بابائے انسانیت تیری عظمت کو سلام
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
کلاس رومز میں موجود تما م بچے انگلش بکس
لئے ہوئے تھے جس میں آج ہمارے استاد محترم جناب ابرار صاحب آج ہمیں اس شخص
کے متعلق پڑھانے جا رہے تھے جس کو لوگ بابائے انسانیت کے نام سے جانتے ہیں
اور شاید یہ شخص تاقیامت با بائے انسانیت کے نام سے جانا جاتا رہے گابلکل
ویسے ہی جیسے دوسرے ممالک میں مدر ٹریساکو جانا جاتا ہے تو جناب اس شخص کا
نام آج ہر مسلمان کی زبان پر ہے ہر کوئی اس کی مغفرت کے لئے دعا گو ہے جو
پاکستان کے تمام لوگوں کا فخر تھا سبق بڑا دلچسپ تھا جس میں ایدھی صاحب کی
زندگی کے حالات اور خصوصا بچپن کے حالات تھے سبق میں تھا کہ یہ جب چھوٹے
تھے تو آموں کے پیڑوں پر چڑھتے اور وہاں سے آم توڑتے تھے انھیں شرارتوں پر
کھبی کھبی ان کی گھر والوں سے خصوصا امی سے پٹائی بھی ہو جاتی تھے اس وقت
انھیں شاید اس بات کا احساس بھی نہیں ہو گا کہ کل مستقبل میں یہی شخص
بابائے انسانیت بن کر ابھرئے گا اور حالات چاہے کیسے بھی ہوں دھماکے ہوں ،دہشت
گردی کا شور مچا ہو کوئی ایکسیڈنٹ ہو یا پھر حادثہ صرف انسانیت کی خاطر اس
نے پوری جدو جہد کرنی ہے اور ہر حال میں لوگوں کو امداد بہم پہنچانی ہے اور
کسی بھی صورت میں اپنے ملک کو نہیں چھوڑنا آج ہمارے ملک کے حکمرانوں کا حال
یہ ہے کہ کسی کے دانت میں بھی درد ہو تو وہ بیرون ملک علاج کے لئے جاتا ہے
کیوں؟ کیونکہ کہ بقول ان کے یہاں پاکستان میں علاج اچھا نہیں؟ کوئی پوچھے
ارئے بھائی تم ہی ہو جو برسوں سے اس مل میں حکومت کر رہے ہو علاج اچھا نہیں
تو علاج اچھا کرنے والے ہسپتال بناؤ اس بات کا جواب ان لوگوں کے پاس ہے
نہیں ۔اسی بات کو ایدھی صاحب جاتے جاتے سب پر عیاں کر گئے کہ جیو تو اپنے
ملک کے لئے اور مرو تو بھی اپنے ملک کے لئے ۔ایدھی صاحب کی خدمات ہمشہ یاد
رکھی جائیں گے1957 میں ایک پک اپ سے شروع ہونے والی امدادی سروس اب دنیا کی
سب سے بڑی ایمبولینس سروس بن چکی ہے جس کا سارا کریڈٹ ایدھی صاحب کو ہی
جاتا ہے ۔ ایدھی انفارمیشن بیورو کے مطابق اس وقت ملک بھر میں ان کے امدادی
مراکز کی تعداد 335 ہے۔ سیلاب اور سمندری حادثات کے موقعے پر امداد فراہم
کرنے کے لیے 28 کشتیاں اور عملہ اس کے علاوہ ہے۔ اس کے علاوہ ایدھی
فاؤنڈیشن ایئر ایمبولینس کی خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔یہی نہیں بلکہ ملک کے
بڑے شہروں میں کل 17 ایدھی ہومز ہیں، جن کے علاوہ ایدھی شیلٹرز، ایدھی ویلج،
ایدھی چائلڈ ہوم، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم، ایدھی اینیمل ہاسٹل، ایدھی فری
لیبارٹری، ایدھی فری لنگر بھی کام کر رہے ہیں ملک بھر میں آج 335 ایدھی
سینٹرز ہیں ۔ ایدھی فاؤنڈیشن 2000 ملازمین کام کرتے ہیں چار ہوائی جہاز،
1800 ایمبولینسز، کینسر ہسپتال، ہوم فار ہوم لیس، ایدھی شیلٹرز اور ایدھی
ویلج ، ایدھی چائلڈ ہوم ، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم، ایدھی فری لیبارٹری،
ایدھی فری لنگر اور ایدھی ویٹنری ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ملک کے تمام روڈز
نیٹ ورق کے ساتھ ساتھ ان کے چھوٹے چھوٹے دفاتر بھی ہیں جہاں ہر وقت ان کی
گاڑیاں انسانیت کی خدمت کے لئے کھڑی رہتی ہیں ملک میں 1122کی سروس سے پہلے
ایدھی سروس کی گاڑیاں سب سے زیادہ ایمرجنسی کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہیں
1988 میں فاؤنڈیشن نے پاکستان کی سب سے بڑی تدفین سروس شروع کی یعنی ایدھی
صاحب لاورثوں کے وارث بنے اتنے بڑا امدادی نظام کو چلانے والے عبدالستار
ایدھی کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی۔ ان کے پاس ملیشیا (کالے رنگ )کے سستے
ترین کپڑوں کے صرف دو جوڑے تھے، ایک میلا ہو جاتا تو وہ دوسرا پہن لیتے۔ وہ
کہتے تھے کہ ’میں نے اصول بنایا کہ زندگی بھر سادگی رکھوں گا اور کپڑے ایک
قسم کے پہنوں گاسنہ 1990 تک ایدھی کی ایمرجنسی ہیلپ لائن 115 منظور ہو چکی
تھی1998 تک ملک بھر میں پھیلا ایدھی فاؤنڈیشن کے نیٹ ورک کو ایک کنٹرول
ٹاور سے منسلک کر دیا گیاکسی یتیم کو سہارا چاہیے یا پھر کسی بے نام بچے کو
والد کا نام، زخمی کو ہسپتال پہنچانا ہو یا بیمار کو دوا چاہیے ہو، بھوکے
افراد کا پیٹ بھرنا ہو یا پھر لاوارث لاش کو دفنانا ہو یہ سب اْمور ایدھی
فاؤنڈیشن بغیر کسی معاوضے اور احسان جتائے بغیر کرتی ہے۔کراچی میں جب قتل و
غارت کا آغاز ہوا تو ایدھی نے تمام ایمبولینس کے عملے کو ہدایت کی کہ وہ
آنکھیں اور کان بند کر کے اپنا کا جاری رکھیں کیونکہ انھیں متاثرہ افراد کو
جلد ازجلد ہسپتال پہنچانا ہے۔آج ’ایدھی صاحب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان
کا انسانیت کی خاطر انسانیت کی خدمت کا دیا جانے والا درس آج ہر کوئی سن
اور سنا رہا ہے۔ پوری قوم ایک صدمے سے دوچار ہے کیونکہ’ایدھی صاحب کی کمی
صرف ایدھی فاؤنڈیشن کو محسو س نہیں ہو گی بلکہ یہ کمی پورے پاکستان کی اور
جہاں جہاں انسان بستے ہیں سب کو محسوس ہو گی آج بھی ان کے نام سے منسوب
ایمبولینسیں جب سڑک پر ہوٹرز بجاتی سامنے سے گزرتی ہیں تو ہاتھ خود بخود
دعا کیلئے اٹھ جاتے ہیں بے شک ہے لوگ جہاں میں وہی اچھے جو آتے ہیں کام
دوسروں کے ۔ |
|