انعام احمد صدیقی۔ شریف النفس انسان

انعام احمد صدیقی

دنیا فانی ہے، جو دنیا میں آیا ہے اُسے موت کا مزاہ لازمی چکھنا ہے۔یعنی ہر چیزکو فنا ہونا ہے سوائے خدا کی ذات کے۔اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک کی موت کا وقت بھی مقرر کر رکھا ہے جو اٹل ہے، بڑے سے بڑے ،طاقت ور سے طاقت ور کو بھی یہ طاقت نہیں کہ وہ خدا کے حکم کے بغیر مر جائے یا زندہ رہے ،موت پرایمان اور یقین کامل ہونے کے باوجود بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی موت کا یقین نہیں آتا،ان کی یادیں برسو ں ساتھ رہتی ہیں ۔ایسی ہی ایک شخصیت انعام احمد صدیقی کی بھی تھی ۔ نفیس ، ملنسار، کم گو لیکن گفتگو میں برد باری اور علمیت کا اظہارنمایاں تھا۔16 مارچ 2016ء کو اَسی سال کی عمر میں آناً فاناً دنیا کو چھوڑ چھاڑ وہاں بسیرا کیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ ان کی محبت آمیز گفتگو، صلح جوئی، شفقت آمیزی، عاجزی، انکساری ، حسنِ اخلاق اور اخلاص کے سحرِ سے نکلنا مشکل امر ہے ۔ کسی شاعر نے کیا
خوب کہا ؂
ایک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا

انعام احمد صدیقی صاحب سے میرے تعلقات کے متعدد پہلو تھے۔ عمر میں فرق ہونے کے باوجود ہمارے مابین دوستانہ مراسم تھے۔ وہ مجھے رئیس اور مَیں انہیں انعام بھائی کہا کرتا تھا۔ خاندانی معاملات کے علاوہ خاندانی انجمن ’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن‘ میں وہ ہمیشہ فعال رہے مجھ سمیت خاندان کے دیگر لوگوں کو فعال ہونے کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ انہیں یہ علم تھا کی میرا قلم و قرطاس سے تعلق ہے،کچھ لکھ لیا کرتا ہوں ، کافی عرصہ قبل انہوں نے مجھے خاندان کی تاریخ لکھنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ میں نے بارہا کہا کہ یہ ممکن تو ہے لیکن خاندان اور خاندان کی انجمن میں مجھ سے زیادہ قابل اور لکھنے والے لوگ موجود ہیں ،بہتر ہے کہ وہ یہ کام انجام دیں، حقیقت یہ ہے کہ میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہا ، وہ عام طور پر ہر پندرہ دن میں ایک بار مجھے ضرور فون کر کے معلوم کیا کرتے کہ کام کہاں تک پہنچا ، میں اِدھر اَدھر کی باتیں کر کے انہیں ٹال دیا کرتا تھا۔ اس حوالے سے میری رہنمائی کے لیے ایک خاکہ بھی تیار کر کے مجھے دیا جو دراصل مجوزہ کتاب کے مضامین کی فہرست ہے۔اب سوچتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ میں نے ان کی خواہش کو ان کی زندگی ہی میں پورا کیوں نہ کیا۔اگر یہ کام مجھ سے نہ ہوسکا اور آثار کچھ ایسے ہی ہیں تو اﷲ کے گھر جب آمنا سامنا ہوگا تو میں ان کا کیسے سامنا کرونگا۔

