کشمیر جل رہا ہے، شعلے اگل رہا ہے

کشمیر میں نئی حکومت کے قائم ہوتے ہی تشدد پھوٹ پڑا ۔ کئی بے قصور شہری زخمی اورپانچ جاں بحق ہوچکےہیں ۔ مرحومین کے سوگواروں کا غم بانٹنے اور زخمیوں کے گھاو پر مرہم رکھنے کیلئے مرکزی وزراء توکجا ریاستی وزیر اعلیٰ اور ان کا نائب تک نہیں گیا۔ ویسے بی جے پی کے صوبائی صدر اور رکن اسمبلی ست شرما نے اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئےایک ایسے تشدد کا الزام علٰحیدگی پسندوں پر لگا دیا جس میں عام شہری حفاظتی دستوں کی گولی کا نشانہ بنے ہیں۔ انہوں نے حالیہ تشدد کوفوج کو بدنام کرنے کی سازش بھی قرار دیا لیکن سوال یہ ہے اس سازش پر عمل در آمد کس نے کیا؟حفاظتی دستوں سے کس نے کہا کہ وہ بے دریغ گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے ڈبے اس زور سے پھینکیں کہ اس سے نوجوان ہلاک ہوجائے؟

اس طرح کی الزام تراشی کے بعد تحقیقات کا مطالبہ ازخود بے معنیٰ ہوجاتا ہے ۔ کیا کشمیر کے علاوہ ملک کے کسی اور صوبے میں حفاظتی دستوں کے ظلم و جبر کےبعد اربابِ اقتدار اپنی ریاست کے اکثریتی طبقے کے خلاف اس طرح کا بیان دے سکتے ہیں؟ اس بیان کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے عام لوگوں کے نہیں فوج کہ ووٹ سے منتخب ہوئی ہے ویسے جہاں تک وادی کا سوال ہے جہاںساری نشستوں پر اس کی ضمانت ضبط ہوگئی عوام نے اسے ووٹ بھی تو نہیں دیا خیر۔ جموں کشمیر بی جے پی کے سربراہ ست شرما جوعوام کے خون ناحق کے بجائے حفاظتی دستوں کی بدنامی کو لے کر پریشان ہیں انہیں چاہئے کہ ہریانہ میں منظر عام پر آنے والی پرکاش سنگھ پینل کی رپورٹ دیکھ لیں۔

پرکاش سنگھ سابق پولس سربراہ ہیں اور انہیں جاٹ مظاہروں کے دوران پولس بغاوت کی تفتیش کا کام سونپا گیا تھا۔ اس پینل کے مطابق تشدد کے دوران بی جے پی کے زیر اقتدار ہریانہ کی ہر ضلع میں اوسطاً ۶۰ سے ۷۰ پولس والوں نے اپنے افسران کے احکامات کی بجا آوری سے انکار کردیا تھا ۔ ان میں سے کئی نازک ترین حالات میں رخصت پر چلے گئے تھے ۔ ڈیوٹی پر موجود لوگ بھی خاموش تماشائی بنے دوکانوں، گھروں بلکہ پولس تھانوں تک کو لٹتا اور جلتا ہوا دیکھتے رہے تھے۔ عام پولس کانسٹبل تو درکنار ڈی جی پی وائی پی سنگھل نے بھی دورانِ فسادشورش زدہ علاقوں کا ایک بھی دورہ کرنا ضروری نہیں سمجھا ۔ امن کی بحالی کے بعد وہ صرف ایک بار وزیرا علیٰ منوہر لال کھتر کے ساتھ روہتک آئے تھے۔ اب اس رپورٹ پر سخت کارروائی کی تیاری چل رہی ہے کیا ایسا کرنے سے حفاظتی دستوں کے حوصلے پست نہ ہوں گے؟ اور اس کارِ خیر کو کون انجام دےگا؟

