امتّ مسّلمہ کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے

ترک جمہوری حکومت کے خلاف ایک فوجی ٹولے کی بغاوت کو عوام نے ناکام بنا دیا۔یہ دنیا بھر میں، خاص طور پر پاکستان میں بہت زیادہ زیر بحث موضوعِ بنا ہواہے۔کچھ لوگ اسے صدر طیب اردگان کا اپنی طاقت اور اختیارات بڑھانے کے لئے خودساختہ ڈرامہ قرار دیتے ہیں اور کچھ اس شب خون کا الزام فتح اﷲ گولن پر ڈال رہے ہیں ،بعض افراد نے تو اسے اردگان کی جانب سے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک موقع قرار دیا ہے۔ان تمام تجزیوں پر حیرانی کی ضرورت نہیں ۔ پاکستانی تجزیہ نگاروں کے تو کیا ہی کہنے ……،مگریہ ان کا قصور نہیں، کیونکہ وہ جن شکوک وشبہات اور خودساختہ افواہوں ،انکشافات، پشین گیوں اور جھوٹ اتنا کہ سچ کا گمان ہو ،کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں،اس میں اس انداز میں سوچنا ان کی مجبوری ہے ،لیکن حقیقت اچھی ہو یا بُری اُسے تسلیم کرنے میں ہی بہتری ہے،ترک کی جمہوری حکومت پر باقاعدہ منظّم منصوبہ بندی اور پلاننگ کے تحت شب خون مارا گیا، مگر طیب اردگان اور جمہوریت کے حامی طبقے باغی فوجی دھڑے سے زیادہ منظّم اور پُر جوش نکلے ، جمہوریت کے حق میں نہ صرف اردگان کے حامی بلکہ سیاسی مخالفین نے بھی ان کا مکمل ساتھ دیا۔ایک کروڑ سے زیادہ جمہوریت پسند عوام مختلف شہروں میں نصف رات کو سڑکوں پر نکل آئے،انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں مسلح باغیوں کو ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے کھینچ کر باہر نکالا ، انہیں پولیس اور اسپیشل ملٹری فورسز کے حوالے کر دیا۔یہ ترکی میں جمہوریت کو ’’اغوا ‘‘کرنے کی پہلی کوشش نہیں۔اس سے قبل بھی کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔اگر پاکستان میں ایسا کوئی واقع ہو تو کیا عوام ایسا ہی ردِ عمل کا مظاہرہ کرے……؟
طیب اردگان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈوپلمنٹ پارٹی اپنے 14برس کے اقتدار کے دوران تین بڑی بغاوتیں ناکام بنا چکی ہے،2008ء اور 2010ء میں ترک حکومت نے 2بڑی فوجی بغاوتیں ناکام بنائیں،2013ء میں اردگان حکومت کو نئی قسم کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ،جب ایک پارک سے درخت اکھاڑنے کے منصوبے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کی آڑ میں جمہوری بساط کو لپیٹنے کی کوشش کی گئی ،تاہم یہ کوشش بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ چوتھی بغاوت16,15 جولائی کی شام فوج میں فتح اﷲ گولن کے حامیوں کی جانب سے کی گئی ،جو دیگر فوجیوں کی حمایت حاصل نہ ہونے اور عوام کے بڑے پیمانے پر سڑکوں پر آنے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہو گئی۔ترکی میں مغرب کے ایجنڈے پر کارفرما75 سالہ فتح اﷲ گولن بظاہر ایک مذہبی رہنما کی حیثیت سیپہچانے جاتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ،لیکن 2013ء میں انہوں نے اپنے ایجنڈے کا اظہار اس طرح کیا کہ صدر طیب اردگان پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ جب طیب اردگان نے ترکی میں اسلام کی شناخت کو نمایاں کرنا شروع کیا تو سعید نوری کے پیرو کاروں کے لئے یہ بات اطمینان کا باعث تھی ۔

