بلاول و مراد علی شاہ صاحب ! ۔۔۔ ایک نظر ادھر بھی

گورنمنٹ کامرس اینڈ اکنامکس کالج کراچی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر شجا ع الاسلام 16جولائی2016کو ریٹائر ہو گئے لیکن تاحال ان کے ریٹائرمنٹ کی فائل تیار نہیں ہو سکی اور کالج کی انتظامیہ کی طرف سے طرح طرح کے حیلے بہانے کر کے انھیں پریشان کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ کالج کی پرنسپل پروفیسر رضیہ کھوکھر ہیں جوپیپلزپارٹی کے سیاسی اور حکمراں حلقوں تک مبینہ طور پر براہ راست رسائی رکھتی ہیں جس کی وجہ سے کالج میں ان کی من مانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔پروفیسرشجاع الاسلام نے چھ ماہ قبل اپنے ریٹائرمنٹ کی فائل تیار کروانا شروع کی تھی تاہم تا حال ان کی ریٹائرمنٹ کی فائل پر پروفیسر رضیہ کھوکھر نے دستخط نہیں کئے ہیں اور وہ مسلسل تاخیری حربے استعمال کر رہی ہیں۔ کالج کے دیگر اساتذہ نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پروفیسر شجاع کو پروفیسر رضیہ کھوکھر اپنے مخالف گروپ کا سمجھتی ہیں اور ہر سطح پر ان کی پریشان کرنا اپنے فرائض منصبی میں سے ایک سمجھتی ہیں۔پروفیسر شجاع کے ساتھی اساتذہ کا کہنا ہے کہ پروفیسر شجاع نے اس سلسلے میں صوبائی محتسب میں بھی درخواست دی ہے تاہم وہاں سے ان کو اب تک کوئی مدد نہیں ملی۔ ان کا کہنا ہے کہ 16جولائی کو ریٹائرمنٹ کی وجہ سے پروفیسر صاحب کی تنخواہ رک چکی ہے اب جب تک ریٹائرمنٹ کے کاغذات مکمل طور پر تیار نہیں ہونگے اور پروفیسر رضیہ جب تک فائل پر دستخط کر کے متعلقہ اداروں کو نہیں بھجیں گی اس وقت تک انھیں پنشن بھی نہیں ملے گی جس کی وجہ سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ سرکاری ملازمین اور افسران کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ ریٹائرمنٹ سے قبل سرکاری افسران و ملازمین کی کاغذی کارروائی مکمل کر لی جائے تاکہ ریٹائرمنٹ کے وقت ملازمین کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود رضیہ کھوکھو پروفیسر شجاع کی فائل پر دستخط نہ کر کے ان کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہیں۔ اس طرح وہ توہین عدالت کی بھی مرتکب ہو رہی ہیں۔ کالج کے دیگر اساتذہ کا کہنا ہے کہ پروفیسر رضیہ کھوکھر کی من مانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ یا تو سیکریٹری ایجوکیشن فضل اﷲ پیچوہو بھی ان کے آگے بے بس ہیں یا پھر سیکریٹری ایجوکیشن کا بھی رضیہ کھوکھر کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔کالج کا اصل آفس سپرنٹنڈنٹ رشید ہے لیکن رشید عملاً بالکل بے بس ہے اس کی جگہ سپرنٹنڈنٹ کا سارا کام ندیم نامی شخص کرتا ہے جو رضیہ کھوکھو کا پسندیدہ آدمی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ندیم کا باضابطہ طور پر کالج سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے ۔ وہ کالج کا ملازم نہیں ہے لیکن اس وقت کالج کااصل کرتا دھرتا ندیم ہی ہے۔ کالج کے اساتذہ کا کہنا ہے اس سلسلے میں انھوں نے محکمہ تعلیم کے اعلی حکام یہاں تک کے سیکریٹری ایجویکیشن کو براہ راست خطوط لکھے ہیں اور انھیں صورت حال سے آگاہ کیا ہے لیکن رضیہ کھوکھو کی طاقتور حلقوں تک رسائی کی وجہ سے ان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔جن اساتذہ نے رضیہ کھوکھر کی شکایت تحریری طور پر کی ہے ان کو آج تک پروفیسر رضیہ کھوکھر انتقام کا نشانہ بنا رہیں ہیں۔مذکورہ کالج کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ پروفیسر رضیہ کھوکھر کے احکامات ہیں کہ کوئی بھی فائل یا درخواست براہ راست ان تک نہ لائی جائے لہذا پہلے کوئی بھی فائل یا درخواست کالج سپرنٹنڈنٹ رشید کے پاس جمع کروائی جاتی ہے، وہاں سے فائل یا درخواست غیر متعلقہ شخص ندیم کے پاس جاتی ہے اور پھر ندیم اگر مناسب سمجھتا ہے تو وہ فائل کالج کی پرنسپل پروفیسر رضیہ کھوکھر کے پاس لے کر جاتا ہے ورنہ فائل سرد خانے کی نظر ہو جاتی ہے۔یہی سب کچھ پروفیسر شجاع کے معاملے میں بھی ہوا ہے۔ پروفیسر شجاع نے جنوری 2016 میں اپنے ریٹائرمنٹ کی فائل تمام ضروری کاغذات کے ساتھ کالج سپرینٹنڈنٹ رشید کے پاس جمع کروا کے پروفیسر رضیہ کھوکھر تک پہنچانے کی کوشش کی۔ رشید نے فائل ندیم کے حوالے کی اور ندیم نے تاخیری حربے استعمال کئے یا پھر فائل پر غیر منطقی اعتراضات لگا کر واپس کر دی گئی اور پھر نئے سرے سے کام کرنا پڑا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج تک پروفسیر شجاع اپنی ریٹائرمنٹ کی فائل متعلقہ اداروں تک بھجوانے کے لئے دھکے کھا رہیں۔سوال یہ ہے کہ جس ملک اور صوبے کے پڑھے لکھے طبقے کی رقابتوں اور انا پرستی کا یہ حال ہے تو پھر ایک عام آدمی کا تو اﷲ ہی حافظ ہے۔ ایسی صورت حال میں جس ملک کے اساتذہ اور دانشور ذہنی طور پر کرپٹ اور اقرباء پروری کا شکار ہوں وہ ملک و قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے ، وہ صوبہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے ۔ ایک ایسا شخص کہ جس نے ساری زندگی تدریس کا کام کیا ہو اور گریڈ 19کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے وقت اس کے اپنے ساتھی اس کے ساتھ کالج کے ایک نچلے درجے کے ملازم سے بھی بد تر سلوک کر رہے ہوں تو ایسے کالج ، اس کی پرنسپل، انتظامیہ اور معاشرے کو کیا نام دیجئے؟ کیا رضیہ کھوکھراس ملک اور صوبے کے ہر قانون سے بالا تر ہیں کہ وہ کالج اور محکمہ تعلیم کے ہر قانون اور طریقہ کار کو پامال کر رہی ہیں اور پوری سندھ حکومت، وزیر تعلیم، سیکریری تعلیم، ڈائریکٹر کالجز سمیت سب تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں؟ کیا سندھ کے نئے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ جو بڑی بڑی تبدیلیوں کا دعوی کر رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری جو صوبے میں گڈ گورنینس کے خواہشمند ہیں پروفیسر شجاع الاسلام کی مدد کر سکیں گے؟
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.