انعام بھائی سے اپنی پہلی باقاعدہ ملاقات جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے صحیح تاریخ تو ٹھیک یاد نہیں میں نے جب انٹرمیڈیٹ کا امتحان1968میں پاس کر لیاتھا ، پڑھنے لکھنے میں سو سو ہی تھا ، میٹرک کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا تھا کہ سائنس پڑھنا ہمارے بس کی بات نہیں، میٹرک سائنس کے مضامین کے ساتھ بہ مشکل تمام پاس کیا، بلاوجہ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنی اوقات میں رہے، ہرکوئی تو ڈاکٹر، انجینئر یا سائنسداں نہیں بنتا، سی ایس ایس آفیسر آرٹس پڑھ کر عوام پر حکومت کیاکرتے ہیں، استاد کا مرتبہ و مقام سب پرعیاں ہے، دیگر پیشے بھی بہ عزت اور معتبر ہیں۔ چنانچہ ہم نے معاشیات کے ساتھ آرٹس لے لی ، کامرس ہمارے مزاج سے لگا نہیں کھاتی تھی۔ حساب کتاب سے رغبت ہی نہیں تھی، غالبؔ کو بھی ریاضی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ خواہش بنکر بننے کا تھا، اُس زمانے میں بنک کی نوکری کا بہت چرچا اور چارم تھا۔ چنانچہ انٹر کرنے کے بعد مناسب جانا کہ کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کر لی جائے ساتھ ہی شام کے کالج میں داخلہ لے کر پڑھائی جاری رکھی جائے۔ حصول ملازمت کے لیے صاحبِ اختیار،ردولت کے اعتبار سے نہیں بلکہ عہدے اور مرتبے کے اعتبار سے مراد ہے ساتھ ہی ایسے لوگ جودوسروں کے کام آنے والے ہوں کی جانب دیکھا جاتا تھا آج بھی یہی صورت حال ہے ۔ جب ایسے لوگوں پر نظر دوڑائی جو اس حوالے سے ہمارے کام آسکتے تھے تو اُن میں ایک شخصیت انعام احمد صدیقی کی بھی نظرآئی جو اُس وقت گلیکسو لیباریٹری میں عہدے کا توعلم نہیں لیکن آفیسر ضرور تھے۔ ایک دن ہم اپنی ملازمت کی درخواست لیے گلیکسو لیباریٹری کے دفترواقع ڈاکیارڈ روڈ پہنچ گئے،فیکٹری اور دفتر دونوں ایک ہی جگہ تھے، استقالیہ میں نام بتا یا ، دربان نے صدیقی صاحب کا نام سنتے ہی ہمیں عزت و احترام سے انتظار گاہ میں بیٹھنے کو کہا اور فون پر صاحب کو اطلاع دی کہ کوئی کم عمر نوجوان آپ سے ملاقات چاہتا ہے، نام رئیس بتا تا ہے، دیکھنے میں غریب لگتاہے۔ صاحب نے ہمارا نام سنا اور گرین سنگنل دے دیا ۔ آفس میں داخل ہوئے تو ایک بڑے ہال نما کمرے میں بے شمار میزیں اور کرسیاں لگی تھیں، اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کی موجودگی کے باوجود خاموشی طاری تھی، لوگ سر جھکائے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ آفیسروں کی میزیں سامنے کی جانب تھیں دیکھنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ صدیقی صاحب آفیسر ہی ہیں۔اس وقت ان کی شخصیت کے خدو خال کی صورت کچھ اس طرح تھی۔ گورے چٹے، سوٹ بوٹ میں ملبوس ، ٹائی لگی ہوئی، صاف شفاف چہرہ، نہ داڑھی نہ موچھ ، سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، کھڑے نقش،چھوٹی غلافی آنکھیں جن پر موٹے شیشے والا چشمہ لگاہوا ، کشادہ پیشانی،ستواں ناک، کتابی چہرہ، درمیانہ قد، چوڑا سینہ، متناسب جسم، خوبصورت خدو خال، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار، یہ تھے 1968کے انعام احمد صدیقی۔

