آرمی چیف ٗجنرل راحیل شریف کے نام کھلا خط

پاک فوج کی عملی مدد کے لیے پاکستانی قوم کو ذہنی طور پر کرنا بہت ضروری ہے ۔

پاکستان آرمی کا شمار دنیا کی بہادر ٗ تربیت یافتہ اور نڈر افواج میں ہوتا ہے ۔یوں تو اس کا اظہار انگلینڈ میں ہونے والے مختلف افواج کے باہمی مقابلوں میں بھی ہوچکا ہے جہاں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اعلی ترین اعزازات حاصل کرکے امریکہ سمیت دنیا کی دیگر افواج کو شکست فاش دی ۔ لیکن پاک فوج کا اصل امتحان ایک چھپے ہوئے دشمن کے ساتھ دشوار گزار اور مشکل ترین پہاڑی علاقوں( جہاں طویل ترین غاروں کی بہتات بھی ہے )میں ہوا ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ افغانستان میں دنیا کی دوسری بڑی سپر طاقت سوویت یونین کی فوج ہر قسم کے جدید اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود دس سال سے زائد عرصہ تک مصروف جنگ رہی لیکن چھپے ہوئے دشمن کے خلاف انہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی بالاخر انہیں اپنی شکست قبول کرکے دریائے آمو کے اس پار یہ درخواست کرتے ہوئے جانا پڑا ۔ کہ خدارا پیچھے سے ہم پر حملہ نہ کیاجائے ۔ اسی شکست کے نتیجے میں سوویت یونین (جسے عالمی تاریخ میں سفید ریچھ کے نام سے پکارا جاتاتھا)کے ٹکڑے ہوگئے اور چھ اسلامی ریاستیں معروض وجود میں آگئیں ۔

سوویت یونین کے بعد امریکہ بدمست ہاتھی کی طرح اپنی طاقت کے زعم میں 9/11 کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان اترا۔ اسے یقین تھا کہ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی (جو زمین کے اندر بھی جھانک لیتی ہے )کے بل بوتے پر اپنے دشمنوں کا تعاقب کرکے صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے گا ۔ اب جبکہ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو افغانستان میں جنگ لڑتے ہوئے سولہ سال ہوچکے ہیں ۔اربوں ڈالر اور اپنے سینکڑوں فوجیوں کی قربانی دینے کے بعد بھی امریکہ افغانستان کو فتح نہیں کرسکا ۔ اس وقت افغانستان کے 54 سے زائد صوبوں پر طالبان کا قبضہ ہے جبکہ 104 شہرکسی بھی وقت طالبان کے قبضے میں جا سکتے ہیں ۔ یہ شکست امریکہ اور اس کے اتحادی افواج کے لیے باعث ندامت ہے جس کی خفت مٹانے کے لیے امریکی جرنیل پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں۔حالانکہ وہ دل سے یہ قبول کرچکے ہیں کہ ان حالات میں وہ قیامت تک بھی افغانستان کو فتح نہیں کرسکیں گے ۔

آپ کی ولولہ انگیز کمانڈ میں پاک فوج نے جس قدر بہادری ٗدلیر اور مہارت سے قبائلی ایجنسیوں بطور خاص شمالی و جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور اور کامیاب کاروائیاں کی ہیں ٗ اس کااعتراف قومی اور عالمی سطح پر بلاشبہ کیا جارہاہے ۔ یہ تمہید باندھے کا مطلب یہ ہے کہ پاک فوج کے جن افسروں اور جوانوں نے دونوں پاک بھارت جنگوں ٗ معرکہ کارگل و سیاچن اور قبائلی ایجنسیوں میں فوجی آپریشن کے دوران جانوں کانذرانہ پیش کیا ہے۔ ان شہیدوں کے کارناموں کو پاکستانی قوم تک پہنچانے کے لیے کہانیاں لکھوا کر ان کو ڈرامائی تشکیل دلوائیں پھر ان ڈراموں کو پی ٹی وی سمیت تمام ٹی وی چینلز پر آن ائیر کرنے کا اہتمام کریں کیونکہ یہ کام صرف فوج کا ہے اور فوج کے تعاون اور حکم کے بغیر کوئی یہ کام کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔تاکہ پاکستانی قوم عملی طور پر فوج کی سپورٹ کے لیے تیار ہوسکے ۔

اس مقصد کے لیے آئی ایس پی آر راولپنڈی میں ایک الگ شعبہ قائم کریں جس میں بطور خاص پروفیشنل اور تجربہ کار ڈرامہ رائٹر ٗ پروڈیوسر اور دیگر فنی امور کے ماہر بھی شامل ہو ں ۔ا س شعبے کی شاخیں لاہور ٗکراچی ٗ ملتان ٗ پشاور ٗ کوئٹہ کے آئی ایس پی آر میں قائم کی جائیں ۔جہاں جہاں بھی فوج کے افسروں اور جوانوں کی شہادتیں ہوچکی ہیں۔ رائٹر ان کی یونٹوں کے افسروں اور جوانوں سے ملنے کے بعد شہداء کے گھروں ٗ تعلیمی اداروں میں جاکر اہم معلومات اکٹھی کرکے ایسی کہانی تیار کریں جو شہداء کے کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے نوجوان نسل میں جذبہ حریت کو اجاگر بھی کریں ۔اس طرح جو کہانیاں تیار ہوں گی اسے ڈرامائی تشکیل دینے کے لیے ممتاز رائٹر امجد اسلام امجد ٗ سید اصغر ندیم سید اور ان جیسے مزید رائٹروں کو یہ کام تفویض کردیاجائے۔ جب مکالمے بھی لکھے جاچکیں تو پھر فلم پروڈکیشن کے ممتاز لوگوں کی خدمات ڈرامے بنانے کے لیے حاصل کی جائیں جو پاکستان ٹیلی ویڑن کے تمام مراکز سے باآسانی مل سکتے ہیں اور تیار ہونے والے ڈراموں کو "شہادتوں کا سفر" نام سے ایک سلسلہ وار شروع کردیا جائے ۔ اس طرح پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے کارناموں کو دیکھ کر عوام عملی طور پر سپورٹ کے لیے آگے بڑھیں گے۔جناب عالی یہ میڈیا کا دور ہے میدان میں لڑی جانے والی جنگ اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی جب تک میڈیا اس کا ساتھ نہ دے اور رائے عامہ ہموار کرکے عوام کو اس کاعملی طور پر حصہ دار نہ بنایاجائے ۔

