’’میں سیگریٹ نہیں پیتا لیکن اپنے ساتھ
ماچس کی ڈبیہ رکھتاہوں۔ جب کسی گناہ کاخیال آتایاگناہ کی جانب ہاتھ بڑھے
توایک تیلی نکال کر جلاتااور خودکو سمجھاتاہوں‘ محمدعلی! اگر توماچس کی ایک
تیلی کی آگ برداشت نہیں کرسکتا تو اس گناہ کی وجہ سے آخرت میں جہنم کی آگ
کو کیسے برداشت کرے گا۔‘‘
’’میں اس بات کو زیادہ پسندکرتاہوں کہ مجھے میرے گناہوں کی سزادنیامیں ہی
مل جائے‘میں یہ بوجھ آخرت کے لیے لے کرنہ جاؤں۔‘‘
’’دنیاکی زندگی کے ہردن کو اس طرح جیوجیسے یہ آخری دن ہے۔‘‘یہ او ر اس جیسے
کتنے بے شمار خوبصورت الفاظ اورجملے ہیں جو کتنی دہائیوں سے کروڑوں انسانوں
کے لیے ان کے عقیدہ وعمل کی اصلاح کاباعث بن رہے ہیں۔ یہ جملے امریکہ کے
رہنے والے اس عظیم نومسلم باکسر محمدعلی کے ہیں جنھوں نے شہرت کی عظیم ترین
بلندیوں پر پہنچتے ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔
محمدعلی 17جنوری1942ء کوامریکی ریاست کینٹکی کے شہرلوئسویل کے ایک عیسائی
گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔1964ء میں اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کا نام
کیسیئس مارسیلس کلے تھالیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا تواپنانام محمدعلی
رکھ لیا۔ان کی پیدائش سے بہت پہلے سے ہی امریکہ میں سیاہ فاموں سے انتہائی
نارواسلوک رکھاجاتا اور انہیں جانوروں سے بدترحالات کاسامناہوتا
تھا۔محمدعلی کلے نے اس زمانے میں نیشن آف اسلام (امۃ الاسلام)نامی ایک
تنظیم میں اس لیے شمولیت اختیار کرلی تھی کہ یہ تنظیم گوروں اورکالوں کے
فرق کے خاتمے کے لیے برسرپیکار تھی۔یہ تنظیم خالص کالے لوگوں پرمشتمل
تھی۔اس تنظیم کانام اگرچہ اسلام کے نام پررکھا گیا تھا لیکن اس کے کئی
عقائداسلام سے انتہائی متصادم تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے ہی محمدعلی
کو اس سب کی سمجھ آتی رہی‘انہوں نے نہ صرف اس تنظیم کو چھوڑکر اسلام قبول
کر لیابلکہ گوروں کے برابر حقوق کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد مزید تیز
کردی۔کون جانتا تھاکہ گوروں کے دیس امریکہ کے ایک سیاہ فام گھرانے میں
پیداہونے والا یہ بچہ سارے کرہ ارض میں اس قدر مقبول ومعروف ہوجائے گا کہ
وہ ایک عالم کی تاریخ کوالٹ پلٹ کررکھ دے گا۔وہ ہر میدان میں مزاحمت کاایک
ایسااستعارہ بن جائے گا کہ رہتی دنیا تک اس کے نام کاڈنکابجتارہے
گا۔محمدعلی نے جب اسلام قبول کیا تو یہ ان کے اخلاص کا ہی نتیجہ تھاکہ ان
کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے امریکہ ہی نہیں‘ دنیابھرمیں ہزاروں لوگوں نے قرآن
کا مطالعہ کرکے اسلام کوقبول کرلیاتھا جس کا سلسلہ ان کی وفات تک دیکھنے کو
ملتارہا۔
کون سوچ سکتاتھا کہ 60سال پہلے ایک معصوم سا وہ بچہ جس کی سائیکل چوری ہوئی
اوروہ اپنی سائیکل چوری کی شکایت درج کرانے تھانے پہنچاتھا‘وہ اس معمولی سے
واقعہ کے بعد محض ایک پولیس افسر کی ترغیب سے اتنا بڑاانسان بن جائے گا کہ
ایک جہان اس پررشک کرے گا۔یہ 1960ء کازمانہ تھا جب محمدعلی اپنے ملک امریکہ
کی نمائندگی کرتے ہوئے روم میں ہونے والے دنیاکے سب سے بڑے سپورٹس میلے
اولمپکس میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔یہاں انھوں نے پہلی بار عالمی ٹائٹل اور
