تھر میں پیاس ہے ، بھوک ہے ، موت ہے زندگی
ناپید ہے ، زندگی سسک رہی ہے، حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے اس پر کسی نے
سوچا اور کسی نے دیکھا کہ غم کے کتنے آنسو بہائے گئے ۔کراچی کی سوختہ لاش
پر بین کرنے ولاا بھی اب کوئی نہیں بچا ، کراچی کیلئے جو رونے والے تھے وہ
اپنے ساتھ دوسروں کے بھی گریبان چاک کرنے لگے، کچھ سمجھ نہیں پاتاکہ کراچی
سے اپنا حصہ لینے والے کراچی کی عوام کو تختہ مشق کیوں بنا رہے ہیں ، میرے
پاس ایک سوال کے بہت جوابات تھے لیکن افسردہ تھا کہ تمام کھیل صرف کراچی
میں کھیلے جارہے ہیں ، میں مایوس نہیں ہوتا ، لیکن ناامید ضرور ہوجاتا ہوں
جب کراچی کو جلتے دیکھتا ہوں ، کراچی کا جلنا میرے وجودکو جھلسا دیتا ہے ۔
میں نے بہت لکھا اور سخت لکھا جذبات میں لکھا لیکن ایک بات قدر مشترک دیکھی
کہ قصور ہمارا ہی ہے۔ فیس بک پر کارٹون دیکھے کہ کسی نے ایک گھر پر پاکستان
کا پرچم لہرایا ہوا ہے تو اس کے نیچے لکھا ہوا ہے کہ کہیں ایسے مصطفی کمال
کا کارکن نہ سمجھ لیا جائے ۔ میں مایوس نہیں ہوں لیکن ناامید ہوں کہ جب
قومی پرچم کو سیاست کی نظر کردیا جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے ۔ میں نے ایک
فیڈرل گورنمنٹ اردو یونیورسٹی کی طالبہ سے پوچھا کہ ایم اے کے بعد کیا کرنا
چاہتی ہو اس نے جواب دیا کہ میں اینکر بننا چاہتی ہوں ، میں نے کہا کہ
ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہے ، اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہے پرچی چلتی ہے ۔میں نے
پھر کہا کہ اپنی جگہ کیسے بناؤ گی تو کہنے لگی کہ ٹیلینٹ سے۔ میں اس کی
سادگی پر مسکان بھر کر رہ گیا ، پاکستان ، میرٹ اور پھر قابلیت ، نہ جانے
یہ طالبہ کس جہاں کی باتیں کر رہی تھی ، لیکن پر عزم دکھائی دیتی تھی وہ
کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن اس بے رحم معاشرے میں ایسے کتنے پاپڑ بیلنے بڑیں گے
اس کو اندازہ ہی نہیں، میں نے ایک آرٹسٹ خاتوں کو دیکھا کہ کارٹونسٹ، فنکار
ہے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہونا چاہتی ہے اس کی ایک بچی ہے ، اس کو وہ وقت
نہیں دے پاتی ، لیکن اس میں عزم ہے کہ وہ کچھ بن کر دیکھائی گی ، میں نے
پوچھا مشکلات پوچھی تو بتایا کہ اسکا شوہر تین سال سے بے روزگار ہے اسے
میرا کام پسند نہیں وہ اپنی پسند کا کام کرنا چاہتا ہے لیکن ایسے وہ کام
نہیں مل رہا ، اب گھر کے اخراجات تو بھی پورے کرنے ہیں تو کہاں سے کروں ،
بچی کا خرچہ کہاں سے اٹھاؤں ، کیا غلط راستے پر چل نکلوں ، اس پر الزامات
لگتے ہیں لیکن وہ مخلص ہے ، ہنستی ہے تو لگتا ہے کہ دل سے رو رہی ہو ،
معاشرے نے اسے بہت دکھ دیئے ۔ میں نے ایک ایسی لڑکی دیکھی جس کے شوہر نے اس
کے بچے کے پیدائش سے قبل ہی اس کو طلاق نامہ بھیج دیا آج وہ اپنے بھائیوں
کے گھر میں بیٹھی ہے ، وہ باعزت روزگارکرنا چاہتی ہے ، کسی اسکول میں ٹیچر
لگ کر اپنے بیٹے کو پڑھانا چاہتی ہے اپنے بچے کیساتھ اس کے والد کا نہیں
بلکہ اپنا نام لکھا رکھا ہے لیکن اس میں ہمت ہے وہ ہمت کے راستے پر چلنا
چاہتی ہے ، میں نے ایک ایسی لڑکی دیکھی جو آگے بڑھنے کیلئے اپنی عزت ناموس
سب کچھ داؤ پر لگانا چاہتی ہے ، لیکن اس کا مقصد اس کی اولاد نہیں بلکہ اس
کا فیشن ہے ، اس کو گھر بار سے زیادہ فیشن سے دل چسپی ہے، وہ اپنے لئے وہ
سب کچھ کرنا چاہتی ہے جس کی اسے تمنا ہے ۔ اس نے کئی محبتیں کیں لیکن سب
کوٹھکرا دیا کیونکہ اس کی ڈیمانڈ پوری نہیں ہوسکتی تھی ، میں نے ایسی لڑکی
بھی دیکھی جو برقعے میں ہاتھ پھیلائے بھیک مانگتی پھرتی ہے لیکن اپنے چہرے
