سخی حسن قبرستان
(RAFI ABBASI, KARACHI PAKISTAN)
|
کراچی شہر کے نواحی علاقے میں سخی حسن کا
قبرستان واقع ہےجو وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے، اس کا ایک سراشادمان
ٹاؤن میں حضرت بہزاد لکھنوی کے مزار کے بعد شروع ہوتا ہے اور نصرت بھٹو
کالونی کے قریب قلندریہ چوک پر اس کا اختتام ہوتا ہے جب کہ دوسرا سرااّغا
خانی قبرستان سے انڈا موڑ تک چلا گیا ہے۔ مذکورہ قبرستان کے بارے میں یہ
شعر صادق آتا ہے ،
سب کہا ں ! کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا کیا صورتیں ہوں
گی کہ پنہاں ہوگئیں
اس قبرستان میں پاکستان کی درجنوں نابغہ روزگار شخصیات محو خواب ہیں، جن
میںشعرائے کرام، اداکار، داکار، گلوگار، مصور، کارٹونسٹ ، سیاسی رہنمااور
خطاط سب ہی شامل ہیں، جب کہ سانحہ صفورا میں شہید ہونے والے 44افراد بھی
اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں تقریباً تین لاکھ
سے زائدقبریں ہیں جن میں سے اکثریت کی بناوٹ میں امارت کی جھلکیاں دکھائی
دیتی ہیں ۔ اس عظیم گورستان کو حضرت مخدوم میاںصوفی سخی حسن شاہ مشرفی،
رحمانی، سکندری، الہ آبادی کےنام سے موسوم کیا گیا ہے ، جو گزشتہ صدی کے
ایک صوفی بزرگ تھے، جن کا مزار شریف یہاں سے تقریباً تین فرلانگ کے فاصلے
پر واقع ہے اور اسی کی مناسبت سے قبرستان کے علاوہ اس کے ساتھ کا تمام
علاقہ سخی حسن کہلاتا ہے۔قبرستان کے احاطے میں حضرت بابا قلندر اولیاء کی
درگاہ، دارالعلوم اور آستانہ واقع ہیںجب کہ اس سے ذرا فاصلے پر سخی حسن
چورنگی کے ساتھ حاجی جمیل عارفی سرکار کا مزار مبارک بھی واقع ہے۔نارتھ
ناظم آباد ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کے دسمبر2003ء میں جاری اعلامیے کے مطابق
مذکورہ قبرستان میں نئی قبروں کی گنجائش ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اسے
تدفین کے لیے بند کردیا گیا ہے جب کہ جن لوگوں نے پہلے سے جگہیں لے رکھی
ہیں وہ اپنی دستاویزات دکھا کر اپنے مردوں کو دفنا سکتے ہیں۔اس قبرستان میں
35سے 40 بڑے بڑے قطعات ہیں جن میں لوگوں نے خاندان اور برادری کی بنیاد پر
قبروں کی اراضی الاٹ کرارکھی ہیں جب کہ یہاں لائی جانے والی میتوں کو محمد
شاہ قبرستان میں دفنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر سراج
الدین محمد ظفر کا یہ شعر یاد آتا ہے،
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے دو گز زمین تک نہ ملی کوئے یار میں
قبرستان میں گورکنوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن اب ان کا کام قبروں کی
تزئین و آرائش،پھول پودے لگاکر ان کی زیبائش، صفائی اور پانی ڈالنا شامل
ہیں، اس کام کے لیے انہیں لواحقین کی جانب سے باقاعدہ ماہانہ مشاہرہ ادا
کیا جاتا ہے جب کہ بک کیے ہوئے احاطوں میں ان کے مالکان کی اجازت سے تدفین
کے لیے نئی قبروں کی کھدائی بھی کی جاتی ہے۔ اس قبرستان میں تقریباً دو فٹ
کی بلندی پر کئی کئی فٹ اونچی قبریں بنائی گئی ہیں، جن میں قیمتی پتھروں ،
سنگ مرمر اور سنگ سیاہ کا وافر مقدار میں استعمال کیا گیا ہےاور یہ قبریں
سر سبز پودوں، بلند و بالا اور گھنے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہیں ۔ اس میں
داخلے کے چار مرکزی دروازے ہیں جن میں سے تین نصرت بھٹو کالونی سے سخی حسن
چورنگی کی طرف جانے والی شاہ راہ پر جب کہ ایک دروازہ عقب میں شادمان ٹاؤن
کی رابطہ سڑک پر واقع ہے ، اس کے علاوہ درجنوں چھوٹے چھوٹے راستے موجود
ہیں، جو سایہ دار درختوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس قبرستان کے متعلق کئی مافوق
الفطرت قصے مشہور ہیںمثلاً’’ یہاں رات کے وقت عجیب و غریب آوازیں سنائی
دیتی ہیں‘‘ ۔ ’’ بعض قبروں کے اطراف دیئے جلتے ہوئے دیکھے گئے ہیں جن کی
روشنی میں عجیب و غریب مخلوق بیٹھی نظر آتی ہے‘‘۔ قبرستان میں کام کرنے
والوں سے جب اس سلسلے میں معلومات کی گئیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف من
گھڑت باتیں ہیں، جومیڈیا کے بعض اداروں کی طرف سے گھڑی گئی ہیں۔
مذکورہ قبرستان کے مرکزی دروازے سے اگر داخل ہوں تو یہاں شروع میں کتبے
بنانے اورپھول پتیاں فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں، ان کے ساتھ ایک پختہ
سڑک شروع ہوتی ہے، جس پر کئی عالی شان مزار بنے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک
مزار کے احاطے میں تقریباً دوسو قبریں ہیں جو مذکورہ بزرگ کے مریدین اور
عزیز و اقارب کی ہیں۔ یہاں میاں صابری اور احمد میاں کےمقبرے بھی واقع ہیں۔
اسی سڑک پر تاج محل کی طرز کا ایک عظیم الشان مزاربھی نظر آتا ہے جو
قبرستان میں آنے والوں کے لیے ایک عجوبے کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کا رقبہ کئی
ہزارمربع گزپر مشتمل ہے ۔ تاج محل کی طرز پراس کے اوپر بھی ایک گول اور
بلند و بالا خوب صورت گنبد بنا ہواہے، جو دور سے دکھائی دیتا ہے۔ اس مقبرے
کا زیادہ ترحصہ سنگ مرمرسے تعمیر کیا گیا ہے ، اس کاصحن وسیع و عریض ہے جس
کے ساتھ پختہ اور چمکیلی روش بنی ہوئی ہیں،اطراف میں خوش رنگ پھول اورسر
سبز و شاداب قطعات ہیں۔ یہاں کام کرنے والوں کے مطابق مذکورہ مزار کی
دیواریں سیسہ پلائی ہوئی ہیںجو بم اور بلٹ پروف ہیں۔اس کے دروازے انتہائی
خوب صورت اور قیمتی لکڑی سے تیار کیے گئے ہیں جن پر نقش نگاری کا نفیس کام
کیا گیا ہے۔ فرش پرغیر ممالک سے درآمد کیےگئے بیش قیمت ٹائلز لگے ہوئےہیں۔
روشنی اور ہوا کے لئےجدیدتعمیراتی فن کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور خوب صورت
کھڑکیاں بنائی گئی ہیں ۔ اس کی سجاوٹ اسی اندازسے کی گئی ہے جیسے کسی عالی
شان محل کی کی جاتی ہے۔مذکورہ مقبرے میں ایک بزرگ شاہ شاہد اللہ فریدی
آرام فرما رہے ہیں۔ وہ 1915ء میں انگلستان میں پیدا ہوئے، ان کا نام جان
گلبرٹ لینارڈ رکھا گیا۔، حضرت علی ہجویری کی صوفیانہ تصنیف ، کشف المحجوب
کےانگریزی ترجمے کے مطالعے کے بعد اسلام قبول کیااور روحانی علوم کی طرف
مائل ہوئے۔ ان میں انہوں نے اس قدر دسترس حاصل کرلی کہ دینی تبلیغ و تعلیم
کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے روحانیات اور صوفی ازم پر کئی تصنیفات تحریر
کیں۔ ان کے مریدین میں زیادہ تر غیرملکی شامل تھے۔ 1978ء میںان کے وصال کے
بعد ان کی تدفین سخی حسن قبرستان میںکی گئی، بعد میں ان کے مریدین نے یہاں
ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کروایا۔ اس مقبرے کی پرشکوہ عمارت کے احاطے میں
ان کے تیس مقامی و انگریزمرید ین بھی مدفون ہیں، ان کی قبریں بھی سنگ
مرمراور سنگ سیاہ سے تعمیرکی گئی ہیں۔اس کے اندر ایک خوب صورت دو منزلہ
مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔مقبرے کی دیکھ بھال اور صفائی کے لیے کئی نجی ملازمین
کام کررہے ہیں جن کو باقاعدہ تنخواہیںادا کی جاتی ہیں ۔ ان کے فرائض میں
پودوں اور گھاس کو سیراب کرنا، پانی کے سکشن اور اوور ہیڈ پمپ چلانا، بجلی
کے انتظامات، مسجد کی صفائی اور دیگر کام شامل ہیں۔ایک ملازم نے بتایا کہ
مقبرے کا سارا نظم و نسق ایک ادارے نے سنبھالا ہوا ہےجس کے اراکین خطیر رقم
کے اصراف سے اسے چمکتا دمکتا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مزار میں پانی کی
فراہمی کے لیے خصوصی کنکشن لیے گئے ہیں، جب پورے کراچی میںفراہمی آب معطل
ہوتی ہے، مذکورہ مقبرے میں پانی کی فراہمی جاری رہتی ہے۔ سارا احاطہ برقی
قمقموںاور ہائی وولٹیج والے انرجی سیورزسے روشن رہتا ہے جب کہ مقبرے کے
اندر نصف درجن کے قریب سیلنگ فین لگے ہوئےہیں اس کے علاوہ احاطے کے اندر
بنی ہوئی بعض قبروں پر کئی کئی پنکھے لگائے گئے ہیں ۔ یہاں بجلی کاباقاعدہ
میٹر لگا ہوا ہے اور مزار کو روشن رکھنے کے لیے جتنی بجلی خرچ ہوتی ہے اس
کا تمام بل مقبرے کی انتظامیہ کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔ ملازم نے مزید
بتایا کہ یہاں فراہمی برق میں کبھی بھی خلل نہیں پڑتا۔ جب کراچی کے تمام
علاقے پاور بریک ڈاؤن اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی میں ڈوبے ہوتے ہیں ،
یہ مقبرہ اس وقت بھی روشنیوں میں جگمگاتا ہے، اس کے لیے مقبرے کے منتظمین
نےکے الیکٹرک کے تعاون سے ’’خصوصی انتظامات ‘‘کیے ہوئے ہیں۔مقبرے میں عام
لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے جب کہ مریدین کے لیےہفتے میں دو روز
دروازےکھولے جاتے ہیں جہاں لوگ فاتحہ خوانی کی غرض سے آتے ہیں۔ یہاں آنے
والے زائرین کی سہولت کے لیے قبرستان کے گیٹ سے مقبرے کی عمارت تک سیاہ
سلفیٹ کی سڑک تعمیر کرائی گئی ہے اور ان دودنوں میں یہاں قیمتی کاروں کی
قطاریں لگی ہوتی ہیں۔
قبروں پرپانی ڈالنے والے مراد نے بتایا کہ شادمان ٹاؤن کا علاقہ پانی کی
قلت سے متاثر ہے لیکن قبرستان میں مدفون افراد کے لواحقین نے اپنے طور
سےبورنگ کرائی ہوئی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ بھی اس قبرستان کا باقاعدہ گورکن
ہے لیکن میتوں کی تدفین بند ہونے کے بعد یہاں کے درجنوں گورکنوں کی طرح اس
نے بھی قبروں کی دیکھ بھال اور پانی ڈالنے کا کام شروع کردیا ہے، اس کے عوض
صاحب قبر کے لواحقین سے سو سے دو سو روپے ماہانہ مل جاتے ہیں، یہاں کے ہر
گورکن کے پاس پچاس سے سو قبریں ہیں، جن سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ وہ
