حکومت کی عوامی رابطہ مہم؟

سوال اٹھتے ہیں، اور اٹھائے بھی جاتے ہیں، اپوزیشن ہمیشہ سوال اٹھاتی رہتی ہے، مگر جب سوال اٹھانے والے خود وزیراعظم پاکستان ہوں تو سوال کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے قوم سے خطاب میں جہاں اپنی بہت صفائی دیں، خود کوا حتساب کے لئے پیش کیا، کمیشن بنانے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے کا اعلان کیا، وہاں بہت سے سوالات بھی کئے۔ کیا مخالفین الزامات ثابت نہ کرنے پر قوم سے معافی مانگیں گے؟ جب ایک آمر نے ایک منتخب حکومت کو ختم کیا تھا تو یہ لوگ سپریم کورٹ کیوں نہیں گئے؟ آئین توڑنے والوں کا احتساب کیوں نہیں ہوا؟ منتخب وزیراعظم کو کال کوٹھڑی میں ڈالا گیا ، ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ وزیراعظم کے سوالات میں ہی جوابات بھی پوشیدہ ہیں۔ وزیراعظم خوب جانتے ہیں کہ جب کسی ایک وزیراعظم کو اقتدار سے ہٹایا جاتا ہے تو مخالفین کی دراصل دیرینہ خواہش پوری ہو رہی ہوتی ہے، وہ تو خود یہی چاہتے ہیں۔ فوجی آمریت کہ حمایت میں دوسروں کو گلہ دینے سے قبل یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ کیا کبھی ہم نے خود تو یہ کام نہیں کیا ؟ اگر خود سیاست کا سفر بھی ایک فوجی حکمران کی انگلی پکڑ کر شروع کیا تھا، تو دوسروں پر اعتراض اچھا نہیں لگتا۔

میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں قوم کو یہ بھی بتایا کہ میں کسی سے ڈرتا نہیں، قوم اس سے قبل یہ جملہ بھٹو اور مشرف کی زبان سے سن چکی تھی۔ کسی کی کرسی مضبوط تھی تو کسی کو طاقت کا زعم تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ آخر کار طاقت اپنے انجام کو پہنچی۔ جہاں تک میاں صاحب کی جلاوطنی کا تعلق ہے تو یہ ایک معاہدے کے تحت عمل میں آئی تھی، اگر جلاوطنی زبردستی ہوئی تھی تو سعودی عرب سالہاسال رہنے کے باوجود مشرف کے خلاف ایک جملہ بھی ادا نہ کرنے کا مطلب کیا تھا؟ انہوں نے سعودی عرب پہنچتے ہی صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں کی؟ انہوں نے کیوں پاکستانی میڈیا کو باور کروایا کہ انہیں زبردستی باہر پھینکا گیا ہے؟ بلکہ ہوا یہ کہ وہ ایک عرصہ تک خاموشی اختیار کئے بیٹھے رہے۔ اور جب معاہدہ اپنے انجام کے قریب پہنچا تو انہوں نے حرکت کرنا شروع کی۔ اور اہم ترین سوال یہ کہ آئین توڑنے والے فوجی ڈکٹیٹر کو آپ نے اپنے تین سالہ موجودہ اقتدار میں کونسی سزا دلوا دی؟ اگر یہ کام کسی اور حکومت نے نہیں کیا تو یہ بات قابلِ اعتراض تھی، مگر آپ کی اپنی حکومت نے بھی اس ضمن میں کوئی قدم نہیں اٹھایا، بلکہ موصوف کو ’غداری‘ وغیرہ کے مقدمات میں جیل تک جانے کی نوبت نہیں آئی، صرف نظر بندی سے کام چل گیا، حتیٰ کی ٹی وی چینلز پر کھل کر بات چیت کرنے اور سیاسی تبصرے کرنے میں بھی انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اور آخر کار جب وہ گزشتہ دنوں ملک سے باہر چلے گئے تو حکومت نے پرانے احسان کا بدلہ یہی اتارنا مناسب جانا کہ انہیں محفوظ راستہ دیا جائے۔

اتوار کے روز تین اہم سیاسی جماعتوں نے سیاسی قوت کا مظاہر ہ کرنے کا فیصلہ کیا ، تحریک انصاف اسلام آبا د میں رونق افروز ہوئی، لاہور میں جماعت اسلامی نے کرپشن کے خلاف اپنی مہم میں رنگ بھرنے کے لئے دھرنا دیا اور کراچی میں نومولود پاک سر زمین پارٹی نے اپنی طاقت کا پہلا مظاہرہ کیا۔ اپوزیشن کے پاس اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے اسی قسم کی مصروفیات ہوا کرتی ہیں، کبھی ممبر شپ شروع کردی، کبھی کوئی مہم چلا دی، کبھی کسی بات پر احتجاج کر لیا اور کبھی کارکنوں کی تربیت کا اہتمام کرلیا۔ مگر جب حکومت بھی سیاسی پارٹیوں کی طرح جلسے کرنے پر اتر آئے تو جان لیجئے کہ دال میں کچھ کالاہے۔ اب سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کو دیکھ کر حکومت نے بھی جلسوں کا اعلان کردیا ہے، اب حکمران اپنی کارکردگی اپنے عمل سے نہیں، اپنے نعروں سے ظاہر کریں گے، اب وہ جلسوں میں عوامی زبان بولیں گے، دوسروں کو للکاریں گے، چیخیں گے، دھاڑیں گے۔ کارکن نعرے لگائیں گے، لیڈروں کو سر پر بٹھائیں گے۔ حکمرانوں کا یہ کام نہیں، وہ حکومت کریں، ان کو تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی اور بنیادی سہولتیں دیں، ان کی جان مال کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائیں، عوام کو میٹرو بسیں اور اورنج لائن ٹرین بھی دیں، ساتھ ہی ساتھ بجلی کی فکر بھی کرلیں۔ حکمرانوں کا عوام میں جانے کا فیصلہ اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اب ممکن ہے کہ کچھ لوگوں سے ان کے حکمران ہاتھ بھی ملالیں، کچھ لوگوں کو اپنے حکمرانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی مل جائے۔ مگر اس پوری سرگرمی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عوامی رابطہ دراصل الیکشن مہم ہی ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 507191 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.