یقینا آپ کے علم میں ہوگا جب امریکی فوج عراق اور افغانستان میں پہنچیں تو ان کے ساتھ میڈیا کے لوگ بھی شامل تھے ۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان پر تین چار انگلش فلمیں بن چکی ہیں جبکہ عراق میں ہونے والی جنگ پر بھی کتنی ہی فلمیں تیارہوکر مارکیٹ میں کروڑوں ڈالر کا بزنس کرچکی ہیں ۔ لیکن پاکستان آرمی کے جنگی کارناموں پر وہی دو یا تین ڈرامے ہر سال آن ائیر ہوجاتے ہیں جن میں میجر عزیز بھٹی ٗ دوسرا میجر محمدطفیل اور تیسرا راجہ محمد سرور شہید کے ڈرامے شامل ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ جی ایچ کیو کے کرنل محمد عارف صاحب نے مجھ سے دس نشان حیدر پر کہانیاں لکھوائی تھیں جس پر ڈرامائی تشکیل کا کام بعد میں ہونا تھا میں نے تمام کہانیاں لکھ کر انہیں بھجوادی تھیں لیکن اس کے بعد آج تک بالکل خاموشی ہے ۔

پاکستانی قوم پاک فوج سے والہانہ محبت کرتی ہے جس کااظہار پرچم کشائی کی تقریب کے موقع پر دیکھاجاسکتاہے ۔ علاوہ ازیں6 ستمبر اور 7 ستمبر کے دنوں میں پاک آرمی کی جانب سے جو فوجی نمائشیں ہوتی تھیں ٗ ان میں بھی پاکستانی قوم کے چھوٹے بڑے عورتیں اور بچے سبھی جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے بلکہ کئی کئی میل پیدل کر لاہور میں ہم فورٹریس سٹیڈیم میں فوج کی پریڈ دیکھنے جایا کرتے تھے ۔ پھر 7 ستمبر کی صبح نو بجے اور شام 5 بجے جنگی جہازوں کافضائی مظاہرہ دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ائیرپورٹ پہنچ جایا کرتے تھے ۔ پتہ نہیں یہ سلسلہ کیوں روک دیاگیا ہے ۔جس سے دفاعی امور میں عوامی دلچسپی حد درجہ کم ہوتی جارہی ہے ۔سب سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ 6 ستمبر کی چھٹی بھی ختم کردی گئی ہے جب لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کرہی راولپنڈ ی میں ہونے والی فوجی پریڈ کو دیکھ کر طمانیت کااظہار کر لیا کرتے تھے ۔ کہا جاتاہے کہ آج کے بچے کل کے جوان ۔ پاکستانی قوم کے بچے اپنی فوج اور وطن سے والہانہ محبت کرتے ہیں فوج کی پریڈ ٗاسلحی نمائش اور فضائی مظاہروں کو دیکھ کر ان کے دل میں وطن عزیز پر نچھاور ہونے کا جذبہ پیدا ہوتاہے ۔

یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ انڈین ٹی وی پرایک ڈرامہ "سی آئی ڈی" گزشتہ کئی سالوں سے دکھایا جارہاہے یہ ڈرامہ پاکستانی گھروں میں اتنے شوق اور ذوق سے دیکھاجاتاہے کہ اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیاجاسکتا ۔ ایسے ڈرامے ذہنوں میں تاثر پیدا کرتے ہیں ۔انڈین ڈراموں کو دیکھ کر ہمارے بچے بھی اسی کلچر کا حصہ بنتے جارہے ہیں جبکہ ہماری جانب سے بالکل خاموشی طاری ہے ۔ پاکستان میں پی ٹی وی کے علاوہ ساٹھ ستر ٹی وی چینلز موجود ہوں گے لیکن تمام کے تمام انڈین پروگرام ٗ کپیل کامیڈی شو ٗ سی آئی ڈی جیسے درجنوں ڈرامے اور انڈین فلمیں دکھاکر بھارتی تہذیب اور کلچر کو پرموٹ کررہے ہیں ہمارے سنیماگھروں میں بھی انڈین فلمیں ہی دکھائی جارہی ہیں ۔ان حالات میں جبکہ بھارتی ثقافتی یلغار ہر سطح پر جاری ہے کیسے پاکستانیت کو فروغ دیا جاسکتاہے ۔یہ فطری امر ہے کہ فلم ہو یا ڈرامہ ٗ ہیرو کے کردار میں انسان خودکو محسوس کرتا ہے ۔

