وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی قیادت
میں کل جماعتی وفد 4ستمبر2016ء کو وارد کشمیر ہوا ۔پورا کشمیر بشمول بھارت
اور پاکستان دن بھر کشمیر سے متعلق نئی تازہ خبریں جاننے کے لئے ٹیلی ویژن
کے سامنے بیٹھ کر نیوز چینلز بدلتے رہے تاکہ کشمیر میں دو مہینے سے جاری
خونین رقص پر روک لگ جانے کی کوئی امید کی کرن نظر آجائے ۔مگر ہوا وہی جس
کا پہلے سے اندیشہ تھا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔بھارت کی مرکزی سرکار
کشمیر کے حالات کے حوالے سے مکمل طورپر غیر سنجیدہ ہے ۔اس نے 2010ء طرز پر
کل جماعتی وفد اس لئے بھیجا کہ شاید حریت والے ’’Face saving‘‘کے لئے دلی
سے ایک ’’بے اختیار یا بااختیار‘‘ٹیم کی ملاقات کی خواہش مند ہے جو حریت
لیڈران سے مل کر پُر ہجوم پریس کانفرنس میں ایجی ٹیشن ختم کرنے کا اعلان
کریں گے ۔زمینی حقائق سے بے خبر یا غلط اطلاعات پر بھروسہ کرنے والی نئی
دہلی کا ابتداء سے ہی’’ مسئلہ ‘‘یہی رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ ’’چالاک
‘‘سمجھ کر دنیا جہاں کے لوگوں کو بیوقوف سمجھتی ہے ۔یہ لوگ کشمیر کے درد کے
خاتمے کے لئے باربار انہی سے ملتے ہیں جنہوں نے انہی کی چھاتی کا دودھ پیا
ہے ،رہے ناراض لوگ ان کو دق کرنے کے لئے پر امن حالات میں ’’ایجنٹ
وغدار‘‘قراردیا جاتا ہے برعکس اس کے خراب حالات میں ’’اسٹیک ہولڈرس‘‘!۔کل
جماعتی وفد کی 4ستمبر کی تمام تر اچھل کود سے معلوم ہوا کہ ان کا حریت
کانفرنس سے ملنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو مرکزی سرکار
’’واجپائی اور منموہن سرکار‘‘کی طرح چند روز قبل دعوت نامہ بھیجتی ۔باعث
حیرت یہ کہ 3ستمبر کی شام محبوبہ جی نے بحیثیت صدر پی،ڈی،پی دعوت نامہ
بھیجا اور میرا یقین ہے کہ اگر بطور چیف منسٹر بھی وہ بھیجتی تو بھی حریت
والے ملنے کے لئے تیار نہیں ہو جاتے اس لئے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی چابی
دلی کی ہاتھ میں ہے کسی کشمیری لیڈر یا حاکم کے ہاتھ میں نہیں۔
وفد میں شامل جو لوگ حریت والوں سے ملنے گئے کیا انھیں معلوم نہیں تھا کہ
آج کے حالات نجی ملاقاتوں کی اجازت فراہم نہیں کررہے ہیں جیسا کہ 2010ء میں
انھوں نے کیا تھا۔اگر ملاقات نجی نہیں بلکہ مذاکرات کے لئے تھی تو کیا
مذاکرات پولیس کے پہرے یا جیلوں میں کبھی ہو ئے ہیں ؟پھر مذاکرات کس پر
کرنے تھے ،مسئلہ کشمیر یا پر تشدد ایجی ٹیشن کوختم کرنے کے لئے ؟مسئلہ
کشمیر پر بات کرنے کا دلی کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں رہی بات پر تشدد
حالات کو پرامن حالات میں بدلنے کی تو حریت کو دلی والوں کے تمام تر حرکات
،سکنات اور دھمکی آمیز بیانات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پر امن حالات میں
دلی کسی بھی حریت لیڈر کو گھاس ڈالنے کی روادار نہیں تو پھر وہ’’ غدار اور
