امریکہ بھارت دفاعی تعلقات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

محسن انسانیتﷺکا فرمان مبارک ہے کہ ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘کہ تمام عالم کفر ایک ہی گروہ ہے۔ختمی المرتبت ﷺکااگرچہ ایک ایک لفظ روز روشن کی طرح حقانیت و آفاقیت پر مبنی ہوتا ہے لیکن فی زمانہ حالات نے تو اس حدیث مبارکہ کو ایک تاریخی حقیقت کے طور پر ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف دنیا کی تمام اقوام آج اکٹھی ہو چکی ہیں ،حتی کہ وہ اقوام جن کے درمیان صدیوں اور قرنوں تک ایک طویل اور صبر آزما تناؤ رہا ہے اورجن کے ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے آلودہ اور رنگین ہیں وہ بھی آج مسلمانوں کی دشمنی میں یک جان دو قالب نظر آرہے ہیں،یہودونصاری کا یہ اسلام دشمن گٹھ جوڑ کسی تعارف و تمہید کا محتاج نہیں ہے۔امریکہ اور بھارت کی دوستی بھی ایک حد تک ’’دہشت گردی‘‘کے نام پراسی عداوت سے عبارت ہے اور بھارت جیسا ملک جو گزشتہ صدی کے آخر میں سردجنگ کے دوران’’غیروابسطہ تحریک‘‘میں اولین رکن اور بانیان تحریک کا مقام رکھتا ہے آج اپنے ہی منشور سے روگردانی کرتے ہوئے امریکہ کی حاشیہ برداری میں صف اول کے ممالک میں شمار ہورہاہے۔

تقسیم ہند کے بعد سے ہی دہلی کا جھکاؤ ہمیشہ ماسکو کی طرف ہی رہا اور یہ بات امریکہ بہادر کو چھبتی بھی رہی لیکن بوجوہ بھارت سرکار روس کی گود میں براجمان رہی اور دفاعی و معاشی معاہدوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جو سقوط ماسکو تک اور حتی کہ اس کے بعد بھی بھارت اور روس کی دوستی کا پتہ دیتی ہے اور اب تک بھی درون خانہ ان معاہدوں کا تسلسل جاری ہے۔لیکن حالات کے بدلتے ہی بنیا کس طرح اپنے پینترے بدلتاہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتاہے کہ روس کا سفینہ ابھی ڈول ہی رہا تھاکہ چوہوں نے وہاں سے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں اور امریکہ کی گود میں پناہ گزین ہو گئے۔امریکہ سے براہ راست تعلقات شاید ابھی ممکن نہ تھے اس لیے بھارتی قیادت نے یورپی یونین سے تعلقات کی آڑ لیتے ہوئے امریکی خارجہ پالیسی میں نقب لگائی ۔گیارہ ستمبرکے واقعے کے بعد جس ’’دہشت گردی‘‘کا خود ساختہ شکار امریکہ ہوا،بھارت بھی یہ بات باور کرانے میں کامیاب ہو گیاکہ اسی طرح کی ’’دہشت گردی‘‘بھارت کو بھی لاحق ہے۔اسرائیل نے امریکہ کی سابقہ غلط فہمیاں دور کارانے میں فیصلہ کن کردار اداکیااور اس طرح یہ دونوں طاغوت باہم ایک ہو گئے۔

’’ڈیوڈ ایزن ہاور‘‘جو امریکہ کے چونتیسویں صدر بنے اور 1953سے1961تک متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے صدر رہے ،یہ اعلی ترین سطح کے پہلے امریکی راہنما ہیں جنہوں نے 1959ء میں بھارت کا سرکاری دورہ کیا۔یہ دورہ بنیادی طور پر چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے خائف ہو کر اس کے گرد سیاسی و دفاعی ومعاشی حصار قائم کرنے کی منصوبہ بندی سے متعلق تھا۔نیویارک ٹائمز نے اس دورے پر بہت حوصلہ افزا تبصرہ شائع کیااوروقتی طور پر امریکی قیادت بھی کوئی بہت مایوس نہ تھی لیکن بعد کے دنوں میں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔اس کے بعد کے امریکی صدر ’’جان ایف کینیڈی‘‘نے بھی اپنی چین مخالف پالیسی میں بھارت کو احسان مند کرنے کی کوششیں جاری رکھیں لیکن یہ کوششیں بیان بازی سے آگے نہ بڑھ سکیں شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارتی قیادت اب تک مکمل طور پر روس کی چھتری تلے آن چکی تھی لیکن اس کے باوجود بھی جس طرح امریکہ کی چھتری تلے آکر پاکستان کے روس سے تعلقات بری طرح خراب رہے اس طرح روس کی چھتری تلے آکر بھارت نے امریکہ سے تعلقات خراب کبھی نہیں کیے۔

