شیر شمشیر زن شاہِ خیبر شکن سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خدمات کا جائزہ
(Ata Ur Rehman Noori, India)
سیدنامولیٰ علی رضی اﷲ عنہ نے اسلام کی
تبلیغ واشاعت کے لیے خوب کاوشیں کیں۔ اپنی خدادادصلاحیتوں کا اس راہ میں
بخوبی استعمال کیا، بدر سے لے کر جنگ حنین تک کے ہر معرکۂ حق وباطل میں
اپنی شجاعت وبہادری کے جوہر دکھاتے رہے اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم
کی ناموس کے محافظ بنے رہے۔ آپ کی جاں بازیاں اور قربانیاں بے مثال ہیں،
کئی نازک حالات میں جہاں کوئی بھی آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا آپ
بلاخوف وخطر جان کی پروہ کیے بغیر اسلام کے تحفظ وبقا کے لئے اپنے آپ کو
پیش کردیتے، ایسے متعدد واقعات تاریخ اسلام میں موجود ہیں۔بدر کے معرکے میں
کفار کے مقابلے کے لیے سب سے پہلے تین انصاری صحابہ حضرت عوف، حضرت معاذ
اور حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نکلے اس وقت عتبہ نے کہاتھا کہ
یہ لوگ ہماری جوڑکے نہیں ہیں ہمارے ساتھ پنجہ آزمائی کے لئے ہمارے مد مقابل
بھیجو۔ چنانچہ ایسے موقع پر جن بہادران ِاسلام کو آگے بڑھایا گیا ان میں
ایک حضرت مولیٰ علی رضی اﷲ عنہ کی ذات تھی۔’’ لافتی الا علی لاسیف الا
ذوالفقار‘‘کے مظہرومصداق سیدنا علی آگے بڑھے اور ذوالفقار حیدری نے بدر کے
میدان میں جو شان دکھائی آج بھی اس کے تذکرے پڑھ کر اہل ایمان مچل جاتے ہیں
۔ آپ نے عتبہ کے بیٹے ولید سے مقابلہ کرتے ہوئے اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ
دیا اور اپنی شمشیر خار اشگاف سے وار کرتے ہوئے اسے آنِ واحد میں کیفر
کردار تک پہنچادیا اور اس طرح میدانِ بدر میں مسلمانوں کی پہلی فتح ہوئی ۔
اس موقع پر رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو اسلامی علم عطافرمایا اور
ذوالفقار حیدری ہمیشہ کے لئے آپ کو سپرد فرمادی۔
جنگ اُحد بھی تاریخ اسلام کا روشن اور درخشاں باب ہے جہاں مسلمانوں نے اپنی
جان ومال کی پرواہ کیے بغیر تحفظ اسلام کی خاطر مثالی قربانیاں پیش کیں۔ یہ
جنگ ۳؍ھ میں ہوئی اور اس میں بھی مسلمانوں کوفتح مبین حاصل ہوئی۔ جس وقت
جنگ پورے شباب پر تھی سرکَٹ کَٹ کر گِر رہے تھے، سینے گھائل ہورہے تھے، اس
وقت سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات انصار کے جھنڈے کے نیچے تشریف
فرماتھے، حضورﷺ نے علی رضی اﷲ عنہ کو فرمایا کہ جھنڈا اُٹھالو۔ جھنڈا آپ کے
ہاتھ میں تھا آپ نعرہ لگارہے تھے ’’انا ابو القصم‘‘ میں باطل کی پشت توڑنے
والا ہوں۔اسی اثناء میں کفار کے علمبردار طلحہ بن ابی طلحہ نے للکار کر کہا:
ہل من مبارز‘‘ ہے کوئی میرے ساتھ پنجہ آزمائی کرنے والا۔ کسی نے اس کی
للکار کا جواب نہ دیا وہ کہنے لگا:اے محمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام)! کے
صحابہ تمہارا تو یہ خیال ہے کہ تمہارے مقتول جنت میں ہیں اور ہمارے مقتول
دوزخ میں ۔ لات کی قسم! تم جھوٹ کہتے ہو، اگر تم اسے سچ یقین کرتے تو تم
میں سے کوئی میرے مقابلہ کے لیے نکلتا۔ شیر خدا علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا
فر کی اس ڈینگ پر اﷲ کا نام بلند کرتے ہوئے میدان میں نکل آئے ۔ لشکر اسلام
اور لشکر کفار کی صفوں کے درمیان ان کا مقابلہ ہوا۔ شیر خدا نے اس کو
سنبھلنے کا موقع بھی نہ دیا، بجلی کی تیزی سے اس پر تلوار کا وار کیا وہ
پیکر نخوت جو چند لمحے پیشتر شیخیاں بگھاررہاتھا زمین پر پڑا تڑپ رہاتھا آپ
نے دوسرا وار نہ کیا کیونکہ بے دھیانی میں اس کی شرم گاہ کھل گئی تھی اور
اہل مروّت کا یہ شیوہ نہیں کہ دشمن کو ایسی حالت میں موت کے گھاٹ اتارا
جائے لیکن وہ ایک وار کی تاب بھی نہ لاسکا اور کچھ دیر بعد دم توڑ گیا‘‘۔ (ضیا
ء النبی ۳؍۴۸۵)یہی نہیں اسلام وکفر کے درمیان ہونے و الے بیشتر معرکوں میں
مولیٰ علی رضی اﷲ عنہ نے شرکت فرمائی اور کامیاب وکامران ہوئے۔ غزوۂ احزاب
(خندق) اور صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی آپ کی جرأت وجوانمردی سے مسلمانوں کے
حوصلوں میں پختگی آئی اور آپ نے رسول کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کی حمایت کاحق
ادا کردیا۔
۱۰ھ میں عرب کے مختلف خطوں میں تبلیغ دین کے لیے وفود بھیجے گئے تو حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ کو یمن کا قاضی بناکر بھیجا، آپ کی کوششوں
سے وہاں خوشگوار تبدیلی ظاہر ہوئی اور اسلام کی اشاعت ہوئی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد خلفائے ثلاثہ کے عہد میں حضرت علی اہم
ملکی وسیاسی معاملات میں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ آپ کی اصابت رائے
سے بڑے بڑے کام تکمیل کو پہنچے، حضرت عمرجب شام تشریف لے گئے تو آپ کو اپنا
نائب بنایا۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت ۳۵؍ھ میں ہوئی تو
آپ کے ہاتھوں پر خلافت کی بیعت کی گئی۔ بیعت خلافت کے بعد آپ نے یہ خطبہ
ارشاد فرمایا:’’اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو ہادی بناکر بھیجا ہے جو خیر وشر
کو وضاحت کے ساتھ بتاتی ہے لہٰذا خیر کو اختیار کیجئے اور شرسے الگ رہیے۔
اﷲ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو حرمت کا درجہ دیا ہے ان میں سب سے فائق حرمت
مسلمان کی ہے توحید واخلاص کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو اﷲ نے مضبوطی سے
مربوط کردیاہے مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان محفوظ
رہیں۔ (ماخوذ: تذکرہ عشرۂ مبشرہ،ص؍۵۳) |
|