ایجنٹ‘‘ہو کر بھی ہمدردی کا کام کیوں کرے ؟جہاں تک بعض ’’باتونی ‘‘حضرات کے
اس شکوے کا تعلق ہے کہ گیلانی صاحب کو دروازہ بند کر کے بے رُخی نہیں برتنی
چاہیے تھی جو کشمیری روایات کے خلاف ہے ،تو پوچھا جا سکتا ہے کہ جس
’’طاقتور اسٹیک ہولڈر‘‘کے دروازے پر کل جماعتی وفد کی جمہوری،سیکولراور
اہنسائی فوج نے اسی(80) کے قریب لاشیں چھ سو(600) سے زیادہ نابینا اوردس
ہزار زخمی چھوڑے ہوں اس سے ’’نرمی ‘‘کی اُمید کیوں؟ کہیں ایسا کرکے غمزدہ
خاندانوں کو غلط پیغام نہیں جاتا ۔آج کی متحدہ حریت کے لیڈروں نے ایک ہی
بات کہی کہ بتاؤ اب تک کے مذاکرات اور وعدوں کا کیا ہوا؟کیا کل جماعتی وفد
کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ؟۔
نئی دہلی کی ناعاقبت اندیشی اور تکبرانہ روش اس کو اپنے ہاتھوں کھودی ہوئی
گہری کھائی میں گرانے والی ہے ۔میں نے مارچ2011ء میں ایک تفصیلی مضمون
بعنوان ’’زندہ گیلانی دلی کے لئے بہت اہم‘‘لکھا تھا اس کے چند اقتباسات
ملاحظہ فرماکر دیکھ لیجئے کہ کیا دلی درست سمت میں جارہی ہے یا اپنے
ہاتھوں’’ کھودی بداعتمادی کی قبر‘‘میں گرنے والی ہے ۔ ’’وقت رکنی والی چیز
نہیں ہے یہ عالم مکان و مقام اپنی فنا کی جانب بہت تیزی کے ساتھ دوڑتی
جارہی ہے اس کو روکنے یا تھامنے کی قوت کسی میں نہیں اس لئے کہ جس نے اسے
پیدا کیا ہے اس نے اس کی زندگی کی ایک گھڑی مقرر کر رکھی ہے ،بالکل اسی طرح
جس طرح ہر انسان پیدا ہونے کے بعدایک ایک گھڑی گذرنے کے ساتھ ساتھ موت کے
بہت قریب جاتا ہے ۔سید علی شاہ گیلانی اپنی طبعی اور فطری عمر کی اس دہلیز
پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے عموماََانسان خدائے لم یزل سے ملنے کا مشتاق رہتا
ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے آخری طویل آپریشن سے قبل محترم گیلانی صاحب نے
قوم کے نوجوانوں سے لیکر سید صلاح الدین احمد تک سبھی تحریک آزادی سے جڑے
افرادکو انتہائی جذباتی اور دردبھرے انداز میں وصیت کی تھی کہ آپ لوگ تحریک
آزادی کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے آخری دم تک کوشاں رہنا ۔ہم
جانتے ہیں کہ اس امت کی عمر بہت ہی مختصر ہوتی ہے الا یہ کہ اﷲ تعالیٰ کسی
کو اپنے فضل سے نوازے ۔سید علی شاہ گیلانی صاحب نہ صرف پیرانہ سالی کے دور
سے گذر رہے ہیں بلکہ انھیں کئی مہلک امراض نے کئی مرتبہ بڑی بے رحمی سے
نشانہ بنا کر ان کے چاہنے والوں کو انتہائی درد و کرب میں مبتلا کردیا ہے‘‘
۔
سید علی گیلانی کشمیر کی سرزمین میں ایک ایسے شخص کے طور پر ابھر چکے ہیں
جن کے خیالات ،جہدمسلسل،دین سے والہانہ اور سرفروشانہ تعلق،تحریک آزادی
کشمیر اور اس کو اسلامی طریقہ کار سے منطقی انجام تک پہنچانے کی بے پناہ
خواہش اور کوشش،عالم اسلام کے قائدانہ رول سے فرار اختیار کرنے پر ہر دم