اُن کی پر کشش شخصیت اور آفیسرانہ ٹھاٹ باٹ دیکھ کر ہم دل ہی دل میں خوش ہوئے اور سوچا کہ ہمارا کام بنا ہی بنا۔ خیر و عافیت کے بعد بات آگے بڑھی ، تعارف کی ضرورت نہیں تھی ، اُن کے لیے صرف اِتنا ہی کافی تھا کہ ہم انیس بھائی کی پیلوٹھی کی اولاد ہیں۔ ہماری عزت کے لیے یہی کافی تھا۔ خوش اخلاقی سے ملے، مختصر گفتگو کے بعد مدعا بیان کیا ، جواب میں انہوں نے کیا کہا اُس وقت ہما رے پلے کچھ نہیں پڑا ، اِتنا ضرور سمجھ میں آیا کہ درخواست دیدی جائے ، وہ کوشش کریں گے۔ بات سمجھ میں نہ آنے کا معمہ یہ ہے کہ انعام بھائی جب گفتگو کیا کرتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے الفاظ ان کے منہ میں گھوم پھر کر مشکل سے باہر نکل رہے ہیں ، نزدیک ہوکر سنیں تو بات سمجھ میں آجایا کرتی اگر بندہ دورہو تا تو بس ہاں ہوں ہی کر کے فارغ ہوجاتا ۔ نپے تلے فقرے ایک خاص لہجے میں بولتے اور چپ ہوجاتے، عجیب اتفاق تھا کہ یہاں سیر کو سوا سیر ٹکرا گیا، ہم اُس زمانے میں کم گوئی کا شدید شکار تھے، ہمارے بڑوں نے ہمیں ’چپ شاہ‘ کا خطاب دیا ہوا تھا۔ خاموشی کو توڑتے ہوئے ہم نے عافیت اسی میں جانی کے اجازت چاہی جائے ۔ وہ کم گو تھے اور فضول گفتگو کے قائل ہر گز نہ تھے، کام کی بات کیا کرتے لیکن توجہ اور دلچسپی کے ساتھ۔ انہوں نے کس حد تک کوشش کی یہ معلوم نہ ہوسکا ۔ ہمیں اس زمانے میں نوکری نہ مل سکی لیکن ایک بات ہماری زندگی کے لیے جو اچھی ہوئی اور اس کا تمام تر کریڈٹ اپنے والد مرحوم کو دیتا ہوں کہ ہماری تعلیم بغیر کسی رکاوٹ اور وقفے کے جاری رہی ۔ یعنی بی اے کے بعد جامعہ کراچی میں داخلہ لے لیا اور ایم اے کر لیا ،ایم اے کا نتیجہ آئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ ملازمت کے دروازے کھل گئے اور بغیر کسی سفارش کے کالج میں ملازمت مل گئی وہ بھی گریڈ 17میں،جس کا اختتام ریٹائر منٹ پر گریڈ 19 میں ہوا۔تعلیم کے تسلسل سے فائدہ یہ ہوا کہ اعلیٰ ڈگری کے حصول کی امنگ پیدا ہوئی، ساتھ ہی قلم اور قرطاس سے ایسا ناتا جڑا کہ ہم اُسی کے ہو کر رہ گئے۔ تعلیم کے حوالے سے دوسرا ایم اے سیاسیات میں اور پھر سوشل سائنسز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی جامعہ ہمدرد سے حاصل کی۔ اچھا ہی ہوا اس قت ملازمت نہ ملی بصورت دیگر ہم کسی اور جانب لگ جاتے، اﷲ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔

سالوں بعدیہاں بھی سَن تو ٹھیک یاد نہیں، ہاں تیس پینتیس برس اُدھر کی بات ہے انعام بھائی سے خاندانی انجمن ’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن‘ کے اجلاس میں ملاقات ہوگئی، بس اب تو ان کا اور ہمارا ٹاکرا اکثر وبیشتر ایسو سی ایشن کی لوکل میٹنگوں ، سالانہ اجلاسوں میں ہونے لگا جو برسوں پر محیط ہے۔خاندان میں ہونے والی خوشی اور غمی کی تقریبات میں ملاقاتیں اپنی جگہ تھیں۔ ایسو سی ایشن کے حوالے سے مختلف پروگرام ترتیب دیے، اجلاسوں کی روداد کی ترتیب وغیرہ میں انعام بھائی سے تعلقات قریب سے قریب تر آتے گئے۔1990کی بات ہے انعام صاحب ایسو سی ایشن کے صدر تھے۔اسی سال ایسوسی ایشن نے اپنے قیام کی گولڈن جوبلی کا انعقاد انہیں کی سرپرستی میں کیا۔ شاندار تقریب شاہد اطہر کے گھر واقع راشد منہاس روڈ پر منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ایسو سی ایشن نے خاندان کا شجرہ بھی شائع کیا۔ خاندان کا شجرہ 1925میں پہلی بار شائع ہوا تھا 65سال بعد ایسو سی ایشن اس شجرہ کو1990 میں دوبارہ شائع کرنے میں کامیاب ہوسکی۔ اس کے مرتبین مشکور احمدمرحوم اور خالد پرویز مرحوم ہیں۔ انعام احمد صدیقی نے شجرہ کا تعارف ’پیشوائی‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ انہوں نے شجرہ کی اہمیت، تدوین اور اشاعت پر روشنی ڈالی، انہوں نے لکھ کہ ’یہ حسنِ اتفاق میری خوش نصیبی بھی بن گیا ہے کہ اس شجرہ کو پیش کرنے کی سعادت مجھے حاصل ہورہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح اس کام کی تکمیل پر آپ سب حضرات بھی خوشی و مسرت سے ہمکنار ہوں گے‘۔ایسو سی
ایشن کے قیام کے پچاس سال مکمل ہونے پر ایک کتابچہ بھی شائع کیا گیا۔

