تہذیبوں کی کشمکش

تہذیب و ثقافت اور کلچر کسی بھی سماج کی عکاس ہوتیں ہیں۔اس لئے انسان اپنے کلچر میں ہی رہنا پسند کرتا ہے اور وہ دوسرے کلچر میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا ہے ۔اور بعض دفعہ جب انسان اپنے کلچر کے علاوہ سماج میں زندگی گزارتا ہے تو طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔اور پھر ایک دوسرے میں نسلی تعصب کا الزام لگایا جاتا ہے ۔اسی طرح کے کچھ واقعات ہیں جو ہم بی بی سی اردو کے حوالے سے پیش کر رہے ہیں۔

دہلی کی تاریخی عمارت قطب مینار کے قریب آباد گنجان بستیوں سے آپ کا گزر ہو تو آپ کو بڑی تعداد میں سیاہ فام افریقی نظر آئیں گے، وہ اپنے وطن سے تو دور ہیں لیکن یہاں انھوں نے اپنی ہی چھوٹی سی دنیا بسا رکھی ہے۔دہلی کی تاریخی عمارت قطب مینار کے قریب آباد گنجان بستیوں سے آپ کا گزر ہو تو آپ کو بڑی تعداد میں سیاہ فام افریقی نظر آئیں گے، وہ اپنے وطن سے تو دور ہیں لیکن یہاں انھوں نے اپنی ہی چھوٹی سی دنیا بسا رکھی ہے۔انھوں نے کہا: ’میں تو زیادہ تر اپنی دکان میں ہی رہتا ہوں، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ باہر جائیں، بہت سے قصے سننے کو ملتے ہیں، لیکن میں نے خود کچھ نہیں دیکھا، اس لیے میں اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘لیکن بات نسلی تعصب کی ہے، اور جلدی ہی ان کے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ان کا تعلق نائجیریا سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا میں ہمارے ساتھ ہمارے رنگ کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ لوگ بے وجہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں، پیچھے سے پتھر مارتے ہیں، لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔۔ بس بچ کر نکل جاتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری جلد کا رنگ فرق ہے، خون کا نہیں۔۔۔ہمارا خالق ایک ہے اور اس کا رنگ کسی کو نہیں معلومقریب ہی اولا جیسن کی دکان ہے۔ نسلی تعصب کا ذکر کرتے ہوئے ان کا درد ان کی آنکھوں سے چھلکنے لگتا ہے۔’ہم دکان پر کوئی چیز خریدنے جائیں تو دکاندار ہم سے بچتے ہیں، ہمارا رنگ دیکھ کر ہی انھیں لگتا ہے کہ یہ خراب آدمی ہے۔ ایک دن ایک عورت نے میری طرف اشارہ کرکے اپنی بچی سے کہا: ’مان جاؤ ورنہ یہ تمہیں اٹھا کر لے جائے گا!‘لیکن ہر کہانی کی طرح اس کہانی کے بھی دو پہلو ہیں، باہر کی دنیا کا موقف ذرا مختلف ہے۔اس گاؤں میں جاٹوں کی زیادہ آبادی ہے۔ ان کا طرز زندگی بالکل مختلف ہے۔ مقامی رہنما سرینواس راٹھی نے سیاہ فام افریقیوں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ رات میں شراب پی کر ہنگامہ کرتے ہیں، نیم برہنہ گھومتے ہیں، اور ہماری عورتیں آج بھی پردہ کرتی ہیں، ہم کیا کریں؟ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں ان سے ان کے رنگ کی وجہ سے چڑ ہے، بس انھوں نے ماحول ہی ایسا پیدا کر رکھا ہے۔۔۔ہمارے کلچر اور ان کے کلچر میں دن رات کا فرق ہے حکومت نسلی تعصب کے مضمرات کو سمجھتی ہے، وہ افریقی ممالک کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی، اس لیے حکومت نے نسلی تعصب کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے، سیاہ فام افریقی باشندوں کو مکمل سکیورٹی کا یقین دلایا ہے۔وزیر خارجہ سشما سوارج کا کہنا ہے کہ یہ الگ الگ واقعات تھے اور حکومت قصوروار افراد کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔۔۔لیکن انھیں نسلی تعصب کے تناظر میں نہیں دیکھا جاناچاہیے۔یہ اس کہانی کا سیاسی پہلو ہے، انڈیا کی کوشش ہے کہ افریقہ میں اپنے قدم جمائے لیکن اس دوڑ میں چین اس سے آگے ہے۔ گذشتہ برس انڈیا نے 40 افریقی ممالک کے سربراہان کی میزبانی کی تھی، اور اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ انڈیا افریقہ کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو نئی جہت دینا چاہتا ہے۔۔لیکن افریقی باشندوں پر حالیہ حملوں کے بعد ان ممالک نے سخت موقف اختیار کیا تھا جس کے بعد حکومت نے انھیں یقین دلایا کہ سیاہ فام باشندوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔سیاہ فام لوگوں کی دنیا میں کسی کو شبہہ نہیں کہ وہ نسلی تعصب کا شکار ہیں، باہر کی دنیا حالیہ واقعات کے لیے ان کے طریقہ زندگی کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ نسلی تعصب یا صرف کلچر کا ٹکراؤ، بحث ابھی جاری ہے۔۔‘

Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.