1928ء کو بھارت کی ریاست گجرات
کے ایک قصبے بانٹوا میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ کچھ بڑا ہوا تو اسے سکول میں
داخل کروایا گیا۔ لیکن اسے تعلیم سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ چوتھی کلاس سے
آگے نہ جا سکا۔ سکول چھوڑ کر اس نے کپڑوں کی ایک دوکان پر ملازمت کر لی۔
تاہم جلد ہی وہ اس کام سے بھی اکتا گیا، اور دوبارہ سکول میں داخل ہو گیا۔
لیکن دو سال بعد پھر تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا۔دراصل وہ کچھ مختلف کرنا
چاہتا تھا۔ کچھ ایسا جو دوسرے نہیں کر سکتے تھے! تقسیم برصغیر کے بعد وہ
اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت پذیر ہوا۔
اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
پندرہ برس کی عمر میں اس نے اپنے مقصد کا تعیّن کر لیا تھا۔ وہ غریبوں کی
مدد کرنا چاہتا تھا۔ وہ ان کی حالت زار دیکھ کر کڑھتا رہتا۔ وہ ان کے دکھوں
میں کا مداوا کرنا چاہتا تھا۔ ان کے رستے زخموں پر مرحم رکھنا چاہتا تھا۔
وہ ان کے لیئے ہسپتال، ٹریننگ سنٹر، فیکٹریاں بنانا چاہتا تھا۔ ان خیالات
کا اظہار جب وہ اپنے دوستوں سے کرتا تو اس کا تمسخر اڑاتے، ٹھٹھول کرتے اور
اس پر پھبتیاں کستے۔ وہ کبھی ایسی باتوں سے دلبرداشتہ نہیں ہوا۔ کیونکہ اسے
اپنی کامیابی کا یقین تھا۔ کیا ہوا جو ابھی اس کے پاس وسائل نہیں تھے!
اسے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھانے کے لیئے سرمائے کی ضرورت تھی۔ جس کے حصول
کے لیے اس نے بازاروں میں ماچسیں، پنسلیں اور دستی رومال بیچنے شروع کر
دیئے جو وہ ہول سیل پر خریدتا تھا۔ ان اشیاء کی فروخت سے جو بچت ہوتی وہ
اسے پس انداز کرتا رہا۔ کچھ روپے جمع ہونے پر اس نے ایک ہتھ ریڑھی خرید کر
اسے ''موبائل پان شاپ'' میں تبدیل کیا، اور پان بیچنے لگا۔ دن کو وہ پان
بیچتا اور رات کو ایک ڈسپنسری میں کام کرتا۔ تاہم کچھ عرصے بعد ڈسپنسری کے
مالک سے اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہو گیا۔
1951ء میں اس نے اپنی جمع پونجی سے ایک دوکان خریدی۔ اور اسے ایک ڈاکٹر کی
مدد سے ڈسپنسری میں تبدیل کیا۔ یہ منزل کی طرف اس کا پہلا باقاعدہ قدم تھا۔
ہر قسم کے کام چھوڑ کر وہ فل ٹائم ڈسپنسری میں رہنے لگا۔ وہ غریبوں کو
معمولی قیمت پر ادویات مہیا کرتا۔ کام کے باعث جب وہ رات کو تھک کر چور ہو
جاتا تو ڈسپنسری کے باہر بچھے بنچ پر ہی سو رہتا۔ وہ خوش تھا۔ کیونکہ اسے
اپنے کام سے عشق تھا۔
لوگوں نے اس کے جذبے، کام اور خلوص سے متاثر ہو کر دل کھول کر اس کی امداد
کی۔ جو فنڈ جمع ہوا اس میں سے اس نے ایک وین خریدی اور اسے ایمبولینس میں
تبدیل کیا۔ اس نے ایمبولینس پر''غریب آدمی کی وین'' کا نام لکھوایا۔ یہ
کراچی جیسے بڑے شہر میں دوسری ایمبولینس تھی۔ اس سے پہلے صرف ایک ایمبولینس
کام کر رہی تھی جو ریڈ کراس والوں کے پاس تھی۔ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار
ورکر اس کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ یوں کارواں بنتا گیا۔
کچھ عرصے بعد ڈسپنسری اور ایمبولینس کا نام تبدیل کر کے ''ایدھی ویلفیئر
