امریکا بھارت گٹھ جوڑ ....پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی
(عابد محمود عزام, Karachi)
ان دنوں بھارت اور امریکا مل کر پاکستان کو
آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دورہ امریکا کے
دوران بھارت میں ہونے والی دہشتگردی کی ذمہ داری نام لیے بغیر پاکستان کے
سر ڈالی ہے، جبکہ امریکی صدر بارک اوباما نے پاکستان سے 2008 کے ممبئی اور
2016 کے پٹھانکوٹ حملے کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا کہا ہے۔
امریکا نے اپنے بیان میں بھارت کی خوشنودی کو مدنظر رکھااور خطے کے حقائق
کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکا کے لیے قربانیاں دینے والے قابل اعتماد حلیف
پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی ہے۔اس کے ساتھ بھارتی وزیراعظم
نریندر مودی نے واشنگٹن میں صدر بارک اوباما سے ملاقات میں دوطرفہ تعلقات
کو مضبوط کرنے اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں
ملکوں کے سربرہان نے سیکورٹی تعاون بڑھانے اور ایک دوسرے کے فوجی و دفاعی
نظام کو مشترکہ طور پر استعمال کے معاہدہ پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دفاعی
ماہرین کے مطابق امریکا اور بھارت کے ایک دوسرے کے فوجی اور دفاعی نظام کے
استعمال کے معاہدے کی صورت میں امریکا کی خطے میں مداخلت میں اضافہ ہو گا۔
وہ بھارت کے فوجی اڈے، سمندری اور فضائی حدود استعمال کر سکے گا اور اس کے
بدلے بھارت کو خطے میں اپنی چودھراہٹ دکھانے کا موقع ملے گا، جو نہ صرف
پاکستان کے لیے خطرے کا باعث ہے، بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے سے خالی نہیں
ہے۔ امریکی صدر نے میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ
میں بھارت کی شمولیت کی حمایت کی اور بھارت میں امریکی تعاون سے 6 جوہری ری
ایکٹروں پر کام کے آغاز کی بھی حمایت کی۔ 2014ءمیں وزیراعظم منتخب ہونے کے
بعد سے مودی کا امریکا کا یہ چوتھا دورہ ہے اور اس عرصے میں صدر اوباما سے
ان کی یہ ساتویں ملاقات تھی، جبکہ اس عرصے میں امریکی صدر اوباما بھی بھارت
کا دو دفعہ دورہ کر چکے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کا کوئی بھی دورہ امریکا
ناکام نہیں رہا، ہر دورے میں کچھ نہ کچھ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے۔
اس دفعہ انہوں نے دیگر معاملات میں امریکا کی کھلی حمایت کے ساتھ نیوکلیئر
سپلائرز گروپ میں بھارت کی شمولیت کی حمایت حاصل کی ہے، جو پاکستان اور چین
کے لیے خصوصاً قابل تشویش ہے۔ پاکستان اور بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ
کی رکنیت سے متعلق فیصلہ رواں ماہ کی 23 اور 24 تاریخ کو سیﺅل میں ایس این
جی کے اہم اجلاس میں کیا جائے گا۔ نیوکلئیر سپلائرزگروپ کا ممبر بننے کے
لیے بھارت کی جانب سے بڑے محاذ پر لابنگ کی گئی ہے۔ بھارتی وزیراعظم اس
مقصد کے حصول کے لیے 5 ملکی دورے پر ہیں جس میں انہوں نے سوئٹزرلینڈ،
امریکا اور میکسیکو کے دورے کیے اور تینوں ممالک نے انہیں گرین سگنل دے دیا
ہے، جبکہ پاکستان نے بھی نیوکلئیر سپلائرز گروپ کی ممبرشپ کے حصول کے لیے
اپنے دوست ممالک اور مغربی ممالک سے رابطہ کیا جہاں سے پاکستان کو تعاون کا
یقین دلایا گیا ہے۔ پاکستان نے جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ کو قائل کرلیا،
جب کہ سب سے اہم بات یہ کہ پہلی مرتبہ روس نے اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں
ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین کے علاوہ نیوزی لینڈ، آسٹریا، ترکی اور جنوبی
افریقا نے بھی بھارت کی ایس این جی میں شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ مبصرین کا
کہنا ہے کہ اگرچہ امریکا نے بھارت کی حمایت کی ہے، لیکن اگرپاکستان کو
نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت نہ ملی تو چین بھارت کو بھی اس کا ممبر