یہاں کچھ باتیں میرے اپنے بارے میں بر سبیل تذکرہ آگئی ہیں ۔شخصیت نگار یاخاکہ نگار کی یہی ایک کمزوری ہوتی ہے کہ وہ جب کسی شخصیت کو اپنا موضوع بناتا ہے تو اس کا اپنا حوالہ یا تعلق اس میں لازمی آجاتا ہے ۔شخصیت نگار اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں اُس شخصیت کے بعض پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انعام بھائی سے میرا خاندانی تعلق بہت گہرا اور قریبی ہے۔اس تعلق کو باہم بننے والے رشتوں نے اور زیادہ قریب اور مضبوط کردیا تھا۔ ان سے میرا خاندانی تعلق کچھ اس طرح کا ہے کہ ان کے نانا شیخ عزیز احمد صاحب اورمیرے والد مرحوم کے دادا یعنی میرے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ حقیقی بھائی تھے۔بعد میں دونوں بھائیوں کی اولادوں کی باہم شادیاں ہوئیں ۔بہ فضلِ تعالیٰ آزادؔ صاحب کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں جب کہ عزیز احمد صاحب کے تین بیٹے اورآٹھ بیٹیاں تھیں۔ آزاد ؔ صاحب کی دونوں بیٹیوں کی شادیاں عزیز احمد صاحب کے دو بیٹوں سے جب کہ عزیز احمد کی تین بیٹیوں کی شادیاں آزادؔ صاحب کے دو بیٹوں سے ہوئیں۔یعنی حسین صمدانی کے والد بزرگوار کے حصے میں عزیز احمد صاحب مرحوم کی دو بیٹیاں آئیں۔انعام صدیقی کے نانا عزیز احمد اور دادا علی احمد جناب نبی بخش کے بیٹے اور آپس میں سوتیلے بھائی تھے۔ اس طرح خاندانی رشتے داری کے اعتبار سے انعام احمد صدیقی کے نانا اور میرے پر دادا آپس میں بھائی تھے۔ اس خاندان میں باہم شادیاں ہونا خاندانی امتیاز بھی تھاجو بعد میں بھی جاری رہا ۔ میرے حقیقی اُم مغیث احمد صمدانی کا عقد ثانی انعام احمد صدیقی کی ہمشیرہ طیبہ خاتون ( خاتونِ یثرب ) سے ہوا۔ان کی ذوجۂ اول حمیرا صمدانی ‘ عزیز احمد کی پوتی اور حنیف احمد صمدانی مرحوم کی بیٹی اور انعام احمد صدیقی کی والدہ کی بھتیجی تھیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب ہمارے چچا جناب مغیث احمد صمدانی کی ذوجہ اول حمیرا صمدانی کا انتقال ہوگیا، کچھ عرصہ بعد محسوس ہوا کہ اب ان کی تنہائی کو ختم ہونا چاہیے ، اس لیے کہ زندگی کورواں دواں رکھنا ضروری ہے، انسان آتے جاتے رہتے ہیں۔ تلاش کمیٹی جو ہمارے والدمرحوم اور والدہ مرحومہ پر مشتمل تھی، مغیث صمدانی بھی اس کمیٹی کے خاص رکن تھے کی نظر انعام صدیقی کی ہمشیرہ خاتونِ یثرب پر پڑی، اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمارے والدین نے مجھے اور عارف احمد صدیقی مرحوم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ہم باقاعدہ جناب انعام صدیقی صاحب کے گھر جائیں اوران کی والدہ محترمہ سے اپنا مدّعا بیان کریں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، ہم دونوں نے جناب انعام احمد صدیقی سے ان کے گھر جاکر ملاقات کی اور مدعا بیان کیا، مذاکرات کا یہ ابتدائی دور ہمارے اورانعام بھائی کے مابین ہی ہوا۔ رشتہ قبول کر لیا گیا اور حجاب وقبول کے خوشگوار لمحات بخوبی انجام پائے۔ اس نیک کام میں انعام صدیقی کا بنیا دی اور مثبت کردار تھا۔ انعام صاحب کی فکر یہ تھی کہ خاندان کے بزرگوں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے لوگ اپنے بچوں کی شادیاں خاندان ہی میں کریں ،وہ اس مقصد کے لیے ایسو سی ایشن کے اجلاسوں میں لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہے۔ اس موضوع پر ان کی تحریک پر متعدد بار بحث و مباحثہ بھی ہوا۔ ایسو سی ایشن کے مرکزی اجلاسوں میں انہوں نے باقاعدہ قراردادیں پیش کیں ، ان کی خواہش یہ تھی کہ یہ کام ایسو سی ایشن کے پلیٹ فارم سے انجام دیا جانا چاہیے۔ ’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ‘ میں انعام صاحب ہمیشہ سرگرم رہے ، میں بھی کچھ عرصہ فعال رہا،اس کا سیکریٹری جنرل دو بار رہا جب کہ انعام بھائی بھی اس کے صدر اور دیگر عہدوں پر فائز رہے۔ کچھ سالوں سے میں غیر فعال ہوگیا تھا لیکن انعام بھائی اس کی سرگرمیوں میں بلاتعطل سرگرم تھے۔