کشمیر کا تشدد ابھی ختم بھی نہیں ہوا کہ گجرات میں ہنگامہ برپاہوگیا ۔ اس سے پہلے کہ پٹیلوں کی ۷ رکنی کمیٹی وزیراعلیٰ سے ملاقات کرتی مہسانہ ضلع میں پاٹیدار انامت آندولن سمیتی نے ہاردک پٹیل کی رہائی کو لے احتجاج کرنے کااعلان کیا۔ضلعی انتظامیہ نے مظاہرے کی اجازت نہیں دیاس کے باوجود سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردست جلوس نکالا گیا ،جلسہ عام بھیہوا اور مجمع نےپولس پر پتھراو کیا ۔ اس تشدد میں ایک ایکزیکیوٹیو مجسٹریٹ کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی پانچ پولس اہلکار اور دو عہدیدار زخمی ہوئے جبکہ ۲۵ مظاہرین کو بھی معمولی چوٹ آئی ۔ مشتعل مظاہرین نے وزیرداخلہ رجنی پٹیل کے گھر کو آگ لگادی اس کے باوجود انتظامیہ نے کمال صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف لاٹھی چارج اور آنسو گیس پر اکتفاء کیا ۔ اس کے برعکس ہندوارہ میں تو مظاہرین نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ وہاں پر سنگ باری کیلئے پتھر بھی نہیں تھے کسی پولس والے کو خراش تک نہیں آئی کوئی آگ زنی نہیں ہوئی پھر بھی گولی چلی اور ہلاکتیں ہوئیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاایک راشٹرمیں ایک ودھان اور ایک نشان کا نعرہ لگانے والوں کو یہ تفریق و امتیاز زیب دیتا ہے ؟ ویسے اقتدار کی خاطر محبوبہ مفتی کے ساتھ الحاق کرکے بی جے پی نے شیاما پرشاد مکرجی کے نام نہاد بلیدان پر بھی خاک ڈال دی ہے۔

نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ تو خیر مظلومین سے ملنے کیا جاتےکشمیریوں کو نام نہاد غمگسارمحبوبہ مفتی ٰ بھی سرینگر سے ۶۹ کلومیٹر دور ہندوارہ جانے کے بجائے دہلی پہنچ گئیں ۔ وہاں پر انہوں نے کشمیریوں کیلئے چاول کا مطالبہ کیا، ملازمین کی تنخواہ کیلئے مالی معاونت کی یقین دہانی کرائی اور وزیر دفاع سے مل کر تحقیقا ت کے وعدے سمیت لوٹ آئیں۔ گزشتہ سال مارچ تک اس طرح کی ۳۵ تحقیقات جاری تھیں ان میں مزید کتنا اضافہ ہوا ہے کون جانے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ان تحقیقا ت کی رپورٹ تک مکمل نہیں ہوتی اس بنیاد پر کسی ملزم کوسزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ کشمیر میں تازہ احتجاج کی وجہ ایک طالبہ پر فوجی کے ذریعہ دست درازی کا الزام تھا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا اس شکایت کے آتے ہی پولس ایف آئی آر درج کرتی اور تفتیش شروع کردیتی ۔ اس میں اگر صداقت پائی جاتی تو ملزم کو گرفتار کیا جاتا نیز طالبہ کو حقوق انسانی کے کارکنان کے سامنے اپنا موقف واضح کرنے کا موقع دیا جاتا۔ جب یہ تفصیلات ذرائع ابلاغ میں آتیں تو اپنے آپ افواہوں کا دروازہ بند ہو جاتا لیکن ہوا یہ کہ طالبہ اور اس کے والد کو بلا جواز حراست میں لے لیا گیا اورلڑکی کو ماں سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی جس سے شکوک و شبہات نے جنم لیا اور وہ پریس میں پہنچ گئی۔

یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ایک ماہ قبل راجستھان کے چتوڑ گڈھ میں واقع میواڑ یونیورسٹی میں چار کشمیری طلباءکو اپنے گھر میں بفک بنا کر کھانے کے الزام میں ہندو طلباء نے پیٹ دیا۔ وہ طلباءاس قدر متشدد تھے کہ انہوں نے خوب جم کر نعرے بازی کی اورکیمپس کے باہر ایک گوشت کی دوکان بھی جلادی لیکن انہیں گرفتار کرنے کے بجائے انتظامیہ نےمظلوم طلباء کو حراست میں لے لیا ۔ پولس افسرکو یقین تھا کہ یہ بیف نہیں ہے پھر بھی اس کا نمونہ جانچ کیلئے بھیج دیا گیا ۔ راجستھان میں گوشت خوری کی اجازت ہے لیکن میواڑ یونیورسٹی کے احاطے میں وہ ممنوع ہے۔ اس لئے ظاہر ہے کینٹین میں تو صرف سبزی ہی فراہم ہوتی ہوگی۔ اب جو طلباء گوشت کھانا چاہیں ان کیلئے گھر میں کھانا بنانے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیںہے ۔ چونکہ صوبے میں گئو کشی پر پابندی ہے اس لئے لامحالہ وہ بیف نہیں کھا سکتے۔ لیکن انتظامیہ کی سرپرستی میں غنڈہ گردیگھر وں میں داخل ہوجائے تو اس پر کس کا زور چلتا ہے؟نتظامیہ اگر کشمیری طلباء کے بجائے حملہ آوروں کو حراست میں لیتا تو ان کی حوصلہ شکنی ہوتی لیکن بی جے پی والے چاہ کر بھی ایسا نہیں کرسکتے ۔

کشمیر میں جب طالبہ اور اس کے والد کو غیر قانونی حراست میں لے لیا گیا تو افواہوں کے پر لگ گئے ۔ الزام چونکہ فوجی پر تھا اس لئے لوگ چھاونی کے سامنے احتجاج کرنے کیلئے پہنچ گئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کی غلط فہمی دور کی جاتی یا بحالتِ مجبوری لاٹھی چارج کرکے منتشر کردیا جاتالیکن ان کی بات سن کر انہیں اعتماد میں لینے کے بجائےان پر گولیاں برسائی گئیں ۔ اس سانحہ میں دولوگ تو جائے حادثہ پر ہلاک ہوگئے جن میں ایک ابھرتا ہوا کرکٹ کھلاڑی نعیم بٹ تھا اور ایک خاتون بھی تھی جو دور کھیت میں کام کررہی تھی دیگرتین نوجوانوں کا انتقال اسپتال میں ہوا۔ اس ظلم کی پردہ پوشی کیلئے انتظامیہ نے نہایت بچکانہ اور بھونڈا طریقہ اختیار کیا۔

فوج نے اپنی صفائی میں ایک ویڈیو پیش کی جس میں طالبہ کا یہ اعتراف موجود تھا کہ اس کے ساتھ فوجی نے نہیں بلکہ دو نا معلوم مقامی طلبہ نے بدسلوکی کی۔ ویڈیو کی بابت یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ اعتراف ذرائع ابلاغ کے سامنے ہوا ہے جبکہ اس میں طالبہ اپنے مخاطب کو پولس انکل کہہ کر پکارتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ بیان پولس کی حراست لیا گیا ہے اور ایسی حراست میں جو غیر قانونی تھی اس لئےاسی بھلا کیا حیثیت؟ اس ویڈیو کا فوج کے ہاتھ لگ جانا اور سوشل میڈیا میں پھیل جانا بے شمار شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ عدالت میں جج نے پولس کی غیر قانونی حراست کیلئے سرزنش کی اور فوراً طالبہ کو اس کے والد سمیت حاضر کرنے کا حکم دیا۔ جج کے سامنے بھی طالبہ نے فوجی کے بجائے دوسرے طالب علم پر دست درازی کا الزام لگایالیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کام میں مجرمانہ تاخیر کے سبب جو ۵ بے قصور لوگوں کی جان گئی اس کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ صرف دو پولس کانسٹبل کو معطل کردینے سے نہ مرنے والے زندہ ہو ں گےاور نہ پسماندگان کے زخم بھر یں گے۔

