آہ! ایدھی صاحب......
(Tajamul Mehmood Janjua, )
گزشتہ روز محسن انسانیت عبدالستار ایدھی کی
طبیعت زیادہ بگڑ جانے سے متعلق ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اور بیٹے فیصل
ایدھی کی نیوز کانفرنس سنی تو دل سے بے اختیار مولانا ایدھی کے لئے دعا
نکلی کہ اﷲ پاک ان کا سایہ ہم پر قائم رکھے اور انہیں صحت و تندرستی عطا
کرے۔ مگر جب وقت آن پہنچا ہو تو پھر انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ نیوز کانفرنس
سے کچھ دیر بعد ہی ایدھی صاحب کی وفات کی خبر ٹی وی پر نشر ہوئی تو یقین
جانیئے کلیجہ پھٹنے لگا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یوں لگا کہ جیسے کوئی
بہت اپنا آج مجھ سے جدا ہو گیاہو۔ فخرِملت کی وفات کی خبر کے بعد بہت دیر
مجھ پر سکتے کی سی کیفیت طاری رہی۔ میری کبھی عبدالستار ایدھی سے ملاقات
تونہیں ہوئی بس یہ ان کی انسان دوستی ہی تھی جس سے انہوں نے ہر دل میں گھر
کر لیا۔
عبدالستار ایدھی 1928 میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ وہ
1947میں قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آ گئے۔1951 میں آپ
نے اپنی جمع پونجی سے ایک کمرہ خریدا اور اس میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے
ڈسپنسری کا قائم کی۔ درویش صفت ایدھی کی انسانیت دوستی کی مثال اس سے زیادہ
اور کیا ہو گی کہ وہ ڈسپنسری کے سامنے رکھے بینچ پر ہی سو جاتے کہ کسی
ضرورت مند اور مریض کو ایمرجنسی کی صورت میں فوری علاج معالجہ کی سہولت
دستیاب ہو سکے۔ 1957میں کراچی میں فلو کی وبا پھیلی اور نواحی علاقہ جات کو
بھی لپیٹ میں لے لیا۔ آپ نے مصیبت کی اس گھڑی میں خیمے، اور مدافعتی ادویہ
مفت تقسیم کیں۔ ایک کاروباری شخصیت نے آپ کا کام دیکھتے ہوئے آپ کو کچھ رقم
عطیہ کی جس سے آپ نے ایک ایمبولینس خریدی اور اسے خود چلاتے رہے اور مریضوں
کو ہسپتال پہنچاتے۔ انسانیت کی خدمت کا یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور آپ نے
بے سہارا بچوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کے لئے ایدھی ہومز قائم کئے جس میں
ان کی رہائش، کپڑوں، خوراک وغیرہ کا مفت انتظام کیا اور ان کا سہارا بنے۔اس
کے علاوہ انہوں نے ائیر ایمبولینس، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لئے
گھر، یتیم خانے، پناہ گاہیں، سرد خانے اور سکول کھولے ۔ ایدھی فاؤنڈیشن اس
وقت انسانی خدمت کا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا ہے۔اس کا نیٹ ورک
پاکستان کے 100 سے زائد شہروں میں موجود ہے۔ زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال
پہنچانے کے لئے ملک بھر میں 1800 سے زائد ایمبولینسز، سیلابی صورت حال میں
ریسکیو کے لئے 28 کشتیاں جبکہ فضائی ایمبولینس سروس میں 2 جیٹ طیارے اور
ایک ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔سال 1997 میں سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس بننے
پر ایدھی ایمبولینس سروس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیا
گیا۔
انسانی ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے سرشار عبدالستار ایدھی ذیابیطس کے مرض
میں مبتلا ہوئے اور بعد ازاں گردوں کی بیماری کا بھی شکار ہو گئے۔ جس پر
انہیں ہسپتال داخل کروا دیاگیا۔ انہیں متعدد بار حکومت کی جانب سے بیرون
