طعنے لندن اور دبئی کے!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
سندھ اسمبلی میں گزشتہ روز ہنگامہ
ہوگیا، یہ تو کوئی نئی بات نہیں تھی، کیونکہ وہاں یہ کچھ آئے روز ہوتا
ہے،تازہ ہنگامے کی وجہ منی لانڈرنگ بنی، لندن میں بیٹھی قیادت کی بات ہوئی،
دبئی میں بیٹھی دوسری قیادت کی بات ہوئی، یوں پی پی اور ایم کیوایم والے
آپس میں الجھ پڑے، بات صرف زبان تک ہی نہیں رہی، نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ
گئی، معزز ارکان دست وگریباں ہوگئے۔ وزراء اور اپوزیشن لیڈر نے بیچ بچاؤ
کرانے کی کوشش کی، ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا۔ اس منظر کو
یقینا بہت سے ارکان نے ایک مزاحیہ پروگرام کے طور پر دیکھا ہوگا، ٹی وی پر
یہ منظر دیکھنے والوں کی اکثریت تو اس سے لطف اندوز ہی ہوئی، لوگوں نے اس
اقدام سے اپنے نمائندوں کیاصل پوزیشن اور بصیرت کا اندازہ بھی لگایا۔ تاہم
جن لوگوں کے قائدین کا ذکر ہورہا تھا وہ کسی حد تک جذباتی ضرور ہونگے، وہ
دھکم پیل اور دست و گریباں ہونے والوں میں سے اپنے حامیوں کے ساتھ ہونگے۔
یہ ساری ہنگامہ آرائی ممبران نے اپنے قائدین سے محبت میں کی۔ قیادت سے محبت
فطری بات ہے، خاص طور پر اپنے ہاں جمہوریت تو نام ہی قائدین کا ہے، ہر کسی
کی اپنی پارٹی ہے، جو اُس پارٹی میں ہے، وہ یقینا اپنے قائد کا مخلص یا
محتاج ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنے قائد سے کم اخلاص
افورڈ ہی نہیں کرتے۔
اسمبلی میں وجہ اس مستقل ٹکراؤ کی یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں مختلف تہذیبوں
کے لوگ جمع ہیں، ایک طرف سندھ کی قدیم تہذیب کے لوگ ہیں تو دوسری طرف
ہندوستان سے آئے ہوئے اردو بولنے والے تھے، جو سندھ کے شہروں میں آباد
ہوگئے، ان کی تہذیب بالکل مختلف تھی، پھر کراچی کے صنعتی ، تجارتی شہر ہونے
کے ناطے یہاں پنجابی، بلوچ اور پختون بھائی بھی بہت زیادہ آئے، وہ بھی اپنے
اپنے رسوم ورواج اور کلچر کے ساتھ کراچی میں موجود ہیں۔ کراچی کو ان سب
لوگوں نے مل کر پاکستان کا سب سے بڑا شہر بنا دیا، مگر بدقسمتی سے ان کی
تہذیبوں میں کھڑی دیواریں نہیں گرائی جاسکیں، یہ ممکن تھا کہ اپنے اپنے
دائرے میں رہتے ہوئے یہ لوگ سندھی بھی رہتے اور پاکستانی بھی ہوتے، مہاجر
یا دوسری قوم ہونا کوئی جرم نہیں، مگر پہلے پاکستانی پھر اپنی تہذیب۔ اپنے
اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ پاکستان سے
محبت نہیں کرتے، یا پہلے یہ اپنی قومیت پر ہیں بعد میں پاکستانی۔ مگر یہ
بھی حقیقت ہے کہ یہ لوگ آپس میں کبھی شیر وشکر نہیں ہوسکے، الگ تشخص قائم
رکھنا بہت اچھی بات ہے، مگر یہاں یہ تشخص تعصب کی صورت اختیار کر جاتا ہے،
جس کی وجہ سے اکثر نوبت ٹکراؤ تک رہتی ہے۔ اگر معاملہ تہذیبوں کا نہ بھی ہو
تو بھی اپنی سیاست میں اس قدر تلخی ہے کہ دوسرے کو برداشت کرنے کا تصور
دھندلایا ہوا ہی ہے۔
جس وجہ سے سندھ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی وہ کسی دلچسپی سے کم نہیں،
حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ایک دوسرے کو قیادت کے طعنے دیئے، کسی کی قیادت
لندن میں ہے تو کسی کی دبئی میں۔ اسے اپنی بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ
قیادتیں باہر بیٹھ کر ملک چلا رہی ہیں۔ ایم کیوایم کی قیادت عشروں سے لندن
میں قیام پذیر ہے، وہیں سے ڈوری ہلتی اور کنٹرول سنبھالا جاتا ہے، اُن کے
اشارے کے بغیر پتہ نہیں ہلتا۔ لندن کی قیادت پر کیا الزامات ہیں، کیا
معاملات ہیں، کہ وہ پاکستان نہیں آتے، مگر حکومت چلاتے ہیں، سندھ کے گورنر
نے پاکستان میں طویل مدت کا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ اسی طرح پی پی کی مرکزی
قیادت سابق صدر آصف زرداری بھی لندن اور دبئی میں ہی زیادہ وقت گزارتے ہیں،
وہیں سے ہدایات ملتی ہیں۔ان دونوں پارٹیوں کی ہی بات نہیں، خود پاکستان کے
وزیراعظم میاں نواز شریف بھی بیمار پڑے تو لندن سے ہی ویڈیو لنک کے ذریعے
اہم اجلاس کی صدارت کی، اب بھی اہم حکومتی شخصیات عیادت کو جواز بنا کر
لندن جاتی ہیں اور بریفنگ دیتی اور ہدایات لیتی ہیں۔ اسی دوران پنجاب کے
وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے بھی کئی روز تک لندن میں بیٹھ کر ہی صوبے کا
انتظام و انصرام چلایا۔ یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں، لندن سے اپنی بہت
پرانی شناسائی ہے، ہمارے ملک کی ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک ڈوریاں لندن سے
ہی ہلتی رہی ہیں، اب بھی اگر پرانی ڈگر پر اپنی قیادتیں لندن بیٹھی ہیں، یا
معاملات وہاں سے کنٹرول ہوتے ہیں، تو کوئی حیرانی یا پریشانی کی بات نہیں،
اس بات کو طعنہ نہیں جاننا چاہیے، بلکہ انگریز حکومت کا تسلسل جان کر صبر
کرلینا چاہیے، کیونکہ اب بھی ہم گورے نہیں کالے انگریز کے غلام ہیں۔ |
|