ہندوارہ میں جب سنگ باری کا الزام بھی کمزور ہوگیا تو یہ کہا گیا کہ وہ ہجوم فوجی چھاونی کو آگ لگانے جارہا تھا حالانکہ اس کے حق میں بھی کوئی شہادت پیش نہیں کی جاسکی ۔ کشمیر میں ہر احتجاج کو شدت پسندی سے جوڑ دیا جاتا حالانکہ حفاظتی دستوں کے خلاف تشدد کے واقعات کشمیر سے کہیں زیادہ شمال مشرقی صوبوں اور نکسلواد سے متاثر قبائلی علاقوں میں رونما ہوتے ہیں ۔ ابھی حال میں ۳۰ مارچ کوچھتیس گڈھ میں نکسلوادیوں نے ایک فوجی ٹرک کو بارودی سرنگ سے اڑا کر سی آر پی ایف کے ۷ جوانوں کو ہلاک کردیا۔ ۱۴۔۲۰۱۳؁ کے اندر اس ایک ریاست میں ۵۳ حفاظتی دستے کےاہلکار نکسلنوازوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے جبکہ صرف ۴۰ نکسلی اسلحہ بردار مارے گئے۔ چھتیس گڈھ میں اسلحہ برداروں کے سامنے بے دست و پا حفاظتی دستے کشمیر کے نہتے مظاہرین کے سامنے اپنی بہادری کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ بقول شاعر؎
ظلم و ستم کی زد میں کشمیر کی ہے وادی،مفقود زندگی کے آثار ہوچکے ہیں
تیور بتا رہے ہیں بدلے ہوئے فلک کے،فتح مبیں کے ظاہر آثار ہوچکے ہیں

کشمیری تشدد کو بلادریغ علٰحیدگی پسندی سے منسوب کردینا درست نہیں ہےبلکہ اکثر و بیشتر مواقع پرحقوق انسانی کی پامالی کے خلاف احتجاج کرنے والے سرکاری دہشت گردی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس کی سب سے واضح مثال ۲۰۱۰ ؁ کا تشدد تھا جس میں ۱۰۰ سے زیادہ لوگوں نے جام ِ شہادت نوش کیا تھا۔ یہ احتجاج کسی غیر ملکی یا علٰحیدگی پسند تنظیم کے اکسانے پر نہیں ہوا تھابلکہ اس سال ۳۰ اپریل کو شہزاد احمد، شفیع لون اور ریاض احمد نامی سوپور کے تین نوجوانوں کواچھی مزدوری کا لالچ دے کر فوج میں حمال کی ملازمت پر رکھا گیا اور پھر انہیں ہلاک کرکے دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ یہ ہوائی الزامات نہیں ہیں بلکہ ۵ سال بعد فوج نے اس سنگین جرم میں اپنے ۵ اہلکاروں کو تاعمر قید کی سزا سنا دی ۔ اس لئے ہر سرکاری تشدد کو علٰحیدگی پسندی کے قلع قمع کے نام پر جائز قرار دےدینا غلط ہے۔ سچ تو یہ ہے یہی رویہ علٰحیدگی پسندی کے رحجان کو پروان چڑھاتا ہے۔

اس حقیقت کا اعتراف سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے مذکورہ سانحہ کے بعد جون ۲۰۱۰؁ میں کیا تھا ۔انہوں نےوادی میں تشدد اور احتجاجی مظاہروں کے دوران غیر مسلح نوجوانوں پر فائرنگ کے واقعات کے تناظر میں کشمیر مسئلے کے سیاسی حل کی وکالت کی تھی۔ روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں جنرل وی کے سنگھ نےکہا تھا’’میرے خیال میں اب مختلف سیاسی نظریات کے حامل لوگوں کو اکھٹا کرکے اُن کے ساتھ جامع بات چیت کی ضرورت ہے۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں داخلی سلامتی کی مجموعی صورتحال پر قابو تو پالیا ہے لیکن اب مسائل کو سیاسی لحاظ سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘یہ حسن اتفاق ہے کہ جنرل وی کے سنگھ فوج سے سبکدوش ہونے کے بعد فی الحال سیاست کی دنیا میں اپنے قدم جماچکے ہیں اور نائب وزیر خارجہ ہیں ۔ ان کیلئے سیاسی حل نکالنے کے بھرپور مواقع موجود ہیں لیکن شایدقومی مفاد پر ذاتی فائدے کی فوقیت نے انہیں اپنا سابقہ بیا ن بھلا دیا ہے ۔ آج کل تو وہ سوائے متنازع بیان دینے کےخود وزارتِ خارجہ کا بھی کوئی کام نہیں کرتے۔ یہ یقیناً صحبت کا اثر ہے ۔

