چراغ تلے اندھیرا!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
یہ منظر وفاقی دارالحکومت کے اُجلے
چہرے پر بدنما داغ تھا۔ اسلام آباد کے اہم سیکٹر میں ہمارا قیام تھا، چند
منٹ کی دوری پر میڈیا ورکشاپ کا اہتمام تھا جس میں صحافیوں کی جسمانی حفاظت
کے بارے میں بتایا جانا مقصود تھا۔ ہم لوگ ہوٹل سے نکل کر ورکشاپ کے مقام
کی طرف پیدل ہی نکلے، پہلی گلی کا موڑ مُڑتے ہی اس مہنگی ترین جگہ پر ایک
نجی سکول تھا، جس کی عمارت مرلوں یا کنالوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ معاملہ
ایکٹروں تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک خاتون اپنے بچے کی ٹرالی دھکیلتی ہوئی وہاں
سے نکلیں، یقینا چھوٹے بے بی سے بڑے بچے کو سکول چھوڑ کر آرہی ہونگی، یا اس
کے کسی معاملے پر سکول والوں سے ملنے گئی ہونگی۔ ساتھ ہی ایک نَو دس برس کی
لڑکی تھی، جو خاتون سے چند فٹ پیچھے تھی، اس کے کپڑے وغیرہ گواہی دے رہے
تھے کہ وہ غریب لڑکی ہے، اس کے ہاتھ میں فائل اس بات کی شاہد تھی کہ وہ
لڑکی اس خاتون کے ساتھ ہی تھی، خاتون کا ’سامان‘ اٹھانے کے لئے اس کے ساتھ
گئی تھی۔ چونکہ یہ منظر میں نے موڑ پر دیکھااس لئے میرے کیمرہ سنبھالنے سے
قبل ہی یہ منظر میرے ہاتھ سے نکل گیا۔
اسلام آباد سرکاری عمارات پر مشتمل شہر ہی نہیں، یہاں ریٹائرڈ افسران
واہلکاران کے علاوہ سرمایے کے حامل بے شمار گھرانے آباد ہو چکے ہیں، سیکٹر
پر سیکٹر بنتے گئے، شہر سے جنگل کٹتا گیا، ان کی جگہ پر عمارتیں اگتی رہیں
اور شہر پھیلتا گیا۔ دور دراز والے لوگ جب کسی کام کی غرض سے اسلام آباد
جاتے ہیں تو بہت دنوں تک اداس رہتے ہیں، اسلام آباد کی ترقی دیکھ کر وہ خوش
بھی ہوتے ہیں، پریشان بھی رہتے ہیں اور کسی حد تک کڑھتے بھی ہیں۔ یہ لوگ
حیرت کے سمندر میں غوطہ زن بھی رہتے ہیں، کہ آخر لوگوں کے پاس کس قدر پیسہ
ہے اور حکومت بھی شہر اور یہاں کے حکومتی اداروں پر کس طرح خرچ کرتی ہے؟ جس
سکول سے یہ خاتون نکل رہی تھیں، اس کی فیس یقینا دسیوں ہزار روپے فی بچہ
ہوگی، وہ اپنے بچے کے لئے کس قدر متفکر ہوگی کہ صبح ہی اپنے بچے کی فائل لے
کر سکول پہنچ گئی، وہ خود کوئی معاملہ لے کر وہاں پہنچی یا سکول والوں نے
طلب کیا،یہ الگ معاملہ ہے۔ اصل سوچنے والی بات یہ ہے کہ خاتون کے ساتھ اس
بچی کی کیا حیثیت ہے، جوگھر میں کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال پر مامور ہے۔
اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ایسا کونسا گھر ہوگا جہاں اہلِ خانہ نے کوئی
لڑکی اپنے گھر کی صفائی، بچوں کو سنبھالنے اور دیگر کاموں کے لئے نہ رکھی
ہو۔
وفاقی دارالحکومت ، جہاں پاکستانی عوام کے لئے قانون سازی ہوتی ہے، عوام کی
بہبود کے دیگر بے شمار قوانین کے علاوہ بچوں سے جبری مشقت لینے کے بارے میں
بھی قانون بنائے جاتے ہیں، بیانات کی حد تک حکمران عوام کو یہ بھی بتاتے
ہیں کہ ہم بچوں سے مشقت لینے کے عمل کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، اور
یہ بھی کہ آنے والے اتنے سالوں میں کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں ہوگا۔ یہ
بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ خود قانون بنانے والوں کے گھروں میں بھی کام
کرنے والوں کے بچے اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ بچے کا والد کسی ’صاحب‘
کا ڈرائیور بھی ہے، مالی بھی اور گھر کا سودا سلف بھی لا دیتا ہے، بچے کی
ماں گھر کی صفائی کرتی ہے، کھانا بھی پکاتی ہے، باقی کام بھی کرتی ہے۔ رہ
گئے بچے تو وہ ’صاحب‘ کے بچوں کا دل بہلانے کے لئے گلی میں بھی لے جاتے ہیں،
قریبی دکان سے سودا بھی لادیتے ہیں، گھر کی مالکن نے بازار یا اپنے کسی بچے
کے سکول جانا ہو تو ساتھ لے جاتی ہیں۔
غریبوں کے بچوں کی یہ قسمت اﷲ تعالیٰ نے بنائی ہے، تو کسی کو احتجاج کرنے
یا پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں، کہ قسمت کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا،
ویسے بھی قسمت کو کوسنا اپنے عقیدے سے مطابقت بھی نہیں رکھتا، نہ ہی دھاڑ
دھاڑ کرنے سے قسمت تبدیل ہوتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ غریبوں کے بچوں پر یہ ظلم
ہمارا سیاسی نظام کررہا ہے، حکومتیں جوکہ عوام اور ملک کی ترقی اور خوشحالی
کی ذمہ دار ہیں، وہ غریب بچوں کی پسماندگی کی بھی ذمہ دار ہیں۔ قانون بناکر
انہیں آئین کی زینت بنا دینا اور آئین کو بالائے طاق پر رکھ دینا قوم کے
ساتھ ظلم اور ناانصافی ہے۔ اسلام آباد میں ایسے ہزاروں بچے ہونگے جو بڑے
لوگوں کی بیگمات کی خدمت پر مامور ہونگے، بڑوں کے بچوں کو سکول چھوڑ کر آتے
ہونگے۔ کیا فرماتے ہیں وزرائے حکومت بیچ اس مسئلہ کے؟ |
|