آزادی کتنی بڑی نعمت ہے یہ محکوم قوموں سے
کوئی پوچھے تو وہ اس کی بابت بہت اچھے طریقے سے بتائینگی ۔۔۔ کشمیر ہو یا
فلسطین رہونگیا کے مظلوم مسلم ہوں یا شامی مسلمان ۔۔۔۔ آزادی کے خواب کو
شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے یہ قومیں مسلسل قربانیاں دیتی چلی جارہی ہیں ۔۔۔
آزاد ریاست کے اگر آپ باسی ہیں تب ہی آپ کی عزت بنی رہے گی اس دنیا میں
ورنہ محکوم قوموں کا جو حال آج ہم دیکھ رہے ہیں اس سے ہمیں آزادی کی قدرو
قیمت کا اندازہ ہوجانا چاہئے ۔۔۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے
ہمیں پاکستان کی صورت میں وہ نعمت عطا کی جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم
ہے ۔۔۔۔ ہم لوگوں نے تو آزاد فضاء میں آنکھ کھولی ۔۔۔قربانیاں تو ہمارے
آباؤاجداد نے دیں ۔۔۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم
پاکستان کو ایسی ریاست بنانے میں ناکام رہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا
اور جس کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی سال قائدِ پاکستان جناب محمد علی جناح
نے قربان کردئے اور آخرکار انہیں پاکستان اور مہاجریں کی فکر نے اندر ہی
اندر گھلا کر آزادی کے دوسال بعد ہی ہم سے جدا کردیا ۔۔۔۔ لیکن پاکستان وہ
ریاست نہ بن سکا اور ایسا لگتا ہے تمام کاوشیں اکارت چلے گئیں اور آج ہمیں
دنیا ایک ناکام ریاست کا باشندہ کہتی ہے لیکن کہتے ہیں نا کہ اگر اللہ پر
بھروسہ ہو اور قوتِ ارادی مضبوط ہو تو ناممکن کو ممکن بنانا کوئی مشکل کام
نہیں ۔۔۔ تو آئیے دیکھتے ہیں ایسے کون سے عوامل ہیں جن کا سدِباب کرکے ہم
اپنے وطن کو کامیاب ریاست بناسکتے ہیں ۔۔۔
١۔ سب سے پہلے عدل و انصاف کو یقینی بنانا ہوگا ۔۔۔ ہماری عدلیہ اور پولیس
کی کرپشن کے چرچے ہر سو زبانِ زد عام ہیں ۔۔۔ خواص طور پر پولیس کے کردار
پر جو داغ دھبے لگے ہیں انہیں دھونے کے لئے اسے سیاسی آلاکار بننے سے روکنا
ہوگا اور اسے جاگیرداروں اور سیاسی لٹیروں کی تعبیداری کے بجائے ان میں عام
عوام سے محبت اور ان کی حفاظت و خدمت کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور
اس کے لئے سب سے پہلے ان کی قلیل تنخواہیوں میں اضافے کی ضرورت ہے ۔۔ تاکے
وہ رشوت سے بچ سکیں اور بدعنوان عناصر کے ہاتھوں اپنے پیشے سے غداری سے بچ
سکیں ۔۔۔ پھر جو دوسرا مسئلہ ہمیں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی اور علاقے یا
صوبے سے پولیس لا کر کسی اور علاقے یا صوبے میں تعینات کی جاتی ہے ۔۔۔جس کے
سبب بھی عوام اور پولیس میں وہ ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو پاتی ۔۔۔ چاہئے
تو یہ ہے کہ سندھ ،پنجاب بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کا اپنا سیلف ڈفینس
سسٹم ہو ۔۔۔ اور اس میں وفاق کا کوئی عمل دخل نہ ہو ۔۔۔
٢۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ زراعت سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔۔ انڈیا یہ بات بہت
پہلے آزادی کے بعد جان گیا تھا کہ ترقی کے لئے زراعت کے شعبے کو جاگیری
نظام سے الگ کرنا ہوگا ورنہ ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا ۔۔۔ مگر افسوس
