پاکستان اور ترکی

ترکی یعنی ترکیہ جمہوریتی یوریشیائی ملک ہے جو جنوب مغربی ایشیا میں جزیرہ نما اناطولیہ اور جنوبی مشرقی یورپ کے علاقہ بلقان تک پھیلا ہوا ہے،ترکی کی سرحدیں 8 ممالک سے ملتی ہیں جن میں شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، شمال مشرق میں گرجستان (جارجیا)، مشرق میں آرمینیا، ایران اور آذربائیجان کا علاقہ نخچوان اور جنوب مشرق میں عراق اور شام شامل ہیں، علاوہ ازیں شمال میں ملکی سرحدیں بحیرہ اسود، مغرب میں بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ اور جنوب میں بحیرہ روم سے ملتی ہیں،ترکی ایک جمہوری، لادینی، آئینی جمہوریت ہے جس کا موجودہ سیاسی نظام 1923ء میں سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیر قیادت تشکیل دیا گیا، یہ اقوام متحدہ اور موتمر عالم اسلامی کا بانی رکن اور 1949ء سے یورپی مجلس اور 1952ء سے شمالی اوقیانوسی معاہدے کا رکن ہے، یورپ اور ایشیا کے درمیان محل وقوع کے اعتبار سے اہم مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی مشرقی اور مغربی ثقافتوں کے تاریخی چوراہے پر واقع ہے،گزشتہ ہفتے 15 جولائی 2016ء کی شب ترکی میں اس کے قیام کے48برسوں کے دوران چوتھی بار فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی اور اس کوشش کو فوجی انقلاب کا نام دیا گیا تھا تاہم ’’فوجی انقلاب‘‘ کی کوشش ناکام ہوگئی۔ ناکام کوشش جن فوجیوں کے گلے پڑی ان باغی قرار دیکر ان پر بغاوت کے مقدمات کے تحت گرفتاریوں عمل میں لائی گئیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق باغیوں کے سرخیل 5 جرنیل اور 29 کرنل حراست میں لے کر فارغ کردیئے گئے اور دو ہزار کے قریب نچلے درجے کے افسر اور سپاہی گرفتار ہوگئے جن پر مقدمات چلیں گے اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے مطابق انہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں گی اور ترک فوج کو غداروں سے پاک کیا جائے گا،پوری دنیا سے ترکی کو تہنیتی پیغامات موصول ہو رہے ہیں اور جمہوریت کا تسلسل بحال رہنے پر خوشی کے تازیانے بجائے جا رہے ہیں،ترکی کی اندرونی کہانی کیا ہے اور فوجی بغاوت کے سراٹھانے کی وجوہات کیا تھیں اس موضوع پر پھر کبھی لکھنے کی کوشش کروں گا البتہ ترکی کے حالات و واقعات نے ہمیں کیا سبق دیا یہی میرا موضوع ہے،اقتدار کیلئے منہ سے رال ٹپکانے والوں کا ملک میں مارشلائی خواب فی الوقت چکنا چور ہو چکا ہے کیونکہ ترکی کے بعد اب پوری دنیا کا محورو مرکز پاکستان ہی جہاں بدن پر دو چہرے رکھنے والوں نے جمہوریت کی آڑ میں تھرڈ امپائر کے طور پر فوج کو راستہ دکھانے کی حتی الوسع کوششیں کر رکھی ہیں مگر اب ترکی میں پردہ سرکنے کے بعد ہمارے ملک میں بھی اب ایسا ہونا شاید ممکن نہیں رہا،ویسے بھی ترکی میں ناکام فوجی بغاوت سے پاکستان میں جاگیر دارانہ و موروثی چمچہ گیرجمہوریت کے ڈھنڈورچیوں کے دل چوڑے ہوئے ہیں،جن کے دانت پیٹ میں تھے اب وہ بھی منہ میں آ گئے ہیں اور وہ بغلیں بجا رہے ہیں، اقتدار کی رال ٹپکانے والوں نے اپنی قوم کو حوصلے دینے کے بجائے انہیں اقتدار میں فوج کو لانے کیلئے تیار اور اکسایا جا رہا ہے ،گو کہ محب الوطن ترک عوام نے جس طرح بے مثال بہادری اور جرأتمندی کے ساتھ ٹینکوں ‘توپوں اور بندوقوں کے آگے سینہ کھول کر جمہوریت اور منتخب حکومت کا دفاع کیا ہے اور اپنی جمہوری اقدار کو فتح کیا اس طرح کی مثالوں کو جوڑ کر بعض نادیدہ قوتیں پاک فوج کے کردار کو متنازعہ بنانے پر تلی ہوئی ہے حالانکہ ترکی کے اندرونی حالات اور پاکستان کے اندرونی حالات میں زمین و آسمان کا فرق ہے،چاہیے تو یہ کہ ان جمہوروں کو تجزیہ اور موازنہ کرتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ترک صدر طیب اردوان اور وزیر اعظم سے آخر ترکی کے عوام اس قدر والہانہ محبت کیوں کرتے ہیں؟؟