اظہار کرب،فلسطین ،افغانستان ،چیچنیا ،عراق اور پاکستان کی مظلوم قوم سے
لگاؤ اور ان کی اسلامی نقط نگاہ سے اپنی حد تک ممکنہ حمایت ،مسئلہ کشمیر
اور اس کے نشیب وفراز کے شاہدحقیقی ،مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس تک کے
سفر کے گواہ،جماعت اسلامی میں شمولیت ،مسلم متحدہ محاذکا قیام،عسکریت کی
حمایت،متحدہ حریت کانفرنس میں ممبر سے لیکر چیرمین تک کا رول،جماعت اسلامی
سے ناراضگی کے بعد تحریک حریت کا قیام ، درجنوں کتابیں، ہزاروں تقریریں اور
بھارت کی بے پناہ قوت کی پرواہ کئے بغیر اپنے موقف پر ثابت قدم رہنے والے
کو مستقبل کا مؤرخ کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کر سکتا ہے ۔
سید علی گیلانی کو جو مقام آج حاصل ہے اسے پہلے کسی بھی کشمیری لیڈر کو
حاصل نہیں تھا اس جملے سے بہت سوں کو اختلاف ہو سکتا ہے اور اس کی کئی وجوہ
سے گنجایئش بھی موجود ہے مگر جن کو کشمیر کا غیر متنازع لیڈر خیال کیا جاتا
ہے تب کے کشمیر میں بھارت کی آٹھ لاکھ فوجیں نہیں تھیں اور نہ ہی بھارت کے
لیڈروں میں بے وفائی کا عنصر اس قدر غالب آچکا تھا،نہ ہی کشمیر میں لکھے
پڑھے لوگ اتنے زیادہ تھے ،نہ ہی اتنی زیادہ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں موجود
تھیں ،نہ ہی فکری اختلافات کا اس قدر ہجوم تھا،نہ ہی معیشت اور میڈیا نے
اتنی ترقی کی تھی اور نہ ہی مسلم سماج میں منافقت کا اتنا رنگ غالب آ چکا
تھااور نہ ہی کوئی حزب المجاہدین ،لشکر طیبہ ،جیش محمدﷺاور کوئی جہاد کونسل
تھی ۔ان کی غیر متنازع حیثیت کا جو شور مچایا جاتا ہے اس میں اسی جیسے بہت
سارے عوامل شامل تھے لہذا جہاں ان کی غیر متنازعیت کو ایک خوبی کے طور پر
پیش کیا جاتا ہے وہی ان ساری چیزوں کی عدم موجودگی نے انھیں مقبول لیڈر کے
طور پر اُبھارا اور میرے نزدیک اسمیں جہاں شخصی راج سے یہاں پیدا ہوئی شدید
نفرت کا عنصرشامل تھا وہی اُس غیر متنازع لیڈر کا مذہبی کے بجائے سیکولر
لیڈر ہونے نے بھی انھیں خاصی شہرت عطا کی تھی اور اسی کے نتیجے میں وہ جہاں
کشمیریوں کے لئے قابل قبول تھے وہی لداخ کے بودھوں اور جموں کے ہندؤں کے
لئے بھی۔۔۔۔اور اگر شیخ صاحب اپنی پہلی نہج پر قائم رہتے تو شاید انھیں بھی
وہ ’’غیر متنازع‘‘حیثیت اور مقام نہ ملتا جس کو لیکر آج کئی قلمکار اسے ان
کی ایک خوبی کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
دہلی سرکارخوب جانتی ہے کہ کشمیر میں ’’مسئلہ کشمیر ‘‘کی وجہ سے بے یقینی
کبھی بھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی مسئلے کے حل ہو نے تک اس کے خاتمے کے
امکانات موجود ہیں۔اس مسئلے کی بنیاد دلی نے مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں
خود ڈالی ہے پھر کشمیر کے اہم لیڈر مرحوم شیخ محمد عبداﷲ کے ذریعے اس کے من
