اسد ممتاز
اسکول کا دور تھا، ہم تیسری جماعت کے طالب علم تھے۔ مجھ سمیت دیگر کئی
دوستوں کے لیے ایک چیز ایسی تھی جس کا ڈر ہمیں سب سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔
سال کے کسی ایک دن جب ہمارے کانوں میں " ویکسی نیشن " کا لفظ پڑتا تو ہر
کوئی اپنے آپ کو اْس بھیانک ٹیکے سے بچانے کی تگ و دو میں لگ جاتا۔
اس لا حاصل سی جستجو کے بعد ہم پردے کے پیچھے سے آنے والے ہر مظلوم دوست کا
چہرہ دیکھتے اور اندازہ لگاتے کہ ٹیکہ بازو میں لگا ہے یا کہیں اور!
پہلی صورت میں تو بچت ہوجایا کرتی تھی لیکن دوسری صورت میں دوستوں سے بہت "
کِٹ " لگا کرتی تھی۔
ٹیکے کی اس لیے یاد آئی کہ آزادکشمیر میں ویکسی نیشن کا وقت بھی قب قریب ہے
اور تاریخ بھی 21جولائی کی پڑ چکی۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے ٹیکے اور
سرنجیں لیکر تیاری میں مصروف ہیں۔ کسی کا ٹیکہ تین سی سی کا ہے تو کسی نے
اس دفعہ عوام کو چھ سی سی کا ٹیکہ لگانے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ تمام پارٹیوں
کی دوائی کا رنگ اور ذائقہ الگ الگ ہے لیکن کمپوزیشن ایک ہی ہے۔ اسکول کے
بچوں سے متضاد ، عوام بھی بڑھ چڑھ کر ٹیکہ لگوانے کی تیاری میں مصروف ہیں
اور پر امید ہیں کہ اس دفعہ ٹیکے میں نیند کی دوا کی جگہ شاید اصل دوا ہو
جو اثر دکھائے اور ان کی تقدیر بدل جائے۔ اس دوران پانچ سال سے بے یار و
مددگار پڑے ووٹرز کو ہمیشہ کی طرح سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔ سڑکوں کے منہ
کالے کیے جا رہے ہیں۔ کسی اسپتال کا دوسری تیسری دفعہ افتتاح کیا جا رہا ہے
تو کہیں سالوں پرانے مکمل کیے گئے منصوبوں کے پرانے بورڈ ہٹا کر نئے چمکدار
بورڈ لگائے جارہے ہیں۔
نوکریوں اور تبادلوں پر ایمان بیچنے والوں سے جب الیکشن کے بعد سوال کیا
جاتا ہے تو ان کی مظلومیت دیکھ کر رونا آتا ہے۔ عموما ً حکمرانوں کو کرپٹ
اور بے ایمان قرار دے کر اپنا پلو جھاڑ دیا جاتا ہے۔لیکن جناب ! یا، تو آپ
بھی اس کرپشن میں شامل ہیں یا آپ خاموش ہیں۔ دونوں صورتوں میں آپ بھی
قصوروار ہیں۔اس سب میں ہم عوام کا قصور یہ بھی ہے کہ ہم نے لفظ سیاست کو
کرپشن ، جھوٹ اور دھوکے کی حدود میں قید کر دیا ہے۔ جب کہ سیاست کا اصل
مطلب عوامی امور کی مناسب دیکھ بھال ہے جو تقریباً تمام نبیوں کی سنت رہی
ہے اور ہم اسے ترک کر بیٹھے ہیں۔ ہماری اسی کوتاہی کی بدولت یہ مفادپرست
سیاسی ٹولا آج ہم پر رائج ہے۔
یہ کوتاہی ہماری لاعلمی نہیں لا پرواہی کی وجہ سے ہے۔ گزشتہ دنوں کیے گئے
ایک تعلیمی سروے کے مطابق اسلام آباد کے بعد آزادکشمیر تعلیمی کارکردگی میں
پاکستان کے تمام علاقوں سے آگے ہے مگر افسوس کہ سہولیات اور ترقی کے لحاظ
سے سب سے پیچھے۔یہ درست ہے کہ ہمیں اک متنازہ خطہ بنا کر ہمیشہ سے نظر
اندار کیا جاتا رہا مگر اس میں ہمارے ہی مفاد پرست لوگ جنہیں سابقہ و
موجودہ حکمران کہتے شرم محسوح ہو رہی ہے، برابر کے شریک ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر کو جنتِ نظیر اور پاکستان کی شہ رگ تو کہا جاتا ہے مگر
اس کے ٹورزم پوٹینشل کو مکمل طور پہ ضایع کیا جاتا رہا اور کیا جارہا ہے ؟
زرداریوں ، نوازوں اور دیگر کے ٹکٹوں سے جیتنے والے آزادکشمیر کی ٹورزم پہ
لاہور اور اسلام آبا میٹرو جتنی انویسٹمینٹ تک نہیں کروا سکتے۔ آزادکشمیر
کی ٹورزم پر اگر انویسٹ کیا جائے،بہتر سڑکیں بنا دی جائیں تو شاید یہ ریاست
خودکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی ٹورزم کا مرکز بھی بن جائے۔مگر ٹورزم تو
دور یہاں شہر سے دور تعلیم اور بنیادی سہولیات جیسے پانی اور بجلی نایاب ہو
جاتی ہے۔ شائد کشمیر پانی اور بجلی کا مطلب پورا ہونے تک ہی پاکستان کی شہ
رگ ہے۔
ریاستی بجٹ ، اس کے استعمال اور تعمیر و ترقی میں بھارتی زیرِانتظام کشمیر
کی زبانِ زدِ عام کٹھ پتلی حکومت بھی ہم سے زیادہ با اختیار ہے۔آزادکشمیر
میں وزارتوں کے لیے لڑنے اور مرنے والوں کو میرا مشورہ ہے کہ پاکستان کی
قومی اسمبلی سے ایک بار قسمت آزمائی ضرور کریں کیونکہ اگر آپ اْس اسمبلی کے
وزیر بھی بن جائیں تو کشمیر کا ڈمی وزیرِ اعظم آپکو جھک کر سلام کرے گا۔
|