سیرتِ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Hyderabad)
ولادتِ باسعادت :
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے تقریباً
دوسال چارماہ بعد ہوئی۔(الاکمال فی اسماء الرجال للخطیب التبریزی )
حافظ ابن عساکر، حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت سے
نقل کرتے ہیں، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :لما ولد
ابوبکر الصديق اقبل الله تعالی علی جنةعدن فقال وعزتی وجلالی لا ادخلک
الامن يحب هذا المولود
ترجمہ :جب ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالی جنت عدن
سے مخاطب ہوکر فرمایا: مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! ائے جنت !تجھ میں صرف
ان ہی لوگوں کو داخل کروں گا جو اس نومولود سے محبت رکھیں گے ۔(مختصر تاریخ
دمشق ، جلد 13، صفحہ69)
نام مبارک اورنسب شریف :
شرح مواہب زرقانی ج 1،ص 445میں ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
کا اسم گرامی زمانۂ جاہلیت میں عبد رب الکعبہ تھا اور" الإستيعاب في معرفة
الأصحاب " میں عبدالکعبہ مذکور ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
تبدیل کرکے عبداللہ تجویز فرمایا: عبد الله بن أبي قحافة أبو بكر الصديق
رضي الله عنهما. كان اسمه في الجاهلية عبد الكعبة فسماه رسول الله صلى الله
عليه وسلم عبد الله. هذا قول أهل النسب
(الإستيعاب في معرفة الأصحاب المؤلف : أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي
،المتوفى : 463هـ، جلد1، صفحہ 294)
آپ کے والد ماجد ابوقحافہ کانام "عثمان" تھا ،جن کا تعلق بنوتیم قبیلہ سے
تھا اور نسب مبارک اس طرح ہے۔ ابوقحافه عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد
بن مره بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر القرشی التيمی
آپ کے والدہٴ ماجدہ کا نام "ام الخیر سلمی" تھا ، ان کا نسب مبار ک اس طرح
ہے ۔
سلمیٰ بنت صخر بن عمر وبن کعب بن سعد بن تيم ۔(الکامل فی التاریخ ،جلد
2ص402)
القاب مبارکہ:
آپ "عتیق" اور "صدیق" کےمبارک القاب سے ممتاز ہیں ؛ جب کہ آپ کی کنیت
ابوبکر ہے ۔
"بکر" کے معنی اولیت ،سبقت اورپیش قدمی کے ہیں "ابو "کے معنی والے او روالد
کے آتے ہیں ،تو "ابوبکر" کے معنی سبقت کرنے ،پہل کرنے والے کے ہوئے چنانچہ
آپ ہر خیر کے کام میں سبقت فرمایا کرتے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرد حضرات میں سب سے پہلے اسلام
قبول فرمایا ہے جب کہ صاحبزادوں میں سب سے پہلے مولی کائنات حضرت سیدنا علی
مرتضی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول فرمایا اور خواتین میں حضرت سیدتناخدیجۃ
الکبری رضی اللہ عنہامشرف بااسلام ہوئیں۔
حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی اشاعت میں سب سے پہلے اپنا مال
خرچ کرنے کی سعادت حاصل کی ،اسلام قبول کرنے کے موقع پر آپ کے پاس چالیس
ہزار اشرفیاں تھیں آپ نے وہ سب کی سب راہ خدا میں خرچ کرڈالیں۔
عتیق:
آپ کو عتیق کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس کی چندوجوہ حسب ذیل ہیں:
پہلی وجہ
آپ کی والدہ ماجدہ کی اولاد زندہ نہیں رہتی تھی، جب آپ کی ولادت شریفہ ہوئی
تو آپ کی والدہ محترمہ آپ کو بیت اللہ شریف لے گئیں اور دعاکی :"ائے اللہ
انہیں موت سے آزاد کرکے میری خاطر زندگی عطا فرمادے" دعاقبول ہوئی اور آپ
کا لقب مبارک عتیق ہوگیا(مختصر تاریخ دمشق جلد13،ص35،شرح مواہب
زرقانی،ج1،ص445)
دوسری وجہ
جامع ترمذی شریف اور زجاجۃ المصابیح شریف میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا سے حدیث پاک مروی ہے : عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ
دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ
أَنْتَ عَتِيقُ اللَّهِ مِنْ النَّارِ فَيَوْمَئِذٍ سُمِّيَ عَتِيقًا۔
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقد س
میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم من
جانب اللہ جہنم کی آگ سے آزاد (محفوظ) ہیں‘‘ اسی دن سے آپ کو عتیق کہا جانے
لگا ۔
(جامع ترمذی شریف، ابواب المناقب، باب مناقب أبي بكر الصديق رضي الله عنه،
حدیث نمبر: 3612 - زجاجۃ المصابیح، کتاب المناقب،ج5،ص 248)
ونیز ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے دوسری روایت ہے،آپ
فرماتی ہیں: ایک دن میں اپنے گھر میں موجود تھی ، باہر حضرت رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، میرے اور صحابہ کے درمیان
پردہ حائل تھا ،اچانک حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے ،آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا:من سره ان ينظر الی عتيق من النار فلينظر الی
ابی بکر-
ترجمہ:جو دوزخ سے آزاد شخص کودیکھنا پسند کرے وہ ابوبکر کی زیارت
کرے۔(تاریخ دمشق ،جلد13،ص35،الریاض النضرۃ جلد1،ص78)
تیسری وجہ:
آپ کے نسب میں کوئی عیب نہ ہونے اورحسن نسب کی وجہ سے عتیق کہاگیا-
-وكان يقال له: عتيق واختلف العلماء في المعنى الذي قيل له به عتيق. فقال
الليث بن سعد وجماعة معه: إنما قيل له عتيق لجماله وعتاقة وجهه. وقال مصعب
الزبيري وطائفة من أهل النسب: إنما سمى أبو بكر عتيقاً لأنه لم يكن في نسبه
شيء يعاب به. وقال آخرون: كان له أخوان أحدهما: يسمى عتيقاً مات عتيق قبله،
فسمي باسمه. (الإستيعاب في معرفة الأصحابالمؤلف : أبو عمر يوسف بن عبد الله
القرطبي ،المتوفى : 463هـ، جلد1، صفحہ 294)
چوتھی وجہ:
عتیق معنی قدیم ،آپ کیونکہ قدیم الاسلام ہیں اور ابتداء ہی سے خیراو
ربھلائی آپ کے لئے مقدرہوچکی تھی ا سلئے عتیق ٹھہرے –لقدمہ فی الخبر ولسبقه
الی الاسلام(زرقانی ،جلد،1ص445)
صدیق :
آپ کا سب سے مشہور لقب صدیق ہے ،
وسمي الصديق لبداره إلى تصديق رسول الله صلى الله عليه وسلم في كل ما جاء
به صلى الله عليه وسلم. وقيل: بل قيل له الصديق لتصديقه له في خبر الإسراء.
آپ نے ہر معاملہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں پہل کی ،
اس لئے آپ کا لقب صدیق رکھا گیا۔
اللہ تعالی کا نازل کردہ لقب" صدیق"
سنن دیلمی میں ، ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: " يا أبابكر، إن الله سماك الصديق ".
ترجمہ:ائے ابو بکر اللہ تعالی نے تمہارا نام" صدیق "رکھا ہے-
حضرت مولائے کائنات علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے منقول ہے کہ یہ لقب
اللہ رب العزت نے نازل فرمایا: آپ حلفیہ بیان کرتے ہیں:لانزل الله عزوجل
اسم ابی بکر من السماء الصديق –
ترجمہ:اللہ تعالی نے ابوبکر کے لئے صدیق کا لقب آسمان سے نازل
فرمایا۔(مختصر تاریخ دمشق ،جلد،13،ص52) واقعہ معراج کی تصدیق :
تاریخ الخلفاء میں امام حسن بصری اورحضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
وأول ما اشتهر به صبيحة الإسراء
آپ کایہ لقب شب معراج کے اگلے دن کی صبح سے مشہور ہوا(تاریخ الخلفاء ص،11)
مستدرک علی الصحیحین اور تاریخ الخلفاءمیں روایت ہے: عن عائشة رضي الله
عنها قالت جاء المشركون إلى أبي بكر فقالوا هل لك إلى صاحبك يزعم أنه أسري
به الليلة إلى بيت المقدس قال أو قال ذلك؟ قالوا نعم فقال لقد صدق إني
لأصدقه بأبعد من ذلك بخبر السماء غدوة وروحة فلذلك سمي الصديق
ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے
اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی
تصدیق کروگے ؟ ، انہوں نے دعوٰی کیا ہے"راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآتے
ہیں"ابوبکر صدیق نے کہا:"بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے
بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں"۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور
ہوگیا(تاریخ الخلفاء ص،11)
کنیت ، ابوبکر :
عرب میں بالعموم کنیت کا رواج تھا ، یہ کبھی اولاد کے نام پرہوتی ہے ، جس
طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم ہے اورکبھی کسی
اورمناسبت کے پیش نظر رکھ دی جاتی ، جیسے ابوہریرہ ، ابوتراب وغیرہ ۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا آسمانی نام:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبریل امین حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق کا قریب سے
گزر ہوا ، حضرت جبریل نے عرض کیا ، یا رسول اللہ!وہ ابوقحافہ کے صاحبزادے
ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم آسمان میں رہنے والے بھی
انہیں پہچانتے ہو؟ جبریل امین نے عرض کی :والذی بعثک بالحق لهو فی السماء
اشهر منه فی الارض ، وان اسمه فی السماء الحليم
ترجمه :قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق ورسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا!حضرت
ابوبکر کا زمین کی نسبت آسمانوں پر زیادہ شہرہ ہے ، وہاں ان کانام حلیم ہے
۔(الریاض النضرۃ ،ج1،ص82)
تفسیر قرطبی میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت مذکور ہے :
حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپناسارا مال ومتاع راہ خدا میں خرچ
کرنے کے بعد ایک پیوندزدہ عباء پہن کر حاضربارگا ہ ہوئے جس میں گنڈیوں کی
جگہ کانٹے لگے ہوئے تھے ، اسی لمحہ طائر سدرہ جبریل امین پیغام ِخداوندی لے
کر حاضر ہوئے اور عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالی صدیق
اکبر کو سلام فرماتاہے ،آپ اُن سے دریافت کریں کہ وہ اس فقر کی حالت میں
اپنے رب سے راضی ہیں کہ نہیں ؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب
حضرت صدیق سے فرمایا تو آپ بے اختیارروپڑے اور کہنے لگے میں اپنے رب سے
ناراض کیسے ہوسکتا ہوں؟ بے شک میں اپنے رب سے راضی ہوں ،اس کو تین بار
دہراتے رہے ۔حضرت جبریل نے عرض کیا :حضور! بیشک اللہ تعالی فرماتاہے ؛میں
اُن سے راضی ہوچکا ہوں جس طرح وہ مجھ سے راضی ہے۔ اور اللہ کے حکم سے تمام
حاملین عرش بھی وہی لباس پہنے ہوئے ہیں جوآپ کے صدیق نے پہنا ۔ ﴿ تفسیر
قرطبی ،سورة الحدید ، آیت نمبر :10﴾
وعن ابن عمر قال : كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم وعنده أبو بكر وعليه
عباءة قد خللها في صدره بخلال فنزل جبريل فقال : يا نبي الله! ما لي أرى
أبا بكر عليه عباءة قد خللها في صدره بخلال ؟ فقال : "قد أنفق علي ماله قبل
الفتح" قال : فإن الله يقول لك اقرأ على أبي بكر السلام وقل له أراض أنت في
فقرك هذا أم ساخط ؟ فقال رسول صلى الله عليه وسلم : "يا أبا بكر إن الله عز
وجل يقرأ عليك السلام ويقول أراض أنت في فقرك هذا أم ساخط" ؟ فقال أبو بكر
: أأسخط "على ربي ؟ إني عن ربي لراض! إني عن ربي لراض! إني عن ربي لراض!
قال : "فإن الله يقول لك قد رضيت عنك كما أنت عني راض" فبكى أبو بكر فقال
جبريل عليه السلام : والذي بعثك يا محمد بالحق ، لقد تخللت حملة العرش
بالعبي منذ تخلل صاحبك هذا بالعباءة-
﴿ تفسیر قرطبی ،سورة الحدید ، آیت نمبر :10﴾
حلیہ مبارک :
آپ کا رنگ سفید ، رخسار ہلکے ہلکے ، چہرہ باریک اور پتلا ، پیشانی بلند ،
منحنی جسم ، چادرباندھتے تو نیچے ڈھلک جاتی اور داڑھی کو سرخ سیاہ مد بی
لگایا کرتے (الکامل فی التاریخ ،ج2،ص420)
قریش کے مشہور قبیلہ قارہ کے سردار ابن دغنہ نے آپ کے اوصاف حسنہ کا بایں
الفاظ اعتراف کیا: إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث وتكسب المعدوم وتحمل الكل
وتعين على نوائب الدهر وتقري الضيف.