ترکی کے اپنے لوگ بتا رہے ہیں کہ چند سال قبل تک ترکی اور عوام ایسے نہیں تھے ‘ وہ بھی اپنے حکمرانوں اور طوطا چشم سیاستدانوں سے اتنے ہی نالاں تھے جتنے اب پاکستان کے عوام ہیں،ٹھونک کر بڑھکیں لگانے والوں کے تو جیسے اپنے صوبے میں تین سالوں کے دوران شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں،اپنے صوبے کو تین سالوں کے دوران تیس سالوں کی نچلی سطح پر پہنچانے والے خود کو طیب اردگان سمجھ بیٹھے ہیں اور یہی اس کی بدقسمتی ہے کہ گر جاتے ہیں ناداں سجدے میں جب وقت قیام آتا ہے ،ترک تاریخ کے مطابق ترکی میں پہلی فوجی بغاوت 1968 ء میں ہوئی تو ترک عوام نے کسی مخالفت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا، ترک وزیر اعظم عدنان مہندرس نے سیکولرازم کی الگ تشریح کی اور اسلام پر بے جا پابندیوں کو ہٹایا تو فوج بھڑک اٹھی، فوج جدید ترکی کے بانی مصطفےٰ کمال پاشا کے نظریات کی حامی تھی جو جمہوریت اور سیکولر ازم پر مشتمل تھے، مصطفےٰ کمال پاشا کے نام پر فوجی حکومت کو زیادہ مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، فوج نے وزیر اعظم عدنان مہندرس کو گرفتار کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح تختہ دار پر لٹکا دیا اور اپنی حکومت قائم کرلی، اس دوران سول ملٹری مشترکہ نظام چلانے کی کوشش کی گئی اور 1970 ء کا پورا عشرہ بدترین سیاسی بحرانوں میں گزرا۔ مخلوط حکومتیں امن وامان قائم رکھنے میں ناکام ہوئیں چنانچہ ستمبر 1980ء میں فوج نے ایک بار پھر اقتدار پر مکمل قبضہ کرلیا۔ ساڑھے چھ لاکھ افراد کو گرفتار کرلیا گیا جن میں سے 50 سیاستدانوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا، نیا آئین تشکیل دیا گیا جس میں فوجی بغاوت کے ذمہ داروں کو ’’بخش‘‘ دیا گیا اور تحفظ مل گیا جس طرح 5 جولائی 1977ء کو پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کو آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت تحفظ دیا گیا تھا، بعدازاں ترکی میں اسلام پسند جماعت اے کے پی کی تحریک پر ریفرنڈم کے ذریعے یہ تحفظ ختم کردیا گیا تھا۔ 1980ء کی فوجی بغاوت کے دو مرکزی کردار چیف آف جنرل سٹاف جنرل کنعان ایورین اور ترک فضائیہ کے سربراہ تحسین شاہین تھے ان کیخلاف اپریل 2010ء میں جب مقدمات شروع ہوئے تو اس وقت ان کی عمریں 80 سال سے زائد ہوچکی تھیں چنانچہ انہیں اپیلوں میں معافی مل گئی،1989ء میں طورغت اوزال ترکی کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے معاشی اصلاحات پر توجہ دی اور ترکی کے عام باشندوں کی حالت بہتر بنا کر ان کے دلوں میں اپنے لئے اہم مقام حاصل کرلیا لیکن 1993ء میں ان کے انتقال باعث ایک بار پھر اچھی قیادت کا خلا پیدا ہوگیا ان کے بعد وزیر اعظم سلیمان ڈیمرل ترکی کے صدر منتخب ہوگئے اور سابق وزیر خزانہ تانسو چیلر نے ترکی کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا، وہ راہ حق پارٹی کی صدر تھیں۔ 1995ء میں اسلام پسند رفاہ پارٹی ایک بڑی انتخابی قوت بن کر ابھری۔ 