پسند حل کی بڑی کوششیں کیں وزارت عظمیٰ کی کرسی سے لیکر شیر کشمیر اور
بابائے قوم کے خطابات سے نوازنے کے بعد ایکارڈ پر ایکارڈ نے بھی اس مسئلے
کو حل نہیں کیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وفات سے پہلے مرحوم شیخ
صاحب نے اپنے کئی ہم جھولیوں کے سامنے کہا کہ یہ(یعنی دلی والے)بھروسے کے
قابل نہیں ہیں۔غالباََ شیخ صاحب کو اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ ان کے
ساتھ دھوکہ ہوا ہے اس لئے کہ کبھی قربت سے بہت ساری نئی چیزیں سامنے آتی
ہیں۔ شیخ صاحب کے بعد نیشنل کانفرنس کی باگ ڈور ڈاکٹر فاروق عبداﷲ نے
سنبھالی ان کا1990ء تک کا عرصۂ غفلت میں ہی گذرا۔ یہاں تک کہ پانی سر سے
اوپر گذرا۔ راجیو فاروق اتحاد نے رہی سہی کسر نکال کر رکھدی ،مسلم متحدہ
محاذ کو ہرانا ان کا ایجنڈا قرار پایا جسکی کوکھ سے ایسی وحشتناک بندوق
برآمد ہوئی کہ تصور سے بھی بڑھکر ۔فاروق صاحب لندن تشریف لے گئے اور قوم دو
بندوقوں کے رحم وکرم پر ایک لاکھ نوجوان دیکر بھی مصیبت سے چھٹکارا حاصل
نہیں کر پائی اس وقت نیشنل اور کانگریس نے بندوق کو اپنی غفلت اور غلطیوں
کا ردعمل قرار دینے کے بجائے اسے پاکستان ،جماعت اسلامی ،پیوپلزلیگ اور
لبریشن فرنٹ کی سازش قرار دیکر اسے جان چھڑانے میں کامیابی حاصل کی مگر بہت
ہی کم وقت کے بعد1996ء میں نیشنل کانفرنس دوبارہ میدان جنگ میں واپس کود
پڑی ۔اس دوران ’’پکڑو اور مارو‘‘کے خونین آپریشنز ،اخوان اور ایس ٹی ایف کو
مکمل چھوٹ دینے کے باوجود بھی نہ ہی جماعت اسلامی ختم ہوئی اور نہ ہی لیگ
اور فرنٹ!!!بلکہ یکایک 2008 میں قوم اس طرح اُٹھ کھڑی ہوئی کہ بھارت کی آٹھ
لاکھ فوجیں اور ان کی تماتر ذہانت بے کار ثابت ہوئی اور پھر 2009اور 2010
میں تو ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی جب کشمیریوں نے ان کے پارلیمنٹ میں
دہشت گرد قرار پائی بندوق کو چھوڑ کر گاندھی گھاٹ پر موجود ’’اہنسا اورعدم
تشدد‘‘کی گاندھی جی کی ’’کتاب‘‘سے پر امن طرز کی تحریک شروع کرنے کے لئے ان
ہی کے منشأ کے مطابق ایک باب منتخب کر لیا یہ الگ بات ہے کہ اب وہ دلی کو
راس نہیں آرہا ہے اس لئے کہ بندوق بردار کے مقابلے میں سنگباز یا نعرہ باز
کو مارنے میں اسے دشواری محسوس ہو رہی ہے ۔
دلی والے یہ بھی مانتے ہیں کہ مشرف اپنے دور اقتدار میں جتنی رعایتیں دلی
کو دے رہا تھا اتنی اب کوئی اور نہیں دے سکتا۔مگر طاقت کے نشے میں چور دلی
والوں نے اسے مشرف کی بزدلی اور پاکستان کی کشمیر مسئلے سے جان چھڑانے اور
تنگ آنے کی پالیسی پر محمول کیا اور یہی کچھ کشمیر میں بندوق کے در آتے وقت
انھوں نے خیال کیا کہ بندوق کشمیر میں وقت گذرنے کے ساتھ ہی ساتھ ختم ہوگی
۔اور ہم نے دیکھا کہ نہ ہی بندوق ختم ہوئی اور نہ ہی بندوق بردار غائب ہو
گئے چونکہ گمان پالنے سے کسی کو روکا بھی نہیں جا سکتا ہے لہذا دلی جیسی
