داعش کے مقابل امریکہ کی کارکردگی

شروع میں داعش کوامریکہ کے لئے کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد امریکہ نے یہ فیصلہ کیا کہ داعش کے وحشی قاتلوں کو جو بہیمیت کی کوئی حد وحدود کے قائل نہیں ہیں لگام لگائے۔
عراق میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف امریکہ کی کارکردگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وائٹ ہاوس نے حالات کے لحاظ سے اس گروہ کے تعلق سے اپنا موقف بدلا ہے اور ایک طرح سے داعش کے خلاف ٹیکٹیکل پالیسیاں اپنائی ہیں۔ جون دوہزار چودہ میں جب سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش نے عراق کے شمالی صوبے نینوا کے صدر مقام موصل پر قبضہ کیا تھا امریکہ نے اس کے مقابل مختلف طرح کی ٹیکٹیکس اپنائی ہیں۔ شروع میں داعش کوامریکہ کے لئے کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد امریکہ نے یہ فیصلہ کیا کہ داعش کے وحشی قاتلوں کو جو بہیمیت کی کوئی حد وحدود کے قائل نہیں ہیں لگام لگائے۔ امریکہ کی سربراہی میں داعش مخالف اتحاد کی تشکیل بھی خاص وقت پر امریکہ کی ایک ٹیکٹیک تھی۔ اس اتحاد کی کارکردگی سے صاف ظاہر ہے کہ اس نے دہشتگردی کے خلاف سنجیدگی سے عمل نہیں کیا ہے بلکہ امتیازی رویہ اختیار کرکے داعش کے تازہ دم ہونے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ امریکی اتحاد کی جانب سے موصل میں داعش کے حساس مراکز کو نشانہ بنانے میں بے توجہی یا تاخیر اس بات کا سبب بنی کہ یہ دہشتگرد گروہ کیمیاوی ہتھیار استعمال کرے حتی کہ ایٹمی سکیورٹی کے لئے بھی خطرہ پیدا کردے۔ امریکی صدر اوباما نے واشنگٹن میں حالیہ ایٹمی سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر اسی سلسلے میں خبردار کیا تھا۔ اوباما نے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے جنونیوں کے ایٹمی خطرے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے ایٹمی سیکورٹی کو مضبوط بنانے کے لئے بہتر تعاون کی درخواست کی۔

داعش کے جنونیوں کے ممکنہ ایٹمی حملوں کے بارے میں امریکی صدر کی تشویش کا براہ راست تعلق وائٹ ہاوس کی کارکردگی سے ہے، داعش کے خلاف امریکہ کی ٹیکٹیکل پالیسیوں سے ہی داعش کے وحشی قاتلوں کو کیمیاوی ہتھیاروں سے حملہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ اوباما کی تشویش کے پیش نظر کہا جارہا ہےکہ امریکہ نے دو برسوں کی تاخیر سے موصل میں داعش کے حساس فوجی اور کیمیاوی مراکز پر بمباری کی ہے۔ اسی تناظر میں رشیا ٹوڈے نے اتوار کو اپنی رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ دوہزار چودہ میں موصل پر داعش کے قبضے کےبعد عراقی حکام نے بارہا عالمی برادری کو خبردار کیا تھا کہ داعش، موصل یونیورسٹی کی ایٹمی اور کیمیاوی لیباریٹریوں پر بھی قبضہ کرسکتا ہے لیکن امریکہ کے اتحاد نے دو برسوں کی تاخیر سے ان تنصیبات کو حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ رشیا ٹوڈے کے صحافی نے اس تاخیر کی وجوہات جاننے کے لئے امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ایلیزابتھ ٹروڈو سے کچھ سوالات پوچھے لیکن انہوں نے ان سوالوں کا جواب دینے سے انکار کردیا۔

گلوبل ریسرچ ویب سائیٹ نے بھی ایک رپورٹ میں داعش کے خلاف امریکہ کی جنگ کے بارے میں لکھا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف امریکی صدر کی جنگ بالخصوص داعشی دہشتگردی کے خلاف ان کی جنگ بھرپور طرح سے دکھاوا ہے۔ وال اسٹریٹ جورنل نے بھی کچھ ایسے ثبوت پیش کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ داعش ایٹم بم بنانے کےلئے موصل یونیورسٹی کی ایٹمی لیباریٹری سے استفادہ کررہا ہے۔ ایک عراقی عھدیدار کے مطابق موصل یونیورسٹی کی ایٹمی لیباریٹری دنیا میں داعش کا بہترین تحقیقاتی مرکز تھا، رشیا ٹوڈے کے مطابق موصولہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس لیباریٹری میں تقریبا چالیس کیلو یورینیم دہشتگردوں کے ہاتھوں لگ چکا ہے۔ موصل یونیورسٹی کی ایٹمی لیباریٹری پر داعش کے قبضہ کے بعد داعش کو ایٹم بم بنانے کی توانائی حاصل ہوگئی ہے اور کہا جارہا ہےکہ داعش نے اس لیباریٹری میں بنائے ہوئے بموں سے برسلز کے حالیہ حملوں میں استفادہ کیا ہے۔ داعش کے مقابل امریکہ کی ٹیکٹیکل پالیسیوں سے اس وقت ہر پالیسی سے زیادہ ایٹمی سیکورٹی کو خطرے لاحق ہیں۔ واشنگٹن نے جہاں ضروری جانا اپنی ٹیکٹیکل پالیسی میں تبدیلی پیدا کی تا کہ یہ ظاہر کرسکے یہ وہ بھی دوسروں کی طرح داعش کے خطرے سے تشویش میں مبتلا ہے۔
محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 75546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.