نہیں بننے دے گا اوربھارت کی قرارداد کو ویٹو کردے گا۔ اجلاس میں ممکنہ طور
پر امریکا بھارت کی حمایت کرے گا اوراگر امریکا نے بھارت کی حمایت کی تو
اسے کئی بارسوچنا ہوگا۔ مبصرین کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اجلاس
میں یا تو دونوں ممالک کو رکنیت ملے گی یا پھر کسی کوبھی نہیں، جب کہ ایسا
ہی معاملہ شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حصول کے معاملے پربھی دیکھنے کو
ملا تھا جب پاکستان اور بھارت دونوں نے ہی شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے
لیے لابنگ کی اور جب رکنیت ملنے کا معاملہ آیا تو دونوں ممالک کو اس کی
رکنیت دے دی گئی۔
امریکا کے بھارت کی بے جا حمایت کے بعد پاکستان نے امریکی رویے پر تشویش کا
اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ
امریکا کے ساتھ تعلقات غور طلب ہیں، کیونکہ امریکا ضرورت پڑنے پر ہمارے پاس
آتا ہے، مطلب نہ ہو تو ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ
اوباما کی بھارت کی بے جا حمایت سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ امریکا نے فرنٹ
لائن اتحادی کی حیثیت سے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں پاکستان کے کردار
اور اس کی قربانیوں کو یکسر فراموش کرکے اپنا پورا وزن پاکستان کے ازلی
دشمن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے، اس لیے امریکا کی بھارت نوازی درحقیقت
پاکستان کے ساتھ دشمنی سے ہی تعبیر ہوگی، لیکن امریکا کو سوچنا چاہیے کہ
بھارت کے ہمسایہ ملکوں سے تنازعات چل رہے ہیں۔ اس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ
جما رکھا ہے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ڈھکی چھپی نہیں،
پاکستان کے دریاﺅں کا پانی غصب کر رہا ہے۔ اس کے جارحانہ عزائم کسی سے مخفی
نہیں۔ اس کی دفاع کے نام پر تمام تر جنگی تیاریاں، پاکستان کے خلاف سراً
اور چین کے خلاف اعلانیہ ہیں۔ ان حالات میں اگر اسے این ایس جی کی رکنیت دی
گئی تو یہ خطے میں طاقت کے عدم توازن کو مزید بگاڑنے کے مترادف ہو گا۔
امریکی پالیسی سازوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ امریکا کا بھارت
کی جانب حد سے زیادہ جھکاﺅ برصغیر کے امن کے لیے ضرب کاری ثابت ہو سکتا ہے۔
بھارت خطے کا چودھری بننے کے لیے جارحانہ پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے، لیکن
بھارت کو جنگی جنون سے روکنے کی بجائے بھارت و امریکا ضرورت پڑنے پر ایک
دوسرے کے فوجی نظام کے استعمال کی باتیں کر رہے ہیں، اس کا صاف مطلب یہ ہے
کہ امریکا خود بھارت کو تھپکی دے رہا ہے اور امریکا کا یہ دوغلا رویہ سراسر
خطے کے لیے نقصان دہ ہے۔ حیرت ہے کہ ایک طرف صدر اوباما کی بھارت پر
نوازشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا اور دوسری طرف امریکا پاکستان کو ہی
آنکھیں دکھا رہا ہے، حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا
کردار ادا کیا اور امریکا کی جنگ میں چالیس ہزار سے زیادہ پاکستانی قربان
کردیے لیکن امریکا آج ایٹمی ٹیکنالوجی اور جدید ایٹمی ہتھیاروں کی وسعت کے
لیے ہمارے اس ازلی دشمن بھارت کی سرپرستی کررہا ہے اور اعلانیہ اپنا وزن اس
کے پلڑے میں ڈال رہا ہے جس نے شروع دن سے ہماری آزادی اور خودمحتاری کو
قبول نہیں کیا اور وہ ہم پر تین جنگیں مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں سقوط
ڈھاکا کے سانحہ سے دوچار کرکے دولخت بھی کرچکا ہے۔ آج بھی وہ ہماری سلامتی
کے درپے ہے اور اپنے ایٹمی پروگرام کو وسعت دے کر ہماری ہی نہیں، علاقائی
اور عالمی امن و سلامتی کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے، اس کے باوجود
امریکا کا اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا اعلانیہ ساتھ دینادرحقیقت ہماری
سلامتی کے خلاف بھارتی مکروہ سازشوں کو ہی تقویت پہنچا رہا ہے۔ ہمیں اس کے
