سب سے پہلے تو شکریہ ہماری ویب کا کہ جنہوں نے ایک اہم
موضوع پر مقابلہ رکھ کر عوام کو اسکے بارے میں لکھنے کے لیے راغب کیا۔
اگرایک عامیانہ سی نظر سے دیکھیں تو ہمیں سیاستدانوں یا عام آدمی سے یہی
کچھ سننے کو ملتا ہے کہ جی قائد اعظم کے نظریہ کے مطابق پاکستان کو ایک
اسلامی فلاحی ریاست ہو نا چاہیے یا بنائیں گے۔یا یہ کہ اس ملک کو ایک ترقی
یافتہ قو م ہو نا چاہیے یا ان اقوام میں شامل کریں گے ۔ کچھ لوگوں کا نظریہ
ہے کہ پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ ہونا چاہیے۔ کچھ کا خیال ہے کہ جمہوری
پاکستان ہو کہ جہاں عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام سے ہو۔ کچھ لوگ سوچتے
ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور یہاں صدارتی
نظام ہو نا چاہیے۔ کچھ کہتے ہیں کہ خلافت میں تمام مسائل کا حل ہے ۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔ تاہم میرا خیال اور نظریہ یہ ہے کہ پیارے وطنِ عزیز میں نظام
کوئی بھی رائج ہو بس ایک عام آدمی کی زندگی آسان بنانے والا نظام ہو نا
چاہیے اور مستبل کا میرا پاکستان ایسا ہو کہ:
یہاں ایک بھائی دوسرے بھائی کا قتل عام نہ کرے۔ ماؤں بہنوں کارکھوالا ہو نہ
کہ لٹیرا۔ یہاں انصاف کا بول بالا ہو۔ نفرت کی بجائے لوگ ایک دوسرے سے محبت
کرنے والے ہوں۔بم دھماکے، فائرنگ اور قتل و غارت نہ ہو۔ گیس، بجلی ، پانی
کی لوڈ شیڈنگ نہ ہو۔ پانچوں صوبوں میں مکمل بھائی چارگی اور ہم آہنگی ہو۔
یہاں لوگ ا یک دوسرے کی مشکل میں کام آئیں اور غلط کاموں سے پرہیز کریں۔سود
کی لعنت سے بچیں۔ غیبت اور چغل خوری سے پر ہیز کریں۔اسلامی تعلمات پر عمل
کریں۔اپنی اخلاقی قدروں کی حفاظت کریں۔امانت میں خیانت نہ کریں۔ رزق حلا ل
کو عبادت جانیں۔ چوری اور سینہ زوری سے پرہیز کریں۔ قناعت اور تقوی پر عمل
کریں۔شکم ہے محتاج دن بھر میں صرف چار روٹی کا، زمین درکار صرف چند گز، کا
کلیہ سامنے رکھتے ہو ئے زندگی ایماندا ری سے گزاریں ۔ اربوں اور کھر بوں کے
چکر سے نکل کر وقت آخر عزرائیل علیہ ا لسلام کی پکار یا د رکھیں۔ خود کو
دنیا میں بھیجنے کا اصل سبب جا نیں اور اسکے مطابق شکر گزاری کو اپنا تے
ہوئے پیارے ملک میں زندگی بسر کریں۔ منکر نکیر کو یاد رکھتے ہوئے اس ملک
میں اپنی زندگی ا ﷲ اور اسکے رسول کے احکامات کے مطابق گزاریں ۔ بجلی پانی
گیس کے شکوے ہر وقت زبان پر نہ لائیں۔ دوسروں کو نصیحت کے ساتھ ساتھ خود
بھی اس پر عمل کریں۔ لارا لپا دینے سے پر ہیز کریں۔ مشکلات میں پریشان ہونے
کی بجائے نبر د آزما ہونے کے طریقے سیکھیں۔نماز روزے کی پابندی کر یں۔ بچے،
بوڑھے، جوان، مرد ، عورت ہر وقت اس دھر تی کے لیے مر مٹنے کے لیے تیار ہوں۔
جس طرح چین اور ترکی کے لوگ پاکستانیوں کی عزت کرتے ہیں، دنیا کے دوسرے
ممالک کے لوگ بھی ہم پاکستانیوں کی اسی طرح عزت کرنے لگ جائیں۔پیارے ملک
میں بسنے والی تمام قومیں ایک جان ہو جائیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے
ایسی پالیسیاں تیار کی جائیں ہماری قوم بھی جلد ترقی یافتہ قوموں میں شامل
ہو اور ہمارے سائنسدانوں کے نام بھی دوسرے ممالک میں اچھے لفظوں میں لیے
جانے لگیں۔چاغی میں ایٹم بم کے دھماکوں کے بعداب پورے وطنِ عزیز میں تعلیمی
بم پھاڑے جائیں۔ دہشت گردی جڑ سے ختم ہو جائے۔ ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
اسکے علاوہ میں چاہتا ہوں کہ میرا ملک ایسا ہو کہ جو : ہر قسم کے قرضوں سے
آزاد ہو۔ اسکا سی پیک منصوبہ دشمنوں کی نظروں سے بچ کر جلد مکمل ہو تاکہ
ملک میں صنعتی ترقی ہو۔ یہاں سے بیروزگاری اور بد امنی کا خاتمہ ہو۔ سیاسی
افرا تفری ختم ہو۔ گوادر سی پورٹ جلد چل جائے۔ بلوچستان کے بھائیوں کے لیے
انکی مرضی اور منشا کے مطابق سہولیات دے کر انہیں قومی دھارے میں شامل کیا
جائے۔ قبائلیوں کو انکے حقوق مل جائیں۔ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کی
آرا کی روشنی میں انکے جائز حقوق دیے جائیں تاکہ انہیں الحاق پاکستان سے
شکایت نہ ہو۔گرین پاسپورٹ کی دنیا بھر میں عزت بحال ہوجائے۔صاف ستھرا ماحول
اور بیماریاں نہ ہوں۔ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیاں ختم ہو جائیں۔ سب ذاتی
مفاد کی بجائے ملکی مفاد کے بارے میں سوچیں۔ بالخصوص سیاستدان جھوٹ نہ
بولیں۔ سرکاری ملازمین ایمانداری سے کام کریں۔ حکومتیں مخلصی سے کام
کریں۔تعلیم اور صحت کی سہولیات ترقی یافتہ ممالک کی طرح بلکل مفت ہوں اور
حکومتیں اسکا بجٹ بڑھائیں ۔طلباء یونین بازی کی بجائے پڑھائی پر توجہ دیں۔
بلخصوص ملک کے سیاستدان ایسے ہو جائیں کہ جو اپنے مفاد کی بجائے ہمیشہ ملکی
مفاد کو سامنے رکھیں۔ اپنی باری لانے کے لیے ملک کا ستیا ناس نہ کریں۔ فوج
کی عزت اور وقار میں مزید اضافہ ہو۔اس کی بے شمار قربانیاں بچے بچے کی زبان
پر ہوں۔ملک ہمہ قسمی قرضوں سے آزاد ہو کر قرض دینے والا بن جائے۔ ہمسایہ
ممالک سے ایسے مثالی تعلقات ہوں کہ جنگوں کے خطرات کم یا بلکل ختم ہو جائیں۔
افواج پر لگنے والا پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو تاکہ ملک ترقی کرے۔
اسکے علاوہ ملک کے ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی لازمی ہو تاکہ تعلیمی معیار
بلند ہو سکے۔ ہر ضلع میں اپناایک انڈسٹریل زون ہو تاکہ لوگوں کو روزگار مل
سکے اور ملکی بر آمدات بڑھانے پر توجہ دی جائے تاکہ ملک میں زر مبادلہ آئے
۔دوسرے ممالک کی طرح کسانوں کو بجلی اور کھادوں پر رعایت دی جائے تاکہ
اجناس کی قیمتیں کم اور عام آدمی کی پہنچ میں آجائیں۔ پولیس کی ٹریننگ
افواجِ پاکستان سے کرائی جائے تاکہ ان میں ڈسپلن پیدا ہو ۔عدالتی نظام میں
اسقدر اصلاحات ہو جائیں کہ تین ماہ میں مقدمات کے فیصلے سنائے جائیں۔ مذہبی
ہم آہنگی اس قدر ہو کہ کسی مذہب کے ماننے والے کو دوسرے سے شکایت نہ
ہو۔فرقہ واریت ، تعصب، لسانیت وغیرہ اس ملک سے بلکل ختم ہو جائے۔
الغرض : ایسا پاکستان ہو کہ جہاں عوام معاشی اور معاشرتی دونوں طور پر
مضبوط ہوں ۔ |