آزادجموں کشمیر کہنے کو تو آزاد ہے یہاں
ایک عدد وزیراعظم ایک صدر اور ایک علیحدہ پرچم ہے ،قانون ساز اسمبلی ہے اور
ہر پانچ برس بعد اس اسمبلی کے لئے عام انتخابات ہوتے ہیں ۔ چھ عشروں سے یہ
ریاضت جاری ہے لیکن اس سسٹم نے عوام کو کیا دیایہ سب پر عیاں ہے ۔اس نظام
کے خدوخال بڑے عجیب و واضع ہیں لیکن اس خطہ کے لوگوں کی حرکات وسکنات سے
محسوس ہوتاہے یہ سسٹم ان کے لئے پانچ برس بعد محض ایک ’’انٹرٹینمنٹ ‘‘
فنکشن کازریعہ بن کر آتاہے لیکن اس سسٹم کے خطہ کے عوام اور ان کی نسلوں پر
کیا بھیانک اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس سے بیگانہ یہ لوگ دیوانوں کی طرح اس
سے لطف اندوز ہوئے جاتے ہیں اور اگر انہیں کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو ان
کا رد عمل ویسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی بگڑے ہوئے آوارہ بچے کو ڈانٹنے پر اس
کا ہوتا ہے ۔اس نظام کی حیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ اسمبلی کی کل 28نشستیں
ہیں47 میں بھارت کے زیر قبضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آنیوالے وہ لوگ جو
پاکستان کے مختلف شہروں میں آبادہوئے تھے ان کی نمایندگی کے لئے 12 حلقہ
انتخاب رکھے گئے ہیں ۔اور ٹیکنو کریٹ کی آٹھ خصوصی نشستیں ہیں اور اس طرح
اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 48بنتی ہے ۔اس اسمبلی انتخابات میں صرف وہی
لوگ حصہ لے سکتے ہیں جو الحاق پاکستان کا حلف اٹھائیں جو کہ عالمی سطح پر
تسلیم شدہ متنازعی خطہ کے عوام پر ایک منافقانہ پابندی ہے اوریہ برائے نام
قانون ساز اسمبلی ہے اس لئے کہ اسے قانون سازی کاسرے سے کوئی اختیار نہیں
ہے ۔حکومت بنتے ہی اسمبلی مکین اسلام آباد فت ہو جاتے ہیں اور اپنی
اینوسٹمنت کی ریکوری میں جت جاتے ہیں اسمبلی کی قانون سازی کا کوئی خاص
آئینی طریقہ کار نہیں یہ اسمبلی ایک کالونیل ایکٹ کے زریعے چلتی ہے اس
اسمبلی کا ایوان بالا کشمیر کونسل ہے جس کا چیئرمین پاکستانی وزیر اعظم
ہوتا ہے جو آزادکشمیر کے لوگوں کے سامنے قطعی جوابدہ نہیں ہے نہ کشمیری اس
کے ووٹر ہیں اور کسی بھی نوح کا کوئی ایکٹ اراکین اسمبلی کسی ترمیم کی صورت
میں اسمبلی میں نہیں لاتے بلکہ چیئرمین کا دل چاہیے تو وہ اسمبلی سے جڑے
منجملہ لوگوں کو کہتا ہے کہ آپ تجاویز دیں ہم غور کریں گے ۔۔۔اور پھر
بادشاہ سلامت کی مرضی وہ پانچ برس میں اس تحریر کو شرف دیدار بخشیں یا صرف
نظر کریں اور یوں یہ اسمبلی آزادکشمیر کے لوگوں کی فلاح کے لئے سٹی
ڈیولپمنٹ ،ٹریفک قوانین ،فارنر انٹری،سیاحت انڈسٹری،جنگلات کی تباہی
وماحولیات ،نظام عدل وانساف ،صحت ،تعلیم و شہری حقوق جیسے کسی بھی نوح کی
قانون سازی کرنے کا زرہ برابراختیار نہیں رکھتی یہاں محض اسلام آباد سے
ایکٹ درآمد ہوتے ہیں اور انہیں پر گزربسر ہوتی ہے ۔اس بے اختیار اسمبلی و
وزیراعظم کو کشمیرکونسل چیئر مین وزیراعظم پاکستان، پاکستانی آئین کی
دفعہ58/2B کے تحت بیک جنبش قلم گھر بھیج سکتا ہے ۔اور اس بے اختیار اسمبلی
میں حکومتی تشکیل کا نظام بھی کم عجیب نہیں ہے سب سے پہلے ایک نام نہاد
انتخابی دنگل ہوتا ہے۔ بظاہر خطہ کے لوگ ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں لیکن
اس عمل کو کبھی بھی شفاف وغیرجاندارنہ انتخاب نہیں کہا جا سکتا ،اول تو
پاکستان میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں نے یہاں اپنی برانچیں کھول رکھی ہیں
یا یہاں کے سیاستکاروں نے از خود ’’آقا‘‘ درآمد کر رکھے ہیں ۔دوران
انتخابات پاکستان کا تمام سیاسی گند یہاں امڈ آتا ہے جنہوں نے یہاں کے