انعام احمد صدیقی کے آباؤاجداد راجپوتانہ (راجستھان) کی ریاست بیکانیر کے مکین تھے، 1088ء میں مشرب بہ اسلام ہوئے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں ہمارے اجداد نے دہلی کا رخ کیا اور پھر ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے قصبے ’حسین پور ‘ میں مستقل رہائش اختیار کی۔ اِسی تعلق سے یہ خاندان حسین پوری کہلاتا ہے جو بنیادی طور پر راجپوت ہے۔ شیخ محمدابرہیم آزادؔنے اپنے نعتیہ دیوان ’ثناء محبوب خالق‘ ، طبع شدہ ۱۹۳۲ء میں لکھا ہے کہ ’ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمتہ جو ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان سے تھے جو ۱۱۴۸ بکرمی (۱۰۸۸ء) میں مشرب بہ اسلام ہو ئے پہلے آپ کا نام بیر بل تھا بعد اسلام لانے کے باری بخش ہوا ‘۔خاندان حسین پور کی ایک اور محترم شخصیت محمد حنیف حسین پوری نے خاندان ِ باری بخش کے بارے میں تحریر فر مایاکہ’یہ خاندان روز اول سے کائیتہ سے موسوم ہے اور چونکہ ابتداسے یہ خاندان بہٹنیر میں رہا اس لیے ایکڑی وال بہٹنا گر کے نام سے موسوم ہو ا جس زمانہ میں سلطان محمود غزنوی کا بہٹنیر پر حملہ ہوا (جو اس وقت ریاست بیکانیر ہنو مان گڑھ کے نام سے مشہور ہے)اس خاندان کے جد امجد بحالت پریشانی بہٹنیر سے روانہ ہو کر دہلی پہنچے۔ شہاب الدین شاہجہاں کے دور حکومت میں یہ خاندان دہلی سے ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے قصبے حسین پور میں آباد ہوا اور حسین پوری کے نام سے معروف ہوا۔

انعام احمد صدیقی کا گھرانہ ہندوستان کے شہر آگرہ میں رہائش پذیر تھا۔انہوں نے میٹرک آگرہ ہی سے کیا۔ حد درجہ پڑھاکو واقع ہوئے تھے۔ اسکول میں داخل ہوئے تو سال میں دو دو کلاسیں پاس کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی بارہ برس کے ہی تھے اور میٹرک پاس کرلیا۔ آگرہ کے تعلیمی ریکارڈ میں انہوں نے ایک تاریخ رقم کی جس کا چرچہ اس وقت اخبارات میں بھی ہوا۔قیام پاکستان کے بعد 1951میں اس خاندان نے آگرہ سے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں رہائش اختیار کی ۔ بعد میں فیڈرل بی ایریا کو اپنا مسکن بنایا۔ کراچی سے ہی انٹر اور بی کام کے بعد حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ پڑھائی جاری رکھ سکتے چنانچہ گلیکسو لیباریٹری میں ملازمت اختیار کر لی ، ملازمت کے دوران ہی ایم بی اے کیا اور ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ عہدہ پر پہنچے حتیٰ کہ اسی ادارے سے ریٹائرمنٹ بھی حاصل کی ۔ ان کا یہ عمل انہیں مستقل مزاج ظاہر کرتا ہے۔عام طور پر سرکاری ملازمت میں پینشن کی مقناطیسیت تو ایسا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن نجی اداروں میں کام کرنے والے اِدھر اُدھر بھٹکتے رہتے ہیں، جہاں دو پیسے زیادہ ملے ، کھٹ اپنی دکان بڑھا لی، مستقل مزاج اور قناعت پسند لوگ ہی نجی اداروں میں جم کر کام کیا کرتے ہیں۔ ہمارے والد صاحب نے پاکستان آنے کے بعد صرف دو نجی کمپنیوں میں کام کیا وہیں سے ریٹائر ہوگئے۔

وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے، یہ خاندان والدین کے علاوہ تین بھائیوں اور چار بہنو ں پر مشتمل تھا، ان کے والد نے بھی ملازمت کی لیکن خاندان کی تمام تر ذمہ داری انہی کے کاندھوں پر تھی ، افتخار احمد صدیقی اور احترام احمد صدیقی ان کے بڑے اور سوتیلے بھائی تھے جو اپنے اہل و عیال کے ہمرا ہ کراچی میں ہی رہائش رکھتے تھے۔انعام صدیقی صاحب کی ازدواجی زندگی دیر میں شروع ہوئی جس کی وجہ گھریلو ذمہ داریاں تھیں، ان کی خواہش تھی کہ ان سے پہلے ان کی بہنیں اپنے اپنے گھر وں کی ہوجائیں۔ کچھ تَساہلی تلاش کمیٹی کی بھی تھی،در اصل قدرت نے ان کی زندگی کا سَنجوک ہندوستان کے شہر دہلی جو کبھی دلی ہوا کرتی تھی کی سکونت رکھنے والی کے ساتھ لکھا تھا ۔ آخر کار سات سمندر پار رہنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ علی گیرین کو خوب رو نوجوان کے لیے مناسب جانا ۔1984ء میں ان کا گھر آباد ہوا، اس وقت وہ 48بہاریں دیکھ چکے تھے۔دلی اور وہاں کے عظیم شاعر لازم و ملزوم ہیں۔ ان کے ذکر کے بغیر دلی کا ذکر ادھورا ،ادھورا سا ہوگا، میرتقی میرؔاردو شاعری کے خدائے سخن جن کے بارے میں پروفیسر مجنوں گورکھپوری نے کہا کہ اردو شاعری بھی اگر اپنا خدا رکھتی تو وہ میر تقی میرؔ ہوتے۔ سوداؔ، دردؔ، ذوق، مرزا غالب ؔ کی تو بات ہی کیا ہے اور مومن دلی کی آن بان اور شان۔ افسانہ نگار انتظار حسین نے ’دلی تھا جس کا نام‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ۔ بیگم انعام احمد صدیقی کا تعلق اسی اُجڑے ہوئے دیار سے ہے۔ دلی کے حوالے سے میرتقی میرؔ کی غزل کے چند اشعار ؂
کیا بود و باش پوچھو ہو یورپ کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے و یران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

علی گیرین خاتون جن کا نام ڈاکٹر فریدہ انعام ہے نے ہندوستان کی سرزمین کو خیر آباد کہا اور انعام صدیقی کے ساتھ ساتھ پاک سرزمین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیا۔اس تعلیم یافتہ جوڑے کو اﷲ نے تین بیٹیوں ثمین،ملیحہ ،اسریٰ اور ایک بیٹے صہیب انعام سے نوازا۔ تہذیب ، شائستگی ، شرافت ، دیانت، رکھ رکھاؤ تو پہلے ہی اس گھرانے میں موجود تھا علی گیرین خاتون نے اس میں اور بھی چار چاند لگادیے۔ دونوں نے مل کر اپنے بچوں کی پرورش کی اور انہیں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا، تینوں بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں آباد اور خوش ہیں، بیٹا کیونکہ آخر میں دنیا میں آیا اس لیے اسے پیچھے ہی رہنا تھا، وہ ا بھی اپنی تعلیم کے اختتامی مراحل میں ہے۔ حمایت علی شاعر ؔ کا شعر بچوں کی تعلیم کے حوالے سے انعام بھائی کے جذبات کی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے ؂
بس ایک کام کیا میں نے زندگی بھر میں
کہ سارے بچے ہیں تعلیم یافتہ گھر میں

کسی بھی شخص کو سمجھنے، جانچنے، پرکھنے ، محسوس کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ اہم اس شخص سے قربت ، میل ملاقات، راہ و رسم ، برے وقت میں اس کا عمل اور رویہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی بنیاد پراس شخصیت کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، ہم سفر ہونا بھی کسی شخصیت کو جانچنے کا پیمانہ قرار دیا گیا ہے۔ ہندوستان کے شاعر ندا فاضلی کے مطابق ؂
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار د یکھنا