ہم پاکستان کے اس اہم شعبے سے جو قدرت نے بے لاگ بےحساب ہمیں نوازا ہے سے
جاگیری نظام کو ہٹا نہ سکے ۔۔۔ بلکے عام ہاری جو اپنی محنت اور خون سے کھیت
کھلیان کی آبیاری کرتا ہے وہ غریب سے غریب تر ہوتا گیا اور یہ جاگیر دار
اور وڈیرے امیر سے امیر تر ۔۔۔۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ انڈیا کی طرح جاگیری
نظام کو بالکل ختم کردیا جائے اور آسان شرائط پر زر خیز زمینیں ہاریوں کے
حوالے کی جائیں اور ان پر ٹیکس نافظ کیا جائے جو بدقسمتی سے جاگیرداروں نے
معاف کرائے ہوئے ہیں ۔۔۔ سوچئے صرف ان زمینوں کھیت کھلیان سے ملنے والا
ٹیکس ہماری گرتی ہوئی معیشت کو کتنا سہارا دے سکتا ہے ۔۔۔
٣۔ تعلیم ایک کامیاب ریاست کی سب سے اہم کنجی اس کی ترقی کی ضامن ۔۔۔ تعلیم
جو آپ کو کسی بھی کام کو بہتر طریقے سے کرنے میں مدد دیتی ہے ۔۔۔ اچھی
تعلیم و تربیت قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالدیتی ہے ۔۔۔۔ ہمیں اسے عام کرنا
ہوگا اور اس کے لئے دسویں تک تعلیم سب کے لئے مفت فراہم کرنی ہوگی ۔۔۔ اور
ہر بچے کے لئے لازمی ہو کہ وہ کم از کم میٹرک تک تعلیم حاصل کرے ۔۔۔ ضروری
نہیں ہر کوئی انجینئیر یا ڈاکٹر ہی بنے ۔۔۔ بچے کا جس فیلڈ میں بھی رجحان
ہو ریاست اسے اس میں مدد فراہم کرے ۔۔۔ اور غریب طلباء کو وظیفے جاری کئے
جائیں ۔۔۔ یاد رکھیں تعلیم یافتہ قومیں ہی آگے ترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں
اور جو تعلیم کی ضرورت کو نہیں سمجھ پاتیں وہ تنزلی کا شکار ہوجاتی ہیں ۔۔۔
اور پھر دیگر قومیں انہیں روندتی ہوئی چلی جاتی ہیں ۔۔۔
٤۔ روزگار کے مواقع آج اتنے دکھائی نہیں دیتے جتنی تعداد میں تعلیمی اداروں
سے طلباء فارغ التحصیل ہورہے ہیں ۔۔ اور پھر اداروں میں سفارش یا سیاسی اثر
رسوخ کی بنا پر بھرتیوں نے بھی بےروزگاری میں اضافہ کردیا ہے اور آئے دن
حالات سے تنگ آئے نوجوانوں کی خودکشی کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی
رہتی ہیں ۔۔۔ جو انتہائی تشویش ناک بات ہے ۔۔۔ اس کا سدِباب تو بس یہ ہے کہ
حکومت روزگار کے نئے مواقع فراہم کرے ۔۔۔ نجی بزنس کو پروموٹ کیا جائے اور
آسان شرائط پر لون بھی دئے جائیں ۔
٥۔ صحت ہے تو جہاں اپنا یہ بات بالکل درست ہے ۔۔۔۔ جو بدقسمتی سے پاکستان
میں ایک عام آدمی کو یہ سہولت میسر نہیں ۔۔۔ سرکاری ہسپتالوں کا حال کسی سے
ڈھکا چھپا نہیں ۔۔۔ ادویات سے لے کر جراحی کے آلات تک کچھ بھی مریض کو
دستیاب نہیں اگر پرائیویٹ ہسپتال جاؤ تو فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ایک عام
غریب اپنی جان بھی گروی رکھدے تو بھی ادا نہیں کرسکتا ۔۔۔ اس کا آسان اور
سیدھا حل جو مجھے سمجھ میں آتا ہے وہ شوکت خانم ہسپتال کی طرح کے ہسپتال
قائم ہونے چاہئیں اور امریکہ یورپ کی طرح ہیلتھ انشورنس پالیسیز حکومت کو
متعارف کرانا چاہئے ۔۔۔ امیر افراد ہیلتھ انشورنس خرید کر فائدہ اٹھائیں
اور غریب کو یہ سہولت حکومت فراہم کرے ۔۔۔
٦۔ ٹیکس سسٹم میں جو آئے دن گھپلوں اور ٹیکس چوری عام ہے اس کا سدِ باب بھی
ہونا بہت ضروری ہے ۔۔۔ اسکے لئے قانون کو سخت کرنے اور انکم ٹیکس عام اور