سیاسی ماحول کو تباہ برباد کر دیا ہے پاکستانی حکمران طبقہ سرکاری وسائل کو
داداوراثت سمجھ کر سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرتا ہے اور لوگوں پر واضع
کرتا ہے کہ اگر ہماری فرنچائز کو کامیاب نہ کیا گیا تو ہم سالانہ فنڈز روک
لیں گے ۔ساتھ ہی حکومت میں ہونے کے باعث پاکستان میں موجود مہاجرین کی
12نشستیں جو کہ دھاندلی کا جیتا جاگتا ثبوت ہوتی ہیں جہاں کبھی تاریخ میں
کسی کشمیری نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا وہاں کارپوریشن اور بلدیہ کے ملازمین سے
ٹھپے لگوا کر برائے نام اپنے لوگوں کوکامیاب قراردیدیا جاتا ہے اوراسلام
آباد نے ابتداء سے ہی انہیں12 نشستوں کے بل بوتے پر پورے آزادکشمیر کی
سیاست کو یرغمال بنارکھا ہوا ہے اسلام آباد میں براجمان طبقہ کے ہاتھ میں
کشمیر کونسل کی مخصوص نشستیں ایک اور ہتھیار ہے جسے آزادکشمیر میں حکومتی
تشکیل میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح وزارت امور کشمیران تمام
ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال کرکے الاالعلان کہتا ہے کہ آزادکشمیر میں
ہماری فرنچائز کی حمائت کی جائے ورنہ نتائج کے ہم زمہ دار نہ ہوں گے اور
یوں حکمراں جماعت اپنے من پسند حاشیہ برداروں کو یہاں مسلط کرتے ہیں بات
یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ انتخابی عمل کے بعد اصل کاروبارسیاست کی ابتداء
ہوتی ہے ۔اور تمام کامیاب امیدواران بریف کیس اٹھائے پاکستان میں موجودبنی
گالہ،رائیونڈوگڑھی خدابخش جیسے بیس کیمپس کا طواف کرتے پھرتے ہیں جہاں خطہ
کے عوام کے اقتدار اعلیٰ و قومی غیرت کی نیلامی ہوتی ہے اور وزارت عظمیٰ
سمیت تمام محکموں کی بولی لگتی ہے کچھ ڈائریکٹ پیمنٹ اور کچھ کمیشن ایجنٹوں
کے زریعے ادائیگی ہوتی ہے ۔جس حکومت کی تشکیل خطہ کے عوام کے ووٹ سے ہونا
چاہے وہ وہاں کے وڈیروں ،جاگیرداروں کے سیکرٹریز اور منشیوں کے مرہون منت
ہوتی ہے ۔جہاں وہ سب کچھ لٹا کے آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ان نام نہاد
حکمرانوں کی پاکستان میں دو ٹکے کی حیثیت نہیں ہے اور اس پر ستم وزارت امور
کشمیر کا سیکرٹری ان کے ساتھ معاملات طے کرتا ہے ،آزاد کشمیر میں آئی جی
پولیس سمیت تمام لینٹ آفیسران پاکستان سے بھرتی کئے جاتے ہیں۔ یاد رہیے اس
سارے کھیل میں کمانڈنگ افیس ’’مری‘‘ کی منظوری ازحد ضروری ہوتی ہے ۔تمام
ایڈجسٹ منٹ کے بعد حلف وفاداری کاڈرامہ سٹیج ہوتا ہے اور سب لوگ ایک دن کے
لئے مظفرآباد آتے ہیں اس دن کے بعدپانچ برس وہ کبھی عوام کو نظر نہیں آتے
بس کبھی پاس سے گزریں تو دھول ہی دھول اڑتی دکھائی دیتی ہے ۔البتہ یہ لوگ
بڑی دل جمی سے اسلام آباد میں رہتے ہیں اور خریدی ہوئی وزارتوں سے اپنی
انوسٹمنٹ کو سود سمیت ریکور کرتے ہیں اور آئندہ کے لئے بھی اچھے سے اہتمام
کرتے ہیں ۔اس سارے کھیل میں عوام اور عوامی فلاح کی کہیں کوئی گنجائش باقی
نہیں رہتی اور نہ ہی ان کے پاس ایسا کوئی اختیار کہ یہ ظالم کے سامنے مظلوم
کی ترجمانی کر سکیں ۔یہ ایک ایسا بدترین کالونیل سسٹم ہے کہ دنیا بھر کے
غلام دیسوں کی کالونیل تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔اس پر ستم کہ یہاں
کے عوام خامشی سے اس نظام سے لاتعلق ہو چکے ہیں ہر الیکشن میں 12سے 35 فیصد
ٹرن آوٹ یہ ثابت کرتا ہے کہ 65 فیصد لوگ اس سے دلبرداشتہ ہیں لیکن دیس میں
کوئی ایسی قیادت موجود نہیں جو اس عوامی اکثریت کی نمائندگی کر کے ایک
بھرپور مذحمتی تحریک برپاکر سکے ۔اگر ایسا نہ ہو سکا تو یہ بدترین کالونیل
سسٹم ہماری سوسائٹی کو تو تباہ کر چکا ہے ہماری قدیم روایات و اخلاقی اقدار
کا بھی جنازہ نکال دے گا ۔ |