ندا فاضلی کی بات میں سچائی ہے ، ان کا اشارہ کس قسم کے آدمیوں کی جانب ہے نہیں معلوم میرا خیال ہے کہ ہر آدمی میں ایک باپ، بیٹا ، بھائی، شوہر، چچا، تایا، خالو، ماموں، پھوپا، نانا، دادا وغیرہ کے علاوہ دوست، پڑوسی، آفیسر یا ماتحت وغیرہ بیس ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ رشتے ہوتے ہیں، ہر حیثیت میں اس کا رویہ اور کردار مختلف ہوتا ہے۔ اِنہیں رشتوں سے آدمی اپنی پہچان بنا تا ہے۔ اس کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔انعام احمد صدیقی ہرحیثیت میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔ بیٹے کی حیثیت سے وہ ایک فرمانبرداربیٹے ، ماں اور باپ کا حددرجہ خیال کرنے والے تھے، بھائی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی بہنوں کو مثالی محبت اور شفقت دی ، وہ ایک اچھے اور خیال کرنے والے شوہر ، بچوں سے پیار کرنے والے ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کثر نہ اٹھارکھنے والے باپ، بڑے بھائیوں کا حد درجہ احترام کیا کرتے، دیگر رشتوں میں بھی توازن قائم رکھا، دوستوں کے دوست، پڑوسیوں نے بھی انہیں مثالی پڑوسی کہا۔ہر ایک سے نرمی، شفقت اور شائستگی سے پیش آنا ان کی شخصیت کا خاص وصف تھا۔ وہ تنہائی پسند ہر گز نہ تھے بلکہ مجلسی انسان تھے، کم گوتھے لیکن جب بھی بولنا سوچ سمجھ کر اور شائستہ انداز سے گفتگو کرنا ان کی عادت تھی۔ ایسے خوش مزاج اور زندہ دل لوگ دنیا میں کم کم پیدا ہوتے ہیں۔ تمام تر خوبیوں کے ساتھ ساتھ یقینا ان میں خامیاں اور کوتاہیاں بھی ہوں گے، انسان مجسم اچھا ہی اچھا نہیں ہوسکتا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شخصیت کی خوبیاں ان کی خامیوں پر حاوی تھیں۔

انعام بھائی سے میری آخری ملاقات ان کے انتقال سے کوئی ایک ماہ قبل ہی ہوئی تھی،صلح جوئی ، میل ملاقات ، باہمی رنجش کے خاتمے کی لگن اور جستجو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ میری رہائش گاہ کے ساتھ مقیم میرے چھوٹے بھائی ندیم صمدانی کے گھر اپنے بہنوئی مغیث احمد صمدانی سے ملاقات اور مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے تھے۔ان کی بیگم بھی ہمراہ تھیں۔اس وقت بھی وہ اچھے نہ تھے، پیشاب کی تکلیف تھی، یورین بیگ لگا ہوا تھا، مقصد نیک تھا اس لیے طویل سفر کر کے بھی کھنچے چلے آئے ۔ بڑھاپا تو پھر بڑھاپا ہوتا ہے۔ ان پر بھی بڑھاپہ آچکا تھا۔ اب وہ 1968والے خوب رو نوجوان نہ تھے ، کمر قدرے جھک گئی تھی، بالوں میں سفیدی آچکی تھی، چہرے پر کمزوری کے آثار نمایاں ، داڑھی میں چاندی،سر پرسفیدی، آنکھوں پر لگے موٹے گلاسوں والے چسمے کے پیچھے سے چُند ھیائی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھیں، کمزور جسم ،الغرض بڑھا پا تھا کہ نمایاں ہورہا تھا۔ غالبؔ نے اپنی آپ بیتی میں اِسی بات کو اس طرح کہا کہ ’’جب داڑھی مونچھ میں بال سفید آگئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار مِسّی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی‘‘۔کچھ یہی صورت انعام صاحب کی بھی تھی داڑھی و مونچھ میں بھی چاندی نمایاں ہو چکی تھی، گالوں پرچیونٹی کے انڈے بھی نظر آنے لگے تھے البتہ ان کے دانت ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئی تھی، گفتگو کا وہی انداز لیکن نقاہت نمایاں تھی۔ یہ عمر بھی کیا ظالم چیز ہے ، بندے کا حلیہ کچھ سے کچھ بنا دیتی ہے۔ لیکن یہی تو زندگی ہے، یہی تو اﷲ کا نظام ہے ہمیں اسی نظام کے آگے سرجھکاکر صبر و شکر کرتے رہنا ہے۔

