کشمیر میں قیام امن کےلئے حکمراں جماعتوںکی متضاد پالیسی مذاکرات کی مخلصانہ کوششوںکے بجائے طاقت کے متبادل کی کھوج
(Altaf Hussain Janjua, Jammu, J&K, India)
۔یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ مسئلہ کے پر امن حل اور تمام فریقین کو مذاکرات کے میز پر لانے کے بجائے طاقت کے استعمال کے لئے نت نئے طریقے اپنائے جارہے ہیں۔حکمراں جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جس سے لوگوں کا غم وغصہ کم ہو، حالات قابومیں کئے جاسکیں، امن قائم ہومگرپی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط سرکار نے اس حوالہ سے کوئی اقدام نہ اٹھائے۔ وادی میں قیام امن اور معمولات زندگی کو پٹڑی پر لانے کے لئے ریاستی سرکار آج تک کوئی موثر اقدا م اٹھانے میں مکمل طور ناکام رہی ہے۔ دونوں جماعتیں پی ڈی پی او ربی جے پی بالکل متضاد ڈائریکشن میں چل رہی ہیں۔ ایک بات چیت کی بات کرتی ہے تو دوسری سخت گیر رویہ اپنانے پر زور دے رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ،نے مرکزی سرکار کو کشمیر کوموجودہ بحران سے نکالنے کے لئے جوتجاویز پیش کی ہیں |
|
وادی کشمیر میں پچھلے50دنوں کے زائد عرصہ
سے کرفیو،بندشیں، احتجاج، مظاہروں کے بیچ خاک وخون کا کھیل جاری ہے۔ صوبہ
کشمیر میں ماسوائے لہہ اور کرگل اضلاع سرکاری دفاتروں میں اُلو بول رہے ہیں،
اگرچہ سیکریٹریٹ میں باقاعدگی کے ساتھ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی کابینہ
میں شامل وزرا آتے ہیں لیکن 80تا85فیصد ملازمین سیکریٹریٹ میں حاضر
نہیںہورہے۔وزرا کے اپنے کام ہورہے ہیں، لگاتار متعدد اہم کاموں اور فائلوں
کو وزیر اعلیٰ کاApprovalمل رہا ہے مگر عام آدمی کا کوئی مسئلہ ہوتادکھائی
نہیں دے رہا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت /مذاکرات کے
ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ ظلم وستم اور طاقت کے بل بوتے پر کسی کی آواز کو
دبایاجاسکتا ہے پر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں اس حوالہ سے کئی تاریخی
شواہد موجود ہیں۔ جموں وکشمیر ریاست بھی اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ اگر اس
تصفیہ طلب مسئلہ کے ازالہ کے لئے واحد بات چیت کو ہی راستہ اختیار کیاگیا
ہوتا توشاہدسات دہائیوں کا عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی خاک وخون کا کھیل
جاری ہے۔سلگتی لکڑی کبھی شعلہ بن کر بھڑک جاتی ہے تو کبھی چنگاری لیکن یہ
بجھ نہیں رہی ہے۔مذاکرات کے بجائے زیادہ سے زیادہ سیکورٹی فورسز کی تعیناتی،
مظاہرین کو منتشر وقابو کرنے کے لئے طرح طرح کے نئے تجربات وادی کشمیر میں
کئے گئے لیکن سب کچھ لاحاصل رہا۔ جاری عوامی احتجاجی لہر کے دوران پیلٹ گن
کا بے دریغ استعمال ہوا جس سے سینکڑوں کی تعداد میں بلالحاظ عمر افراد
آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوئے، اس پر ہوئے شور وشرابہ اور حزب اختلاف کی
مرکزی سرکار کے اعلیٰ حکمرانوں سے ملاقتوں کے بعد مرکزی سرکار نے اس کا
متبادل تلاش کیا ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے پیلٹ گن کا متبادل تلاش
کرنے کیلئے قائم کی گئی ماہرین کی کمیٹی نے مرچی پر مشتمل ”پاوا شل“پر اپنی
نگائیں جمائی ہیں جو ماہرین کے بقول کم مہلک ہے اور عارضی طور ہجوم کو بے
حرکت کردیتا ہے۔اس حوالہ سے میڈیارپورٹوں میں بتایاجارہاہے کہ ماہرین کی
کمیٹی نے رواں ہفتہ کے دوران ایک تجرباتی میدان میں تیار کئے گئے اس نئے شل