کبھی وہ وقت بھی تھا جب یونس جاوید کا لکھاہوا ڈرامہ "اندھیرا اجالا" قومی نشریاتی رابطے پر نشرہوتا ۔اس ڈرامے کو نہ صرف پاکستان بھر میں نہایت شوق سے دیکھاجاتاتھا بلکہ بھارت میں بھی یہ ڈرامہ مقبولیت کی تمام حدیں عبور کرچکاتھا اور بھارتی شہروں کی سڑکیں اس وقت ویران ہوجایا کرتی تھی جس وقت یہ ڈرامہ آن ائیر ہوا کرتا تھا ۔ "اندھیرا اجالا" کا رائٹر یونس جاوید اب بھی زندہ ہے اس کی خدمات پاکستان آرمی کے لیے حاصل کی جاسکتی ہیں اور جو یونٹیں جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علاوہ دیگر قبائلی ایجنسیوں میں فوجی آپریشن میں مصروف رہی ہیں ان یونٹوں سے یونس جاوید صاحب کا آئی ایس پی آر کے ذریعے رابطہ کروائیں تاکہ وہ فوجی آپریشن اور دشمنوں کے خلاف معرکہ آرائی کی حقیقی کہانیوں کو تحریر میں لاکر اندھیرا اجالا کی طرح ایک مکمل سیریز تحریر کریں جس کا نام "شہادتوں کا سفر" ہو ۔جس طرح بھارت میں سی آئی ڈی کی ایک سو سے زائد قسطیں آن ائیر ہوچکی ہیں اور اب بھی تسلسل سے وہ جاسوسی اور معرکہ آرائی پر مشتمل ڈرامہ جاری ہے اور ذوق شوق سے دیکھاجاسکتا ہے ۔ پاک فوج کے افسر اور جوانوں کے کارناموں اور معرکہ آرائی کو ڈرامے کی شکل میں پی ٹی وی اور دیگر تمام ٹی وی چینلز پر آن ائیر کرواکر پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل میں دفاع وطن کے حوالے سے ذمہ داریوں کا احساس کرواتے ہوئے ان میں مثبت خیالات کو ابھارا جاسکتا ہے ۔جو نوجوان بے روزگاری یا کسی اور وجہ سے دشمن کے آلہ کار بن رہے ہیں ان کو وطن عزیز کے دفاع کی جانب سے راغب کیاجاسکتا ہے۔

یونس جاوید کی طرح امجد اسلام امجد جس کے تحریر کردہ ڈرامے ٗ وارث اور سمندر نے پاکستان اور بھارت دونوں میں مقبولیت کی تمام حدیں عبو ر کی تھیں ان کو کورکمانڈر لاہو ر کے دائرہ کار میں آنے والی فوجی یونٹوں کے شہید افسروں اور جوانوں کی کہانیوں کو تحریر کرکے ڈرامائی شکل دینے پر آمادہ کیاجائے ۔ پشاور ٗ کوئٹہ ٗ کراچی ٗ ملتان سمیت تمام کور کمانڈر کی حدود میں جتنی بھی یونٹوں نے 1965اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں ٗ سیاچن اور معرکہ کارگل میں داد شجاعت کے جوہر دکھائے اور وہاں ان کے افسر اور جوان شہید ہوئے ان شہداء کا یہ حق ہے وطن عزیز کے دفاع کے حوالے سے ان کے کارناموں کو ڈراموں یا فلموں کی شکل پوری قوم کے سامنے لایا جائے ۔تاکہ ان شہیدوں کے لواحقین کو قوم کی نظر میں وہ مقام حاصل ہوسکے جس کے وہ بلاشبہ مستحق ہیں ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ جان سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں ہوتی جو شخص پاکستان کی سلامتی اور حفاظت کے لیے جان دیتا ہے اس سے بڑا محسن اور کون ہوسکتا ہے ۔