پاک بھارت 1965اور1971کی جنگوں نے بھی امریکہ بھارت تعلقات پر کوئی اچھے یا برے اثرات مرتب نہیں کیے بلکہ دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ کو 1971کی جنگ میں پاکستا ن کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے تھاجبکہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ کھلی وعدہ خلافی اور غداری کی اور باربار کے اسرار پر کہاگیا کہ ساتواں بحری بیڑہ افواج پاکستان کی مدد کو پہنچنے والا ہے لیکن افواج پاکستان نے مشرقی محاذپر بدترین ہزیمت اٹھائی اور آج تک افواج پاکستا ن اس امریکی بحری بیڑے کی منتظر ہیں ۔امریکہ سے دفاعی معاہدہ کرتے وقت پاکستانی قیادت کو قرآن مجید کی وہ آیات ضرور مطالعہ کر لینی چاہیے تھیں جن میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ یہودو نصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔امریکہ کا پاکستان کی مدد نہ کرنا یہودو نصاری کی وہ پیش بینی اور دوراندیشی تھی جو آج بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات میں مضبوطی کا باعث بن رہی ہے،کاش پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت بھی اس صلاحیت کی حامل ہوتی۔افغانستان میں روس کی دراندازی کے وقت بھی بھارت نے امریکہ کا اور’’عالمی برادری‘‘کا ساتھ دینے سے انکارکر دیا تھا،اس موقع پر اگرچہ بھارت امریکہ تعلقات میں وقتی طور پر ایک تعطل ضرور واقع ہوا لیکن اس سے ان کے تعلقات خراب پھر بھی نہیں ہوئے ۔بھارتی خارجہ پالیسی کے لیے یہ اگرچہ ایک طویل اور صبرآزما دور تھالیکن وہ اس آزمائش پر نہ صرف یہ کہ پورے اترے بلکہ انہوں نے روس کے دور عروج میں وہاں سے خوب خوب مفادات حاصل کیے اور کہیں کمی و کسراگر باقی تھی تو اسے امریکہ کی کمال مہربانی سے پورا کررہے ہیں،جبکہ وطن عزیز کی قیادت نے دونوں طرف سے خسارہ ہی اپنی قوم کے پلے باندھا۔

بھارت امریکہ تعلقات کا تیسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب راجھستان میں ’’پوکھران‘‘کے مقام پربھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے زمانے 1998ء میں 11مئی کو تین ایٹمی دھماکے اور پھر تیرہ مئی کو دو مزید ایٹنی دھماکے کئے گئے۔ان دھماکوں سے پوری دنیا میں ایک کھلبلی سی مچ گئی اور بھارتی قیادت کے رویے میں پاکستان کے خلاف فرعونیت عود کر آئی۔امریکہ اور جاپان کی مشترکہ کوششوں سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارت کے خلاف مئی 1998ء میں عارضی معاشی پابندیاں عائد کی گئیں لیکن بہت جلدستمبر2001ء اٹھا بھی لی گئیں کیونکہ وہ مسلمان ملک نہ تھا بلکہ ایک سیکولر ریاست تھی۔اس وقوعے کے بعد امریکہ کی کلنگٹن انتظامیہ اور بھارتی قیادت کے درمیان گفتگوکے میدان کھل گئے اور کثرت سے وفود کا تبادلہ شروع ہو گیا۔گویا نصف صدی کی سردمہری کے بعد تعلقات میں گرمائش آناشروع ہوئی ۔کچھ بعید نہیں کہ امریکہ کے بھارت سے پیشگی تعلقات دانستہ طور پربعد میں ہونے والے گیارہ ستمبر 2001کے واقعات کے حالا ت کی پیش بندی ہو،جس کا کہ اب بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔نصف صدی کی گرد اتنی تیزی سے ہٹائی گئی کہ مارچ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنگٹن بذات خود دہلی جا پہنچے اور بھارت کا سرکاری دورہ کیااورامریکی صدر نے بہت زور لگایالیکن بھارت نے اپنے ایٹمی اسلحے خانے کی جانچ پڑتال اور نگرانی کرنے کی اجازت نہ دی ،یہ دورہ اس لحاظ سے اگر چہ جزوی طور پر ناکام رہا لیکن اس موقع پر متعدد معاشی نوعیت کے معاہدات ضرور کیے گئے۔یاد رہے کہ یہ وہی ملک ہے جس کے خلاف امریکی معاشی پاپندیوں کی دستاویز کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہوئی تھی۔