اپنے کنبے کے ساتھ اچھی گزر بسر کرلیتے ہیں ۔
ایک اورگورکن اظہر نے بتایاکہ مذکورہ قبرستان ،سرکاری طور سے بند ہوچکا ہے
،پہلے یہاں میتوں کی انفرادی تدفین کی جاتی تھی، کچھ عرصے قبل شہری
انتظامیہ کے ریکارڈ میں یہاں قبروں کی گنجائش ختم ہوگئی ہے، اس لیے یہ
سلسلہ ختم ہوچکا ہے ۔ لوگوں نےاپنے عزیز و اقارب اور برادری کی بنیاد پر
بڑے بڑے احاطے بک کرائے ہوئے ہیںجن میں اکثر و بیشتر میتوں کی تدفین ہوتی
رہتی ہے۔اس قبرستان کا شمار شہر کے وی آئی پی قبرستانوں میں ہوتا ہے اور
مخصوص ایام میںیہاں اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، ان ہی کی
طرف سے اپنے اعزاء کی قبروں کی دیکھ بھال کے لیے ہمیں ذمہ داریاں سونپی
جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا روزگار چل رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ پورے
قبرستان میںگھنے درخت سایہ کیے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں قبروں کے اطراف
زیادہ تر تاریکی چھائی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس قبرستان سے منسوب کرکے
خوف ناک کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ہمیں یہاں کام کرتے ہوئے طویل عرصہ ہوگیا
ہے، ہمارا واسطہ کبھی ماورائی مخلوق سے تو نہیں پڑا لیکن انسانی صورت میں
خوف ناک مخلوقات کی کارروائیوں سے یہاں آنے والے افراد اکثر و بیشتر دوچار
رہتے ہیں۔ میتوں کی تدفین یا فاتحہ خوانی کی غرض سے آنے والے افرادبلند
وبالا قبروں کی آڑ میں چھپے ہوئے لٹیروں کے ہاتھوں نقد رقومات، قیمتی
اشیاء، موبائل فون سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہاں قبروں کے دمیان بجلی کے پول
اور لائٹوں کی تنصیب انتہائی ضروری ہے۔ اس نے بتایا کہ گھنے درختوں اور
تاریکی کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردعناصریہاں قبروں میں اسلحہ بھی دفن کرتے
ہیں جوقانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر و بیشتر بازیاب کراتے ہیں۔ قبرستان
کی شمالی دیوار کے ساتھ سڑک کے درمیان پولیس کی چوکی بنی ہوئی ہےلیکن وہاں
پولیس اہل کار شاذو نادر ہی نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر قبروں کے اوپر کپڑے اور
ترپال کے سائبان نظر آئے، ان کے بارے میں اظہر نے بتایا کہ درختوں پر
پرندوں کا بسیرا رہتا ہے جن کی گندگی قبروں پر گرتی ہے۔ اپنے عزیزوں کی
قبروں کو غلاظت سے بچانے کے لیے لوگوں نے ان کے اوپر سائبان ڈالوا دیئے
ہیں، آندھی اور تیز ہوا میں ان کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔
ایک اور گورکن سلیم نے بتایا کہ یہاں مختلف برادریوں نے قبروں کی اراضی
مخصوص کروائی ہوئی ہیں ، جن کے احاطوں میں ہی نئی قبریں بنائی جاتی ہیں، اس
کے لیے ہم سات ہزار روپے مزدوری لیتے ہیں، اکثر یہاں لاوراث میتیں بھی لائی
جاتی ہیں، جن کی تدفین ہم کسی برادری یا خاندان کی اجازت سے ان کے مخصوص
احاطے میں مفت کرتے ہیں۔ ہر برادری یا خاندان نے اپنی مخصوص کی ہوئی جگہوں
کے لیے قبرستان کے گورکنوں کو ملازم رکھا ہوا ہے، اگر ہمیںروزگار کا یہ
ذریعہ بھی میسر نہ ہوتا توقبرستان کی بندش کے بعد ہمارے اہل خانہ کو فاقہ
کشی کا شکار ہونا پڑتا۔ اس نے کہا کہ یہاں ہمیں مختلف مسائل کا سامنا ہے،
سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا ہے۔ قلندریہ پارک کے سامنے قبرستان کے ساتھ یہاں
کے گورکنوں نے رہائشی مکانات بنائے ہوئے تھے،جس کی وجہ سے ہمیں رہنے کی
سہولت حاصل تھی، لیکن کچھ عرصے قبل ٹاؤن ایڈمنسٹریشن نے یہ کہہ کر انہیں
مسمار کردیا کہ یہاں سے مرکزی دروازے تک ایک پختہ سڑک تعمیر کی جائے گی،
ہماری یہاں سے بے دخلی کے بعد، آج تک اس جگہ سڑک نہیں بنی، جب کہ ہم لوگ
نصرت بھٹو کالونی کی کچی آبادی میں کرائے کے مکانوں میں رہنے پر مجبور
ہیں۔
سخی حسن کے قبرستان کے گیٹ نمبر دو کے ساتھ کئی معروف شخصیات محو خواب
ہیں۔معروف شاعر، مرثیہ نگار اور ناولسٹ ،خواجہ محمد امیر، المعروف صبا اکبر
آبادی جو بانی پاکستان کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ
سکریٹری بھی رہے 29؍اکتوبر 1999ء کو اسلام آباد میں انتقال کے بعد یہیں
مدفون ہوئے۔ ان کے بالمقابل بلند وبالا قبروں کے درمیان ورسٹائل گلوکار،راک
اینڈ رول کے بادشاہ اور برصغیر کے پہلے پاپ سنگر ، احمد رشدی محو خواب ہیں،
ان سے ذرا فاصلے پراداکارہ تمنا بیگم اور گلوکار مجیب عالم کی قبریں ہیں۔
1970ء میں پی ٹی وی کے ڈرامے ’’دوبئی چلو‘‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے
والے ملک انوکھا بھی یہیں دفن ہیں۔ ڈرامہ گلڈ کے بانی صدر اور مشہور ڈرامہ