کا تجربہ کیا اور اس کو ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے استعمال میں لانے کو ہری
جھنڈی دکھائی۔اب یہ شل کشمیر میںاحتجاجی مظاہرین سے نمٹنے کیلئے استعمال
کیاجائے گا۔پاوا شل کے بارے میں تیار کئے گئے بلیو پرنٹ میں لکھا گیا ہے کہ
یہ شل گزشتہ ایک برس سے لکھنو میں قائم انڈین انسٹی چیوٹ آف ٹاکسیکالوجی
ریسرچ لیبارٹری(جو سائنسی و صنعتی تحقیق کے کونسل کی تجربہ گاہ ہے )میں زیر
تجربہ تھااور اس کی مکمل پرداخت اس وقت مکمل ہوئی جب کشمیر آ تش زیر پا
ہے۔کمیٹی نے پاوا شل کو پیلٹ گن کے متباد ل کے طور استعمال کرنے کی حمایت
کی ہے اور یہ سفارش کی ہے کہ گوالیار میں قائم بی ایس ایف کے ٹیر سموک یونٹ
کو فوری طور کافی بڑی تعداد میں یہ شل تیار کرنے کی ہدایت دی جائے اور پہلی
کھیپ 50ہزار شیلوں سے کم نہ ہو۔نام پاوا(PAVA)کا مطلب پیلر جک ایسڈ ونیلائل
ایمائیڈ ہے جس کو عرف عام نونیویمائیڈ بھی کہتے ہیں اور یہ ایک نامیاتی شئے
ہے جو عمومی طور قدرتی مرچ میں پائی جاتی ہے۔سکو وائل پیمانے (مرچی کی شدت
کو ناپنے والا پیمانہ)پر PAVAکو ”مقررہ حدسے اوپر“کے زمرے میں رکھا گیا ہے
جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے خارش ہو گی اور یہ انسانوں کو عارضی کو فالج زدہ
بناسکتا ہے۔کمیٹی نے پایاکہ PAVAکو کم مہلک ہتھیاروں کے زمرے میں رکھا
جاسکتا ہے۔ایک دفعہ جب یہ شل چلایا جاتا ہے تو یہ زیر نشانہ ہجوم کو عارضی
طور ساکت اور فالج زدہ بنا سکتا ہے اور یہ ٹیر گیس شل یا مرچی گیس سے زیادہ
موثر ثابت ہوجائے گا۔PAVAمرچی گرینیڈ یا ٹیر گیس شل کے مقابلے میں زیادہ
محفوظ ہے اور اس کو احتجاجی مظاہرین سے نمٹنے کے دوران ٹیر شیلوں اور سٹن
کے ساتھ استعمال کیاجاسکتا ہے“۔یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ مسئلہ کے پر امن
حل اور تمام فریقین کو مذاکرات کے میز پر لانے کے بجائے طاقت کے استعمال کے
لئے نت نئے طریقے اپنائے جارہے ہیں۔حکمراں جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے
کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جس سے لوگوں کا غم وغصہ کم ہو، حالات قابومیں
کئے جاسکیں، امن قائم ہومگرپی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط سرکار نے
اس حوالہ سے کوئی اقدام نہ اٹھائے۔ وادی میں قیام امن اور معمولات زندگی کو
پٹڑی پر لانے کے لئے ریاستی سرکار آج تک کوئی موثر اقدا م اٹھانے میں مکمل
طور ناکام رہی ہے۔ دونوں جماعتیں پی ڈی پی او ربی جے پی بالکل متضاد
ڈائریکشن میں چل رہی ہیں۔ ایک بات چیت کی بات کرتی ہے تو دوسری سخت گیر
رویہ اپنانے پر زور دے رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ،نے مرکزی سرکار کو
کشمیر کوموجودہ بحران سے نکالنے کے لئے جوتجاویز پیش کی ہیں، ان سے یہ
بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے پارٹی مذاکرات سے زیادہ طاقت کے استعمال
پریقین رکھتی ہے۔ یہ تجاویز اس بات کوبھی ظاہر کر رہی ہیں کہ جیسے بھارتیہ
جنتا پارٹی آج بھی اپوزیشن میں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا کشمیر کے تئیں نہ
صرف سخت موقف برقرار ہے بلکہ پارٹی کی ریاستی اکائی اور قومی قیادت کے قول
وفعل میں بھی تضاد نظر آرہاہے۔ ایکطرف جہاں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے
25اگست کوسرینگر میںپریس کانفرنس کے دوران مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایکبار
پھر”انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت“کی بات کی تو وہیں بھاجپا ریاستی اکائی
نے انہیں ایک تفصیلی میمورنڈم پیش کیا جس میںکشمیر کو موجودہ بحران سے
نکالنے 8نکاتی ایجنڈا بتایا۔ اس ایجنڈہ کے نکات کو پڑھنے سے یہ روز روشن کی
عیاں ہوجاتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کشمیر کے تئیں کیا پالیسی ہے اور
وہ مذاکرات سے نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کے ذریعہ کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ
جوڑے رکھنا چاہتی ہے۔پیش کردہ 8نکاتی ایجنڈاہ میںیہ کہ(1)ملی ٹینسی کا سختی
کے ساتھ خاتمہ ہونا چاہئے،(2) صورتحال سے نپٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کو
کھلی چھوٹ دی جائے،(3)خفیہ ایجنسیوں(انٹیلی جنس )گرڈ کو مضبوط ومستحکم
کیاجائے۔بھاجپا نے اعلیحدگی پسندوں/حریت لیڈران کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے
یہ کہا ہے کہ (4) دہشت گردوں کو عوامی جلسوں سے خطاب کرنے کی اجازت نہ دی
جائے،(5)عسکریت پسندی کو فروغ دینے کے لئے باہر سے آرہے غیر قانونی پیسہ پر
روک لگائی جائے،(6)تمام سیکورٹی فورسز کے مابین تال میل کو مضبوط کیاجائے،(7)کشمیر
میں اقلیتی طبقہ کو مناسب سیکورٹی فراہم کی جائے،(8)مساجد سے لاو ¿ڈ
سپیکروں کے غلط استعمال کو روکاجائے اور جماعت اسلامی کی سرگرمیوں پر کڑی
نظر رکھی جائے۔تجاویز سے قبل یادداشت میں بھاجپا قیادت نے چند دیگر باتوں
کا بھی ذکر کیا ہے جن کا یہاں ذکر کاناضروری ہے ۔ اس کے لئے یادداشت کے چند
اقتباسات کچھ یوں ہیں....”کشمیر کو اس وقت سخت بحران کا سامنا ہے، سرحدپار
سے عسکریت پسندی میں کافی اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان کھلے عام عسکریت
پسندی کی حمایت کر رہاہے۔ پاکستانی ایجنسیوں اور سرکار کے سپانسر کردہ چند
اعلیحدگی پسند کھلے عام دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہیں،
جوکہ ریاست کو ہر طریقہ سے غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اصل میں پاکستان
بھارتیہ جنتا پارٹی اور پی ڈی پی الائنس کے بعدکافی خفا ہے اور وہ سرکار کو
غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔اصل میں پاکستان کشمیر کو عالمی سطح کا مسئلہ
بنانے میں عالمی برادری کے سامنے تمام محاذ پر ناکام رہاہے، نے اب برہان
وانی جنگجو کے شہید ہونے کے بعد کشمیر میں پیداشدہ مشکل کی کمان لینے کی
کوشش کی ہے، جنہیں حریت کانفرنس اور پاکستان سے حمایت مل رہی ہے۔ یہ ملک کے
خلاف پراکسی جنگ ہے اور سیکورٹی فورسز کی حوصلہ شکنی اور انہیں بدنا م کرنے
کی جامع کوشش ہے۔ ا س یادداشت جوکہ بھارتیہ جنتاپارٹی ریاستی صدر ست شرما
ودیگرسنیئرلیڈران نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو دی میں مزید کہا ہے کہ اصل
میں سیکورٹی فورسز کو بہت زیادہ متاثر ہونا پڑا ہے جوکہ زیادہ سے زیادہ صبر
وتحمل سے کام لے رہے ہیں۔یہاں یہ کہنا بھی قابل ذکر ہے کہ اس مرتبہ مذموم
عزائم اور حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے خاص طور سے نوجوانوں کا استحصال
کیاجارہاہے۔ شری امرناتھ یاترا میں خلل ڈالاگیا اور صرف یہی نہیں بلکہ بابا
بڈھا امرناتھ یاتر ا پر حملہ کی کوشش کی گئی۔ اس یادداشت میں بھاجپا نے
محبوبہ مفتی کے بیان کی تائید وحمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ درحقیقت وزیر
اعلیٰ نے بجا فرمایاکہ 95فیصد لوگ کشمیر میں پرامن حالات چاہتے ہیں لیکن