گیارہ ستمبر2001کے وقوعے کے بعداب وہ وقت آن پہنچا تھا امریکہ ان تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور بھارتی قیادت بھی اس مہربان وقت کی گویا منتظر تھی۔امریکی صدر جارج ڈبلیوبش نے اپنے بیانات میں واضع طورپر بھارت کو بحرہند کے پانیوں کا’’جگا‘‘بنانے کا عندیہ پیش کیااورجنوری 2004میں بھارت امریکہ تعلقات NSSP(Next Step Strategic Partnership)یعنی دفاعی امور کی بڑھوتری کی طرف بڑھنے لگے۔دسمبر2004کے سونامی متاثرین کے لیے انسانی ہمدردی کے ڈھونگ پر امریکی و بھارتی بحری مشترکہ مساعی بھی دراصل اسی کتاب کاپس پردہ مقدمہ تھیں کہ بھارت کو نہر سویز سے سنگاپور تک کے سمندروں کی نگرانی سونپ دی جائے جس سے جہاں امریکی واسرائیلی مفادات کا عمومی تحفظ ہو گا وہاں خصوصی طور پر مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے بھارت سے بہتر فریق امریکہ کو میسر نہیں آ سکے گا۔اپریل 2005میں بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جو عالمی میدان ہائے تجارت میں ’’اوپن سکائی‘‘معاہدہ کہلاتا ہے۔اس سے مراد اﷲتعالی کی بنائی ہوئی آزادفضا پر یہودو نصاری کی پابندیوں کو ختم کرنا ہے اور آزادانہ تجارت کے باہمی راستے کھولنا ہے۔امریکہ بھارت کے اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت وسیاحت کے جملہ راستے کھول دیے گئے اوربھارت کی فضائی کمپنی نے 68کی تعداد میں امریکی بوئنگ طیارے خریدے جن کی مالیت ایک خطیر رقم کی حامل تھی۔2005کے قدرتی طوفان میں امریکہ کے اندر ہونے والی تباہی پر بھارت نے امریکیوں کی مدد کے لیے کئی ملین ڈالرکی رقم اور دو جہازبرابرامدادی سامان امریکی ریڈ کراس کو بھیجاجبکہ بھارت یمین و یسار بہت غریب ممالک میں ہر سال قدرتی آفات سے کتنا ہی نقصان ہوتاہے لیکن بنیاوہاں پیسے لگاتا ہے جہاں سے اسے کئی گنا منافع بھی حاصل ہونا ہو،غریب غربوں کو کھلا کر بھلا’’انسانیت‘‘کے سیکولر ٹھیکیداروں کو تو خوش نہیں کیا جاسکتا۔یکم مارچ 2006امریکی صدر نے ایک بار پھردہلی کا سرکاری دورہ کیا تاکہ نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘کے خلاف تعلقات کو مہمیز دی جا سکے۔

