نوجوانوں کا بھی ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے
(عابد محمود عزام, Karachi)
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی قوم
کا مستقبل نوجوان ہی ہوا کرتے ہیں۔ جس قوم کے نوجوان محنتی، جفاکش، تعلیم
یافتہ اور پرسکون و مطمئن ہوں تو اس قوم کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک
سکتا۔نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ خوشی کی
بات ہے کہ پاکستان میں ساٹھ فیصد نوجوان ہیں، لیکن ان میں سے اکثریت مسائل
میں الجھی ہوئی اور پریشان ہے، لیکن پاکستان کا یہ ساٹھ فیصد طبقہ پریشان
کیوں ہے؟ ان کے مسائل کیا ہیں؟ یہ کیا سوچتے ہیں؟ ان کے مسائل کا حل کیا ہے؟
اس حوالے سے اخبارات، چینلز اور دیگر فورمز پر کم ہی ڈسکس کیا جاتا ہے،
حالانکہ مسائل میں الجھے ہوئے نوجوانوں کے ہوتے ہوئے ملک کا ترقی کرنا مشکل
ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے۔ آج سماج میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور
بدامنی سمیت ان گنت مسائل ہیں جو براہ راست نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں۔
نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ پہلے تعلیم اور اس کے بعد روزگار کا حصول ہے،
لیکن آج مہنگی تعلیم اور بے روزگاری تقریباً ہر نوجوان کا منہ چڑا رہی ہے۔
تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے، جس کی وجہ سے تعلیم
کا معیار پست اور اخراجات بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ
تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کالجوں میں پڑھنے
والے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق درمیانے اور نچلے طبقے سے ہے، جبکہ مہنگی
تعلیم اور معاشی بوجھ کی وجہ سے ان سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھن رہا ہے۔
نتیجتاً یہ نوجوان صرف تعلیم سے ہی محروم نہیں ہوتے، بلکہ حالات سے تنگ آکر
جرائم کی دنیا میں قدم رکھ لیتے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے کئی دیگر حساس
معاملات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے واضح منصوبہ بندی کی
ہمیشہ سے کمی رہی ہے، جس کے باعث وہ نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو برباد کرتی ہے،
بلکہ ان میں سے اکثر ایسی راہ پر چل نکلتی ہے، جو ان کے اور ملک کے لیے
انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے۔
ملک میں دو قسم کے نوجوان ہوتے ہیں، ایک قسم کا تعلق امیر گھرانوں سے ہوتا
ہے، جبکہ دوسری قسم کا تعلق متوسط یا غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔ تعلیم مکمل
کرنے کے بعد امیر گھرانے کے نوجوان تو اپنا کاروبار کرلیتے ہیں یا سفارش
اور رشوت کے زور پر کوئی نوکری حاصل کرلیتے ہیں، لیکن غریب اور متوسط طبقے
کے نوجوان انتہائی مشکلات برداشت کر کے جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو جہاں
ایک طرف ان کو شادی کی فکر اور گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے،
وہیں روزگار حاصل کرنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے، لیکن یہ
مقصد آسانی سے کیا، مشکل سے بھی حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ بے روزگاری ان
کی پریشانی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ روز بروز ملک میں بے روزگاری میں اضافہ
ہورہا ہے۔ معلومات کے مطابق صرف پاکستان میں ہر سال 15 لاکھ نوجوان محنت کی
منڈی میں داخل ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس تعداد کے مقابلے میں نوکریاں ملنے
والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر بہت
سے مسائل میں گھرے نوجوان مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو کر منشیات اور
جرائم کی جہنم میں اتر جاتے ہیں اور نوجوان دہشت گردوں اور منشیات کا دھندہ
کرنے والوں کے لیے خام مال ثابت ہوتے ہیں، جبکہ کچھ نوجوان حالات سے تنگ
آکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، لیکن حکومت ان کے مسائل حل کرنے
کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دیتی۔
ایسے میں ایک ایسے پلیٹ فارم کی شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے جہاں
نوجوانوں کو پیش آمدہ مسائل ڈسکس کیے جاسکیں ، مسائل کی وجوہ اور ان کے حل
کے طریقوں پر بحث و مباحثہ کیا جاسکے اور نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لیے
آواز بلند کر سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر نوجوانوں کے لیے ایسے پلیٹ فارمز
موجود ہوں تو تعلیم اور روزگار کے حصول سمیت نوجوانوں کے بہت سے مسائل کا
کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل سکتا ہے۔ ماضی میں طلبہ یونینز کو نوجوانوں کے
مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، جہاں طلبہ اپنے حقوق کے لیے آواز
اٹھاسکتے تھے، لیکن آج حالات بالکل مختلف ہیں۔ طلبہ یونینز سیاستدانوں کے
ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی ہیں، ان کا مقصد سیاسی جماعتوں کے لیے کام کرنا،
تعلیمی اداروں میں خوف و ہراس پھیلانا اور دنگا فساد کرنا رہ گیا ہے، آج ان
کی بدولت تعلیمی اداروں میں اسلحہ کلچر کا فروغ، منشیات کا استعمال، ڈاکے،
چوریاں اور اغوا تک کے واقعات بھی جنم لینے لگے ہیں، جبکہ سیاست دانوں نے
نوجوانوں کو استعمال کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ آج طلبہ یونینز کے
پاس نوجوانوں کے مسائل سے نمٹنے کا کوئی واضح پروگرام موجود نہیں ہے، بلکہ
مسائل بڑھانے کا سامان ضرور موجود ہوگا۔
حکومت نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ نوجوانوں کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل
کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔ نوجوانوں کے پاس ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں
ہے، جہاں وہ اپنے مسائل سامنے لاسکیں اور حکومت سے ان کو پورا کرنے کا
مطالبہ کرسکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسا پلیٹ فارم تشکیل دے، جہاں
نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار کے حصول سمیت دیگر تمام مسائل پر بحث و
مباحثہ کر کے ان کو پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنی کی سعی کی جائے، جہاں
نوجوانوں کے مسائل کو ڈسکس کیا جائے۔ ماہرین نوجوانوں کے مسائل پر مباحثے
کریں اور ان مسائل سے نکلنے کی راہیں تلاش کریں، اس طرح کرنے سے نہ صرف ملک
کے ساٹھ فیصد طبقے کو اپنی آواز بلند کرنے کا ایک پلیٹ فارم مل جائے گا،
بلکہ ان فورمز پر مباحثے کرنے سے ان کے مسائل کے حل کے لیے بہت سی صورتیں
بھی سامنے آسکیں گی، جن پر عمل کر کے نوجوانوں ایسے قوم کے قیمتی سرمائے کو
ایک پرسکون زندگی مہیا کی جاسکتی ہے اور جب نوجوانوں کو پرسکون زندگی مہیا
ہوگی تو یقینا یہ ملک و قوم کے لیے بہتر کام کر سکتے ہیں اور ملک و قوم کو
ترقی کی منازل پر لے جاسکتے ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ قوموں کو ترقی کی منازل
پر لے جانے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے اور نوجوان ہی
کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر حکومت نوجوانوں کی فلاح بہبود کے لیے
ایسا کوئی اقدام نہیں کرتی تو نوجوان خود ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیں، جہاں
سے یہ اپنے جائز مطالبات کے لیے آواز بلند کرسکیں اور اپنے مسائل کے حل کے
لیے جدوجہد کرسکیں۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یقین جانیے کہ نوجوانوں کی
پریشانی کافی حد تک کم ہوسکتی ہے۔ |
|