پیٹ سے اور دل سے محبت

مورخ جب تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو اس کے سامنے عجیب منظر ہوگا ۔ جب پاکستان کو لوٹنے والے اور پاکستان سے محبت کرنے والے ایک ہی دور میں رہتے تھے۔ ادھر ۱۹۷۱ء کے بعد کا ملک ہے جس کے سیاست کار اور حکمران ہیں ،جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے بچا کھچا حصہ لوٹ لیا ۔اس کے انگ انگ کو زخمی کیا اور اس کا لہو نچوڑ کر پی گئے۔ اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو بھول کر اس کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر لوٹا اور اس کے اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔جبکہ مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے پاکستانی چار دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان سے محبت کی سزا پا رہے ہیں ۔

پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس نظریے کے بر خلاف قومیتوں کو اہمیت دی ۔ کلمے کی بنیاد پر ایک رہنے کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر الگ الگ ٹولے تشکیل کر لیے ۔ اس میں دوسری رائے نہیں کہ بعض معاملات میں مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی تھی لیکن یہ سلسلہ تو بھارت کے ساتھ رہنے والے مغربی بنگال کے لوگوں کے ساتھ آج تک جاری ہے ۔ حیرت اس پر ہے کہ بھارت نے ہمارے بنگالی بھائیوں کو مغربی پاکستان سے متنفر کر کے ایک نئے ملک کی بنیاد رکھ دی پاکستان دو ٹکڑوں میں بٹ گیا اس کے باوجود وہاں کے بنگالی بھائی الگ نہیں ہوئے۔اس وقت بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا۔
’’ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ ‘‘

چار دہائیوں بعد بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس ڈھاکہ میں اس بات کا کھلم کھلا اعتراف کیا کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کا کردار تھا۔ انہیں اس بات پر فخر ہے ۔ انہوں نے دنیا کی اسلامی نظریاتی اور سب سے بڑی ریاست کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ۔ ہماری غفلت اور غیروں کی سازشوں سے پاکستان وہ ریاست نہ بن سکا جس کے لیے یہ قائم ہوا تھا۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۱ء تک اکثر وہ لوگ اقتدار میں رہے جن کی سوچ سیکولر اور لبرل تھی ۔ چنانچہ دو قومی نظریے کو یرغمال بنا لیاگیا اور دونوں حصوں کے لوگوں میں قربت کا احساس پیدا نہ ہو سکا ۔ دوریاں یہاں تک بڑھیں کہ دنیا کی بڑی اسلامی ریاست دو ٹکڑوں میں بٹ گئی ۔ دو قومی نظریہ اور اسلام سے محبت ہی وہ چیز تھی جس نے ۱۹۴۷ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست معرض وجود میں لائی ۔ یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ جب بھی ہم نے اسلامی اصولوں کا دامن چھوڑا ہمارے لیے زمین تنگ ہو کر رہ گئی ۔ اگر کسی ’’ دانش ور ‘‘ کو اس پر شک ہے تو ریاست مدینہ کی تشکیل سے خلافت عثمانیہ تک اسلام سے محبت اور ریاستوں کے استحکام دیکھ سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کہیں ریاست ناکام ہوتی ہے تو اسے اسلامی نظریے کی وجہ سے ناکام قرار دیا جاتا ہے جبکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا اس ریاست میں فی الواقعی اسلام کے نظام حیات کو پنپنے کا موقع بھی دیا گیا یا نہیں ۔ سقوط ڈھاکہ دراصل اسلام سے دوری اور لا تعلقی کا نتیجہ تھا۔ بنگالی بھائیوں کو ایک ہزار کلومیٹر دور مغربی پاکستان سے ملانے والا صرف ایک ہی رشتہ تھا اوروہ کلمے کا رشتہ ۔ جب ہم نے اﷲ سے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری چھوڑ دی تو دشمن نے ہماری صفوں میں گھس کر وار کیا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مشرقی پاکستان کو دشمن سے بچانے کے لیے پروفیسر غلام اعظم ، مطیع الرحمن نظامی ، عبدالقادر ملا ، صلاح الدین ، علی احسن مجاہد جیسے ہزاروں لوگ کھڑے ہو گئے ۔ انہوں نے پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے سے معدوم ہو جائے ۔ انہیں پس پردہ سازش کا اچھی طرح ادراک تھا۔ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ وہ حق پر تھے، سچے تھے انہیں بھارت کے خفیہ عزائم کی خبر تھی ۔ بھارت کی ایک بھرپور سازش کے نتیجے میں جب پاکستان دو لخت ہو گیا تو اس کا ساتھ دینے والے قابل گردن زدنی ٹھہرے ۔ دنیا کی وہ قوم جو صدیوں سے نا قابل شکست تھی جس کے لشکروں نے دنیا کے ہر خطے میں فتح کے پرچم لہرائے تھے۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو ناکامی کا شکار ہو گئی ۔ جن لوگوں نے ایک کلمے ایک قوم کے لیے قربانیاں دی تھیں وہ سونار بنگلہ کے پانیوں میں اکیلے رہ گئے اور مغربی پاکستان ایک بار پھر اقتدار و اختیا رکی جنگ میں گھس گیا ۔ وہ لوگ جو پاکستان کو توڑنے میں ملوث تھے وہ آج بھی اس ’’ مولوی ‘‘ کو منہ بھر کر گالی دیتے ہیں جس نے پاکستان کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ ان گالی نوازوں کی اقتدار و اختیار تک رسائی ہے اور وہ جب چاہتے ہیں یہ ثابت کرنے لگتے ہیں کہ مذہب کے نام پر ریاستیں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں اور یہ کہ بنگالی بھائیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ آج کتنے ’’ بنگالی ‘‘ پھانسی پا گئے ان دانش فروشوں کو کیوں برا نہیں لگتا ؟ان کے ماتھے پر کیوں پسینہ نہیں آتا؟