ہندوارہ سانحہ کے بعد مزید ۳۶۰۰ فوجیوں کو روانہ کروانے والے مسٹر سنگھ کو یاد نہیں کہ انہوں نے کہا تھا ’’ ریاستی پولس کو اب مزید سرگرم ہونے کی ضرورت ہےتاکہ کشمیر میں تعینات تقریباً پانچ لاکھ فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جا سکے‘‘۔ٹی وی کو انٹرویو میں جنرل وی کے سنگھ یہ کہہ چکے ہیں کہ سیکورٹی فورسز کشمیر کیبگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کیلئے کافی نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کشمیر میں امن وامان کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے جس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں اوران میں سے ایک مقامی لوگوں کےاندر اعتماد بحالی میں ناکامی ہے ۔ انہوں نےقیامِ امن کی خاطرفوج کی تعیناتی کے علاوہ سول اقدامات کرنےکی ضرورت پر زور دیا تھا ہے ۔

جنرل وی کے سنگھ جس مسئلۂ کشمیر کی پر تشویش کا اظہار کررہے تھے اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے حقوق انسانی کی متعدد تنظیموں کے مطابق کشمیر میں گزشتہ اکیس برسوں سے جاری مسلح کشمکش کے نتیجے میں ۸۰ ہزار سے زائد کشمیری جاں بحق ہوئے ہیں ۔ اس بابت علٰیحدگی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مرنے والے شہریوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرتی ہے جبکہ حکام بھی ۴۷ ہزار کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اس صورتحال کی بہترین عکاسی اعجاز رحمانی نے اس طرح کی ہے ؎
آج اس وادی کے بیٹے بیٹیاں
نوجواں بے جرم پاتے ہیں صدا
دل دکھاتی ہے یتیموں کی صدا
حشر ہے وادی میں ہر جانب بپا
بے اماں اب وادیٔ کشمیر ہے،
خون میں ڈوبی ہوئی تصویر ہے

مسئلہ ٔ کشمیر کو حل کرنے کیلئے کشمیریوں کی نفسیات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ نومبر ۲۰۱۴ ؁ میں فوج کی گولی سے دو نوجوان شہید ہو گئے تھے۔ فوج نے مرحومین کے ورثاء کو ۱۰ لاکھ معاوضہ دینے کا اعلان کیا لیکن حیرت کی بات یہ ہےفیصل یوسف کے والد یوسف بٹ اور معراج الدین ڈار کے والد غلام محمد ڈار نے رقم لینے سے انکار کردیا ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ قاتلوں کو ہمارے حوالے کیا جائےیا ان شناخت بتائی جائے۔ دراصل مطالبہ یہ تھا کہروپیہ دے کر بہلانے پھسلانے کے بجائےقاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ بڈگام کا یہ واقعہ ریاست کی انتخابی مہم کے دوران پیش آیا تھا ۔

وزیراعظم نریندر مودی نےمذکورہ سانحہ کے بعدسرینگر کا دورہ کیا تھا اور انتخابی جلسے میں وعدہ کیا تھا کہ وہ قاتلوں کو سزا بحال کریں گے۔ گزشتہ ۳۰ سالوں کے اندر کسی ہندوستانی وزیراعظم کا یہ پہلا جرأتمندانہ اعتراف تھا جس سے بہت ساری امیدیں وابستہ کی گئی تھیں۔ اس بیان نے یہ پیغام دیا تھا کہ وہقاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر کشمیری عوام کا دل جیتنا چاہتے ہیں لیکن ہندوارہ کے معاملے میں ان کی معنیٰ خیزخاموشی اس حقیقت کی غماز ہے کہ وہ تو صرف انتخاب جیتنا چاہتے تھے۔ اہل اقتدارکی سمجھ میں جب تک یہ بات نہیں آتی کہ کشمیری عوام کا اعتماد حاصل کئےبغیر کشمیر کو ساتھ نہیں رکھاجاسکتا اس وقت تک وادیٔ کشمیر میں امنوامان قائم نہیں ہوسکتا۔
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449842 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.