جولائی 2005میں بھارتی وزیراعظم نے امریکہ کا دورہ کیااور اس موقع پران دونوں راہنماؤں نے دفاعی تعلقات میں اضافے میں کامیابی کے ساتھ دیگرمتعددشعبوں میں بھی تعاون کا اعلان کیا ان شعبوں میں خاص طور پر سول نیوکلر،سول اسپیس اور اعلی ترین تیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون قابل ذکر ہیں۔مارچ 2006میں امریکی صدر ان معاہدات کی تشکیل نو کے لیے ایک بار پھر دہلی کا دورہ کرتاہے۔اعلی ترین سطح کے دورے صرف معاشی و سیاسی مفادات کے حامل نہیں ہو سکتے اور امریکہ و بھارت جیسے ’’امن پسند‘‘اور ’’انسانیت دوست‘‘ملکوں کی اعلی ترین قیادت نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘کی آڑ میں جس طرح افغانستان،عراق اور کشمیر سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے اورامت مسلمہ کے گرد گھیراتنگ کیا جا رہا ہے اس کو صرف ’’شٹل ڈپلومیسی‘‘کا نام دے کر اس سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ان فاشسٹ ملکوں کے عزائم طشت از بام ہیں اور دنیائے انسانیت ان کے مظالم سے اس قدر تنگ ہے کہ خودان ملکوں سمیت کرہ ارض کے شرق و غرب سے الامان و الحفیظ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔غربت،بدامنی اوربیماری سے مستعارجنوبی ایشیا کی عوام کے لیے امریکی کانگریس نے ایک اور منحوس تحفہ دسمبر2006میں ارسال کر دیا،یہ بھارت کے لیے ’’پرامن ایٹمی تعاون‘‘کا بل تھا،گزشتہ تیس سالوں میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا بل تھا جو امریکی ایوان نمائندگان نے منظور کیا۔حالانکہ یہ بل امریکی پالیسی کے یکسر خلاف تھا کیونکہ امریکی قانون کے تحت جس ملک ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (CTBT)پر دستخط نہ کیے ہوں اس سے اس طرح کا معاہدہ نہیں ہو سکتااور بھارت نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے،لیکن شیرجنگل کا بادشاہ ہے چاہے انڈے دے چاہے بچے دے کے مصداق اب اس بل کی منظوری کے بعد بھارت امریکہ سے اپنی ایٹمی تنصیبات کے لیے ہر طرح کی سہولت اور مواد حاصل کر سکتا ہے۔امریکی کانگریس کی منظوری کے بعد جولائی 2007میں امریکہ اور بھارت میں باقائدہ معاہدہ ہوا جو ان ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ،پرامن ایٹمی تعلقات کے اس معاہدے پر امریکی وزیر خارجہ اور بھارتی وزیر خارجہ نے 10اکتوبر2008کودستخط بھی کیے اور اسے ’’معاہدہ123‘کانام دیا گیا۔یہ معاہدہ دونوں ملکوں کی ایٹمی تجارت کا ضامن ہے اور اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کی وہ کمپنیاں جو ایٹمی اثاثے اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے متعلق ہیں باہمی کاروبار تجارت اور خریدوفروخت کر سکتے ہیں۔

’’کچھ لوگوں‘‘کو امریکی صدر اوباما سے بہت امیدیں تھیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرائے گا۔اس اوباما انتظامیہ نے مارچ2009ء میں بھارت کوآٹھP-8بوئنگ طیارے دیے ہیں جو جنگی مقاصد میں استعمال ہوتے ہیں اور اب تک کی امریکی بھارت عسکری سودوں کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا سودا ہے جو امریکہ اور بھارت کے درمیان طے ہوا ہے۔یہ P-8بوئنگ طیارے خاص طور پرامریکی بحریہ کے لیے تیار کئے تھے جو کثیرالمقاصدہیں جنہیں Multimission Maritime Aircraft(MMA)بھی کہا جاتا ہے۔جنگی طور پر بہت زیادہ اہمیت کے حامل اس طیارے میں آبدوزکو شکار کرنے کی صلاحیت،بحری جہازوں کی نگرانی اورخفیہ جاسوسی نظام بھی نصب ہے۔ان کے علاوہ اس جہازمیں ترپیڈو،اینٹی شپ میزائل سسٹم،پانیوں کے اندر نشانہ لینے کی صلاحیت اور دیگربہت سے ہتھیاروں سے لیس یہ بوئنگ بھارتی بحریہ کے لیے امریکی قیادت کا ایک نادرتحفہ ہے۔ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ یہ بوئنگ اب تک صرف امریکی بحریہ کے پاس ہی تھے اور بھارت دوسرا ملک ہے جسے اس عنایت سے نوازا گیاہے۔امریکہ نے بھارت کو یہ عسکری بوئنگ طیارہ کس مقصد کے لیے دیا ہے ،یہ کوئی قابل تشریح بات نہیں ہے اور بھارت اسے کس کے خلاف استعمال کرے گا یہ نوشتہ دیوار ہے جو چاہے پڑھ لے جبکہ پاکستان کو دیے گئے ہتھیاروں کے بارے میں امریکی انتظامیہ کو یقین ہے کہ وہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے کیونکہ امریکہ نے پاکستانی فوج کو ہتھیار’’دہشت گردوں‘‘کے خلاف استعمال کرنے کے لیے دیے ہیں۔

