دو ناکام خطابات

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب نے پچھلے کچھ دنوں میں عوام کو دو مرتبہ رونمائی کروائی ہے۔ ایک مرتبہ جب کل بھوشن نامہ کھُلا اور دوسری مرتبہ جب پانامہ پیپرز نامی سکینڈل بریک ہوا۔ دونوں مرتبہ جب وزیر اعظم موصوف نے عوام سے خطاب کیا تو عوام جو امید کر رہے تھے نہ ہی وہ کہا گیا نہ اس طرف رخ کیا گیا۔ پہلی مرتبہ عوام یہ توقع کیے بیٹھے تھے کہ شاید وزیر اعظم صاحب بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری پر سیخ پا ہوں گے یا کم از کم وہ بھارت کو یہ پیغام ضرور دیں گے کہ کاروباری معاملات، ذاتی تعلقات ہرگز بھی ملکی مفادات سے مقدم نہیں ہوتے ۔ جب کہ دوسری دفعہ عوام یہ توقع کر رہے تھے وزیر اعظم صاحب پاکستانی عوام کے سامنے جو حاضری دے رہے ہیں اس میں وہ یہ توجیح پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان کا یا ان کے خاندان کا ہرگز بھی نہ تو پاکستان مخالف کسی کاروباری سرگرمی سے سروکار ہے نہ ہی ان کا یا ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کا پانامہ لیکس میں موجود کسی دستاویز سے کوئی واسطہ ہے۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ عوام پہ جبراً یہ دونوں خطابات نہ صرف مسلط کیے گئے بلکہ دونوں دفعہ کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ اس خطاب کے بعد وزیر اعظم کا سیاسی قد عوام کی نظر میں بڑھا ہے۔

وزیر اعظم نے جب پہلی حاضری دی تو پوری تقریر کے دوران نہ تو کل بھوشن کا ذکر کیا گیا نہ ہی اس کے جرم کے بارے میں تکلم کو مناسب سمجھا گیا۔ بلکہ حیران کن طور پر حسب سابق سیاسی مخالفوں پہ طعنہ زنی ہی پوری تقریر کا موضوعء بحث رہا جب کہ حقیقت میں تو یہ تقریر بھارتی جاسوس کے حوالے سے ترتیب دی گئی تھی( یا ترتیب کروائی گئی تھی)۔ لیکن وزیر اعظم نے فرنٹ فٹ پہ کور ڈرائیو کھیلنے کا ایک موچھا موقع گنوا دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب ان کے سیاسی مخالفین ان کی مخالفت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اگر وہ ایک مضبوط موقف اپناتے ہوئے بھارت کو مخاطب کرتے تو شاید ایک طرف تو ان کے مخالف سیاسی عناصر کچھ ڈھیلے پڑ جاتے بلکہ دوسری طرف عوام میں بھی ان کا قد بڑھ جاتا۔ لیکن ہم شاید عقل کے دروازے پہ دستک دینا گوارا نہیں کرتے ۔

دوسری مرتبہ جب میاں صاحب نے عوام کو اپنا جلوہ دکھایا تو اس وقت " پانامہ لیکس" پوری طرف اپنا جلوہ دکھا چکا تھا۔ اور آخری اطلاعات آنے تک آئس لینڈ کے وزیر اعظم مستعفی ہو چکے تھے(تصدیق باقی ہے)۔ اس کے ساتھ بھارت میں تحقیقات کا آغاز ہو چکا تھا۔ روس میں سرکاری سطح پر ردعمل دیا جا چکا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی یہ " موساک فونسیکا" لا فرم بھی ان لیک کیے جانے والی دستاویزات کو نہ جھٹلا پائی کیوں کہ ایک سال کی عرق ریزی کے بعد ICIJ نے ان کو شائع کیا تھا۔ اور اس میں ابتدائی طور پر جو اخبار(Süddeutsche Zeitung) یہ دستاویزات سامنے لانے کی وجہ بنا وہ نہ صرف جرمنی کا مقبول اخبار ہے بلکہ دنیا کے 100بڑے اخبارات میں بھی اس کا شما رہوتا ہے۔ جن دستاویزات پر ایک ملک کا وزیر اعظم مستعفی ہو چکا ہالینڈ، برطانیہ، روس، یوکرائین میں تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے ہمارے ہاں یہ راگ الاپا جا رہا ہے ہم نے کمیشن بنا دیا آپ ثبوت لائیں۔محترم کیا آپ نے کمیشن کو اتنا با اختیار بنایا ہے کہ وہ بیرون ملک سے ثبوت خود لا سکیں؟ جب پانامہ کے صدر نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ تحقیقات میں مدد دیں گے؟جو فسانہ زباں زدِ عام ہے اس کے لیے آپ کو کون سے ایسے خصوصی ثبوت چاہیں؟ وزیر اعظم اس خطاب میں بھی یکسر ناکام نظر آئے کیوں کہ جن دستاویزات کی تصدیق ان کی حامل فرم بھی کر چکی اس کی تردید کے لیے آپ کیا توجیح پیش کریں گے؟ پوری دنیا میں ایک بھونچال سا ہے اور ہمارے ہاں نیرو چین ہی چین لکھتا ہے۔ اس دوسرے خطاب کا مقصد شاید پانامہ لیکس کے بجائے بھٹو کی قومیانے کی پالیسی تھی جو موضوع بحث رہی۔ کمال معصومیت سے کہا گیا کہ میں جانتا ہوں اس کے پیچھے کون ہے، جناب وہ تو ہم بھی جانتے ہیں۔ کہ اس معاملے کے پیچھے کون کون ہے۔خاندان کے خاندان چہرے چھپائے بیٹھے ہیں۔ ہرگزدو رائے نہیں کہ چند دنوں کے وقفے سے کیے گئے دونوں خطابات ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ ایک ملک کا وزیراعظم جب بناء کسی ہوم ورک کے سرکاری ٹی وی پہ آ بیٹھے تو ایسے ہی حالات بنتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔ دونوں تقاریر میں نہ صرف اصل موضوع کو پس پشت ڈال دیا گیا بلکہ حقائق سے پہلوتہی بھی برتی گئی ۔ عوام سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ صرف ایک تقریر کا مان رکھتے ہوئے ملکی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے کمینہ صفت دشمن کو نظر انداز کر دیں۔ اور عوام کے بھولپن کا امتحان لیا جاتا ہے کہ چند لفظی لہروں کے زیر اثر عوام پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے طوفان سے نظریں چرا لیں۔ لیکن بے چاری عوم کب تک آپ کی مجرمانہ خاموشی پہ پردہ ڈالتی رہے گی۔
Syed Shahid Abbas
About the Author: Syed Shahid Abbas Read More Articles by Syed Shahid Abbas: 60 Articles with 44359 views Writing Columns since last five years now, after completing my Masters in Mass Communication... View More