خواص دونوں کے لئے یکساں قوانین لاگو ہو نے چاہئیں ۔۔۔ تاکے لوگوں کا اس
ادارے پر اعتماد پھر سے بحال ہوجائے ۔۔۔
٨۔ یوٹیلیٹی بلز سسٹم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ میری ناقص تجویز تو یہ
ہے کہ پانی ، بجلی، اور گیس پر ٹیکس پانچ پرسینٹ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے
۔۔۔ تاکے عام آدمی پر یہ جو اضافی بوجھ لاد دیا گیا ہے اس سے اسے کچھ تو
راحت ملے ۔۔۔
٩۔ روپے کی قدر کو مستحکم کرنے اسے ایک خواص حد سے نیچے گرنے نہیں دینا
چاہئے ۔۔۔۔ مشرف کے دور کی مجھے یہی بات پسند تھی کہ اس دور میں روپے کی
قدر میں اضافہ ہوا تھا اور ایک جگہ آکر اس کی قیمت فکس کردی گئی تھی ۔۔۔
مگر ان کے بعد کے دور میں روپے کی جو ناقدری ہمارے نا احل حکمرانوں نے کی
اس پر ماتم کرنے کے سوا ہم کر بھی کیا سکتے ۔۔۔ بس دل مسوس کر رہ گئے
۔۔۔۔ہمیں اپنی معیشت کو پھر سے سمبھالا دینا ہے تو ہمیں ایکسپورٹ کوالٹی
بڑھانی پڑے گی ۔۔۔ اور اس کے لئے روپے کی قدر میں اضافہ بہت ضروری ہے ۔۔۔
اور دیگر ممالک سے کچھ امپورٹ کرنے کی شرائط میں ہمیں اپنے مالِ تجارت کے
لئی ان کی منڈیوں تک رسائی کی شرط بھی رکھنی ہوگی اور نئی منڈیاں تلاش کرنی
ہونگی ۔۔۔
١٠۔ ۔ ہمیں ایک ایسے حکمران اور قائد کی ضرورت ہے جو مشکل وقت میں شترمرغ
کی طرح گردن زمیں میں دبانے کی بجائے کسی دباؤ میں آئے بغیر نڈر فیصلے کرنا
جانتا ہو ۔۔۔ ہم میں بدعنوانی نیچے سے لے کر اوپر تک پھیلی ہوئی ہے ۔۔۔ اور
سخت احتساب کی ضرورت سب کو ہے ۔۔۔ ڈنڈا ہاتھ میں لے کر چھترول اوپر سے لے
کر نیچے تک کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور یہ وہی حکمران کر سکتا ہے جس کا دل
خوفِ خدا سے بھرا ہو ۔۔۔ جو مخلص ہو وطنِ عزیز سے ۔۔۔اور ایسا شخص خود سے
پیدا نہیں ہوگا اسے آپ اور میں ہی لا سکتے ہیں ۔۔۔جس کے لئے ہمیں پہلے اندر
کی گندگی کو صاف کرنا پڑیگا ۔۔۔ پھر شخصیت پسندی ، لسانیت اور فرقہ واریت
کی عینک اتارنی پڑھے گی ۔۔۔ تب ہی یہ سب ممکن ہوسکے گا ۔۔۔
قرآن وسنہ سے ہٹ کر ہم کوئی ایسا نظام ملکِ خدا داد میں نہیں لاسکتے ۔۔۔ ان
تمام تجاویز پر اللہ کے نظام کے مطابق عمل کیا جائے تو قوی امید ہے کہ
پاکستان میں بھی چین و راحت کا دور دورا ہوجائے ۔۔۔۔ ویسے لفاظی سے زیادہ
ہمیں عمل کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور یہ جب ہی ممکن ہوگا جب ہم سب اس کے لئے راضی
ہوں ۔۔۔ اور اس کے لئے ہمیں تمام اختلافات کو بھلا کر ایک ہونا پڑیگا ۔۔۔
ایک ملت میں خود کو ڈھالنا ہوگا ۔۔۔۔ یک جاں ہونا ہوگا اور یہ سب ہمیں قرآن
وسنہ پر عمل کرنے اور توکل اللہ پر کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے ۔۔۔ فی امان
اللہ
میرے وطن کی گلیوں میں
اب بھی روشنی کی ایک کرن
مجھے نا امید ہونے نہیں دیتی
پھر سویرا ہوگا روشنی پھوٹے گی
اندھیرے ظلمت کے چھٹ جائینگے
وطن میں پھر بہار ڈیرا ڈالے گی
ڈالی ڈالی پھر اس کی جگمگائے گی
کلی کلی مسکائے گی
جھوم اٹھے گی پھر فضاء
اللہ کی رحمت بھی چھا جائے گی
کرن چپ کے سے کہتی ہے مجھے
ظلمت چھٹنے کو ہے
بہار آنے کو ہے بہار آنے کوہے |