12اکتوبر سے29اکتوبر2009تک بھارت اور امریکہ کے درمیان مشترکہ جنگی مشقیں بھی کی گئیں۔ان جنگی مشقوں کا مقصد ’’امن قائم کرنا‘‘اور انسانیت کی خدمت‘‘کرنا بتلایاگیا۔گویا’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘۔کیا گنگا الٹی نہیں بہنے لگے گی جب بھارت اور امریکہ جیسے ممالک بھی ’’امن ‘‘اور ‘‘انسانیت‘‘کے لیے کام کرنے لگیں گے؟؟؟’’امن‘‘اور ’’انسانیت‘‘کے لیے یہ جنگی مشقیں اترپردیش کے مقام ’’بابینا‘‘میں کی گئیں۔ان مشقوں میں بھارت کی ’’مشنازاد‘‘انفنٹری بٹالین اورامریکہ کی 25ویں اسٹرائکربریگیڈکی کمباٹ ٹیم نے حصہ لیا جس میں 325امریکی شامل تھے جبکہ دونوں ملکوں کے کم و بیش ایک ہزار امردان جنگی ان مشقوں میں شریک رہے۔اس دوران ’’کوپ انڈیا09‘‘کے نام پر فضائیہ کی باہمی مشقیں بھی کی گئیں۔ان مشقوں کے موقع پر بھارت میں تعینات امریکی سفیر نے کہا کہ یہ مشقیں امریکی اور بھارتی عوام اور امریکی و بھارتی افواج کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کا باعث بنیں گی۔یہ مشقیں اور ان کے بعد قائم ہونے والا امریکی بھارتی اعتمادبتاتا ہے کہ فی الوقت امریکہ کی قیادت جنوبی ایشیا کے خطے میں بھارت کو اپنے دفاعی تحفظات کا سب سے بڑا امین سمجھتی ہے۔اس سے بڑھ کر پیاراورمحبت کے جذبات کااظہارامریکی عسکری کمان کی طرف سے کیاگیاجس میں دونوں ملکوں کے درمیان مزید عسکری تعلقات کی گنجائش کا اظہارکیاگیاہے۔

احمقوں کی جنت میں رہتے وہ لوگ جو اب بھی امریکہ سے کسی بھلے کی توقع رکھتے ہیں،دشمن کا دوست کبھی اپنادوست نہیں ہو سکتا۔امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں جب پاکستان ان دونوں کافطری حریف ہے۔امریکہ بھارت فوجی گٹھ جوڑاس کے علاوہ کچھ نہیں کہ یہ پاکستان کے گرد محاصرہ تنگ کرنا کا ایک منصوبہ ہے اور پاکستان استعارہ ہے امت مسلمہ کا اور نمائندہ ملک ہے کل دنیا کے مسلمانوں کا۔امریکہ کی خاطر پاکستان کتنی ہی قربانیاں دے لے،کتنے ہی اپنوں کو مروالے یاامریکہ کے حوالے ہی کردے اور کتنے ہی اپنے ہی علاقے تاراج کرتا پھرے امریکہ اس مسلمان ملک کوکبھی اپنانہیں سمجھے گا،جبکہ بھارت امریکہ سے اپنی دوستی کی کتنی ہی بڑی قیمت وصول کر لے امریکہ ہمیشہ اسی کا بہی خواہ رہے گا۔پاکستان کی تیسری نسل اب باربارکے دھوکوں سے تنگ آ چکی ہے اور اس چکی میں مزید پسنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ امریکی عسکری و سیاسی قیادت پاکستان سے ’’مزیدکچھ‘‘کا مطالبہ کرے اور شاباش دینے کے لیے بھارت کاکندھا تھپتھپائے،خون دینے کے لیے پاکستان یادآجائے اور چوری کھانے کے لیے بھارت کو پچ پچ کی جائے ،پاکستان سے ایٹمی پروگرام بند کرنے کا تقاضا کیاجائے اوربھارت سے ایٹمی معاہدے کیے جائیں اور پاکستان کااسلحہ زبردستی روک لیاجائے اور کہاجائے اس رقم کے بدلے گندم لے لواور بھارت کے ساتھ اعلی ترین تیکنالوجی کی فراہمی کے معاہدے کیے جائیں،امریکی دفاعی پالیسی کی یہ منافقت اور دو رخا پن اب ناقابل برداشت ہے۔پاکستان کو معاشی و دفاعی خود انحصاری اپنانا ہو گی مغرب سے پلٹ کر مشرق میں پناہ تلاش کرنا ہوگی ،یورپی تہذیب و تمدن کو خیرآباد کہ کہ سادگی وایمانداری سے آراستہ اپنی تہذیب و تمدن کو اپناناہوگااور’’عالمی برادری‘‘کے سامنے اپنے اﷲ تعالی پرکامل ایمان کا اظہار کرتے ہوئے سنت رسول اﷲ ﷺکے حکم کے مطابق کل امہ کے درمیان اتحادواتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگاتب ہی ہم اس دنیامیں عزت سے جی سکتے ہیں اور بھارت امریکہ و اسرائیل سمیت دنیابھر کی سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔اور اب وہ وقت دور نہیں جب امہ کوجرات مند صالح اور دیندار قیادت میسر ہو گی جو دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گی اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے گی،انشاء اﷲ تعالی العزیز۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.