اس کے علاوہ اصغر ندیم سید بھی جو پہلے ہی آئی ایس پی آر کے تعاون سے کئی ڈرامے بناکر ریلیز کرچکاہے اس کی خدمات سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے ۔ اگر ہوسکے تو جی ایچ کیو سمیت تمام کور کمانڈر دفاتر میں ایک رائٹر ونگ قائم کیاجائے جو فوج کے وقتا فوقتا رونما ہونے والے کارناموں کو تحریر کی شکل دے کر قومی اخبارات و جرائد میں شائع کروائے اور قوم کو پاک فوج کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ رکھے ۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ پاکستان کے ممتاز ادیب ٗ کالم نگار اور سابق بیورو کریٹ ڈاکٹر صفدر محمود اپنے کالم میں جرمنی کے حوالے سے( جہاں ایک مطالعاتی دورے پر گئے ہوئے تھے ) ایک واقعے کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ میں جرمنی کی ایک ٹرین میں سفر کررہا تھا کہ اچانک وہ ٹرین ایک ایسی ویران جگہ پر رک گئی جہاں ریلوے اسٹیشن نہیں تھا۔ میں نے سمجھا شاید انجن میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہے لیکن مجھے اس وقت تجسس ہواکہ ٹرین میں سوار ہر شخص کھڑکی سے گردن نکال کر دور سے آنے والے ایک شخص کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ شخص آہستہ آہستہ چلتا ہوا ٹرین کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ یہ صورت حال میرے لیے حیرت کا باعث تھی کیونکہ جرمن وہ ملک ہے جہاں چانسلر کے لیے بھی ٹرین روکی نہیں جاسکتی ۔ پھر یہ کون شخص ہے جس کے لیے ویرانے میں ٹرین رکی اور سب جرمن اس کے استقبال کے لیے اپنی اپنی نشستیں چھوڑ کر والہانہ انداز میں کھڑے ہوگئے ۔جب میرا تجسس حد سے زیادہ بڑھ گیا تو میں نے اپنے پاس ایک کھڑے ہوئے جرمن سے پوچھا کہ یہ شخص کو ن ہے جس کے لیے یہ سب اہتمام کیا جارہا ہے ۔ اس جرمن نے نہایت فخر سے جواب دیا ۔آپ نے اس شخص کی چھاتی پر تمغہ نہیں دیکھا۔ وہ شخص جرمن قوم کا ہیرو ہے اس نے دوسری جنگ عظیم میں جرمن قوم کا دفاع کرتے ہوئے اپنی ٹانگ پر ایک زخم کھایا تھا۔ جرمن نے مزید بتایا کہ جرمنی میں چانسلر کے لیے قانون کو توڑا نہیں جاسکتا لیکن جو شخص جرمن قوم کی حفاظت کے لیے زخم کھاتا ہے یا اپنی جان دیتا ہے وہ اس قوم کا بلاشبہ ہیرو قرار پاتاہے ۔جب تک وہ خود زندہ رہتاہے ٗہر جگہ اس کی عزت اور تکریم کی جاتی ہے ٗ مرنے کے بعد اس کے لواحقین کو یہ مرتبہ حاصل ہوجاتاہے ۔ اس کے برعکس ایک واقعہ جو مجھے خودمحافظ لاہور میجر شفقت بلوچ نے سنایا ۔ انہوں نے بتایاکہ وہ جن دنوں ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں قیام پذیر تھے اپنے پوتے کو ماڈل ٹاؤن کے ایک سکول میں داخل کروانے کے لیے لے گئے اور سکول کے پرنسپل سے پوتے کو داخل کرنے کی درخواست کی ۔ پرنسپل نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ داخلے بند ہوچکے ہیں اس لیے اب کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ میجر شفقت بلوچ جنہیں پاکستان آرمی کی جانب سے جرات و بہادری کے اعتراف میں دو مرتبہ ستارہ جرات ملا ہے ٗ جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر سب سے پہلا بھارتی فوج کو اپنے 110 جوانوں کے ساتھ نہ صرف دس گھنٹے تک روکے رکھا بلکہ بھارتی فوج کے بریگیڈ کواس قدر نقصان پہنچایا کہ انہیں حملہ آورہونے کے لیے نیا بریگیڈلانچ کرنا پڑا ۔اس اعتبارسے انہیں محافظ لاہور کا خطاب دیاگیا ۔ بہرکیف پرنسپل کے انکار کے بعد وہ سر جھکائے خاموشی سے واپس آرہے تھے کہ سکول سے باہر ہی انہیں ایک ایسا شخص مل گیا جو انہیں بہت اچھی طرح جانتا تھا ۔ اس شخص نے نہایت ادب سے سلام کیااور پوچھا میجر صاحب آپ یہاں کیسے تشریف لائے ۔ میجر شفقت بلوچ (جو کرنل کے رینک پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے لیکن ان کو شہرت میجر کی حیثیت سے ہی حاصل ہوئی )نے کہا میں اپنے پوتے کو سکول میں داخل کروانے آیا تھا لیکن پرنسپل نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اب داخلے کی مدت ختم ہوچکی ہے ۔ اس شخص نے کہا سر آپ میرے ساتھ چلیں ٗ میں پرنسپل سے بات کرتا ہوں ۔ وہ شخص میجر شفقت بلوچ کو اپنے ساتھ لے کر ایک بار پھر پرنسپل آفس پہنچا اور بہت غصے اور رعب دار آواز میں پرنسپل سے مخاطب ہوکر کہا جناب پرنسپل آپ انہیں جانتے ہیں یہ کون ہیں ؟ پرنسپل اس شخص کی عزت و تکریم کے لیے اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کہا نہیں سر میں نہیں جانتا انہیں ۔ اس شخص نے کہا یہ محافظ لاہور میجر شفقت بلوچ ہیں جو 65کی پاک بھارت جنگ کے ہیرو ہیں اگر یہ بھارتی فوج کا راستے نہ روکتے تو آج نہ آپ کا یہ سکول ہوتااور نہ آپ اس سکول کے پرنسپل ہوتے ۔ جب وہ شخص گرجدار آواز میں یہ سب کچھ کہہ رہا تھا تو اسی کمرے میں ایک جانب میجر شفقت بلوچ نہایت خاموشی سے کھڑے ساری باتیں سن رہے تھے ۔ پرنسپل کے ماتھے پر پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے ٗوہ آگے بڑھا اور خود کرسی اٹھا کر میجر شفقت کو پیش کی اور معذرت کرتے ہوئے ان کے پوتے کو سکول میں داخل کرلیا ۔ کاش ہم اپنے شہیدوں اور غازیوں کی عزت کرنا سیکھ جائیں ۔

