ایم کیوایم میں ٹوٹ پھوٹ،مکافات عمل یا؟؟

 سندھ کی سیاست میں22اگست 2016ء کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر اور بعض افراد کی نعرے بازی کے بعد جو ہلچل پیدا ہوئی اس کے بعد سندھ بھر بالخصوص شہری علاقوں کی سیاست میں آئے روز ڈرامائی تبدیلی رونماء ہورہی ہے۔ 2 2اگست کے واقعے نے ایم کیو ایم جیسی منظم جماعت کو نہ صرف ہلاکر رکھ دیا بلکہ ٹوٹ پھوٹکا شکار کردیا ہے ۔22اگست کے بعد ایم کیو ایم کے کارکن و حامی عملاً چار گروپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں ۔

ایک گروپ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت، دوسرگروپ ا لطاف حسین کی قیادت میں کام کر رہا ہے ، تیسرا گروپ خاموش ہے ،جبکہ چوتھا گروپ مختلف جماعتوں کا رخ کر رہا ہے ۔اس وقت میدان میں الذکر دو گروپ سرگرم ہیں ۔ الطاف حسین کا گروپ بیرون ملک کھل کر اپنی سرگرمی کااظہار کر رہا ہے تاہم پاکستان کے اندر یہ گروپ عملاً زیر زمین یا کیمو فلاج کیا ہوا ہے ، اس گروپ کو اب بھی عام ورکرزکی حمایت حاصل ہے، تاہم خوف بھی ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار گروپ کو ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور ممبران سینیٹ اور دیگر اہم رہنماؤں میں سے بیشتر کی حمایت حاصل ہے ۔ڈاکٹر فاروق اور ان کے ساتھیوں نے اپنے بانی سے نہ صرف مکمل لاتعلقی اظہار کیا بلکہ پارٹی کے آئین میں ترامیم ،ایم کیوایم لندن رابطہ کمیٹی کے کنوینئر ندیم نصرت،کمیٹی کے ارکان قاسم رضا، واسیع جلیل اورمصطفیٰ عزیز آبادی کی رابطہ کمیٹی کی رکنیت سے اخراج اور 21ستمبرکو سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کے خلاف مذمتی اور آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ قائم کرنے کے مطالبے پر مبنی قرار داد کی منظوری میں اہم کردار ادا کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب الطاف حسین اور ان کا کوئی باہمی تعلق نہیں ہے ۔ 22ستمبر کوسندھ اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادالطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے لئے پارٹی کی سیاسی تاریخ میں سب بڑا اور خوفناک دھچکہ ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن کے رہنماء ندیم نصرت سے صبر نہیں ہوا اورانہوں نے ایم کیو ایم کی تمام تنظیموں کو تحلیل کرنے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور ممبران سینیٹ ڈاکٹر فاروق ستار گروپ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں وہ اپنی رکنیت سے مستعفی ہوجائیں کیونکہ ان کے پاس یہ مینڈیٹ الطاف حسین کے نام کاہے ۔ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے اس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پاکستان مخالف نعروں کا مینڈیٹ نہیں ملا تھا ۔

