وہی چہرے وہی تبصرے وہی نعرے۔
وہی کردار ‘ وہی ہٹ دھرمی وہی کٹ حجتی‘
وہی صبحیں اور وہی شامیں‘
جب یہ سب ایک جیسا ہوگا تو انجام بھی وہی ہوتا ہے ‘ یہی تاریخ بتاتی ہے ۔
کیا اب ہم پھر انجام کے منتظر ہیں؟ بھارت کو اس خطے میں چودھری بنانے کی
تیاریاں جاری ہیں اور پاکستان کو تنہا کرنے کے سارے آثار واضح ہیں ۔ عالمی
طاقتوں کے مقاصد بھی واضح ہیں ،پاکستان کو آنکھیں دکھانا اور اس خطے میں
بھارت کی نمبرداری قائم کرنا ۔ ہمیں سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ ہم بھارت سے
ماضی کی تلخیاں بھلا دیں اور اپنے اس مستقبل پر نظر رکھیں جو بظاہر تاریک
ہو چکا ہے ۔بھارت اورپاکستان کے درمیان کسی منگنی کا تنازعہ ہوتا تو کبھی
کا حل ہو چکا ہوتا کسی طلاق کا ذکر ہوتا تو کبھی کی عدت پوری ہو چکی ہوتی
۔ا صل مسئلہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی غلامی کا ہے ۔ یہ پاکستان کے لیے اختیاری
آپشن نہیں ‘ بلکہ اس کے نظریے کا بنیادی تقاضا ہے ۔
کشمیر سے دست بردار ہونا پاکستان کے نظریے کی نفی ہے اور اکھنڈ بھارت کا
تصور پاکستان کو بکھیر دینے کا منصوبہ ہے۔بھارت کے قول و فعل کا تضاد ایک
اندھا بھی دیکھ سکتا ہے ۔پچاس روز سے کرفیو ہے اور بھارتی فو ج کی ریاستی
دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔روزانہ درجنوں کشمیری شہید یا زخمی کیے
جاتے ہیں ‘ہزاروں بے گناہ عقوبت خانوں میں پڑے ہیں ہزاروں لاپتہ ہیں۔
تعلقات کی بحالی اور دوستی کے اقدامات کے ساتھ ساتھ اس قتل و غارت گری کا
کیا مطلب ہو سکتاہے۔ ایک طرف دوستی کی خواہش ہے ‘ امن کی آشا ہے اور دوسری
جانب کشمیر کی معصوم اور عفت مآب خواتین کی بے حرمتی ۔ایک جانب آٹھ لاکھ
بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر دن رات وحشیانہ مظالم ڈھا رہی ہیں اور دوسری
طرف مذاکرات سے دنیا کو دھوکہ دیا جا رہا ہے ۔بھارت بیک وقت اہل کشمیر اور
عالمی رائے عامہ کو کس طرح گمراہ کررہا ہے ۔
پاکستان نے بھارت سے مثبت رویے کی امید رکھی بھارت کے رویے میں کیا تبدیلی
دیکھی گئی ؟جس کی بنا پر انقلاب کی توقع باندھ لی گئی ۔مذاکرات شروع کرنے
کے بعد بھارتی لیڈروں نے بھی کوئی ایسی بات نہیں کی ‘جس سے یہ ثابت ہوتا ہو
کہ انہوں نے اپنا موقف ترک کر دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے کشمیر کو بنیادی
مسئلہ کہنے کا برا منایاجاتا ہے ۔پاکستان نے جب کشمیر کی بات چھیڑی تو ہر
بار دہشت گردی ‘ آزاد کشمیر اور کنٹرول لائن پر بحث و مباحثہ چھیڑ کر اصل
معاملہ ٹال دیا گیا۔اصل فوکس ’’دوستی ‘‘پر رہا۔ اعتماد بحال کرنے ‘تجارتی
تعلقات کی بحالی اور مواصلاتی رشتے استوار کرنے پر زور دیا گیا ۔ ہندوستان
کے مجموعی رویے پر پاکستان کی طرف سے جو احتجاج کیا گیا‘اس کے جواب میں
بھارتی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں ایک بار پھر ’’ اٹوٹ انگ ‘‘ والا
موقف دہرایا۔
کشمیر کی آزادی پاکستان کے لیے اختیاری آپشن نہیں ‘ بلکہ اس کے نظریے کا
بنیادی تقاضا ہے ۔ماضی کے حکمرانوں نے دباؤ میں آزادی کی جائز اور قانونی
جنگ آزادی لڑنے والوں کو دہشت گرد تسلیم کیا۔بھارت کی خواہش پر مقبوضہ اور
آزاد کشمیر کے درمیان غیر قانونی جنگ بندی لائن پر باڑ لگانے کا بھارتی حق
مان لیا۔حتیٰ کہ وہ بھارت کو یہ حق دینے پر بھی آمادہ ہو گئے کہ وہ چاہے تو
ہمارے پانیوں پر ڈیم تعمیر کر کے ہماری اقتصادی شہ رگ کاٹ ڈالے ۔ان ’’قربانیوں‘‘کے