عالی مرتبت ۔ کیا پاکستان میں بھی پاک فوج کے شہیدوں اور غازیوں کو یہی عزت اور مقام حاصل ہے ۔ ؟یہ واقعہ اس بات کا اظہار ہے کہ پاک فوج کے جس افسر اور جوان نے دفاع وطن کے لیے اپنی جان دی یا اپنے جسم پر زخم کھائے انہیں پوری قومی سطح پر ہیرو کادرجہ حاصل ہونا چاہیئے۔ پاک فوج کے شہیدوں اور غازیوں کو آپ کے علاوہ یہ مرتبہ اور کون دلا سکتا ہے ۔ آپ پاک فوج کے وہ عظیم ہیرو ہیں جن کے والد نے بھی دفاع وطن کے لیے اپنی زندگی کاایک ایک لمحہ قربان کیا ٗ آپ کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر نے مشکل ترین حالات میں وطن عزیز کا دفاع کرتے اپنی جان قربان کی اور نشان حیدر حاصل کیا۔جن کی جرات اور بہادری کے کارنامے پاکستان کی عسکری تاریخ میں ہمیشہ سنہرے لفظوں سے لکھے جاتے رہیں گے اور ان حروف کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑسکتی ۔ اب آپ کی کمانڈ میں پاکستان آرمی آستین میں چھپے ہوئے دشمن کے خلاف نہایت کامیابی سے دفاع وطن کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ ملک دشمن عناصر پر آپ کا خوف کس قدر ہے اس کا اظہار طالبان کے چنگل سے آزا د ہوکر آنے والے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی زبان سے آپ نے سن لیاہوگا ۔ جس نے کہا تھاکہ افغان طالبان اور دہشت گرد اگر کسی سے ڈرتے ہیں تو وہ شخص آپ ہیں ۔ آپ نے ضرب عضب کو کامیابی سے ہمکنار کرکے تمام قبائلی ایجنسیوں کو ملک دشمن عناعر سے پاک کرکے یہ ثابت کردیا ہے۔ قبائلی علاقوں کی دشوار گزار پہاڑی چوٹیوں اور طویل ترین غاروں کو(جنہیں برطانوی فوج بھی فتح نہیں کرسکی تھی جبکہ افغانستان میں امریکہ سمیت اتحادی افواج بھی چھپے ہوئے دشمن سے جنگ لڑتے لڑتے ذہنی اور نفسیاتی مریض بن چکی ہے کامیابی دور دور تک اب بھی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ امریکی اور اتحادی فوج کے نکلتے ہی دوبارہ طالبان حکومت پر قابض ہوجائیں گے۔)اپنی بہترین حکمت عملی اور جوانوں کی بہادری کی بدولت وہ پہاڑی چوٹیاں اور غاریں دہشت گردوں سے خالی کرواکر انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

پاک فوج کے جن افسروں اور جوانوں نے ضرب عضب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنے جسموں پر زخم کھائے جو آج بھی آرمی ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں یا جو مستقل معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں ٗجنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ سب پاکستانی قوم کے محسن ہیں اور ان محسنوں کی شخصیت اور کارناموں کو عام کرنا بہت ضروری ہے ۔

دنیا اب ترقی کرچکی ہے اور الیکٹرونکس میڈیا کی یلغار نے پوری کائنات کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ بطور خاص میں امریکہ کی مثال دوں گا۔جہاں ایسی ایسی ایکشن موویز بنائی جاتی ہیں جو دنیا بھر میں اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی فوجیوں کی بہادری ٗ گوریلا وار میں مہارت اور امریکی ثقافت و تہذیب کو اجاگر کرنے کا باعث بنتی ہیں ۔چند ایک کے نام یہاں درج کر رہا ہوں ۔ Airforce one, White House under Attack کے علاوہ افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیوں کی بہادری پر مشتمل کتنی ہی فلمیں پوری دنیا میں اپنی کامیابی کا لوہا منواچکی ہیں ۔اس کے باوجود کہ افغانستان اور عراق میں امریکی جنگ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیاجاچکا ہے ۔ لیکن امریکی قوم اور حکمران اپنے ہیرو کے کارنامے پوری دنیا کو دکھانے پر خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں ۔

جی ایچ کیو پر حملہ ہوا۔ اسے جس جرات اور بہادری سے ناکام بنایا گیا اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیاگیا ۔یہ بھی تاریخ میں ایک اہم کا رنامے کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ کامرہ ائیرنوٹیکل کمپلیکس ٗ کراچی میں بحریہ کے فضائی اڈے ٗپشاور ائیر پورٹ پر حملہ ٗ لاہور میں پولیس لائن پر دو حملے ہوئے جن کا کامیابی سے دفاع کیا گیا۔ یہ ایسے سانحات ہیں جن کے بارے حقائق اور شواہد اکٹھے کرکے ڈرامے بنائے جاسکتے ہیں ۔ تاکہ پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی پتہ چل سکے کہ پاک فوج کے کمانڈوز مشکل ترین حالات میں کس قدر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے حملے ناکام بناتے ہیں ۔

نسیم حجاز ی کے کتنے ہی ناول جو مسلم فاتحین کی جنگی فتوحات سے لبریز مارکیٹ میں موجو د ہیں لیکن ہمارے ٹی وی چینلز اپنے مسلم فاتحین کی کہانیوں پر مشتمل سلسلہ وار ڈرامے بناکر نوجوان نسل کی ذہنی تربیت کرنے کی بجائے بھارتی فلمیں ٗ ڈرامے اور سٹیج پروگرام دکھانے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جستجو میں مصروف ہیں ۔ حکومتی ادارہ پیمرا آنکھوں پر پٹی باندھ کر نوجوان نسل کے ذہنوں میں بھارت کی ثقافتی یلغار کو اترنے کا موقعہ فراہم کررہا ہے ۔