ملک علاج کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے ہر بار اس پیشکش کو رد کر دیا۔ ان
کی طبیعت زیادہ بگڑنے لگی اور ہفتے میں تین بار ڈایالسس کئے جاتے رہے۔ جمعۃ
المبارک کے روز 08 جولائی کو ڈایالسس کے دوران ان کی سانس اکھڑنے لگی جس پر
انہیں فوری طور پر وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے
اور88 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ انہیں ہفتہ کے روزنیشنل سٹیڈیم
کراچی میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں ان
کی وصیت کے مطابق ایدھی ویلج میں قومی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا۔
ان کی نمازہ جنازہ مولانا احمد خان نیازی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں صدر
مملکت، تینوں مسلح افواج کے سربراہان سمیت گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ،
وزیراعلیٰ پنجاب اور اعلیٰ فوجی و سول قیادت نے شرکت کی۔ ان کے جسد خاکی
کو21 توپوں کی سلامی دی گئی اور وزیراعظم کی جانب سے نشان امتیاز دینے کا
بھی اعلان کیا گیا۔ ان کی وفات پر ایک روزہ قومی سوگ جبکہ خیبرپختونخوا اور
سندھ حکومت کی طرف سے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔ اس دوران قومی پرچم
بھی سرنگوں رہے گا۔
ان کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار ہے اور ملک بھر کی فضا سوگوار ہے۔ ان کی
وفات کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے سماجی راہنما طاہرہ عبداﷲ کا کہنا تھا کہ’’
انسانیت ان کا مذہب اور خدمت آپ کا مسلک تھا۔ عبدالستار ایدھی کی وفات
قائداعظم کے بعد پاکستان کے لئے سب سے بڑا سانحہ ہے لیکن افسوس اس بات کا
ہے کہ ہم جیتے جی کسی کی خدمات کا اس قدر اعتراف نہیں کرتے جتنا اس کے دنیا
سے چلے جانے کے بعد اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بلاشبہ ایدھی صاحب کی
قوم کے لئے قابل قدر خدمات ہیں اور وہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔‘‘
میں محترمہ طاہرہ عبداﷲ صاحبہ کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ ہمارا
عمومی رویہ اس طرح بن چکا ہے کہ ہم زندوں کو اہمیت نہیں دیتے اور قبروں کی
پوجا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے محسنوں کی خدمات کو یاد کرنا یا ان کا اعتراف
کرنا کوئی غلط بات نہیں لیکن ان کی زندگی میں ان کے بازو نہ بننا اور ان کے
کارواں کا حصہ نہ بننا اور ان کی وفات پر محض فیس بک پر ان کی تصاویر لگا
کر ان کے پیروکار یا عقیدت مند ہونے کے دعوے کرنا کہاں کا انصاف ہے۔
ایدھی صاحب جیسی عظیم شخصیت صدیوں بعد پیدا ہوا کرتی ہے۔ محسن پاکستان ،
محسن انسانیت جاتے جاتے بھی اپنے ملک کے غریبوں کے بارے میں فکرمند تھے۔
خاندانی ذرائع کے مطابق ان کے آخری الفاظ یہ تھے ’’میرے جانے کے بعد اس ملک
کے غریبوں کا خیال رکھنا۔‘‘
آہ! اس قدر انسانیت دوست شخصیت اب بھلا کہاں آئے گی۔ وہ بے سہاروں کو پھر
بے سہارا کر گئے، یتیموں کو پھر یتیم کر گئے ہیں۔
آخر میں نامور قلم کار سید عون شیرازی کے یہ الفاظ کہ ’’ (فیس بک
پر)عبدالستارایدھی کی ڈی پی(ڈسپلے پکچر) لگانے کی بجائے عہد کر لیں کہ ان
کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے تو یقینی طور پر ایدھی صاحب کی روح کو
عالم ارواح میں سکون اور خوشی محسوس ہوگی ۔۔۔‘‘ |
|