نگار خواجہ معین الدین، جن کے ڈرامے ’’مرزا غالب بندرروڈ پر‘‘ ، ’’لال قلعہ
سے لالوکھیت تک‘‘ کافی معروف ہوئے،نومبر 1971میں انتقال کے بعد اسی قبرستان
میں دفن ہوئے۔ریڈیو پاکستان کے جریدے’’ آہنگ‘‘ کے شعبہ ادارت سے وابستہ
غزل گو شاعر فاروق احمدجو محشر بدایونی کے نام سے معروف تھے، 1994میں
انتقال کرگئے، وہ بھی یہیں دفن ہوئے۔ اس قبرستان میں ایک وسیع و عریض احاطے
میںمعروف فلاسفر اورشاعر رئیس امروہوی، ان کے چھوٹے بھائی روزنامہ جنگ کے
سابق مدیر، فلسفی، کارل مارکس کی تصنیف ’’داس کیپٹل‘‘ کو اردو قالب میں
ڈھالنے والے سید محمد تقی، شاعرسید جون اصغر، عرف جون ایلیا،رئیس برادران
کے سب سے چھوٹے بھائی محمد عباس جو عالمی ڈائجسٹ کے مدیر تھے، اسی احاطے
میں دفن ہیں، جب کہ سید محمد تقی کی اہلیہ اور رئیس امروہوی کی بیوی اور
بیٹی بھی یہیں پر محو خواب ہیں۔ امروہوی خاندان کی آبائی تدفین کے
احاطےمیں ممتاز مصور اقبال مہدی بھی دفن ہیں ۔فن خطاطی میں تمغہ امتیاز اور
ستارہ امتیازپانے والےاور 24گھنٹے میں 240فٹ طویل پینٹنگ تخلیق کرکے عالمی
ریکارڈ قائم کرنے والے، سید صادقین احمد نقوی، جنہوں نےقرآنی آیات کو
مصورانہ خطاطی اور غالب کے کلام کوتصویری قالب میں ڈھالنے کا کارنامہ
سرانجام دیا تھا، اسی گورستان میں آرام فرمارہے ہیں۔ 21نومبر 1980کو وفات
پانے والے صحافی اور شاعر، کنور اطہر علی خان، جو شاعری میں اطہر نفیس کے
نام سے معروف تھےوہ بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں جب کہ ان کی غزلوں کو
گائیکی کا رنگ دینے والے استاد امانت علی خان بھی اسی جگہ دفن ہیں۔1970ء کی
دہائی میں پاکستان کے نمبر تین کارٹونسٹ کا درجہ پانے والے جمشید انصاری
جو14 مئی 1977ء کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کرگئےتھے، اسی قبرستان میں
دفن ہیں۔ دبستان دہلی کے آخری چراغ، غزل گو شاعر اور براڈکاسٹر، تابش
دہلوی، افسانہ نگار، نثری نظم کے بانی اور سنسکرت ڈراموں کو اردو قالب میں
ڈھالنے والے احمد ہمیش کی قبریں بھی یہیں ہیں۔ ترقی پسند شاعر، ’’موسیٰ سے
کارل مارکس تک‘‘ اور’’ ماضی کے مزار‘‘ کےتصنیف نگار سبط حسن، صدارتی تمغہ
حسن کارکردگی حاصل کرنے والے ٹی وی اداکار انور سولنگی اور صوفیانہ کلام کے
گائیک، اقبال باہو بھی یہیں مدفون ہیں۔اظہار انور جو تسلیم فاضلی کے قلمی
نام سے شاعری کرتے تھے اور فلمی نغمہ نگاری پر تین نگار ایوارڈ حاصل کیے
تھے، وہ بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں۔
اے قیس میری قبر کسی کی عطا نہیں دے کر متاع زیست ملا ہے یہ گھر مجھے
قیس سہارنپوری کا مذکورہ شعرٹنڈو الہ یار سے تعلق رکھنے والےبائیںبازو کے
سیاسی رہنما نذیر عباسی پر صادق آتاہے، جنہیںجنرل ضیاء الحق کے دور میں
کمیونسٹ ہونے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا، بعد میں ٹارچر سیل میں اذیتیں
دینے کے بعد 9اگست 1980کو قتل کردیا گیا۔ ان کے مرنے کے بعد ،لاوارث قرار
دے کران کی میت کو ایدھی سینٹر پہنچایا گیا، جنہوں نے غسل اور تکفین کے بعد
سخی حسن کے قبرستان میں تدفین کروادی۔سابق وفاقی وزیر اور جماعت اسلامی کے
مرکزی رہنما پروفیسر غفور احمد بھی یہیںپر دفن ہیں۔ممتاز شاعر اور اردو
سندھی ادب کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے والے پروفیسر آفاق صدیقی بھی اسی
گورستان میں محو خواب ہیں۔
مذکورہ قبرستان کے ساتھ محل نما بنگلوں کی قطاریں ہیں، جن کے سامنےتقریباً
چار ایکڑ رقبے پر ایک وسیع و عریض احاطہ بنا ہوا ہے، جس میں خوش رنگ پھول،
پودے اور سبزہ زار ہے، اس کے ساتھ ایک اونچے مینار پر محافظوں کی چوکی بنی
ہوئی ہے۔ ایک بڑے سے گیٹ سے جب اندر داخل ہوں تو گماں بھی نہیں ہوتاکہ ہم
کسی قبرستان میں داخل ہورہے ہیں۔ یہ اسماعیلیوں کا قبرستان ہے، جس میں
تقریباً ایک ہزار کے قریب قبریں ہیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام قبریں کچی
بنی ہوئی ہیں۔ اس میں دو بڑے ہال ہیں جن میں نماز جنازہ ادا کی جاتی
ہے۔یہاں روشنی کا اعلیٰ انتظام ہے، اور ہر قبر کے ساتھ برقی قمقمے لگے ہوئے
ہیں۔ یہاں کےنگران حیدر بھائی نے بتایا کہ اسماعیلی برادری میں قبریں پختہ
کرانے کا رواج نہیں ہے، ہماری توجہ میتوں کی تدفین میں دیگر سہولتوں کی
جانب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ قبرستان ، سخی حسن کی حدود میں ہی
واقع ہے لیکن اس کےمالی، گورکن اور دیگراہل کار، اسماعلی بورڈ کے ملازم
ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صفورا چوک کے علاقے میں دہشت گردی کے واقعے کے
44شہداء کی تدفین بھی اسماعیلیوں کے اسی قبرستان میں کی گئی تھی۔
سخی حسن کا قبرستان