ہر زندہ قوم اپنے شہیدوں ٗ غازیوں اور ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاک فوج کے ہزاروں افسر اور جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن ان کا ذکر کہیں بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں دکھائی نہیں دیتا ۔ہونا تو یہ چاہیئے کہ پاکستان کے وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں ایک ایسی Liberty Wall ( آزادی کی دیوار ) تعمیر کی جائے یا پاکستان کے تمام صوبائی دارالحکومتوں میں ایسے میوزیم تعمیر کیے جائیں جن میں شہداء کے کارناموں پر مشتمل تصویریں البم آویزاں کیے جائیں جس پر شہیدوں کی تصویریں ٗ یونٹ کا نام اور مقام شہادت بھی درج ہو ۔تاکہ پاکستانی قوم اور ہماری نوجوان نسل وہاں جاکر اپنے ہیرو ز کے کارناموں سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ انہیں خراج تحسین بھی پیش کرے ۔بہرکیف میوزیم نہیں بن سکتا تومینار پاکستان جہاں پاکستان کی قرار داد پاس ہوئی تھی اگر وہاں پاکستان بنانیوالوں کا ذکر ہوسکتا ہے تو پاکستان کا دفاع کرنے والوں کا ذکر کیوں نہیں ہوسکتا ۔

ملک میں جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ کسی بھی معروف جگہ پر شہید ہونے والوں کی یاد میں پھولوں کے گلدستے رکھ کر موم بتیاں بھی جلاتے ہیں ۔ یہ خراج تحسین کانیا اور منفرد انداز ہے ۔9/11 کے بعد پاک فوج کے کتنے ہی افسر اور جوان شہید ہوئے ہیں بلکہ روزانہ کہیں نہ کہیں شہادت کی خبریں سننے کو ملتی ہیں ۔کسی بھی شہر یا کسی بھی چوراہے پر سول سوسائٹی کے مرد و زن نے پاک فوج کے شہیدوں کی یادمیں پھول رکھنے یا موم بتیاں جلانے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ کیا پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی شہادتیں سول سوسائٹی کے خراج تحسین کی مستحق نہیں ٹھہرتی ۔ پھر جب کسی بھی گاؤں یا شہر میں شہید کا جسد خاکی سبزہلالی پرچم میں میں لپٹ کر پہنچتا ہے تو شہر کے کتنے معززین اور سرکاری افسران نماز جناز ہ میں شریک ہوتے ہیں ۔یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے ۔ میری نظر میں جو شخص وطن پر اپنی جان قربان کرتا ہے اس سے بڑا محسن اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔ لیکن یہ پاکستانی معاشرے کی بے حسی کااظہار ہے کہ ہم پاک فوج کے شہید وں کو وہ مقام نہیں دے پاتے جس کے وہ مستحق ہیں ۔اخبارات میں بھی اول تو خبر ہی شائع نہیں ہوتی اور اگر ایک کالمی خبر شائع ہو بھی جائے تو کوئی ٹی وی چینلز اس کی نماز جنازہ کی براہ راست کوریج دکھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے اس کے برعکس جو سیاست دان پاکستان کو جتنی بڑی گالی دیتا ہے ہمارے ٹی وی چینلز نہ صرف کوریج کرتے ہیں بلکہ بریکنگ نیوز کی شکل میں بار بار دکھاکر وہ زہر قوم کے ذہنوں میں اتارتے ہیں۔ یہ ہمارا صحافتی معیار ہے ۔ جسے ہر صورت اور ہر ممکن تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

چند ہفتے پہلے کراچی میں پاک فوج کے دو جوانوں کو دہشت گردوں نے اچانک فائرنگ کرکے شہید کردیا اور بھرے بازار میں دندناتے ہوئے فرار ہوگئے اگر عوام چاہتے تو ان دہشت گردوں کو پکڑسکتے تھے اور باقی دہشت گردوں کو یہ پیغام دے سکتے تھے کہ اگر انہوں نے کسی بھی ہمارے فوجی بھائی پر حملہ کیا تو 20 کروڑ عوام اپنے ہیروز کا دفاع اپنی جان پر کھیل کراسی طرح کریں گے ۔ اس موقع پر آئی جی سندھ نے بہت خوب بات کہی تھی کہ فوجی جیپ پر حملے کے وقت عوام کو ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیئے تھا لیکن افسوس کہ لوگ فوج کے ساتھ محبت کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن اس مشکل وقت میں صرف دو دہشت گردوں کو نہیں پکڑ سکے ۔ فوج کے افسر اور جوان دشمن کے ٹینکوں ٗ توپوں ٗ جہازوں کے سامنے وطن عزیز اور عوام کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑے ہوتے ہیں اگر ان کی پشت غیر محفوظ ہوگی تو پھر وہ دشمن سے کیسے لڑ سکیں گے ۔ یہ فیصلہ عوام کوکرنا ہے کہ فوج کے وہ افسر اور جوان جو اپنی جانوں پر کھیل کر ان کی حفاظت کرتے ہیں جو عوام کے تحفظ کی خاطر اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں کیا ان کا اور ان کے بیو ی بچوں کا تحفظ کرنا عوام کا فرض نہیں بنتا۔ جب تک عوام عملی طور پر فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر نہیں چلتے اس وقت تک دہشت گردوں کے حملوں کو روکا نہیں جاسکتا ۔عوا م کا فرض ہے وہ اپنے اردگرد نظر رکھیں کہ کوئی شخص غیر قانونی سرگرمیوں میں نظر آئے تو کال کرکے آرمی یا رینجر کی ہیلپ لائن کو آگاہ کردیں تاکہ دہشت گردوں کی بروقت سرکوبی کی
جاسکے ۔