انہیں عسکریت پسندوں اور حمایتوں سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔اقلیتی طبقہ کو ایک
یا دوسرے بہانہ سے ہراساں کرنے کے لئے یرغمالی ماحول قائم کیاگیاہے۔ کشمیر
میں سینک کالونی کے قیام اور مائیگرینٹ کالونی بنانے کے معاملات سے متعلق
حقائق کو غلط پیش کر کے عام عامہ میں اس کے خلاف ماحول تیار کیاگیا۔ ریاستی
بھاجپا کا حکومت ہند سے مطالبہ ہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر جس سے
بھاجپا(پاکستانی مقبوضہ کشمیر)کہتی ہے کوخالی کرانے کے لئے عالمی سطح پر
زور وشور سے معاملہ اٹھایاجائے۔ حکومت ہند کو مرکزی وزارت داخلہ کے تحت
اعلیحدہ سے ایک سیل/محکمہ قائم کرنا چاہئے جوکہ جموں وکشمیر ریاست کی
صورتحال پر تسلسل سے کڑی نظر رکھے اور کشمیری عوام کو قومی دھارا میں لانے
کے لئے مناسب اقدامات تجاویز کرے۔ پارٹی نے دعویٰ کیاکہ کشمیر میں صورتحال
بہتر ہورہی ہے اور کشمیری عوام کو مین سٹریم سے اعلیحدہ کرنے کی تمام
کوششیں ناکام ہونگیں۔تمام خطوں میں صرف اچھی سوچ رکھنے والوں کے ساتھ بات
چیت کی جائے تاکہ ان میں اعتماد سازی کی فضاقائم ہو اور ان کے متعلقہ مسائل
حل ہوں۔ بھاجپا کا پختہ موقف ہے کہ جموں وکشمیر ہندوستان کا ناقابل تنسیخ
حصہ ہے، الحاق متنازعہ نہیں ہوسکتا، پاکستانی زیر انتظام کشمیریاPOKریاستی
آئین اور ہندوستان کی پارلیمنٹ میں1994کو پاس کی گئی قرار داد کے مطابق
ہمارا حصہ ہے ........“وغیرہ وغیرہ ۔بھاجپا سے وابستہ ایک سنیئر رہنما جوکہ
پیشہ سے وکیل بھی ہیں، نے راقم سے ریاست کے حالات واقعات پر بات چیت کے
دوران ضمناً کہاکہ ”وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے 25اگست کو سرینگر میں منعقدہ
پریس کانفرنس میں جوکہا وہی تو ہم (بھارتیہ جنتا پارٹی)چاہتے تھے، آگے آگے
دیکھئے ہوتا ہے کیا، ابھی تو شروعات ہے ، ہم از خود وہ ہرکام اور بات وزیر
اعلیٰ سے کہلوائیں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں، ارے بھائی اس کو بھارتیہ جنتا
پارٹی کہتے ہیں، ایسے ہی ہم نے الائنس نہیں کردیا“۔ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ
ہم نے وزیر اعلیٰ کو دس دن کا وقت دیا ہے اگر وہ حالات سدھار سکتی ہیں تو
ٹھیک نہیں تو گورنر رول نافذ کیاجائے گا کیونکہ بھاجپا کو عالمی برادری کا
سامنا کرنا ہے۔ کشمیر کے حوالہ سے عالمی سطح پر شبہہ خراب ہورہی ہے ساتھ ہی
اترپردیش ودیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بھی تو ہیں۔یاد رہے کہ پریس
کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے یہ کہاتھاکہ ”جاں بحق ہونے
والے بچے ٹافی یا دودھ لانے بازار نہیں گئے تھے،وہ حملہ کرنے گئے تھے
،5فیصد لوگوں نے امن عمل کو یرغمال بنایا ہے جبکہ 95فیصد لوگ مسئلہ کا پرمن
حل چاہتے ہیں“۔محبوبہ مفتی کے اس بیان سے زعفرانی خیمہ میں کافی خوشی ہے
کیونکہ ان کے موقف کی ترجمانی ہوئی ہے۔ بھاجپا کشمیر کے تئیں اپنی سخت گیر
پالیسی پر کاربند ہے اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ذریعہ وہی کچھ
کروایابھی جارہاہے۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی رہنماؤں کو اس
بارے وضاحت کرنی چاہے کہ وہ بھاجپا کے آٹھ نکاتی ایجنڈہ سے متعلق کیا موقف
رکھتی ہے کیونکہ اس حوالہ سے عوامی حلقوں میں زبردست بحث ہورہی ہے۔وضاحت نہ
کرنا پی ڈی پی کے لئے آنے والے دنوں میں مزید مصیبت کھڑی کرسکتا ہے جبکہ
پہلے ہی بہت کچھ گھنوا چکی ہے۔ |
|