ترجمہ ؛ اے ابوبکر !بے شک آپ ناداروں کی مدد کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں ،
کمزورں کا بوجہ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبت
زدہ افراد کے کام آتے ہیں۔(تاریخ الخلفاء،12)
عہدجاہلیت میں بھی آپ معزز ومکرم :
امام نووی فرماتے ہیں: وكان من رؤوساء قريش في الجاهلية وأهل مشاورتهم
ومحبباً فيهم وأعلم لمعالمهم ۔
ترجمہ ؛حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار دور جاہلیت میں قریش کے
سرداروں او راہل مشاورت میں ہوتا تھا،آپ کی شخصیت نہایت محبوب تھی، قریش کے
معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے تھے(تاریخ الخلفاء ص،12)
خواب میں قبولیت اسلام کی بشارت :
اعلان نبوت سے پہلے آپ نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا، آسمان پر چودھویں کا
چمکتا ہوچانداچانک پھٹ گیا، اس کے ٹکڑے مکہ کے ہر گھرمیں بکھرمیں گئے پھر
یہ ٹکڑے سمٹ کراکٹھے ہوئے اوریہ چمکتا ہوا چاند آپ کی گود میں آگیا۔
آپ نے یہ خواب اہل کتاب کے عالم کو سنایا تو اُس نے تعبیر بتائی کہ وہ نبی
محتشم جن کا انتظار ہے ؛ اس نبی آخرالزماں کے آپ معاون ومددگار ہوں گے
۔توجب حضور کی بعثت ہوئی تو آپ نے بلاتوقف بغیر کسی پس وپیش کے اسلام قبول
کرلیا۔
جیساکہ سبل الہدی والرشاد میں ہے: أنه رأى رؤيا قبل، وذلك أنه رأى القمر
نزل إلى مكة ثم رآه قد تفرق على جميع منازل مكة وبيوتها فدخل في كل بيت
شعبة، ثم كان جميعه في حجره. فقصها على بعض أهل الكتابين فعبرها له بأن
النبي صلى الله عليه وسلم - المنتظر قد أظل زمانه، اتبعه وتكون أسعد الناس
به، فلما دعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يتوقف. (سبل الہدی والرشاد،
ج2،ص303)
مدح صدیق اکبر بزبان حسان بن ثابت:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا ، سب سے پہلے کس نے اسلام قبول
کیا ؟ آپ نے فرمایا ، کیا تم نے حضرت حسان کے یہ اشعار نہیں سنے:
إذا تذكرت شجواً من أخي ثقةٍ ... فاذكر أخاك أبا بكرٍ بما فعلا
خير البرية أتقاها وأعدلها ... بعد النبي وأوفاها بما حملا
والثاني التالي المحمود مشهده ... وأول الناس ممن صدق الرسل
جب تم اپنے سچے بھائی کے دکھ دردکویاد کرنے لگو تواپنے بھائی ابوبکر کے
کارناموں کو یاد کرلینا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد تمام
مخلوق میں سب سے بہتر ، سب سے زیادہ متقی اور عادل ہیں ۔آپ حقوق وذمہ
داریوں کونبھانے میں سب سے زیادہ وفادار ہیں، آپ حضرت رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے یار غار ، آپ کے تابع ، ہمیشہ ساتھ رہنے والے اور ممدوح ومرجع
خلائق ہیں، آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں؛جنہوں نے سب سے پہلے رسولوں کی تصدیق کی
۔(الاستیعاب ،ج1،ص294، زرقانی،ج1،ص445)
آخری مصرع میں آپ کی اسلام میں اولیت کی زبردست شہادت ہے او رسرکار دوعالم
صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اسے بیان کرنے اور آپ کے سماعت فرمانے سے
اس کی ثقاہت واہمیت محتاج بیان نہیں۔اس کے علاوہ مزید دو اشعار درج ذیل
ہیں:
والثاني اثنين في الغار المنيف وقد ... طاف العدو به إذ صعدوا الجبلا
وكان حب رسول الله قد علموا ... خير البرية لم يعدل به رجلا
اس بلند پہاڑ پر واقع غار میں دو معزز شخصیات میں سے دوسرے آپ ہی تھے ؛ جب
پہاڑی پر چڑھنے کے بعددشمن غار کے اردگر د منڈلانے لگے ۔
آپ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں، سب کو معلوم ہے کہ آپ
تمام مخلوق میں (انبیاء کے بعد) سب سے بہتر ہیں اور کوئی بھی ان کے برابر
نہیں ۔(الاستیعاب،ج۱،ص295)
درس نظامی کی مشہور کتاب شرح عقائد نسفی میں ہے:افضل البشر بعد نبينا صلی
الله عليه وسلم ابو بکر الصديق رضي الله عنه(شرح عقائد نسفی،107)
صدیق اکبر کی منقبت سنناسنت مصطفی ہے (صلی اللہ علیہ وسلم)
حافظ ابن عساکر بیان کرتے ہیں ، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان رضی
اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: هل قلت فی ابی بکر شيئا؟
کیا ابوبکر کے بارے میں بھی کچھ کہا ہے؟ عرض کی ہاں ! پھر آپ نے درج بالا
اشعار سنائے۔
فسرالنبی بذلک فقال احسنت ياحسان
اشعار سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار مسرت کیا او رفرمایا اے حسان
!تم نے خوب کہا۔(الاستیعاب،ج۱،ص295)
کنزالعمال میں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قل وانا اسمع صدیق
کی منقبت کہو میں سننا چاہتا ہوں ،حضرت حسان بن ثابت منقبت سناچکے توحضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خوش ہوگئے ،اورمسکراہٹ سے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حسان!تم نے سچ کہا ہے واقعی صدیق ایسے
ہی ہیں جیسے تم نے بیان کیا۔
فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه وقال: "صدقت يا حسان" !