جہاں عوام لاپرواہ ہیں وہاں ہماری پولیس بزدل اور نااہل ہے ۔اگر وہ اپنے فرائض منصبی ذمہ داری سے انجام دے تو اندرون ملک فوج کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ حالات اس کے برعکس ہیں ۔ موت کے ڈر سے دہشت گردوں کو پکڑنے سے تو پولیس عاجز ہے ہی ۔چور ٗ ڈاکو اور بھتہ خوروں کو بھی پکڑنے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے ۔ کیا فوج ہی گلی محلوں میں دہشت گردوں کو تلاش کرے ٗ کیا فوج ہی شہروں کے داخلے اور باہر نکلنے کے راستوں کی حفاظت کرے ۔ اگر یہ سب کچھ فوج نے ہی کرنا ہے تو پھر پولیس کا جواز کیارہ جاتاہے ۔ پھر لاکھوں کی تعداد میں پولیس افسراور اہلکاروں پر اربوں روپے کیوں خرچ کیے جارہے ہیں ۔پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرکے رینجر کے جوانوں کو شہروں میں داخلے اور باہر نکلنے کے راستے پر مامور کرکے دہشت گردوں کی نقل و حمل کو روکا جائے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر پولیس فرض شناس اور بہادر ہوتی تو دہشت گرد کبھی اس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر وارداتیں کرتے ہوئے دکھائی نہ دیتے ۔

چند سال پہلے کی بات ہے کہ آئی ایس پی آر لاہور کی جانب سے مجھے کہاگیا کہ ہم ریڈیو پاکستان پر نشان حیدر پر مشتمل مختصر کہانیوں کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں آپ پاک فوج کے ان دس شہیدوں کی مختصر( دس منٹ کی )کہانیاں لکھ دیں میں نے وہ کہانیاں بلا معاوضہ لکھ کر آئی ایس پی آر کو دے دیں ۔ وہ کہانیاں ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوسکیں ۔اس پر میں نے وفاقی وزارت تعلیم کے ادارے اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد اقبال یاسر سے رابطہ کیا جنہوں نے میری تحریر کردہ ان کہانیوں کو کتابی شکل میں "دس نشان حیدر " کے نام سے شائع کردیا ۔ بات کہنے کامقصد یہ ہے کہ جہاں مطالعہ پاکستان کا پرچہ میٹرک ٗایف اے اور بی اے سطح پرپڑھایا جارہا ہے وہاں 50 نمبر کا مضمون "نشان حیدر" کیوں نہیں پڑھایا جاسکتا ٗ جن کی کہانیاں(Short story) میں نے صرف 80 صفحات تک محدود کردی ہیں ۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ نشان حیدر حاصل کرنے والے افسروں اور جوانوں تفصیلی کہانیوں پر مشتمل میری کتاب "شہادتوں کا سفر" پہلے ہی مارکیٹ میں موجود ہے ۔اس کتاب کی ضخامت 300 صفحے ہے ۔ڈرامائی تشکیل کے حوالے سے یہ کتاب بہت مفید ہے ۔

اس وقت جبکہ پاک فوج گزشتہ سولہ سالوں سے حالت جنگ میں ہے ۔دنیا کی کوئی بھی فوج اتنی طویل جنگ لڑنے کے بعد اس قابل نہیں رہتی کہ وہ جنگ کو مزید جاری رکھ سکے ۔ پاک فوج نے مشکل ترین حالات میں بھی کامیابیاں حاصل کرکے جہاں یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ دنیا کی عظیم لڑاکا فورس ہے اب بھی وہ جس مستعدی سے دہشت گردوں کا تعاقب کرکے انہیں جہنم واصل کررہی ہے ۔ اس پر وہ بلاشبہ تحسین کی مستحق ہے۔ ہمیں حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی ۔ اس وقت افغانستان دشمن نمبر 1 بن چکا ہے جس کے ساتھ ملنے والی سرحد کی طوالت 2600 کلومیٹر ہے ۔جس کا دفاع صرف پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ہی کرنا ہے ۔ اسی طرح بھارت پاکستان کاازلی دشمن ہے وہ نقصان پہنچانے کے لیے ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتا ہے ۔بھارت کے ساتھ پاکستان کی سرحد 1700 کلومیٹر ہے جس کے چپے چپے کی حفاظت پاک فوج کے ہی ذمے ہے ۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں کابیک وقت دفاع مشکل صورت حال پیداکرسکتا ہے ۔اس وقت پاک فوج کا ہاتھ بٹانے کے لیے پاکستان میں کوئی فورس موجود نہیں ہے ۔ اس کے باوجود کہ پولیس فورس کی تعدادلاکھوں میں تو ہوگی لیکن یہ ساری فورس ناکارہ ٗ بزدل اور غیر ذمہ دار ہے جو اندرون ملک دہشت گردوں اور چوری ڈاکہ زنی ٗ اغوا کاری اور بھتہ خوری کو نہیں روک سکی وہ دشمن سے کیسے برسرپیکار ہو گی ۔اس لیے نہایت ادب سے گزارش ہے کہ ہماری نوجوان نسل جو اس وقت یونیورسٹیوں اور کالجز میں زیر تعلیم ہے وہ پاک فوج سے والہانہ محبت بھی کرتی ہے اور وطن عزیز کے دفاع کے لیے عملی طور پر بھی پرجوش طریقے سے پاک فوج کا ہاتھ بٹا سکتی ہے ۔ فوج کے زیر انتظام ان کے نیشنل کیڈٹ کورس NCC کی تربیت کااہتمام کیا جائے جو ان کی تعلیمی نصاب میں ایک اضافی مضمون کی حیثیت سے شامل بھی کیاجاسکتاہے ۔ جنرل محمدایوب خان کے دور میں NCC کی تربیت کو لازمی قرار دیاگیا تھا اس طرح کم ازکم فوج کو خاطر خواہ اضافی نفری دستیاب ہو سکتی ۔نوجوانوں پر مشتمل یہی فورس اندرون ملک دہشت گردوں کا خاتمہ بھی کرسکتی ہے ۔دہشت گردی کی جنگ ٗ مشرق اور مغرب دونوں جانب دشمن ممالک کی موجودگی میں NCC کی تربیت بہت ضروری ہے ۔