مطیع الرحمن نظامی کی شہادت اہل پاکستان کے لیے کئی سوال چھوڑ گئی ہے ۔ سری نگر کے سید علی گیلانی سات دہائیوں سے پاکستان کی محبت میں بے قرار ہیں ۔ وہ زندگی کے ستائیس برس بھارت کی جیلوں میں گزار چکے ۔ اسی برس کی عمر میں بھی ان کے لہجے میں گن گرج بھارتی ایوانوں میں لرزہ طاری کرتی ہے ۔ سید علی گیلانی اور ان کے ساتھی ریاست بھر میں بھارت کے باغی مانے جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کل کلاں خدا نخواستہ بھارت مزید جبر کے ذریعے کشمیر پر اپنا قبضہ پکا کر لیتا ہے ، خاکم بدھن سید علی گیلانی ، مسرت عالم ، میر واعظ عمر فاروق ، شبیر احمد شاہ اور پروفیسر عبدالغنی کو بھارت اس بغاوت کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دے تو یہ فرمائیے پھر کبھی کوئی پاکستان سے اس قدر محبت کا اظہار کر سکے گا ؟کیا تب بھی حکومت پاکستان ایسے ہی خاموش رہے گی جیسے آج ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ آج بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک سر اٹھار ہی ہے لیکن اس تحریک کے مقابل بہت ساری توانا آوازیں ہیں لاکھوں لوگ پاکستان کو ایک رکھنے کے لیے اپنے سر ہتھیلی پر رکھ کرچلتے ہیں ۔ خدا نخواستہ خاکم بدھن کل بلوچستان ایک ملک بن جاتا ہے تو میر ظفر ﷲ جمالی ، نصیر مینگل اور اس طرح کے دوسرے قائدین کو پھانسی دے دی جائے میاں نواز شریف ایسے ہی چپ رہیں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت انتقام میں پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں کو پھانسیاں دے رہی ہے تو اس ملک کی فوج نے پاکستان کی بقا کے لیے ہتھیار اٹھائے تھے کل بنگلہ دیشی حکومت ان کے لیے بھی پھانسیوں کا اعلان کر دے تو کیا ہم ان کو حسینہ واجد کے حوالے کر دیں گے؟

بے بسی اور لا تعلقی کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔پاکستان کے وفاداروں کے ساتھ بنگلہ دیشی حکومت کے اس سلوک پر ہمارے حکمران اور ادارے چند مذمتی جملوں سے آگے کیوں نہیں بڑھ سکے ؟ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد حکومت پاکستان کے ساتھ دونوں ملکوں میں اثاثوں کی تقسیم اور سزاؤں کے خاتمے کا باقاعدہ ایک معاہدہ موجود ہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان عالمی سطح پر طے شدہ اس معاہدے کے باوجود بنگلہ دیشی حکومت سے اس خلاف ورزی پر احتجاج کیوں نہیں کر سکی ؟بعض حکومتی نفس ہائے ناطقہ ’’ سفارتی آداب ‘‘ سکھاتے ہیں اور حوالے دے دے کر اپنی بزدلی اور کم ہمتی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کوئی انہیں یہ مشورہ نہیں دیتا کہ وہ توپوں ، میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کا استعمال کریں ۔ ریاستوں کی ایک غیرت اور حمیت ہوتی ہے ۔جس امریکا کے در دولت پر ہمارے حکمران سجدہ ریز رہتے ہیں اس سے اتنی تو گزارش کریں کہ وہ اپنی لونڈی اقوام متحدہ میں ہی آپ کی آواز بلند کرا دیں ۔ اگر خدا نخواستہ کل پاکستان میں مقیم اس وقت کے مجرموں کو بنگلہ دیش ٹھا کر لے گیا ہم کیا کریں گے؟ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ جب ریاست اور ریاست کے حکمران اتنے کمزور ہو جائیں تو بنگلہ دیش جیسا ملک بھی یہ ہمت کر کے دکھا سکتا ہے ۔

مورخ جب بھی تاریخ لکھنے بیٹھے گا اس کے سامنے یہ سوال ہوں گے ، یہ مناظر ہوں گے۔ پاکستان سے پیٹ سے اور دل سے محبت کرنے والوں کا ایک ہی دور ہوگا لیکن دونوں کے کردار الگ الگ ہوں گے۔
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 34029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.