جہاں پاکستان کی کئی معروف ہستیاںدفن ہیں
رئیس امروہوی اپنے خاندان کے نصف درجن افراد کے ساتھ محو خواب ہیں
رفیع عباسی
کراچی شہر کے نواحی علاقے میں سخی حسن کا قبرستان واقع ہےجو وسیع و عریض
رقبے پر پھیلا ہوا ہے، اس کا ایک سراشادمان ٹاؤن میں حضرت بہزاد لکھنوی کے
مزار کے بعد شروع ہوتا ہے اور نصرت بھٹو کالونی کے قریب قلندریہ چوک پر اس
کا اختتام ہوتا ہے جب کہ دوسرا سرااّغا خانی قبرستان سے انڈا موڑ تک چلا
گیا ہے۔ مذکورہ قبرستان کے بارے میں یہ شعر صادق آتا ہے ،
سب کہا ں ! کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا کیا صورتیں ہوں
گی کہ پنہاں ہوگئیں
اس قبرستان میں پاکستان کی درجنوں نابغہ روزگار شخصیات محو خواب ہیں، جن
میںشعرائے کرام، اداکار، صداکار، گلوگار، مصور، کارٹونسٹ ، سیاسی رہنمااور
خطاط سب ہی شامل ہیں، جب کہ سانحہ صفورا میں شہید ہونے والے 44افراد بھی
اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں تقریباً تین لاکھ
سے زائدقبریں ہیں جن میں سے اکثریت کی بناوٹ میں امارت کی جھلکیاں دکھائی
دیتی ہیں ۔ اس عظیم گورستان کو حضرت مخدوم میاںصوفی سخی حسن شاہ مشرفی،
رحمانی، سکندری، الہ آبادی کےنام سے موسوم کیا گیا ہے ، جو گزشتہ صدی کے
ایک صوفی بزرگ تھے، جن کا مزار شریف یہاں سے تقریباً تین فرلانگ کے فاصلے
پر واقع ہے اور اسی کی مناسبت سے قبرستان کے علاوہ اس کے ساتھ کا تمام
علاقہ سخی حسن کہلاتا ہے۔قبرستان کے احاطے میں حضرت بابا قلندر اولیاء کی
درگاہ، دارالعلوم اور آستانہ واقع ہیںجب کہ اس سے ذرا فاصلے پر سخی حسن
چورنگی کے ساتھ حاجی جمیل عارفی سرکار کا مزار مبارک بھی واقع ہے۔نارتھ
ناظم آباد ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کے دسمبر2003ء میں جاری اعلامیے کے مطابق
مذکورہ قبرستان میں نئی قبروں کی گنجائش ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اسے
تدفین کے لیے بند کردیا گیا ہے جب کہ جن لوگوں نے پہلے سے جگہیں لے رکھی
ہیں وہ اپنی دستاویزات دکھا کر اپنے مردوں کو دفنا سکتے ہیں۔اس قبرستان میں
35سے 40 بڑے بڑے قطعات ہیں جن میں لوگوں نے خاندان اور برادری کی بنیاد پر
قبروں کی اراضی الاٹ کرارکھی ہیں جب کہ یہاں لائی جانے والی میتوں کو محمد
شاہ قبرستان میں دفنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر سراج
الدین محمد ظفر کا یہ شعر یاد آتا ہے،
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے دو گز زمین تک نہ ملی کوئے یار میں
قبرستان میں گورکنوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن اب ان کا کام قبروں کی
تزئین و آرائش،پھول پودے لگاکر ان کی زیبائش، صفائی اور پانی ڈالنا شامل
ہیں، اس کام کے لیے انہیں لواحقین کی جانب سے باقاعدہ ماہانہ مشاہرہ ادا
کیا جاتا ہے جب کہ بک کیے ہوئے احاطوں میں ان کے مالکان کی اجازت سے تدفین
کے لیے نئی قبروں کی کھدائی بھی کی جاتی ہے۔ اس قبرستان میں تقریباً دو فٹ
کی بلندی پر کئی کئی فٹ اونچی قبریں بنائی گئی ہیں، جن میں قیمتی پتھروں ،
سنگ مرمر اور سنگ سیاہ کا وافر مقدار میں استعمال کیا گیا ہےاور یہ قبریں
سر سبز پودوں، بلند و بالا اور گھنے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہیں ۔ اس میں
داخلے کے چار مرکزی دروازے ہیں جن میں سے تین نصرت بھٹو کالونی سے سخی حسن
چورنگی کی طرف جانے والی شاہ راہ پر جب کہ ایک دروازہ عقب میں شادمان ٹاؤن
کی رابطہ سڑک پر واقع ہے ، اس کے علاوہ درجنوں چھوٹے چھوٹے راستے موجود
ہیں، جو سایہ دار درختوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس قبرستان کے متعلق کئی مافوق
الفطرت قصے مشہور ہیںمثلاً’’ یہاں رات کے وقت عجیب و غریب آوازیں سنائی
دیتی ہیں‘‘ ۔ ’’ بعض قبروں کے اطراف دیئے جلتے ہوئے دیکھے گئے ہیں جن کی
روشنی میں عجیب و غریب مخلوق بیٹھی نظر آتی ہے‘‘۔ قبرستان میں کام کرنے
والوں سے جب اس سلسلے میں معلومات کی گئیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف من
گھڑت باتیں ہیں، جومیڈیا کے بعض اداروں کی طرف سے گھڑی گئی ہیں۔
مذکورہ قبرستان کے مرکزی دروازے سے اگر داخل ہوں تو یہاں شروع میں کتبے
بنانے اورپھول پتیاں فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں، ان کے ساتھ ایک پختہ
سڑک شروع ہوتی ہے، جس پر کئی عالی شان مزار بنے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک
مزار کے احاطے میں تقریباً دوسو قبریں ہیں جو مذکورہ بزرگ کے مریدین اور
عزیز و اقارب کی ہیں۔ یہاں میاں صابری اور احمد میاں کےمقبرے بھی واقع ہیں۔
اسی سڑک پر تاج محل کی طرز کا ایک عظیم الشان مزاربھی نظر آتا ہے جو
قبرستان میں آنے والوں کے لیے ایک عجوبے کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کا رقبہ کئی
ہزارمربع گزپر مشتمل ہے ۔ تاج محل کی طرز پراس کے اوپر بھی ایک گول اور
بلند و بالا خوب صورت گنبد بنا ہواہے، جو دور سے دکھائی دیتا ہے۔ اس مقبرے
کا زیادہ ترحصہ سنگ مرمرسے تعمیر کیا گیا ہے ، اس کاصحن وسیع و عریض ہے جس
کے ساتھ پختہ اور چمکیلی روش بنی ہوئی ہیں،اطراف میں خوش رنگ پھول اورسر
سبز و شاداب قطعات ہیں۔ یہاں کام کرنے والوں کے مطابق مذکورہ مزار کی
دیواریں سیسہ پلائی ہوئی ہیںجو بم اور بلٹ پروف ہیں۔اس کے دروازے انتہائی
خوب صورت اور قیمتی لکڑی سے تیار کیے گئے ہیں جن پر نقش نگاری کا نفیس کام
کیا گیا ہے۔ فرش پرغیر ممالک سے درآمد کیےگئے بیش قیمت ٹائلز لگے ہوئےہیں۔
روشنی اور ہوا کے لئےجدیدتعمیراتی فن کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور خوب صورت
کھڑکیاں بنائی گئی ہیں ۔ اس کی سجاوٹ اسی اندازسے کی گئی ہے جیسے کسی عالی
شان محل کی کی جاتی ہے۔مذکورہ مقبرے میں ایک بزرگ شاہ شاہد اللہ فریدی
آرام فرما رہے ہیں۔ وہ 1915ء میں انگلستان میں پیدا ہوئے، ان کا نام جان
گلبرٹ لینارڈ رکھا گیا۔، حضرت علی ہجویری کی صوفیانہ تصنیف ، کشف المحجوب
کےانگریزی ترجمے کے مطالعے کے بعد اسلام قبول کیااور روحانی علوم کی طرف
مائل ہوئے۔ ان میں انہوں نے اس قدر دسترس حاصل کرلی کہ دینی تبلیغ و تعلیم
کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے روحانیات اور صوفی ازم پر کئی تصنیفات تحریر
کیں۔ ان کے مریدین میں زیادہ تر غیرملکی شامل تھے۔ 1978ء میںان کے وصال کے
بعد ان کی تدفین سخی حسن قبرستان میںکی گئی، بعد میں ان کے مریدین نے یہاں
ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کروایا۔ اس مقبرے کی پرشکوہ عمارت کے احاطے میں
ان کے تیس مقامی و انگریزمرید ین بھی مدفون ہیں، ان کی قبریں بھی سنگ
مرمراور سنگ سیاہ سے تعمیرکی گئی ہیں۔اس کے اندر ایک خوب صورت دو منزلہ
مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔مقبرے کی دیکھ بھال اور صفائی کے لیے کئی نجی ملازمین
کام کررہے ہیں جن کو باقاعدہ تنخواہیںادا کی جاتی ہیں ۔ ان کے فرائض میں
پودوں اور گھاس کو سیراب کرنا، پانی کے سکشن اور اوور ہیڈ پمپ چلانا، بجلی
کے انتظامات، مسجد کی صفائی اور دیگر کام شامل ہیں۔ایک ملازم نے بتایا کہ
مقبرے کا سارا نظم و نسق ایک ادارے نے سنبھالا ہوا ہےجس کے اراکین خطیر رقم
کے اصراف سے اسے چمکتا دمکتا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مزار میں پانی کی
فراہمی کے لیے خصوصی کنکشن لیے گئے ہیں، جب پورے کراچی میںفراہمی آب معطل
ہوتی ہے، مذکورہ مقبرے میں پانی کی فراہمی جاری رہتی ہے۔ سارا احاطہ برقی
قمقموںاور ہائی وولٹیج والے انرجی سیورزسے روشن رہتا ہے جب کہ مقبرے کے
اندر نصف درجن کے قریب سیلنگ فین لگے ہوئےہیں اس کے علاوہ احاطے کے اندر
بنی ہوئی بعض قبروں پر کئی کئی پنکھے لگائے گئے ہیں ۔ یہاں بجلی کاباقاعدہ
میٹر لگا ہوا ہے اور مزار کو روشن رکھنے کے لیے جتنی بجلی خرچ ہوتی ہے اس
کا تمام بل مقبرے کی انتظامیہ کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔ ملازم نے مزید
بتایا کہ یہاں فراہمی برق میں کبھی بھی خلل نہیں پڑتا۔ جب کراچی کے تمام
علاقے پاور بریک ڈاؤن اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی میں ڈوبے ہوتے ہیں ،
یہ مقبرہ اس وقت بھی روشنیوں میں جگمگاتا ہے، اس کے لیے مقبرے کے منتظمین
نےکے الیکٹرک کے تعاون سے ’’خصوصی انتظامات ‘‘کیے ہوئے ہیں۔مقبرے میں عام
لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے جب کہ مریدین کے لیےہفتے میں دو روز
دروازےکھولے جاتے ہیں جہاں لوگ فاتحہ خوانی کی غرض سے آتے ہیں۔ یہاں آنے
والے زائرین کی سہولت کے لیے قبرستان کے گیٹ سے مقبرے کی عمارت تک سیاہ
سلفیٹ کی سڑک تعمیر کرائی گئی ہے اور ان دودنوں میں یہاں قیمتی کاروں کی
قطاریں لگی ہوتی ہیں۔
قبروں پرپانی ڈالنے والے مراد نے بتایا کہ شادمان ٹاؤن کا علاقہ پانی کی
قلت سے متاثر ہے لیکن قبرستان میں مدفون افراد کے لواحقین نے اپنے طور
سےبورنگ کرائی ہوئی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ بھی اس قبرستان کا باقاعدہ گورکن
ہے لیکن میتوں کی تدفین بند ہونے کے بعد یہاں کے درجنوں گورکنوں کی طرح اس
نے بھی قبروں کی دیکھ بھال اور پانی ڈالنے کا کام شروع کردیا ہے، اس کے عوض
صاحب قبر کے لواحقین سے سو سے دو سو روپے ماہانہ مل جاتے ہیں، یہاں کے ہر
گورکن کے پاس پچاس سے سو قبریں ہیں، جن سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ وہ
اپنے کنبے کے ساتھ اچھی گزر بسر کرلیتے ہیں ۔
ایک اورگورکن اظہر نے بتایاکہ مذکورہ قبرستان ،سرکاری طور سے بند ہوچکا ہے
،پہلے یہاں میتوں کی انفرادی تدفین کی جاتی تھی، کچھ عرصے قبل شہری
انتظامیہ کے ریکارڈ میں یہاں قبروں کی گنجائش ختم ہوگئی ہے، اس لیے یہ
سلسلہ ختم ہوچکا ہے ۔ لوگوں نےاپنے عزیز و اقارب اور برادری کی بنیاد پر
بڑے بڑے احاطے بک کرائے ہوئے ہیںجن میں اکثر و بیشتر میتوں کی تدفین ہوتی
رہتی ہے۔اس قبرستان کا شمار شہر کے وی آئی پی قبرستانوں میں ہوتا ہے اور
مخصوص ایام میںیہاں اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، ان ہی کی
طرف سے اپنے اعزاء کی قبروں کی دیکھ بھال کے لیے ہمیں ذمہ داریاں سونپی
جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا روزگار چل رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ پورے
قبرستان میںگھنے درخت سایہ کیے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں قبروں کے اطراف
زیادہ تر تاریکی چھائی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس قبرستان سے منسوب کرکے
خوف ناک کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ہمیں یہاں کام کرتے ہوئے طویل عرصہ ہوگیا
ہے، ہمارا واسطہ کبھی ماورائی مخلوق سے تو نہیں پڑا لیکن انسانی صورت میں
خوف ناک مخلوقات کی کارروائیوں سے یہاں آنے والے افراد اکثر و بیشتر دوچار
رہتے ہیں۔ میتوں کی تدفین یا فاتحہ خوانی کی غرض سے آنے والے افرادبلند
وبالا قبروں کی آڑ میں چھپے ہوئے لٹیروں کے ہاتھوں نقد رقومات، قیمتی
اشیاء، موبائل فون سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہاں قبروں کے دمیان بجلی کے پول
اور لائٹوں کی تنصیب انتہائی ضروری ہے۔ اس نے بتایا کہ گھنے درختوں اور
تاریکی کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردعناصریہاں قبروں میں اسلحہ بھی دفن کرتے
ہیں جوقانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر و بیشتر بازیاب کراتے ہیں۔ قبرستان
کی شمالی دیوار کے ساتھ سڑک کے درمیان پولیس کی چوکی بنی ہوئی ہےلیکن وہاں
پولیس اہل کار شاذو نادر ہی نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر قبروں کے اوپر کپڑے اور
ترپال کے سائبان نظر آئے، ان کے بارے میں اظہر نے بتایا کہ درختوں پر
پرندوں کا بسیرا رہتا ہے جن کی گندگی قبروں پر گرتی ہے۔ اپنے عزیزوں کی
قبروں کو غلاظت سے بچانے کے لیے لوگوں نے ان کے اوپر سائبان ڈالوا دیئے
ہیں، آندھی اور تیز ہوا میں ان کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔
ایک اور گورکن سلیم نے بتایا کہ یہاں مختلف برادریوں نے قبروں کی اراضی
مخصوص کروائی ہوئی ہیں ، جن کے احاطوں میں ہی نئی قبریں بنائی جاتی ہیں، اس
کے لیے ہم سات ہزار روپے مزدوری لیتے ہیں، اکثر یہاں لاوراث میتیں بھی لائی
جاتی ہیں، جن کی تدفین ہم کسی برادری یا خاندان کی اجازت سے ان کے مخصوص
احاطے میں مفت کرتے ہیں۔ ہر برادری یا خاندان نے اپنی مخصوص کی ہوئی جگہوں
کے لیے قبرستان کے گورکنوں کو ملازم رکھا ہوا ہے، اگر ہمیںروزگار کا یہ
ذریعہ بھی میسر نہ ہوتا توقبرستان کی بندش کے بعد ہمارے اہل خانہ کو فاقہ
کشی کا شکار ہونا پڑتا۔ اس نے کہا کہ یہاں ہمیں مختلف مسائل کا سامنا ہے،
سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا ہے۔ قلندریہ پارک کے سامنے قبرستان کے ساتھ یہاں
کے گورکنوں نے رہائشی مکانات بنائے ہوئے تھے،جس کی وجہ سے ہمیں رہنے کی
سہولت حاصل تھی، لیکن کچھ عرصے قبل ٹاؤن ایڈمنسٹریشن نے یہ کہہ کر انہیں
مسمار کردیا کہ یہاں سے مرکزی دروازے تک ایک پختہ سڑک تعمیر کی جائے گی،
ہماری یہاں سے بے دخلی کے بعد، آج تک اس جگہ سڑک نہیں بنی، جب کہ ہم لوگ
نصرت بھٹو کالونی کی کچی آبادی میں کرائے کے مکانوں میں رہنے پر مجبور
ہیں۔
سخی حسن کے قبرستان کے گیٹ نمبر دو کے ساتھ کئی معروف شخصیات محو خواب
ہیں۔معروف شاعر، مرثیہ نگار اور ناولسٹ ،خواجہ محمد امیر، المعروف صبا اکبر
آبادی جو بانی پاکستان کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ
سکریٹری بھی رہے 29؍اکتوبر 1999ء کو اسلام آباد میں انتقال کے بعد یہیں
مدفون ہوئے۔ ان کے بالمقابل بلند وبالا قبروں کے درمیان ورسٹائل گلوکار،راک
اینڈ رول کے بادشاہ اور برصغیر کے پہلے پاپ سنگر ، احمد رشدی محو خواب ہیں،
ان سے ذرا فاصلے پراداکارہ تمنا بیگم اور گلوکار مجیب عالم کی قبریں ہیں۔
1970ء میں پی ٹی وی کے ڈرامے ’’دوبئی چلو‘‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے
والے ملک انوکھا بھی یہیں دفن ہیں۔ ڈرامہ گلڈ کے بانی صدر اور مشہور ڈرامہ
نگار خواجہ معین الدین، جن کے ڈرامے ’’مرزا غالب بندرروڈ پر‘‘ ، ’’لال قلعہ
سے لالوکھیت تک‘‘ کافی معروف ہوئے،نومبر 1971میں انتقال کے بعد اسی قبرستان
میں دفن ہوئے۔ریڈیو پاکستان کے جریدے’’ آہنگ‘‘ کے شعبہ ادارت سے وابستہ
غزل گو شاعر فاروق احمدجو محشر بدایونی کے نام سے معروف تھے، 1994میں
انتقال کرگئے، وہ بھی یہیں دفن ہوئے۔ اس قبرستان میں ایک وسیع و عریض احاطے
میںمعروف فلاسفر اورشاعر رئیس امروہوی، ان کے چھوٹے بھائی روزنامہ جنگ کے
سابق مدیر، فلسفی، کارل مارکس کی تصنیف ’’داس کیپٹل‘‘ کو اردو قالب میں
ڈھالنے والے سید محمد تقی، شاعرسید جون اصغر، عرف جون ایلیا،رئیس برادران
کے سب سے چھوٹے بھائی محمد عباس جو عالمی ڈائجسٹ کے مدیر تھے، اسی احاطے
میں دفن ہیں، جب کہ سید محمد تقی کی اہلیہ اور رئیس امروہوی کی بیوی اور
بیٹی بھی یہیں پر محو خواب ہیں۔ امروہوی خاندان کی آبائی تدفین کے
احاطےمیں ممتاز مصور اقبال مہدی بھی دفن ہیں ۔فن خطاطی میں تمغہ امتیاز اور
ستارہ امتیازپانے والےاور 24گھنٹے میں 240فٹ طویل پینٹنگ تخلیق کرکے عالمی
ریکارڈ قائم کرنے والے، سید صادقین احمد نقوی، جنہوں نےقرآنی آیات کو
مصورانہ خطاطی اور غالب کے کلام کوتصویری قالب میں ڈھالنے کا کارنامہ
سرانجام دیا تھا، اسی گورستان میں آرام فرمارہے ہیں۔ 21نومبر 1980کو وفات
پانے والے صحافی اور شاعر، کنور اطہر علی خان، جو شاعری میں اطہر نفیس کے
نام سے معروف تھےوہ بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں جب کہ ان کی غزلوں کو
گائیکی کا رنگ دینے والے استاد امانت علی خان بھی اسی جگہ دفن ہیں۔1970ء کی
دہائی میں پاکستان کے نمبر تین کارٹونسٹ کا درجہ پانے والے جمشید انصاری
جو14 مئی 1977ء کو ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کرگئےتھے، اسی قبرستان میں
دفن ہیں۔ دبستان دہلی کے آخری چراغ، غزل گو شاعر اور براڈکاسٹر، تابش
دہلوی، افسانہ نگار، نثری نظم کے بانی اور سنسکرت ڈراموں کو اردو قالب میں
ڈھالنے والے احمد ہمیش کی قبریں بھی یہیں ہیں۔ ترقی پسند شاعر، ’’موسیٰ سے
کارل مارکس تک‘‘ اور’’ ماضی کے مزار‘‘ کےتصنیف نگار سبط حسن، صدارتی تمغہ
حسن کارکردگی حاصل کرنے والے ٹی وی اداکار انور سولنگی اور صوفیانہ کلام کے
گائیک، اقبال باہو بھی یہیں مدفون ہیں۔اظہار انور جو تسلیم فاضلی کے قلمی
نام سے شاعری کرتے تھے اور فلمی نغمہ نگاری پر تین نگار ایوارڈ حاصل کیے
تھے، وہ بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں۔
اے قیس میری قبر کسی کی عطا نہیں دے کر متاع زیست ملا ہے یہ گھر مجھے
قیس سہارنپوری کا مذکورہ شعرٹنڈو الہ یار سے تعلق رکھنے والےبائیںبازو کے
سیاسی رہنما نذیر عباسی پر صادق آتاہے، جنہیںجنرل ضیاء الحق کے دور میں
کمیونسٹ ہونے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا، بعد میں ٹارچر سیل میں اذیتیں
دینے کے بعد 9اگست 1980کو قتل کردیا گیا۔ ان کے مرنے کے بعد ،لاوارث قرار
دے کران کی میت کو ایدھی سینٹر پہنچایا گیا، جنہوں نے غسل اور تکفین کے بعد
سخی حسن کے قبرستان میں تدفین کروادی۔سابق وفاقی وزیر اور جماعت اسلامی کے
مرکزی رہنما پروفیسر غفور احمد بھی یہیںپر دفن ہیں۔ممتاز شاعر اور اردو
سندھی ادب کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے والے پروفیسر آفاق صدیقی بھی اسی
گورستان میں محو خواب ہیں۔
مذکورہ قبرستان کے ساتھ محل نما بنگلوں کی قطاریں ہیں، جن کے سامنےتقریباً
چار ایکڑ رقبے پر ایک وسیع و عریض احاطہ بنا ہوا ہے، جس میں خوش رنگ پھول،
پودے اور سبزہ زار ہے، اس کے ساتھ ایک اونچے مینار پر محافظوں کی چوکی بنی
ہوئی ہے۔ ایک بڑے سے گیٹ سے جب اندر داخل ہوں تو گماں بھی نہیں ہوتاکہ ہم
کسی قبرستان میں داخل ہورہے ہیں۔ یہ اسماعیلیوں کا قبرستان ہے، جس میں
تقریباً ایک ہزار کے قریب قبریں ہیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام قبریں کچی
بنی ہوئی ہیں۔ اس میں دو بڑے ہال ہیں جن میں نماز جنازہ ادا کی جاتی
ہے۔یہاں روشنی کا اعلیٰ انتظام ہے، اور ہر قبر کے ساتھ برقی قمقمے لگے ہوئے
ہیں۔ یہاں کےنگران حیدر بھائی نے بتایا کہ اسماعیلی برادری میں قبریں پختہ
کرانے کا رواج نہیں ہے، ہماری توجہ میتوں کی تدفین میں دیگر سہولتوں کی
جانب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ قبرستان ، سخی حسن کی حدود میں ہی
واقع ہے لیکن اس کےمالی، گورکن اور دیگراہل کار، اسماعلی بورڈ کے ملازم
ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صفورا چوک کے علاقے میں دہشت گردی کے واقعے کے
44شہداء کی تدفین بھی اسماعیلیوں کے اسی قبرستان میں کی گئی تھی۔ |
|