یہ چند گزارشات آپ کی خدمت میں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔امید ہے آپ اس پر عمل کرنے کا حکم بھی جاری فرمائیں گے ۔کیونکہ میرے اس خط کاایک ایک لفظ وطن کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے ۔میرے جسم میں جتنا بھی خون ہے اس خون میں وطن عزیز کی محبت رچی بسی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس وقت تک افواج پاکستان کے عسکری کارناموں اور شہداء کے حوالے سے آٹھ دس کتابیں تحریر کرچکا ہوں اور میں نے 1965 اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب جس کی ضخامت چھ سو صفحات پر مشتمل ہوگی اس دور کے آرٹیکل کالم اور مضامین کو یکجا کرکے تیار کی ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہے ۔نہایت ادب سے گزارش ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ پاک فوج کے جن افسروں اور جوانوں نے دفاع وطن کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی ان کے لواحقین کو حکومت پاکستان کی جانب سے ایک خصوصی کارڈ جاری کروائے جائیں جس پر ان شہیدوں کے بچوں کو ہر تعلیمی ادارے میں مفت تعلیم ٗبیوی بچوں کا تاحیات مفت علاج اور مفت سفر کی سہولت بھی حاصل ہو ۔اسی طرح جو فوجی افسر یا جوان شدید زخمی حالت میں گھر تک محدود ہوچکے ہیں ان کوبھی حکومت پاکستان کی جانب سے ایسی ہی سہولتیں فراہم کی جائیں بلکہ سرکاری اداروں میں ریٹائر اور معذور فوج افسروں اور جوانوں کے لیے سپیشل کوٹہ مقرر کیا جائے تاکہ وطن عزیز کے دفاع کرتے ہوئے زخمی اور معذور ہونے والے افسروں اور جوانوں کو معاشرے پر بوجھ بننے سے بچانے اور ذہنی و نفسیاتی پریشانی سے بچایا جاسکے ۔ اگر ہم جرمن قوم کی طرح عزت اور احترام نہیں دے سکتے تو کم ازکم یہ تو کرسکتے ہیں۔مزید برآں 1947سے آج تک پاک فوج کے جتنے بھی افسر اور جوان شہید ہوئے ہیں ان تمام کے بالتصویر مختصر تعارف اور کارنامے کو کتابی شکل دے کر ملک بھرکے تعلیمی اداروں اور پبلک لائبریریوں میں نمایاں جگہ طور پر رکھوایا جائے تاکہ ہماری موجودہ نوجوان نسل اور آنے والی نسلیں اپنے ہیروز کے بارے میں جان کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہیں ۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بلوچستان اور آزادکشمیر کے بارے میں کھلی دھمکی کے پیش نظر یہ ضروری ہوچکا ہے کہ آج سے ہی تعلیمی اداروں میں طلبہ این سی سی تربیت شروع کردی جائے تاکہ مشکل وقت میں یہ تربیت یافتہ نوجوان پاک فو ج کے لیے مددگار ثابت ہوں ۔ ایک بار پھر کہوں گا کہ فوج کا کام وطن عزیز کی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے ۔ سیکورٹی گارڈ بننا نہیں ہے ۔یہ کام پولیس کو ہر حال میں کرنا چاہیئے وگرنہ نئی فورس بھرتی کرکے اسے فوج کے زیر اہتمام تربیت دی جائے۔میں سمجھتا ہوں یہ پولیس فورس کی نااہلی ٗ بزدلی اور ناکامی ہے کہ ملک دشمن عناصر عوام کی صفوں میں گھس کر کامیابی سے وارداتیں کررہے ہیں ۔جس طرح فوج وطن اور عوام کی اپنی جانوں پر کھیل کر حفاظت کررہی ہے اسی طرح عوام کو بھی ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کی جانب سے فوج پر ہونے والے حملوں کو اپنی جان پر کھیل کر ناکام بنانا ہوگا ۔ قومی سالمیت کی حفاظت کی ذمہ داری جتنی فوج پر اس سے زیادہ پاکستانی قوم پرعائد ہوتی ہے ۔جن کا مثبت کردار بطور خاص ان حالات میں نظر آنا بہت ضروری ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 652998 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.