علاقے کی طاقتور حکومت کو بھی اس حماقت سے روکانہیں جا سکتا ہے۔ بھارت
کشمیریوں کو ایک کمزور ، متفرق اور منتشر قوم سمجھ کر ان کی کمزوریوں سے
فائدہ اُٹھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کی پالیسی پر کار بند ہے
حالانکہ خودبھارت کے لئے نہ صرف مسئلہ کشمیر ناسور ہے بلکہ غربت و افلاس کے
دیس کی بجٹ پر ایک غیر ضروری بوجھ بھی ہے جس سے برداشت کرتے ہوئے بھارت کے
ہاتھ بد نامی کے سوا کچھ بھی نہیں آتا ہے ۔
دہلی کے بقول مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ قیادت کا فقدان ہے۔ یہ
اگر چہ ہمالیہ سے بھی بڑا جھوٹ ہے مگر وقتی طور پر اسے اس لئے قبول کرنے کی
گنجائش ہے کہ کشمیر میں نظریوں کا تصادم ہے اور ہر فریق اپنے برحق ہونے پر
بضد ہے ۔جہاں دلی کا یہ عذرکافی باوزن معلوم ہوتاہے وہی دلی والے اس عذر کو
پیش کرنے میں بد نیت بھی ہیں حالانکہ کافی عرصۂ بعد سیدعلی گیلانی کی شکل
میں انھیں کشمیر میں ایک ایسا لیڈر دستیاب ہواہے جس کے ساتھ اس مسئلے کو حل
کر کے دہلی بہت کچھ حاصل بھی کر سکتی ہے اس لئے کہ آج جو حیثیت اور مرتبہ
گیلانی صاحب کو کشمیر میں حاصل ہے وہ کل کسی اور کو حا صل ہو جانا مشکل ہی
نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بھارتی
سرکارنے بندوق کی جنگ کے بعد پرامن اور جمہوری طرز پر انقلابی تحریک کو بھی
قبول نہیں کیا توآنے والا وقت نہ صرف بھارت کے لئے بلکہ کشمیریوں کے لئے
بھی بہت ہی خطرناک ثابت ہوگا اسلئے کہ کشمیر میں عام مایوسی کے بعد نوجوان
1987ء کی طرح ہی مایوس نظر آرہے ہیں اور دلی والے یہ بھی اچھی طرح جانتے
ہیں کہ یہ 2016ء ہے1987ء نہیں ۔پھر علاقائی سطح پر کچھ ایسی تبدیلیاں ہونے
والی ہیں جن میں بھارت اپنی ہاتھوں کھودی گہری کھائی میں گر کر پھنستا ہوا
نظر آتا ہے ۔جس روز امریکی فوج افغانستان کو چھوڑ کر چلی جائے گی دو
مملکتیں بہت ہی پریشان کن صورتحال سے دوچار ہوں گی نمبر ایک مسلم پاکستان
کی سیکولر حکومت اور فوج نمبر دو سیکولر بھارت کے ہندتوا کے ایجنڈے پر خفیہ
طور پر کاربند سیکولر حکومت اس لئے کہ ان دونوں نے القائدہ اور طالبان سے
اتنی دشمنی مول لی کہ القائدہ اور طالبان کی لغت میں ایسی دشمنی پر معافی
کا کوئی تصور ہی موجودنہیں ہے ۔اس دشمنی کا کڑوا پھل اگرچہ آج کل حکومت
پاکستان کے ساتھ ساتھ وہاں کی عوام اور فوج چاروناچار کھاتی جا رہی ہے اور
فی الوقت اتنا کچھ کرنے کے باوجود طالبان اور القائدہ کے دلوں میں پاکستان
کے ہاتھوں لگے زخموں کادرد ختم نہیں ہو رہا ہے۔ نہ صرف حالات پتہ دے رہے
ہیں بلکہ بھارت کاافغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے پر بار بار اظہار
تشویش سے بھی یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے بعد ان دونوں کے نشانے