هو كما قلت (کنزالعمال ،حدیث نمبر:35673)
اس روایت سے ثابت ہوا کہ "نعت" کی طرح منقبت صدیق اکبر کی سماعت بھی سنت
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور منقبت سنانا سنت صحابہ ہے نیز حضرت سیدنا
صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی مدح سرائی پر اظہار مسرت حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے ۔
مصدق اول:
حضرت ابولدردار ضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:ان الله بعثنی اليکم فقلتم : کذبت ،وقال ابوبکر: صدق
ترجمه :اللہ تعالی نے مجھے تم سب کی طرف مبعوث فرمایا تو سب نے میری تکذیب
کی ، جب کہ ابوبکر نے میری تصدیق کی ۔(صحیح بخاری،ج1،ص517،حدیث نمبر:3261)
صدیق اکبر کے لئے تمام ایمانداروں کا ثواب:
آپ کے ایمان کی اولیت کا اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جسے خطیب
بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہ
الکریم سے روایت کیا ، آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت
ابوبکر صدیق کو فرمایا:
ياابابکر ان الله اعطانی ثواب من آمن لی منذخلق آدم الی ان بعثنی ، وان
الله اعطاک يا ابابکر ثواب من آمن بی منذ بعثنی الی ان تقوم الساعة
ترجمه :اے ابوبکر !آدم علیہ السلام سے لے کر میری بعثت تک جوکوئی بھی مجھ
پر ایمان لایا ہرایک کا ثواب اللہ تعالی مجھے پہنچائے گا اور اے ابوبکر!
میری بعثت سے تاقیامت تمام ایمان داروں کا ثواب تجھے ملے گا۔(تاریخ بغداد
،ج4،ص252)
حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ گلزار اولیاء میں رقمطراز ہیں:افضل البشر بعد
ازانبياء سيد نا ابوبکر الصديق رضی الله تعالی عنه-
وصال مبارک :
آپ کا وصال مبارک شہر مدینہ منورہ میں مغرب وعشاءکے درمیان 22! جمادی
الاخری 13ھ میں ہوا ، اُ س وقت آپ کی عمر شریف ترسٹھ سال کی تھی ۔ حسب
الوصیت آپ کے آپ کو کفناکر دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لے جایا گیا
، حجرئہ مبارک کے سامنے رکھ کر عرض کیا گیا، یا رسول اللہ !یہ ابوبکر حاضر
ہیں -_انہوں نے وصیت کی تھی کہ اگر خود بخود دروازہ مبارک کھلے تو آپ
کےپہلوئے مبارک میں دفن کرنا ورنہ بقیع میں لے جانا_ ابھی یہ الفاظ پورے
نہیں کہنے پائے تھے کہ خود بخود دروازہ کھلا اور سبھوں نے اندر سے یہ آواز
سنی کہ :حبیب کو حبیب کے پاس لے آؤ - یہ سن کر حاضرین نے آپ کو حجره ٴمبارک
کے اندر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپہلومیں دفن کیا۔
جیساکہ تفسیر رازی میں ہے : أما أبو بكر رضي الله عنه فمن كراماته أنه لما
حملت جنازته إلى باب قبر النبي صلى الله عليه وسلم ونودي السلام عليك يا
رسول الله هذا أبو بكر بالباب فإذا الباب قد انفتح وإذا بهاتف يهتف من
القبر ادخلوا الحبيب إلى الحبيب (تفسیر کبیر،تفسیر نیسابوری ،تفسیر رازی
،سورة الکہف ، آیت نمبر:9) |
|