ٹرسٹ'' اور ''ایدھی ایمبولینس'' رکھ دیا گیا۔ آپ جان ہی چکے ہوں گے کہ یہ
کس شخصیت کا تذکرہ تھا۔ اسلامی دنیا کے سب سے بڑے فلاحی ادارے کے بانی
عبدالستار ایدھی کا۔ جنہیں مولانا ایدھی بھی کہا جاتا ہے۔ ایدھی ایک قبیلے
کا نام تھا۔ یہ گجراتی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ''سست''اور ''کاہل'' کے
ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے کام سے ثابت کیا کہ وہ سست اور کاہل نہیں ہیں۔
1978ء میں ایدھی فاونڈیشن کا قیام عمل میں آیا۔
ان کے راستے میں مخالفین نے کانٹے بچھائے، الزامات لگائے اور قتل کی
دھمکیاں دیں۔ لیکن وہ نیت کے سچے، ہٹ کے پکے تھے۔ ان کے ارادے چٹان کی طرح
مضبوط اور پہاڑ کی طرح بلند تھے۔ کوئی دھمکی کوئی خوف ان کے راستے کی دیوار
نہ بن سکا۔ انہوں نے انسانی خدمت کو عبادت سمجھا۔ انہوں نے اپنے مقصد کو پا
لیا۔ ان کا ''ائیر ایمبولینس ''کا خواب بھی تعبیر پا گیا۔انہوں نے اپنے کام
کو وسعت دی۔ میٹرنٹی ہوم، کلینک، دارلامان، پاگل خانے، یتیم خانے، بلڈ بنک،
سکول اور عورتوں کے لیئے نرسنگ ٹریننگ سنٹر بنائے۔ پاکستان سے باہر، دوسرے
ملکوں میں بھی امدادی کاموں کے سلسلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
2006ء میں ''ایدھی انٹر نیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن'' کا قیام عمل میں آیا۔
جس کے تحت دوسرے ملکوں کو رفاہی کاموں کے لیئے ایمبولینسیز مہیا کی جاتی
ہیں۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی ایمبولینس دنیا کی سب سے بڑی
فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ انہیں مختلف مواقع پر ملکی و غیر ملکی اعزازات سے
نوازا گیا۔ ایک موقع پر انہیں منیلا شہر کے دروازوں کی چابیاں پیش کی گئیں۔
ایک غیر تعلیم یافتہ شخص نے وہ کام کر دکھایا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ''جینئس''
نہ کر سکے۔ یہ سب کیسے ہوا؟ مقصد کا تعیّن، یقین کی قوت، جذبے کی طاقت اور
انتھک محنت سے! کسی بھی خواہش کی تکمیل، خواب کی تعبیر، اور نعصب العین کو
پا لینے کی یہی کنجیاں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کامیابی کے حصول کے لیے
تعلیم کا کردار 15%سے زیادہ نہیں ہوتا۔ کامیابی کے لیے مقصد کا تعیّن اتنا
ہی ضروری ہے جتنا کہ کامیابی! بغیر مقصد کے کامیابی ناممکن ہے۔ اگر آپ گاڑی
میں بیٹھ کر ڈرائیور کو اپنی منزل کے بارے میں نہ بتائیں تو وہ آپ کو کیسے
آپ کی منزل تک پہنچائے گا؟ نشانہ لگانے کے لیے ٹارگٹ کا ہونا ضروری ہے۔
لیکن یاد رکھیئے! کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے آپ کو پھولوں کی راہ
گزر نہیں ملے گی۔ کانٹوں بھرے راستے پر چلنا ہوگا۔ اگر آپ دیکھیں تو ہر بڑی
کامیابی کے پیچھے آپ کو ناکامیوں، مشکلوں اور مصائب کے پہاڑ نظر آئیں گے۔
دنیا میں ہر کامیاب انسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ کامیابی
کو پانے کے لیے ناکامیوں کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کا مقصد نیک،
نیّت سچی، ارادہ مضبوط اور یقین کامل ہے تو کامیابی آپ سے دور رہ ہی نہیں
سکتی۔ |