جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور جنگی فضا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جبکہ ایل او سی پر کراس فائرنگ معمول کے واقعات ہیں۔ بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعتیں پاکستان اور مسلم دشمنی کی سیاست کے ذریعے طاقت حاصل کرتیں ہیں ۔ پاکستان میں بھی کچھ جماعتیں بھارت کو ازلی دشمن قرار دیکر نفرت کے کاروبار میں مصروف ہیں۔ پاک بھارت کشیدگی کی بنیادی وجہ تنازع کشمیر قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ردعمل مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے کشمیری عوام پر ظلم و بربریت سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے ۔ مگر ردعمل کا عمل محض بھارت سے نفرت کا اظہار اور پاکستان کی عوام میں جذباتیت پیدا کرنے اور جنگی جنوں بنانے سے تنازع کشمیر پر کچھ مثبت اثرات پڑسکتے ہیں ۔ ہمارے اس عمل سے اقوام عالم میں کشمیر کے مقدمے پر حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ہرگز نہیں ، بلکہ ہم پاکستان کی عوام کو مسلہ کشمیر پر وکالت کے لئے تیار کرنے کی بجائے بندوق کی زبان بولنے پر آمادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمارے اس عمل کے نتائج سماج میں جنگ ، تشد د اور بدامنی کے رجحان کو فروغ پانے کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں۔ پاکستان کے سماج کا کوئی فرد جذبات ، بھارت سے ازلی دشمنی اور کشمیر سے مصنوعی عقیدت کو ایک طرف رکھ کر ایک منٹ کیلئے اپنے سماج کی حقیت کو جاننے کی کوشش کرے تو اسے ان سچائیوں کا ضرور ادراک ہوگا کہ ہم اپنی جہالت ، غربت ، بدامنی اور افراتفری کو کیسے کبھی جنگی جنوں ، کبھی مذہبی جذبات اور کبھی بھارت دشمنی کی چادر میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ کشمیری عوام کے ساتھ کیے جانیوالے مظالم سے نفرت ہے ۔ بھارت کشمیریوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیسی طور بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ بھارت ریاست جموں و کشمیر میں سنگین قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ بندوق کے ذریعے بھارت نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو دبا رکھا ہے۔ بھارت کیخلاف کشمیریوں کا مقدمہ دنیا کے ہر فورم پر لڑنے کی ضرورت ہے ۔ آزاد جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود کی طرح ہمیں ہر فورم پر آواز اٹھانا چاہیے مگر ایک ایسے ملک جو غربت ، جہالت اور بدامنی کی لپیٹ ہو اس کی عوام میں جذباتیت اور جنگی جنوں پیدا کرنا کیسی بھی طور پر درست نہیں ہے ۔ جنگی جنوں کے علمبرادر طبقے کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ بھارت کے اندر ایک ایسا طبقہ ہے جو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھر پور آواز بلند کرتا ہے ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالب علم رہنما اور طلبہ یونین لیڈر شیلا رشید اور اس کے ساتھیوں نے بھر پور تحریک بپا کی ہے ۔اورون ادیتی رائے نے زور دار طریقے سے کشمیر کے ایشو پر بات کی ہے اور وہ کرتی رہتی ہے ۔ دانشور طبقات بھی کشمیر ایشو پر بولتے ہیں۔ اگر ہم جنگی جنوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہمیں بھارت کے اندر سمیت دنیا سے حمایت حاصل کرنا نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ الٹا ہمیں نقصان ہو سکتا ہے۔ جنگ سے مسلہ حل نہیں ہوسکتا ہے ۔ جنگ تو خود ایک مسلہ ہے ۔ تباہی اور بربادی ہے۔ اگر آپ بھارتی سرحدی دیہات میں جا کر دیکھیں تو آپ کو اندزہ ہو کہ شہروں میں جنگی جنون پیدا کرنے سے اور میڈیا جنگ کی فضا بننے سے وہ لوگ کن مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ۔سرحدوں پر فائرنگ کے پے در پے واقعات سے کئی گھر اجڑتے ہیں ۔ سرحدی دیہات کے باسیوں کو نقل مکانی اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کئی کئی دن دوسرے لوگوں اور رشتہ داروں کے ہاں رہ کر اپنی عزت نفس سمیت غیرت بھی رہن رکھنا پڑتی ہے ۔ جوان عورتوں کا تحفظ اندر اندر زندہ لاش بنا دیتا ہے۔ مال مویشی اور قیمتی املاک سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے والے اگر سرحدی دیہاتیوں کے سامنے جنگ کا نام لیں تو وہ ان جنگی جنونیوں کا منہ نوچ لیں۔ عراق ، افغانستان ، شام کے لوگوں سے پوچھوں کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔ جنگ کے شعلوں سے بچنے کیلئے کی جانیوالی مسافرت کے عذاب کیا ہوتے ہیں ۔ ہنستے کھیلتے بچے جب گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں تو ماں باپ پر کیا بیتتی ہے۔ جب جنگ زدہ علاقوں کے لوگ روٹی کیلئے ترستے ہیں اور کئی کئی دن انہیں بھوکے پیاسے گزارنا پڑتے ہیں ۔ ان جنگ زدہ لوگوں سے پوچھیں کے جنگ کیا ہوتی ہے۔ اس باپ سے پوچھیں جس کی جوان بیٹی لاپتہ ہوجاتی ہے یا اس بھائی سے پوچھیں جس کی جوان بہن جنگ کے دوران کھو چکی ہو۔ بقول ساحر لدھیانوی۔اے شریف انسانو
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
Arshad Sulahri
About the Author: Arshad Sulahri Read More Articles by Arshad Sulahri: 139 Articles with 92243 views I am Human Rights Activist ,writer,Journalist , columnist ,unionist ,Songwriter .Author .. View More