پر ’’شاید‘‘بھارت ہو گا اور یہ کام طالبان اور القائدہ کے لئے بہت آسان ہے
اس لئے کہ جموں و کشمیر میں پہلے سے بھارتی حکومت کے ساتھ بر سر پیکار
عسکری تنظیمیں خود بھی اپنی بقاء کی جنگ سے دوچار ہیں اور ’’شاید‘‘یہ کام
ان کے لئے سونے پر سہاگا ثابت ہو ۔
بھارت جیسی’’مدبر‘‘ریاست کے لئے یہ احمقانہ ہی نہیں بلکہ خودکشی کے مترادف
اقدم ہوگا کہ وہ حریت کانفرنس کو چھوڑ کر جہاد کونسل ،القائدہ یاطالبان
جیسی تنظیموں کے ساتھ کل پھنس کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ مذاکرات
کے لئے سامنے آجائے اس لئے کہ ’’دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی بے
چارگی اور بے بسی ‘‘آج اس کے سامنے ہے کہ افغانستان سے نکلنا بھی مصیبت اور
ٹھہرنا بھی مصیبت ۔۔۔پھر بھارت امریکہ بھی نہیں ہے جس کی سرحدیں القائدہ
اور طالبان کے لئے کافی دور ہوں اسے بھی بڑے خطرے کی بات یہ ہے کہ بھارتی
سرحدوں کے اندر ایک کشمیر میں ہی شورش نہیں بلکہ یہ شورش کئی ریاستوں میں
ہے جو ایک بہانے کی منتظر ہیں اور خود بھارتی سرکاراس بات کا کئی مرتبہ
اعتراف کر چکی ہے کہ کشمیر ہی نہیں شمالی ریاستیں بھی ان کے لئے سنگین
مسائل ہیں کیا ایسے ملک کو اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے
اس گھڑی کاانتظار کرنا چاہئے جس کی سوئیاں اس کی مرضی سے چلنے کے بجائے اس
کے دشمنوں کی مرضی کے مطابق چلنے والی ہوں ۔
بھارت اسے بھی ایک اورسنگین خطرے سے دوچار ہوتا جارہا ہے اور وہ ہے’’عالم
ارضی کے بہت ہی خطرناک اور خاموش قوت ‘‘کے ساتھ دشمنی مول لینی کی غلطی
،میرا مطلب ہے چین !!!جو بھارت کی سرحدوں میں بے خوفی کے ساتھ گھس پیٹھ
کرتے ہو ئے اسکی زمینیں تک ہڑپ کرتا جا رہا ہے مگر بھارت احتجاج کے سوا کچھ
بھی نہیں کر پاتا ہے احتجاج بھی ویسا نہیں جیسا کہ پاکستان کے خلاف کیا
جاتا ہے ۔بھارت کے لئے چین ،پاکستان اورافغانستان کے علاوہ اس خطے میں جو
اندرونی دشمن موجود ہیں سبھی ایک نقطے پر متفق دکھائی دیتے ہیں اور وہ ہے
بھارت کو کمزور کرنے کی کوشش اور خواہش ۔۔۔۔مسئلہ کشمیر واحد وہ مسئلہ ہے
جو بھارت کے لئے نہ صرف اندرون ملک خطرہ بنا ہوا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح
پر بھی یہ اکثر بھارت کی ناک کٹنے کا باعث بنا ہوا ہے ۔یہ بلاشبہ بھارت کی
کمزوری ہے جس کو حل کرنے کا اسے بہتر وقت کوئی اور نہیں اس کا حل بھارت کی
سلامتی کے ساتھ ساتھ اسکی معیشت کے لئے بھی بہتر ہے اور سید گیلانی کی شکل
میں ایک لیڈر بھی دستیاب ہے جو اس کے ساتھ جڑے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت
بھی رکھتے ہیں اور سب سے بڑھکریہ کہ قوم ان کے فیصلے سے مطمئن بھی ہو سکتی
ہے جبکہ کل ’’لیڈروں کی فوج‘‘کی بڑھتی صورتحال نہ صرف کشمیریوں کے لئے بلکہ
خود بھارت کے لئے بھی کافی پریشان کن ہوگی |