1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو ترکی ’’سلطنت عثمانیہ‘‘ کے نام سے مسلمانوں کی عظیم نشاۃ ثانیہ کہلاتی تھی اور اس کا سربراہ پوری مسلم دنیا کا خلیفہ تھا، اس جنگ کا اختتام مسلمانوں کی آخری خلافت کا خاتمہ ثابت ہوا، مصطفےٰ کمال پاشا نے ’’ترکی برائے ترک‘‘ اور سب سے پہلے ترکی کا نظریہ دیا اور ترکی کو باقی مسلم دنیا سے الگ کیا،رفاہ پارٹی کے سربراہ نجم الدین اربکان انتخابی جیت کے بعد ترکی کے وزیر اعظم بنے لیکن فوج اور سیاستدانوں پر مشتمل قومی سلامتی کونسل نے سخت مزاحمت کی جس کے باعث وزیر اعظم اربکان جون 1997ء میں مستعفی ہوگئے، فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے نجم الدین اربکان کے تاحیات سیاست پر پابندی لگادی، پاکستان میں پہلے فوجی انقلاب کے بعد صدر جنرل ایوب خان نے ایپڈو کے تحت میاں ممتاز دولتانہ‘ ایوب کھوڑو اور دیگر کئی سیاستدانوں کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی تھی اور ترکی میں اس پابندی کا فائدہ بلند ایجوت کی بائیں بازو کی پارٹی کو ہوا۔ انہوں نے مادر وطن اور راہ حق پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی، 18 اپریل 1999ء کے قومی اور بلدیاتی انتخابات میں تین جماعتوں جمہوری پارٹی‘ مادر وطن پارٹی اور قوم پرست بائیں پارٹی نے انتخابی اکثریت حاصل کی اور 5 مئی 2000ء کو حمد نجدتسیزر ترکی کے صدر منتخب ہوئے، مئی 2002ء میں وزیر اعظم کی اپنی جمہوری بائیں پارٹی کے 60 ارکان اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوگئے جن میں نائب وزیر اعظم‘ وزیر خزانہ اور کئی وزراء شامل تھے چنانچہ عام انتخابات سے 18 ماہ قبل 3 نومبر 2002ء کو نئے انتخابات کا اعلان ہوا، رفاہ پارٹی سے نکلنے والا ایک دھڑا ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کے نام سے انتخابی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی جسٹس پارٹی نے 2007ء کے انتخابات میں بھی دوبارہ کامیابی حاصل کی اور اپنی زبردست معاشی پالیسیوں و اصلاحات کے ذریعے ترک عوام کی محبوب پارٹی بن گئی۔ عوام نے 15 جولائی کی شب اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر فوجی قبضہ سے جمہوریت کو بچالیا۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے 1999ء کے بلدیاتی انتخابات میں استنبول کے میئر کی حیثیت سے اپنی سیاسی اننگ کا آغاز کیا تھا۔ میئر کی حیثیت سے دن رات اور انتھک کام کرکے انہوں نے استنبول کی حالت بدل دی اور اسے جدید ترقی یافتہ اور خوشحال شہروں کی فہرست میں شامل کردیا۔ وہ تیسری بار ترکی کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ترک عوام اپنے ان حکمرانوں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور فوج جب انہیں معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کی کوشش کی تو عوام اپنے ان ہی حکمرانوں کی ڈھال بن گئے۔ اب اگر پاکستان اور ترکی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہاں صورتحال بالکل مختلف ہے ، 20 برس قبل ترکی کا سکہ لیرا پاکستانی روپے کے مقابلے میں بہت کمزور تھا، اس وقت 125 لیرا 18 پاکستانی روپوں کے مساوی تھا۔ آج پاکستانی 46 روپے ایک لیرا کے برابر ہیں، پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی بمشکل 200 ڈالر ہے جبکہ ترکی کے عوام کی فی کس آمدنی 8 ہزار ڈالر سالانہ سے تجاوز کررہی ہے، ہمارے ہاں چار سوں بدحالی ،بد امنی ‘ بیروزگاری‘ بیماریوں اور کرپشن کاراج ہے جبکہ رجب طیب اردوگان حکومت کی پالیسیوں اور دیانتداری سے ترکی ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہے،کرپشن و لوٹ کھسوٹ کی وہاں قطعاً گنجائش باقی نہیں ہے،اس حکومت میں شامل کسی بھی وزیر مشیر کو رشوت‘ بدعنوانی، قومی خزانہ اور وسائل کی لوٹ مار‘ منی لانڈرنگ‘ سرے محل‘ پانامہ لیکس‘ بینکوں کے قرضوں کو ڈکارنا‘ کمیشن‘ بدانتظامی اور اس جیسی درجنوں خرابیوں کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی،اپنی مٹی سے وفا اور پیار کرنے والوں نے اپنے ملک اور قوم کو خوشحالی دی،پہچان دی اورقوم کو ترک ہونے پر فخر ہونے لگاجبکہ بدقسمتی سے ہمارے موروثی و جاگیردار طبقہ کے حکمرانوں اور ناعاقبت اندیش سیاستدان وں نے اس ملک کو نوچ نوچ کر گدھ کی طرح کھایا، ان کے ظلم و استحصال کے باعث پاکستان کی 20 کروڑ آبادی میں سے آدھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بجلی‘ گیس کی لوڈ شیڈنگ اور جرائم عام ہیں، پاکستان اس وقت اپنی منفرد تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے جب پاکستان کو عسکریت پسندی کی روک تھام، معیشت کی از سر نو تعمیر، توانائی کے بحران کے حل، بچوں کو تعلیم کی فراہمی، نوجوان پڑھے لکھے افراد کو گمراہ ہونے سے بچانے کیلئے روزگار کی فراہمی اور قومی سلامتی کی حفاظت جیسے اہم مسائل و مشکلات پیش ہیں،اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں رہا کہ ان مسائل کا بر وقت اور مناسب حل پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے نہایت ضروری ہے بد قسمتی سے پاکستان کی جغرافیائی صورت حال انتہائی خطرناک نوعیت کی حامل ہے اور تاریخ کے بوجھ کے باعث پاکستان کی سب سے اولین ترجیح اس کی سلامتی کی حفاظت ہی رہی ہے، آج بھی پاکستان اسی بوجھ تلے دبا ہوا ہے یہ بھی درست ہے کہ پاکستان کی بہت سی اندرونی مشکلات کا تعلق پاکستان کے بیرونی حالات سے ہے ،خطرناک ہمسائیگیوں اور جغرافیائی و سیاسی چپقلشوں نے پاکستان کی سلامتی کے حالات غیر محفوظ بنا دئیے ہیں،خارجہ تعلقات کے حوالے سے بھارت اور افغانستان اس وقت پاکستان کے دو ایسے ہمسائے ہیں جو ماضی میں بھی اور آج بھی پاکستان کیلئے مسئلہ بنے رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی اہم ہے کہ اب عالمی طاقت کا توازن بھی تبدیل ہو رہا ہے اور دنیا کے ممالک اپنے اپنے قومی مفادات کے لحاظ سے اپنے تعلقات نئے سرے سے استوار کررہے ہیں، اس وقت کہیں زیادہ مشکل یہ ہے کہ دنیا کے ممالک کے تعاون کے بجائے مسابقت کی فضا پیدا ہو چکی ہے،اس لیے پاکستان کے حالات کو ترکی سے جوڑنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے،ترک عوام نے ترقی کی اور پسماندگی کو شکست دی جبکہ ہم ابھی تک مسائل میں الجھے اور مشکلات میں جکڑے ہوئے ہیں،لے دے کے ہمارے پاس ملکی ترقی،خوشحالی اور بے روزگاری کے خاتمے و معاشی حالت کو سدھارنے کی ایک ڈھارس باقی بچتی ہے اور وہ ہے پاک چائنہ اقتصادی راہداری،انشاء اﷲ آئندہ چند برسوں تک جب یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا تو ملک عزیز میں خوشحالی و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو جائے گا اور تب ہم اپنا ترکی سے موازنہ کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔انشاء اﷲ
Rashid Ali Awan
About the Author: Rashid Ali Awan Read More Articles by Rashid Ali Awan: 26 Articles with 23191 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.