سندھ اسمبلی میں 21ستمبر کو الطاف حسین کے خلاف منظوری ہونے والی قرارداد کا متن اور تقریباً دو گھنٹے تک ہونے والی تقاریر کا ماضی میں کسی نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا ۔ ماضی میں الطاف حسین کے حوالے سے عام گفتگو کو بھی ایم کیو ایم کے ارکان اپنے قائدکی گستاخی قراردیتے ہوئے ہر حد تک جانے کو تیار ہوتے مگر 21ستمبرکو خاموشی اور 22اگست کے واقعے سے بیزاری نظر آئی ،رویوں میں اس تبدیلی کو بعض مکافات عمل اور بعض قدرت کا انتقام قرار دیتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے سینئر ارکان سندھ اسمبلی سید سردار احمد، خواجہ اظہار الحسن ، فیصل سبزواری اور عبدالراؤف صدیقی کی تقاریر ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کے لئے واضح اور آخری پیغام تھا شادید اسی لئے لندن کی قیادت نے اس کو محسوس بھی کیا ۔اسمبلی میں مذمتی قرارداد اایم کیوایم پاکستان کے سید سردار احمد ،تحریک انصاف کے خرم شیر زمان ، پیپلزپارٹی کی خیر النساء مغل ، مسلم لیگ فنکشنل کی نصرت بانو سحرعباسی اور مسلم لیگ(ن) کی سورٹھ تھیبونے اپنی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مشترکہ طور پر پیش اور ایوان نے متفقہ طور پر منظورکی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’’ یہ ایوان کراچی پریس کلب میں ایم کیو ایم کی بھوک ہڑتال کے نتیجے میں پیر22اگست 2016ء کو پاکستان مخالف نعرے لگائے جانے اور لندن سے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی متنازع اور اشتعال انگیز تقریر اور پاکستان کی اساس اور سالمیت اور نتیجتاً میڈیا ہاؤسز بالخصوص اے آر وائی چینل پر حملوں کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتا ہے ۔ یہ ایوان کسی بھی جانب سے ہر قسم کے جرائم ، تشدد ،دہشت گردی اور پاکستان مخالف نعروں یا کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے اور ان متعلقہ افراد کے خلاف قانون اور آئین اور آئین کے آرٹیکل6کے مطابق سخت سے سخت کارروائی فوری طورپر عمل میں لائی جائے۔ یہ ایوان پاکستان کی پارلیمنٹ اور مسلح افواج ، میڈیا، عدلیہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحت کام کرنے والے تمام جمہوری اداروں کے ساتھ اپنی مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے ۔‘‘ایک درجن کے قریب ارکان نے اپنی تقاریر میں بھی الطاف حسین کو نہ صرف انتہائی سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ ہر پاکستان مخالف فرد سے اپنی بھرپور نفرت کا اظہار بھی کیا ۔

ایم کیوایم پاکستان نے الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں سے جس انداز میں میں کھل کر قطع تعلق کیا اس میں اب شک نہیں کرنا چا ہئے بلکہ اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان سے ہمدردی اور تعاون کی ضرورت ہے ،جس کا اظہار ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر ارکان نے سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن ، فیصل سبزواری اور عبدالراؤف صدیقی نے اسمبلی میں اپنی تقاریرکے دوران بھی کیا۔اس واضح پیغام اور لائن کے باوجود بھی ایم کیوایم پاکستان کودیوار سے لگانے یا بند گلی میں کھڑاکرنے کی کوشش کی گئی تو یہ اس پاک سرزمین کے ساتھ ظلم ہوگا ۔ اگر ایم کیوایم پاکستان اپنے حب الوطنی کے اظہار کے ساتھ عوام کی خدمت کرنا چاہتی تو یہ اس کا قانونی واخلاقی حق اور عوامی مینڈیٹ ہے،جس کا احترام ضروری ہے بصورت دیگر حالات اسی طرح سازگار نہیں رہیں گے ،اس مشکل مرحلے پر قومی سلامتی کے اداروں، انتظامی اداروں،حکومت اور سیاسی وسماجی اور مذہبی طبقوں کوسوچ سمجھ کر قدم اٹھانے ہوں گے تاکہ دوریوں اور انتشار کے خاتمے کے لئے نئی راہیں تلاش کی جاسکیں۔

اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے جو 16ستمبر کو سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اورایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنماء خواجہ اظہار الحسن کے ساتھ پیش آیا۔جب کراچی کے ضلع وسطی میں سہراب گوٹھ پولیس نے خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر اس وقت چھاپہ مارا ا اور تلاشی لی، جب خواجہ اظہار الحسن وزیر اعلیٰ ہاؤس میں وزیر اعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ کے کراچی میں امن وامان کے حوالے سے اجلاس میں تھے، پولیس چھاپے کے بعد چلی گئی ۔ چھاپے کی اطلاع ملتے ہی خواجہ اظہار گھر پہنچے ، جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے چھاپہ مار ٹیم کومعطل کردیا مگر دو گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار خواجہ اظہار الحسن کے گھر پہنچے اور میڈیا کی بھرپور موجودگی کے دوران جس تضحیک اور توہین امیز انداز میں خواجہ اظہار الحسن گرفتار کیا وہ قابل افسوس ہے۔ اس تماشے کو میڈیا کے ذریعے پوری قوم نے براہ راست دیکھا۔ اس پر ایم کیو ایم کا احتجاج بھی برحق تھا ، تاہم وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے بروقت اقدام نے احتجاج کا موقع نہیں دیا ۔ویسے تو ماضی میں ایم کیو ایم نے خود اس طرح کے ایکشنز میں اہم کردار ادا کیا ہے ، اس ضمن میں 14دسمبر 2002ء کو مہاجر قومی موومنٹ کے واحد رکن سندھ اسمبلی یونس خان کے ساتھ پیش آنے والا افسوسناک واقعہ اس کی بدترین مثال ہے۔خواجہ اظہار کی گرفتاری کا وزیر اعلیٰ سندھ نے نوٹس لیتے ہوئے راؤ انوار کو معطل کردیا اور رات تک خواجہ اظہار کی رہائی کو ممکن بنانے کیلئے تمام قانونی اقدام کئے۔راؤ انوار نے وزیر اعلیٰ کے پہلے ایکشن کے بعدجس دیدہ ودلیری سے دوسرا ایکشن اور اپنی معطلی کے بعد جس انداز میں اپنے جزبات کا اظہار کیاہے اس سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ کوئی تو ایسی قوت ہے جو منتخب وزیر اعلیٰ کو نیچا دیکھانے کیلئے کوشاں ہے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی کی گرفتاری کیلئے اسپیکر اسمبلی سے پیشگی اجازت ضروری نہیں ہے لیکن کیا کسی کسی آفیسر کو پوری نظام کو تہہ و بالااور صوبے کے منتظم اعلیٰ کی رٹ کو چیلنج کرنی اجازت دی جاسکتی ہے؟اوراگر یہ سلسلہ چل نکلا تو پھر نظام حکومت چلانا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرورہوگا۔ خواجہ اظہار الحسن پر مقدمات ہیں لیکن کسی بھی ملزم کی گرفتاری کیلئے پورا قانونی طریقہ کار موجودہے اس کے باوجود اچانک کاروائیاں یقینا خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔

خواجہ اظہار کی گرفتاری کیلئے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر جس وقت کا انتخاب کیاگیا وہ انتہائی غلط ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ فوری ایکشن نہ لیتے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے۔پاکستان اس وقت اقوام متحدہ میں مظلوم کشمیریوں کے خلاف بھارتی جارحیت اور درندگی سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے کوشاں ہے اور بھارت پاکستان کے اندر خلفشار کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کے اندر بھی بعض قوتیں بلوچستان،گلگت بلتستان اور اب کراچی میں خلفشار پیدا کرکے پاکستانی موقف کو کاؤنٹر کرنا چاہتی ہیں۔گلگت بلتستان سے لیکر بلوچستان تک بعض بیرونی قوتوں کچھ وظیفہ خوروں اور اغیار کے گماشتوں کو خرید ا ہے جو بے بنیا د اور من گھڑت پروپیگنڈے پر مصروف ہیں، جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ہونے والے مظالم پر پردہ ڈالناہے۔حالات کو باریک بینی سے دیکھاجائے تو اڑی سیکٹر کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔مبصرین کے مطابق خواجہ اظہار وزیر اعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ کے ایکشن نے بڑی ایک بڑی سازش کو ناکام بنادیاہے ،ممکن ہے کہ سید مراد علی شاہ کو اس ایکشن کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے ۔قومی اداروں، حکمرانوں، سیاسی و مذہبی قوتوں اور دیگر شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے اقدام سے گریز کریں جس سے ملک کے اندرغیر یقینی صورتحال پیدا ہو ۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.