باوجود بھارت کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی وہ روز بروز شیر ہوتا چلا گیا ۔
بد قسمتی سے نائن الیون کے بعد ہمارے حکمران بڑی آسانی سے مغربی استعمار کے
مذموم ارادوں کے معاون بن گئے اور اپنے ساتھ بیس کروڑ مسلمانوں کی حمیت کو
بھی نیلام کردیا‘ بھارت کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگیا کہ انہیں موم کی ناک
کی طرح ہر طرف موڑا جا سکتا ۔ہندوستان کی پہلی ترجیح کشمیرکا جہاد ختم کرنا
تھا۔ یہ اس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا ‘ اس لیے کہ کشمیری مجاہدین
نے عملاً آٹھ لاکھ بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے اور اس کے اعلیٰ
کمانڈر یہ تسلیم کرنے لگے تھے کہ کشمیریوں کی عسکری جدوجہد کے مقابلے میں
ان کی فوج عاجز و لاچار ہے ۔وہ بار بار سیاسی حل نکالنے پر اصرار کر رہے
تھے ‘ لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی کمزوری کی بنا پر کشمیر کے جہاد کو
ختم کرنے میں بھارت کو اپنے خدمات اور تعاون پیش کردیا۔ پاکستان کی
انتظامیہ نے بھارتی فوج کو جو سہولت دی ‘جنرل مشرف اور ان کی ٹیم نے
مجاہدین کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔وہ لوگ جو موہوم امید کی خاطر
برسوں کے جائز اور قانونی موقف سے دست بردار ہو جائیں ‘ ان کی بصیرت پر
اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔اس لیے یہ اہل ضمیر اور افواج پاکستان کا مشترکہ
اور مقدس فرض ہے کہ وہ تحریک آزادی کو ختم ہونے سے نہ صرف بچائیں بلکہ
پاکستان کی شہ رگ کاٹنے والوں کو روکیں ۔اگر وہ صورت حال کو مزید خراب ہونے
سے بچانا چاہتے ہیں تو کشمیر پالیسی میں یوٹرن کو ختم کرنا ہوگا ۔ اگر ہم
کشمیر کی تحریک آزادی کو اخلاقی ‘ سیاسی اور سفارتی امداد دینے سے عاجز آ
چکے ہیں ‘تو بھی ہمیں کم از کم ان کے خلاف اپنی قوت اورصلاحیت کا استعمال
نہیں ہونے دینا چاہیے ۔کشمیری صدیوں سے آزادی کے منتظر ہیں ‘ وہ اس کے لیے
مزید انتظا ر کر سکتے ہیں ‘ وہ اپنی تحریک جاری رکھنے کے لیے پرعزم بھی ہیں
۔لیکن ہمیں غیر ملکی دباؤ کے سامنے سر نگوں ہو کر کشمیر کی تحریک آزادی کو
ایسا نقصان نہیں پہنچنے دینا چاہیے جس کی تلافی نہ ہو سکے ۔یہ صرف کشمیراور
کشمیریوں کا نقصان نہیں ہوگا ‘بلکہ یہ پاکستان کی حمیت و غیرت اوراس کی
معیشت کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان ہوگا ۔
پاکستان کے لیے بے شمار محاذ کھلے ہیں ۔ سب سے بڑا محاذ دہشت گردی کا ہے ۔
کون نہیں جانتا اس کے پیچھے بھارت سرکار کی پوری طاقت موجود ہے ۔ ہمارے
ادارے یہ بات خوب جانتے ہیں کہ جب تک بھارت کشمیر اور خالصتان کے محاذ پر
پھنسا رہا اسے پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی ۔ ہم
اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے در پے کیوں ہیں؟
کشمیر کوئی آپشن نہیں ۔ہماری زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔ کوئی اسے مانے یا نہ
مانے حالات خود منوا رہے ہیں ۔ بھارت سے مذاکرات کا ’’ٹھرک‘‘ پورا کرنا
چاہیے لیکن مذاکرات کا اصل اور مرکزی ایشو کشمیر ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بھارت کو درست لہجے میں بتا دیں کہ ہمارا تم سے کسی
منگنی کا جھگڑا نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے جسے حل
ہونا باقی ہے ۔ جب تک یہ حل نہیں ہوگا نہ تجارت نہ مواصلات نہ اعتماد کی
بحالی نہ مذاکرات کی چخ چخ ۔! |