں مگر پاکستان ان معاہدوں کو موثر بنانے میں اور بھارت کو
روکنے میں ناکام ہے۔ بھارت کی مختلف حکومتوں نے پانی کے وسائل پر قبضہ کرنے
کیلئے یا تو ان دریاؤں کا راستہ بدلنے کی کوشش کی ہے یا پھر اس نے ایسے
منصوبے بنانے کی کوشش کی ہے جس سے پاکستان بنجر بن جائیگا۔ |
|