سے نقاب نہیں اتارتی کیونکہ اس کو ڈر ہے کہ اس کا خاندان جو باعزت ہے ایسے
اس حال میں دیکھ نہ لے میں نے ایسی خواتین دیکھیں جو سیاست میں شطرنج کی
چال چلنے کی ماہر ہیں ، وہ سب کچھ کرنا جانتی ہیں لیکن ان کے مقاصد اپنے
صنف کے مسائل کے حل کے بجائے اپنے تعیشیات کو پورا کرنا ہے ۔میں نے بازار
حسن میں بکنے والے جسم والے انسان دیکھے کہ وہ جانتی ہی نہیں کہ باعزت
معاشرہ کیا ہوتا ہے ، اس کی یاس زدہ آرزو تڑپا جاتی ہے کہ کاش کوئی ایسے
اپنا کر اس بازار سے دور لے جائے ، میں نے ایسی خواتین دیکھی کہ جنھیں یہ
قسمت نصیب ہوئی لیکن تالیوں کے شور ، کیمرے کے چمک اور اور رنگین دنیا سے
دور نہ ر سکی اور واپس اسی جگہ پہنچ گئی جہاں وہ جانا نہیں چاہتی تھی،شرمین
عبید نے صرف خواتین کے دو چہرے ہی تو دکھائے ہیں لیکن ان گنت چہرے اب بھی
ان کی نگاہ سے اوجھل ہیں ، مردوں کو مردانگی کا احساس ہے ، کہ ملک کی یہ
تصویر بیرون ملک نہیں دیکھانے چاہیے تھی ، تو کیا وہ اس لڑکی کو دکھاتی
جیسے اپنا کرئیر بنانے کیلئے ہوس کے غلاموں کے پرچی کی ضرورت ہے۔اس کو اپنی
قابلیت دکھانے سے پہلے ہوس کے پچاریوں کی ضرورت ہے۔ یاپھر ایسے یہ دیکھانا
چاہیے کہ کوئی نکھٹو شوہر کے اپنی نام نہادمردانگی کیخاطر اس کا کام پر
جانا پسند نہیں کرتا لیکن اس کے ٹکروں پر پلتا ضرور ہے ۔ بھونکتاہے لیکن
روٹی ملنے پر دم ضرور ہلاتاہے۔ کیا اس نے کبھی محسوس کیا کہُ اس کے دل میں
کتنا درد ہے ۔ کیا شرمین اس لڑکی کو دیکھائے جس کے بچے نے کبھی اپنے باپ کی
شکل نہیں دیکھی ، اس کا پاسپورٹ اس کے قانونی کاغذات صرف اس لئے رک گئے ہیں
کیونکہ عدالت جاکر حقوق حاصل کرنے کیلئے کورٹوں میں باربار اپنے ضمیر کو
نیلام کرنا ہوگا ۔آتی جاتی نظروں کی بے باکیاں اس کو شرم سے زمین میں گاڑ
دیں گی ، وہ زندگی بھر اپنے بھائی کے گھر اسلئے رہے گی کیونکہ وہ لڑکی ہے
اس کے پاس حق نہیں کہ وہ معاشرے میں از خود اپنا مقام بنا سکے۔یا پھر فیشن
کی دل دالدہ اس ماں کو دیکھائے جس نے اپنے بچے کے نام پر خود کو کئی مرتبہ
فروخت کیا اور جب عزت کی زندگی ملی تو خود سر بن کر فیشن میں نام بنانے
چلی، یا پھر شرمیں اس لڑکی کے چہرے سے برقعہ اتار دے جس کا خاندان پگڑی
سنبھالے اونچا وڈیرا بنا پھرتا ہے۔
اعتراض کرنے والے بہت ہیں کہ پاکستان میں بسنے والوں کے مکروہ چہروں کو
دنیا کے سامنے کیوں لایا جارہا ہے ۔ ملالہ یوسف زئی سے لیکر شرمین عبیدنے
پوری دنیا میں اگر نام پیدا کیا تو یہ ایک سازش ہے ، مان لیتے ہیں کہ یہ
سازش ہے لیکن تم ہی بتاؤ کہ تم نے ایسا کیاکیا کہ عورت کامقام بلند ہو اور
اسے دنیا میں تسلیم کیا جائے ، رافع کریم بننا ، ملالہ یوسف زئی بنناشرمین
عبید چنائے بننا ، آسان کام نہیں ، عافیہ صدیقی بھی تو ہے تو کیا کیا تم نے
، سوائے سیاسی بیان بازی کی ، حقوق نسواں بل کو مذاق بنایا تو حقیقت تو
سامنے لاؤ کہ کہ مستحکم نسل پیدا کرنے والی کو کیا حقوق دیتے ہو، چند ہزار
روپے خرچ کرکے لونڈی بنا لیتے ہو اس کا جائز حق دینے کے بجائے ، جانوروں کو
تو پھر بھی پچکار لیتے ہو، لیکن مردآہن بن کر عورت کو دھتکار دیتے ہو۔شرمین
تم ڈاکو منیٹریاں بناتے بناتے تھک جاؤ گی لیکن عورت کو اس کا جائز مقام تو
نہیں بلکہ تمھیں طعنے ، مغظلات ضرور ملیں گے لیکن التجا ہے کہ مایوس نہ
ہونا ۔ ناامیدی امید ضرور پیدا کرتی ہے ۔تمھاری کوشش کسی کا مکروہ چہرہ
دکھانے سے رکنا نہیں چاہیے ، اگر رک گئی تو تم بھی مایوس ہوجاؤگی ۔ لیکن
ناا مید کبھی نا امید نہ ہونا ایک امید رکھنا۔چراغ جلایا تو بجھنے نہ دینا
|