ان کی موت کا سبب باتھ روم میں بغرض وضو کرنے جانا بنا،جہاں وہ گر گئے، سر میں شدید چوٹیں آئی اور بیہوش ہوگئے، ڈاکٹروں نے ان کے دماغ کا فوری آپریشن بھی کر ڈالا جو کامیاب نہ ہوسکا ۔موت برحق ہے ، مرنا سب کو ہے پر مرنے مرنے میں فرق ہوتا ہے۔ انعام بھائی نے خاصی عمر پائی مگر ان کی جدائی کا صدمہ اس لیے زیادہ ہے کہ ایسے نیک، پرہیز گار،نماز روزے کے پابند، شریف النفس اور وضعدار لوگ زمانہ اب پیدا نہیں کرے گا۔ کلام مجید کی تلاوت کی عادت تھی، وہ کلام مجید بہت تیزی سے پڑھا کرتے تھے۔ مجھ جیسا اگر ایک پارہ پڑھتا تو وہ چار پارے پڑھ کر یہ جا اور وہ جا۔ میرنےؔایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا’پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ ‘۔آ گرہ کی مٹی سے طلوع ہونے والا یہ سورج جو 24اپریل 1936ء کوطلوع ہوا تھا 80برس اپنی روشن کرنوں سے اپنوں اور پرائیوں کو فیض یاب کرنے کے بعد کراچی کی سرزمین میں 16مارچ 2016ء کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔اب وہ وہاں ہیں جہاں ہم سب کی نیک آرزوئیں رہتی ہیں۔ان کے جدا ہوجانے کا افسوس کبھی ختم نہ ہوگا۔ وہ اب دلوں میں زندہ رہیں گے، ہم ان کی اچھی اور قابل تقلید باتوں سے فیض حاصل کرتے رہیں گے۔ بقول شاعر ؂
اور وہ جو دل نواز تھا چلا گیا
ایک سوگواردرد سے رشتہ ضرور ہے
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ؂
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

یٰسین آباد (عزیز آباد) کے قبروستان میں عزیزوں، رشتہ داروں ،پڑوسیوں اور دوستوں کی موجودگی میں انعام بھائی کو قبر کی گود کے سپرد کیا جارہا تھا۔ قبر کے چاروں جانب لوگ اپنا منہ قبر میں ڈالے ہوئے تھے ، بعض بعض کا تو بس نہیں چلتا کہ وہ مجسم مردے کے ساتھ لحد میں کود جائیں۔انعام بھائی نہا ئے دھوئے ، نئے کپڑے ذیب تن کیے ابدی زندگی کے سفر پر روانہ ہونے جارہے تھے، چند لمحوں میں انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لحد میں اتاردیا جائے گا۔مَیں بے بسی کی تصویر بنا آخر میں ایک قبر سے ٹیک لگائے اس منظر کو دیکھ رہا تھا ۔ عمرِ عزیز کی کرشمہ سازی کہیے کہ اب ہم اپنے پیاروں کو لحد میں اتارنے کی رسم میں بھی عملی طور پر حصہ لینے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایسے کاموں میں پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ چند برس اُدھر کی بات ہے انعام احمد صدیقی کے بڑے بھائی احترام احمد صدیقی کے انتقال پر ہم انہیں غسل دینے میں پیش پیش تھے۔یہ بھی کیا کم شکر ہے کہ پروردگار نے اس قدر ہمت دی کہ انعام بھائی کے سفر آخر میں شرکت ہوگئی اور اس وقت انہیں قبر کی گود میں جاتا دیکھ لیا۔ میرے ذہن میں ان سے مراسم کی ایک فلم چل رہی تھی، ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو میں ایک ایک کر کے یاد کررہا تھا۔ اُسی وقت یہ ارادہ بھی کیا کہ انعام بھائی سے اپنے تعلق کو قلم و قرطاس پر منتقل کروں گا۔ وقت گزرتا گیا،مصروفیات آڑے آتی گئیں، ایک دن انعام احمد صدیقی کی ہمشیرہ خاتونِ یثرب جو میری چچی بھی ہوتی ہیں کا فون آیااور انعام بھائی پر کچھ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لکھنے کے حوالے سے میرے بارے میں جو تعریفی جملے کہے انہیں یہاں نہیں لکھ رہا،اس میں اپنی تعریف کا پہلو آجائے گا، دو روز بعد ہی شاہد اطہر صاحب کابھی فون آیا اور انہوں نے بھی انعام احمد صدیقی مرحوم کے حوالے سے لکھنے کی بات کی حالانکہ وہ از خود بھی اچھا لکھتے ہیں اور لکھیں گے بھی۔ اب میں نے لکھنے کی دیگر مصروفیات منسوخ کیں اور انعام بھائی کے بارے میں لکھنے کا منصوبہ بنایا دوسری جانب رمضان المبارک بھی شروع ہوچکا تھا ۔ اس کی بھی برکت شامل حال رہی، ابتدائی روزوں میں ہی یہ تحریر اپنے اختتام کو پہنچی۔ جن احباب کا خیال ہے کہ میں انعام بھائی پر کچھ لکھ سکتا ہوں کے شکریے کے ساتھ اپنی بات کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ انعام بھائی کی مغفرت فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے ۔آمین
(12جون 2016، مطابق 6رمضان المبارک 1437ھ)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438044 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More