سونے کا تمغہ جیت لیا۔اتنی بڑی کامیابی کے باوجودبھی امریکہ میں کالے لوگوں
سے نفرت کایہ عالم تھا کہ کارنامے کے بعد بھی محمدعلی کو نوکری تک نہ مل
سکی جس پر انہوں نے اپناوہ تمغہ مقامی دریامیں پھینک دیا تھا لیکن انہوں نے
ہارماننے کی بجائے اپنی باکسنگ کی مہارت کو بہترسے بہترین بنانے کی ٹھانی۔
یوں انہوں نے اپنے21سالہ کیرئیر میں 61 بڑے عالمی مقابلوں میں 56مقابلے جیت
کر وہ ریکارڈ قائم کیے جس کے قریب بھی آج تک کوئی نہیں پھٹک سکا۔
محمدعلی کی نس نس میں انسانوں سے محبت بھری ہوئی تھی ۔یہی تووجہ ہے کہ جب
امریکہ نے ویت نام پر جنگ مسلط کی اور پھرملک بھرمیں صحت مند اورتنومند
نوجوانوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے فوج میں بھرتی کرکے بھیجا جانے لگا
تومحمدعلی کانام بھی سامنے آگیا۔محمدعلی نے اس جنگ کو غیرانسانی فعل قرار
دے کر اس میں شمولیت سے صاف انکار کردیا۔اس پر امریکہ میں ان کے باکسنگ
کھیلنے پرنہ صرف پابندی عائدکردی گئی بلکہ ان سے تمام اعزازات واپس لے
کر6سال قیدبھی سنادی گئی ۔وہ کئی سال تک رنگ سے باہر رہے لیکن انہوں نے
اپنے مؤقف سے سرمو انحراف کرناگوارا نہ کیاحتّٰی کہ ان پر سے امریکہ کو خود
ہی پابندی ختم کرناپڑی۔
جب انہیں ویت نام جنگ میں جھونکنے کی کوشش ہو رہی تھی توانہوں نے یہ تاریخی
الفاظ کہے تھے:’’مجھے کہاجارہاہے کہ میں یہاں سے دس ہزار میل دورویتنام
جاکر اس کے براؤن لوگوں پربم اور گولیاں برساؤں جبکہ یہاں لوئی ویل میں نام
نہاد نیگرو(کالے) لوگوں سے کتوں جیساسلوک کیاجارہاہے اور ان کے بنیادی
انسانی حقوق سے بھی انکارکیاجارہاہے۔نہیں‘ میں دس ہزار میل گھر سے
دورجاکران سفیدآقاؤں کے لیے قتل کرنے اور آگ لگانے میں مدد نہیں
کرسکتاجنہوں نے دنیا بھرمیں کالے لوگوں کو غلام رکھاہواہے۔یہی وقت ہے کہ
ایسی گھناؤنیت کاخاتمہ ہوناچاہیے۔کیاہوا کہ مجھے جیل جاناپڑاہے۔ہم گزشتہ
چارسوسال سے جیل میں ہی ہیں۔‘‘
محمدعلی کو گزشتہ صدی کاسب سے بڑا کھلاڑی ہونے کااعزاز بھی حاصل ہوا اوران
کی پیہم جدوجہد اور مسلسل تحریک سے امریکہ سمیت دنیابھرمیں کالے لوگوں کو
گوروں کے برابر نہ سہی‘بہت حدتک گورے انسانوں کے برابرحقوق حاصل ہوئے حتّٰی
کہ اوبامہ کی شکل میں پہلی بار امریکہ میں ایک سیاہ فام شہری صدربن
گیاوگرنہ اس سے پہلے ان کاحشر عبرتناک ہوتاتھا۔محمدعلی کے اسلام قبول کرنے
کی وجہ بھی اسلام کا عادلانہ و مساویانہ سلوک بناتھا۔ وہ ایک مرتبہ امریکہ
کی ایک مشہورجامع مسجد کے باہرسے گزررہے تھے کہ انہوں نے وہاں مسلمانوں کو
نمازجمعہ اداکرتے دیکھا۔ وہ وہیں رک گئے۔نمازختم ہوئی توسبھی گورے‘کالے
مسلمان ایک دوسرے سے انتہائی خوشی اور محبت بھرے جذبات کے ساتھ بلاتفریق مل
رہے تھے۔ اس عمل نے ان کے دل پر اتناگہرا اثر چھوڑا کہ وہ شہرت کی عین
بلندیوں پردائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ہزاروں نومسلموں کے لیے بھی
نورہدایت بن گئے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کاتمام انسانوں کو دین کی بنیاد پربرابر اور
ایک جیساسمجھنے والا سبق ‘آج کی دنیا کے بیشترمسلمان بھلاچکے ہیں۔ آج کے
مسلمان اپنی اپنی قوموں‘قبیلوں‘علاقوں اور ذاتوں پرویسے ہی فخروتکبر کرتے
نظر آتے ہیں جیسے زمانہ جاہلیت میں دیکھنے کو ملتا تھا۔اسلام نے زمانہ
