اقتدار اپنی جگہ قائم رہتا ہے تاہم اس پر براجمان شخصیات
تبدیل ہوتی رہتی ہیں اوراسی کے تناظر میں انگلینڈ کا یہ نعرہ مشہور ہوا کہ
’’ بادشاہ مر گیا،بادشاہ زندہ باد‘‘۔ہمارے معاشرے کے ’’ دانا‘‘ لوگ ہر نئے
آنے والے حکمران کے اسی طرح کے تابعدار اور وفادار بن جاتے ہیں جس طرح وہ
اس سے پہلے والے حکمران کے رہے ہوتے ہیں۔کوئی ان لوگوں کو’’ ’ابن وقت‘‘
کہتا ہے،کوئی مفاد پرست اور کوئی چڑہتے سورج کا پجاری قرار دیتا ہے لیکن
اپنی’’ قابلیت اور مہارت‘‘ کی بدولت یہی لوگ سمجھدار اور قابل بھروسہ قرار
دیئے جاتے ہیں۔
اقتدار ملنے کے ساتھ ہی حکمران کو ایسی مراعات اور شان و شوکت ملتی ہے کہ
صاحب دماغ بھی عقل کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ ہواؤں میں اڑتے ہوئے کسی شخص کے
لطف و تسکین کا اندازہ زمین پر رینگنے والے بھلا کہاں کر سکتے ہیں؟اس ’’
عالم جنت‘‘ کے مزے وہی جانتا ہے جسے اقتدار کے تخت پر بیٹھنے کا موقع ملا
ہو۔اسی لئے اقتدار پر براجمان ہونے والا ایسی شخصیات کی ’’ خیر خبر‘‘ لیتا
رہتا ہے جو پہلے حکمران رہ چکے ہوں،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اقتدار سے جانے
کے بعد وہ بھی ’’متاثرین‘‘ کے اسی کلب کا ممبر بن جائے گا۔اقتدار ملتے ہی
حکمران کی گردن یوں تن جاتی ہے کہ جیسے فوجی جوان پریڈ کرتے ہوئے گردن اکڑا
کر چلتا ہے۔پریڈ ختم ہونے اور ریٹائرمنٹ کے بعد تو فوجی جوان کی گردن سے
اکڑ اور بارعب آواز غائب ہو جاتی ہے لیکن حکمران کی گردن کی اکڑ اور
تحکمانہ انداز معیاد حکومت ختم ہونے کے بعد کے چند دنوں تک جاری رہتا
ہے۔حکمران اقتدار ملنے کے بعد مخصوص لوگوں میں محدود رہنے کو ترجیح دینے
لگتا ہے ۔اقتدار ملتے ہی حکمران ایسے ماحول سے لطف انداز ہونے لگتا ہے کہ
جس کا تصور’ نیا نویلا‘ دولہا بھی نہیں کر سکتا۔
ہماری سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حکمران ہی نہیں اس کے اہل خانہ اور ملازم
بھی بااختیار افراد میں شمار ہونے لگتے ہیں اور وہ بھی اپنے سربراہ خاندان
کی حاکمیت کے اختیارات بھر پور طور پر ’’ انجوائے ‘‘ کرتے ہیں۔کئی بار تو
دیکھا گیا ہے کہ حکمران کے فرزند اپنے حکمران والد کی حاکمیت ’’ کے شیئر
ہولڈر‘‘ بن کر متحرک رہتے ہیں۔اقتدار میں آنے کے تو ’’جنت کی بہاروں‘‘ کے
سے مزے ہیں اور اکثر حکمران اتنے عقلمند اور دوراندیش ہوتے ہیں کہ اقتدار
کے خاتمے کے بعد کے وقت کو بھی بدستور ’’ پر بہار‘‘ بنائے رکھنے کا پورا
بندوبست بھی کر لیتے ہیں۔اقتدار میں آنے والے کے سبھی اپنے بن جاتے ہیں،خیر
خواہ بھی اور بد خواہ بھی۔خصوصا پہلے والے’’ بد خواہ‘‘ اپنی بد خواہی کو
خیر خواہی ثابت کرنے کے ایسے ایسے ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ حکمران کو بھی ان
کی بات حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے انہی کو اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ
کرنا پڑتا ہے۔
یہ تو ہوئے اقتدار میں آنے کے مناظر، لیکن کیا کبھی کسی نے اس بات پر بھی
غور کیا ہے کہ جس شخص کے اقتدار کی معیاد ختم ہو رہی ہو،اقتدار اس سے جاتا
نظر آ رہا ہو،تو اس حکمران کے جسم و جاں کا عالم کیا ہوگا؟آزاد کشمیر کے
ایک بڑے مرحوم لیڈر نے ایک بار ایسی ہی صورتحال میں کہا تھا کہ ’’ تم کو
کیا معلوم کہ اقتدار کا جانا کیا ہوتا ہے؟ جوں جوں اقتدار جانے کا وقت قریب
آتا جاتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انگلیوں کے ناخنوں کے راستے جسم
سے روح نکل رہی ہو‘‘۔ ایک اور حکمران کے بقول ہوٹر والی گاڑیوں میں شان و
شوکت سے جانے کے کیا مزے ہیں،وہ عام آدمی کیا جانے۔اقتدار ہوتے ہوئے کوئی
ناپسندیدہ بات کہنے سے بھی ڈرتے ہیں لیکن اقتدار جانے کے بعد وہی لوگ
حکمران کو اس کی فاش غلطیوں کی فہرست تھما دیتے ہیں۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات چند ہی ہفتے دور ہیں اور آزادکشمیر کی
موجودہ پیپلز پارٹی حکومت اپنی پانچ سال معیاد پوری کرتے ہوئے سبکدوشی کے
قریب ہے۔الیکشن کے بعد آزاد کشمیر کا نیا چیف ایگزیکٹیو کون بنے گا؟ اقتدار
کا ’’ ہما‘‘ کس کے سر بیٹھے گا؟ اس کا جواب ’’ ہما‘‘ اڑانے والا ہی دے سکتا
ہے۔ لیکن آزاد کشمیر کے عوام دعا گو ہیں کہ رواں دور حکومت کی خرابیوں کا
تدارک ہو سکے،ایسا حکمران بنے جو اپنے خاندان،اپنی برادری ،اپنے علاقے کے
بجائے اس آزاد خطے کے امور کو بہتر بنائے جو دنیا میں ایک تماشے کی حیثیت
اختیار کر چکا ہے اور اس کے خراب ہوتے ہوئے عوام کی فکر کرے ۔آزاد کشمیر کو
مقامی امور و مسائل میں مشغول اور تقسیم کرتے ہوئے آزاد خطے کا ’’ قبلہ و
کعبہ‘‘ تبدیل تو کر دیا گیا ہے لیکن ’’ قبلہ و کعبے‘‘ کی تبدیلی کا سرکاری
اعلان نہ ہونے کہ وجہ سے بہت سے لوگ بدستور’’ خراب‘‘ ہونے پر مجبور
ہیں۔آزاد کشمیر میں چند ماہ بعد قائم ہونے والی حکومت اگر آزاد کشمیر کے ’’
قبلہ و کعبہ‘‘ کے تعین اور حیثیت کے بارے کوئی فیصلہ کر سکے تو اسی صورت
آزاد کشمیر کے مقامی امور میں مقامی اختیار کو اہمیت ملتا ممکن ہو سکتا ہے۔
عوام کو مزید تقسیم در تقسیم کا شکار رکھتے ہوئے سیاسی چلن کو جاری رکھنے
کے اقدامات کے نتائج مقامی اور علاقائی طور پر بھی تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ |