میگا پراجیکٹس ،سودی قرضے اور کرپشن۔۔۔ مناسب حل کی ضرورت

میگا پراجیکٹس کے نام پہ عالمی استحصالی اداروں سے سودی قرضے لے کر ملکی معیشت کو دیوالیہ اور عوام کو مقرض بنا دیا گیاہے۔معاشی دیوالیہ پن کے نتیجے میں عالمی اور علاقائی سطح پہ سیاسی خوداری تک تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے۔اس صورتحال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملکی سیاسی قیادت کرپشن سے پاک ہو اور وہ کرپٹ بیورو کریسی سے ملک کو نجات دلائے نیز اپنے وسائل میں رہتے ہوئے Component Sharing کے ماڈل کو اپناتے ہوئے عوام اور حکومت مل کر مختلف شعبوں کے حوالے سے پیدا شدہ مسائل کو حل کریں اور آہستہ آہستہ معاشی خود کفالت حاصل کریں، اور ملک کو بیرونی قرضوں سے نجات دلائیں۔
بد قسمتی سے اس وقت پاکستانی معیشت کو بین الاقوامی اداروں کے معاشی چنگل میں پھنسا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر پاکستانی اس وقت تقریباً ایک لاکھ ، ایک ہزار تین سو اڑتیس روپے کا عالمی اداروں کا مقروض بنا دیا گیاہے۔ یہ اعداو شمار 2013میں نوے ہزار سات سو بہتر تھے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومتیں جنہیں ہم اپنے ہاتھوں سے منتخب کر کے بھیجتے ہیں اوروہ کرپٹ بیورو کریسی جو اس عوام کے پیسوں پہ پل رہی ہے دونوں مل کر اس ملک کی معیشت کو دیوالیہ بنا رہے ہیں۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سارے سودی قرضے عوام کے نام پہ، عوامی ترقیاتی منصوبوں کے نام پہ لئے جاتے ہیں، اس غیر ملکی قرضے کے حصول کے لئے اپنی قومی غیرت کو بیچ کر، قوم کو گروی رکھ کر، اربوں ڈالرز جب حاصل کئے جاتے ہیں تو پھر ان کا کیا ہوتا ہے؟ اس کا جواب آجکلNAB کا ریکارڈدے رہاہے کہ کس طرح میگا پراجیکٹس میں کرپشن کا بازار گرم رہا اور جاری ہے۔یقیناً ملکی تاریخ کا دستیاب ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ کسی’’ بڑے‘‘ کو آج تک قومی دولت لوٹنے کی پاداش میں احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ ہی سزائیں ہوئی ہیں،ہر آنے والی کرپٹ حکومت اور کرپٹ بیورو کریسی ملی بھگت سے کرپشن کیسز کو دباتے رہے ہیں، اب بھی ہونے والی یہ ساری کرپشن تمام اداروں کے کرتا دھرتا اپنے اپنے مفادات کے مطابق خفیہ ڈیل یا کسی اور ہتھکنڈے سے دبا دیں گے اور مجھے قوی یقین ہے کہ قومی چوروں کے تمام گروہ اس طرح بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہیں گے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کو جس میگا کرپشن کا سامنا ہے اس کا حقیقی تدارک کئے بغیر نہ تو ملکی معیشت میں بہتری آ سکتی اور نہ ہی سیاسی استحکام آ سکتا ہے، اور نہ ہی بین الاقوامی استحصالی اداروں سے نجات مل سکتی ہے۔

ہمارے معاشرے کی شعوری سطح یہ ہو چکی ہے کہ بازار میں اگر غریب جیب کترا ہمارے ہاتھ لگ جائے تو ہم اس کا مار مار کے برا حال کر دیتے ہیں لیکن قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹنے والے،قومی معیشت کے اداروں کو تباہ و برباد کر کے عالمی استحصالی اداروں کے ہاں قوم کو گروی رکھنے والے ، قوم کے نام پہ سودی قرضے لے کر اپنی ذاتی اور خاندانی جائدادیں، فیکٹریاں بنانے والے ، ملکی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچانے والوں کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں ، بلکہ قومی چوروں کا ڈھول بجا کر استقبال کرتے ہیں۔کاش ہمارا معاشرہ بھی شعور کی اس سطح کو پہنچے جہاں قومیں اپنے مستقبل کے فیصلے اس طرح سوچ سمجھ کر کرتی ہیں کہ ان کی آنے والی نسلیں محفوظ ہو جاتی ہیں،سیاسی منظر نامے پہ موجود لیڈران ایک دوسرے کو چور چور کہہ رہے ہیں، اس حقیقت کو عوام کب سمجھے گی کہ واقعی یہ سب چور ہیں؟دراصل بات یہ ہے کہ ہم نے کبھی سنجیدہ ہو کر اپنے وطن اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے سوچا ہی نہیں ہے،خاص طور پہ وطن عزیز کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کے لئے حکمران طبقات میگا پراجیکٹس کا استعمال کرتے ہیں، ہم نے یہ جاننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی، ان پراجیکٹس کا جن کے ذریعے ہمیں قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا، اس کا ہمیں کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟کیا یہ میگا پرا جیکٹس میگا کرپشن کا ذریعہ تو نہیں ہیں؟

اگر تحقیق کریں تو میگا پرا جیکٹس جن میں سینی ٹیشن،سڑکیں،ٹرانسپورٹ،پل اور دیگر شہری و دیہی سہولیات شامل ہوتی ہیں کے حوالے سے قرضے لئے جاتے ہیں۔ان پراجیکٹس کے لئے حاصل ہونے والی رقم کا زیادہ حصہ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر سطح کے افراد اور اداروں کی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، جو بقیہ بچ جاتا ہے وہ ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے بہتر طریقے سے استعمال نہیں ہو پاتا،جس کا عملی ثبوت گذشتہ نصف صدی میں ترقیاتی پرا جیکٹس کے لئے لیا جانے والا قرضہ اور ان میگا پرا جیکٹس کی موجودہ صورتحال ہے۔ جو کئی تو تکمیل کے مراحل کے دوران ہی ختم ہو جاتے ہیں،اور اگر کوئی مکمل بھی ہو گیا تو اس کی دیکھ بھال کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے یا ناقص تعمیر کی وجہ سے تا دیر نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔

اس کے علاوہ حکومتی ادارے چھوٹے چھوٹے کام یعنی گلیوں کی پختگی،چھوٹی ڈسپنسریاں،پرائمری سطح کے سکول وغیرہ پہ بھی بجٹ خرچ کرتی ہے لیکن بے تحاشہ مسائل کے انبار کی وجہ سے نہ تو بڑے پرا جیکٹس پایہ تکمیل کو پہنچ پاتے ہیں اور نہ ہی چھوٹے مسائل پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔مثلاً کسی علاقے میں مین سیوریج کی لائن یا ڈسپوزل سٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی اداروں کی طرف سے گلیوں میں ڈالا جانے وال سیوریج ناکارہ ہو جاتا ہے یا وہ الٹا لوگوں کے لئے مزید پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔حکومتی ادارے یہ کہتے ہیں کہ زیادہ بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ مین لائن یا ڈسپوزل اسٹیشن نہیں بنا سکتے۔لہذا چھوٹی گلیاں بنا لیتے ہیں۔

اس ساری صورتحال کا وقتی اور مناسب حل کیا ہے؟حکومتوں کو چاہئے کہ عوام کے نام پہ مزید قرضے لینے کی بجائے موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ جن سے مسائل حل کرنے طرف پیش رفت ہو سکے۔ اس سلسلے میں پالیسیاں تشکیل دینے والے افراد اور اداروں کو قوم کو گروی رکھنے کی اس روش سے باز آنا چاہئے، کیونکہ قوم کی تباہی و بربادی بالاخر ان کی بھی بربادی ہے، لہذا اب بھی سنبھلنے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے ایسے غیر سرکاری ادارے جہاں مخلص دل ودماغ
رکھنے والے اور ٹیکنیکل مہارت رکھنے والے افراد موجود ہیں، انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحتComponent Sharingکا طریقہ کار متعارف کروایا ہے جس سے نہ صرف مختلف شعبوں کے مسائل پہ قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ بیرونی قرضوں سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحتComponent Sharing کے اس طریقہ کار کے تحت تعلیم، صحت، سینی ٹیشن، ذرائع آمد ورفت وغیرہ کے جتنے پراجیکٹس ہیں ان میں نچلے اور چھوٹی سطح کے مسائل اپنی مدد آپ کے تحت حل کئے جا سکتے ہیں مثلا سینی ٹیشن کو لیجئے، چھوٹی گلیوں میں اور محلے کی سطح پہ لوگ خود انتظام کریں اور حکومت مین لائن اور ڈسپوزل سٹیشن بنائے تو اس اشتراک سے یہ مسئلہ مکمل طور پہ حل ہو سکتا ہے۔خاص طور پہ سینی ٹیشن کے نظام کے حوالے سے میگا پرا جیکٹس بنانا اور ان پہ بے شمار قرضے لینے کا سلسلہ انتہائی افسوسناک ہے۔کیونکہ اگر تھوڑی سے پلاننگ کی جائے تو اس سیکٹر میں بیرونی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔اور کم وسائل کے باوجود سینی ٹیشن یا سیوریج کے نظام کو بہترین بنایا جا سکتا ہے۔ اس اصول و طریقہ کار کو ہر شعبہ میں اختیار کیا جا سکتا ہے۔یہ اصول بنیادی طور پہ اس فلاسفی پہ مشتمل ہے کہ ’’چھوٹی سطح کے کام لوگ خود کریں اور بڑی سطح کے کام حکومت کرے‘‘۔ اسی طرح صحت کے حوالے سے بڑے ہسپتالوں کا بہترین انتظام حکومت کرے اور چھوٹے چھوٹے ہیلتھ سینٹرز کا انتظام لوگ خود کریں۔اسی طرح تعلیم کے شعبے میں پرائمری سطح کے لئے سکولوں کا انتظام لوگ خود کریں جیسا کہ ہو بھی رہا ہے کہ لوگ خود اپنی مدد آپ کے تحت مکتب سکول کے لئے جگہ فراہم کرتے ہیں اور کالج و یونیورسٹیاں حکومت خود بنائے اور ان کا علیٰ معیار ہو۔اس طرح سے اگر حکومت اپنے بجٹ کے مطابق بڑے پراجیکٹس پہ توجہ مرکوز کرے اور چھوٹے چھوٹے کام لوگ خود کریں تو اس سے ایک طرف حکومتی اداروں اور عوام میں پیدا شدہ دوریوں کا خاتمہ ہو گا ایک دوسرے پہ اعتماد بڑھے گا۔اور محدود موجودہ وسائل ہی سے مسائل حل ہونے کی راہ ہموار ہو گی۔اور اس طرح حکومتیں اپنے بجٹ کے اندر رہتے ہوئے ترقیاتی کام بھی کر سکتی ہیں نیز بیرونی قرضے لینے سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ لیکن یہ سب اس صورت میں ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ جب باکردار اور مخلص سیاسی قیادت جو کہ قومی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو اور اس کا عزم ہو کہ ملکی معیشت کو خود کفالت کی سطح پہ لانا ہے اور بیرونی قرضوں سے قوم کو نجات دلانی ہے۔وہ کرپٹ بیورو کریسی کو بھی سیدھا کرے اور ایسے قوانین، پالیسیاں اور ان پہ عملد رآمد کو یقینی بنائے جس کے ذریعے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پہ ڈال سکے۔اور یہ یقینی بات ہے کہ جب تک عوام اپنی رائے کو درست نہیں کریں گے، اور دیانتدار قیادت کو منتخب کر کے اداروں میں نہیں بھیجیں گے یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136305 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More