جاہلیت کی ایسی تمام رسومات کو روند دیاتھاجسے ہم لوگوں نے ایک بارپھرزندہ
کرلیاہے اور آج کے دور میں ایک بار پھر سے ہرمسلمان اپنی پہچان کلمہ طیبہ
کوبنانے کے بجائے اپنی اپنی قوم ‘قبیلے کو بناکراور اس کا نام تفاخرانہ
طورپر اپنے نام سے لگاکراس پراتراتااوراس کے گن گاتااور اس کی تعریفیں
کرتادکھائی دیتاہے۔یوں دورِجاہلیت کے بت ایک بارپھرزندہ ہوچکے ہیں۔
عظیم مسلمان اورعظیم انسان محمدعلی نے اسلام قبول کرنے کے بعد جو عظیم نام
اپنے ساتھ منسوب کیا تھا‘ اس کی بھی خوب لاج رکھی۔2002ء میں اس عظیم باکسر
کو ہالی ووڈ واک آف فیم میں انٹری دینے کافیصلہ ہوا۔اتنے بڑے اعزازکے بعد
بھی انہوں نے اپنانام زمین پر لکھنے کی اجازت نہ دی کیونکہ اس سے آقائے
دوجہاں محمد ﷺ کے نام کی بے حرمتی کاخدشہ تھا۔محمدعلی کے اس فیصلے کے بعد
واک آف فیم کی انتظامیہ نے ان کے نام کا ستارہ زمین کے بجائے دیوار
پرلگادیا۔یہ ہالی ووڈ واک آف فیم میں واحد ستارہ ہے جو زمین پرنہیں۔اسلام
قبول کرنے پر ان کی کئی جگہ مخالفت ہوئی توانہیں بدنام کرنے اوردہشت گرد
باور کرانے کی کوشش ہوئی توانہوں نے کہا:’’اسلام قاتلوں کامذہب نہیں‘ اسلام
کا مطلب امن ہے۔‘‘ اسلام قبول کرنے کے بعد محمد علی کی شخصیت کاروپ بدل گیا
تھا اور انہوں نے ماضی کی ساری زندگی کو ہی بدل دیاتھا۔محمدعلی جب
شدیدبیمارہوئے تووہ اکثرکہاکرتے تھے کہ ’’مجھے اس بات پرپختہ یقین ہوگیاہے
کہ میں عظیم ترین نہیں بلکہ عظیم ترین صرف اﷲ کی ذات ہے۔‘‘
عظیم ترین"The Greatest"کاخطاب انہیں امریکہ اورعالمی سطح پر باکسنگ کی
دنیامیں مسلسل بے مثال فتوحات کے بعد دیاگیاکیونکہ وہ گزشتہ صدی کے سب سے
بڑے کھلاڑی قرار دیے گئے تھے۔اس کے باوجودبھی وہ کہاکرتے تھے کہ انہوں نے
اپنے لیے کبھی بھی یہ لقب پسندنہیں کیاتھا۔یورپ میں مسلم خواتین کے حجاب کے
خلاف مہم چلی توانہوں نے کہا کہ حجاب خواتین کاحق ہے۔ خواتین کو حجاب میں
ہی ہوناچاہیے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر قیمتی چیز کوچھپا کر رکھنے کاحکم
دیاہے۔دنیابھرمیں باحجاب خواتین مجھے زیادہ قابل عزت محسوس ہوئیں۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکہ میں صدارتی مہم عروج پر ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نامی
صدارتی امیدوار مسلسل اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے‘
محمدعلی نے کئی باراس کی سخت الفاظ میں مذمت کرنا ضروری سمجھا جس کی انہیں
زندگی کے آخری لمحات میں بھی قیمت اداکرناپڑی ۔ امریکہ میں ان کی وفات
پراگرچہ امریکی پرچم سرنگوں رہا لیکن پھربھی ویسا سوگ دیکھنے کونہ ملا جیسا
امریکی اپنے کسی اس سے کہیں چھوٹے ہیروکاکرتے ہیں۔محمدعلی نے اسلام قبول
کرنے کے بعدقرآن کے حکم پرپوراعمل کرتے ہوئے4شادیاں کیں جن سے ان کے ہاں
7بیٹیاں اور 2بیٹے پیداہوئے۔انہوں نے اپنی زندگی میں بے شماردولت کمائی
لیکن ساری دولت غرباء و مساکین اور بے سہارالوگوں میں خرچ کردی۔اس سے ان کی
سخاوت سارے عالم میں ایک استعارہ بن گئی تھی۔3جون2016ء بروز جمعۃ المبارک
کو دارِ فانی سے کوچ کرجانے والے محمد علی ایک ایسے عظیم انسان تھے کہ جن
کے بارے بلاتامل کہاجا سکتاہے ……!حق مغفرت کرے ،عجب آزاد مرد تھا۔
|