معاملے میں بھی ایسی ہی پالیسی اپنانا ہوگی، جو ہماری سلامتی کو چیلنج کرنے
والوں کے لیے اختیار کی جانی چاہیے۔ آج ہمیں جہاں بھارت کے ساتھ تعلقات کی
پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے، وہیں امریکا کے ساتھ تعلقات والی اپنی
پالیسی کو بھی ملکی اور قومی مفادات سے ہم آہنگ کرلینا چاہیے۔
امریکا بھارت گٹھ جوڑ کے مستقبل میں پاکستان پر پڑنے والے اثرات کو مدنظر
رکھتے ہوئے پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادتوں کے مشترکا اجلاس میں امریکا
بھارت گٹھ جوڑ کے تناظر میں ہی بیرونی معاندانہ عزائم کو ناکام بنانے اور
ہر قیمت پر قومی مفادات کا تحفظ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اب اس
اظہار کو محض زبانی جمع خرچ تک نہیں رہنا چاہیے، بلکہ حالات کی مناسبت سے
نئی قومی خارجہ پالیسی مرتب کرکے اسے فوری طور پر لاگو بھی کر دینا چاہیے
اور ساتھ ہی ساتھ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ختم کرنے کا بھی اعلان
کرنا چاہیے۔امریکا کبھی ہمارا دوست اور مخلص نہیں رہا، اس نے ہر مشکل گھڑی
میں ہماری معاونت کی بجائے ہمیں دھوکا ہی دیا ہے۔ ایف سولہ طیاروں کے
معاملے سے لے کر پاکستان کے دشمن بھارت کی بے جا حمایت تک ہر معاملے میں
پاکستان کو نقصان پہنچانے کی پالیسی اختیار کی ہے، جبکہ ہم نے اس کا فرنٹ
لائن اتحادی ہونے کے ناطے اپنی سلامتی اور خودمختاری کے منافی اس کے ڈرون
حملے بھی برداشت کیے، مگر امریکا نے ہماری قربانیوں کی قدر کرنے کی بجائے
بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کردیں۔
امریکا اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے بعد پاکستان کو حالات کا ادراک کرتے ہوئے
مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، کیونکہ بھارت کی شاطرانہ سوچ اور
پالیسیاں کامیابی کے ساتھ پاکستان کو خطے میں نہ صرف تنہا کررہی ہیں،بلکہ
پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ ،ایران کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات
اور بھاری سرمایہ کاری اور افغانستان کے مختلف ترقیاتی منصوبوں میں اس کی
شرکت اور افغان معدنی وسائل پر کنٹرول اس کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ریاستوں
سے اس کے تجارتی اقتصادی سمجھوتے اس کا بین ثبوت ہیں اور دونوں ملکوں کے
لیے الارمنگ صورتحال پیدا کرتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے
انتہائی مہارت سے ایک طرف امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے ہیں، جبکہ دوسری
جانب افغانستان و ایران کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ بنگلا دیش تو
پہلے ہی بھارت نوازی میں بہت آگے جاچکا ہے۔ یہ تمامممالک پاکستان بارے اچھے
جذبات نہیں رکھتے اور اس طرح پاکستان ازلی دشمن بھارت سمیت مختلف ممالک کے
درمیان میں پھنس چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی سرکار وزیر عظم بننے کے
محض چند سال بعد ہی مختلف ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے پاکستان کے
خلاف گٹھ جوڑ کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے، لیکن دوسری طرف پاکستان حکومت تمام
حالات سے بے خبر دکھائی دیتی ہے۔ مودی سرکار کی کامیاب خارجہ پالیسی مستقبل
میں پاکستان کے لیے کئی مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔ اگر پاکستان نے سنجیدگی سے
حالات پر غور نہ کیا اورمضبوط خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا میں خود کو نہ
منوایا تو حالات مزید گھمبیر ہوسکتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان
میں ابھی تک کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے، ان حالات میں وزیر خارجہ کا ہونا
ازحد ضروری ہے، بصورت دیگرحالات پاکستان کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔
|
|