ترکی جہاں مسجد میں عربی میں اذان دینا اور حجاب کرنا جرم سمجھا جاتا تھا۔فحاشی ،عریانی اور اقرباپروری کو فروغ دیا جا رہا تھا۔معاشی صورت حال انتہائی ابتر ہو چکی تھی،وہاں طیب اردگان نے جدید اسلامی کلچر کو فروغ دیا۔ معاشی سطح پر اصلاحات کیں ، غیر ملکی قرضوں میں دھنسا ہوا ترکی آج آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضے دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے، عوام خوشحال ہیں،ترکی امتّ مسّلمہ کا قلعہ بنتا جا رہا ہے ،ہر اسلامی ملک کی مشکل گھڑی میں اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہو جاتا ہے۔وہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف حکومتی اقدامات،حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسیوں کے خلاف سب سے مؤثر آواز ترکی کی جانب سے ہی اٹھائی گئی ،اس کے علاوہ سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف پُر جوش مذمت،کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر بھارتی جابرانہ اور ظالمانہ سلوک کے خلاف بھر پور آواز اٹھانے کا عملی مظاہرہ کیا۔ترکی نے پاکستان کی بہتری کے لئے بلا خوف و خطر اپنے مثبت کردار سے ثابت کیا کہ وہ ہمارا مخلص دوست ہے۔اسلامی ممالک کے اتحاد ، لیڈر اور حکومت کو امریکہ بہادر کیسے برداشت کر سکتا ہے۔جب بھی کسی اسلامی ملک نے اپنے وسائل کو اپنے ملک و قوم کی بھلائی کے لئے استعمال کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی ،امریکہ بہادر نے اپنی شیطانی حرکات سے اسے آمریت کی گود میں ڈال کر کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ۔

اﷲ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کو بے شمار قدرتی نعمتوں سے مالا مال کیا ہوا ہے،لیکن ان کے ذرائع پر طاغوتی قوتیں قابض ہیں۔یہ صرف اس لئے ممکن ہوتا ہے کہ ان ممالک میں رہنماؤں اور عوام میں عدم اتحاد ہوتا ہے،اسی وجہ سے شیطانی چالیں اکثر کارگر ثابت ہوجاتی ہیں۔جیسے عراق ، شام، مصر اور افغانستان وغیرہ میں انہوں نے ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے بڑی خطرناک شیطانی چالیں چلیں اور کامیاب بھی ہوئے۔ان کی واردات کا طریقہ ایک ہی ہے کہ جہاں اپنے ناپاک عزائم کو کامیاب بنانا ہے ،وہاں سے بڑا غدار قابو کرو اور اس کی قیمت لگا دو۔ ترکی میں فتح اﷲ گولن کے ذریعے ترکی میں آمریت لانے کا منصوبہ بنایا گیا،جو ناکام ہوا ۔امریکہ بہادر کی شیطانی سازش میں ملوث ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بغاوت کے دوران ترکی میں امریکہ کا وہ فوجی اڈا استعمال کیا گیا، جو وہ شام میں داعش کے خلاف استعمال کرتا ہے۔کسی اسلامی ملک میں فوجی انقلاب کی کوشش فوری طور پر ناکام ہونا اور اسلام پسندوں کا اقتدار پر براجمان رہنا ایک نمایاں اور خوش آئند تبدیلی ہے، اس سے نہ صرف ترکی میں طیب اردگان کی پوزیشن مضبوط ہو گی، بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی اردگان کی حامی سیاسی پارٹیوں کو تقویت ملے گی۔

ترکی اور پاکستان مسلم دنیا کے دوایسے ممالک ہیں جو طاغوتی قوتوں کی نظروں میں خار بن کر کھٹک رہے ہیں ، جبکہ بدقسمتی سے امتّ مسّلمہ اس قدر تقسیم ہو چکی ہے کہ کہیں سے بھی ایک دوسرے کے حق میں کوئی مؤثر اور بلند آہنگ آواز نہیں ابھرتی، چونکہ مغرب خصوصاً امریکہ کو یہ یقین ہے اس کے اس طرح کے ظالمانہ اقدامات کی کسی جگہ سے مزاحمت کا کوئی امکان نہیں ہوتا ،اسی وجہ سے ان طاقتوں کو اپنے شیطانی حربوں کو آزمانے کا موقع مل جاتا ہے۔پاکستان نے امریکہ کا ہر مشکل وقت پر ساتھ دیا،مگر امریکہ بہادر نے ہمیشہ اپنا مفاد نکال کر اپنا تمام گند پاکستان پر ڈال کر فرار کی راہ اختیار کی اور کبھی مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔اس نے ہمیشہ ہمارے دیرینہ دشمنوں کے ساتھ وفاداریاں نبھائیں۔اُس نے نہ صرف ہم سے، بلکہ دوسرے اسلامی ممالک سے بھی ایسا ہی رویہ رکھا ۔مصر میں منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی حکومت قائم کرنے میں بھر پور مدد کی ، عراق میں امریکی حملوں کے بعد سے کشمکش اور انتشار کی کیفیت جاری ہے، سعودی عرب کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا،یہ تمام تر’’کالے کارنامے‘‘انہی طاغوتی قوتو ں کے ہی ہیں۔انہیں اب پاکستان اور ترکی بری طرح کھٹک رہے ہیں ، کیونکہ یہ دونوں ممالک اسلام کے قلعے بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں،لہذا ان کے خلاف حزب الشیطان کی یلغار ہر گز نا قابل فہم نہیں ہے،مسلمانوں کو ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے اور اتحاد برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.