رحمۃاللعالمین ﷺ اور ہماری ذمہ داریاں
(Ghulam Nabi Madni, Madina)
وہ رحیم بھی تھے،رووف بھی،عزیز بھی حریص
بھی،صادق بھی،امین بھی،خاتم بھی،مختوم بھی،نبی بھی رسول بھی،بااخلاق
بھی،باکردار بھی،عالم بھی،باعمل بھی،قاری بھی ،مقری بھی،ھادی بھی مہدی
بھی،وہ سب کے خیرخواہ اور بھلائی چاہنے والے تھے۔وہ دنیا میں آئے ہی لوگوں
کی خیرخواہی کے لیے تھے۔اپنا سب کچھ قربان بس لوگوں کے لیے کیا،مکہ میں
تکلیفیں اٹھائیں تو لوگوں کے لیے،مدینہ میں دندان شہید کروائے تو لوگوں کے
لیے،گھربار چھوڑا تو لوگوں کے لیے،طائف میں لہولہان ہوئے تو لوگوں کے
لیے۔ان کے پیش نظر بس یہی تھا کہ کس طرح یہ بھٹکی ہوئی مخلوق خالق کی محبوب
بن جائے۔اس کام کے لیے انہوں نے 23 سال مسلسل جدوجہد کی،فاقے برداشت
کیے،اپنوں کےظلم وستم جھیلے۔لوگوں کو اپنا ہمنوا تلوار سے نہیں بلند اخلاق
اور بہترین اسوہ حسنہ سےبنایا۔وہ محسن انسانیت ہیں جن کی وجہ سے آج انسانیت
کو جینے کا حق ملا۔بخدا وہ نہ ہوتے تو یہ جہان بھی نہ ہوتا۔
انسانیت کے اس عظیم محسن کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کہاجاتاہے۔آ پ
کی مبارک زندگی کا ایک ایک پہلوروشن اور قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے
بہترین نمونہ ہے۔آپ ایک جامع شخصیت تھیں،جو ہر لحاظ سے کامل واتم
تھیں۔عبادات،معاملات،معاشرت میں آپ سے بڑھ کر نہ پہلے کوئی ہوا نہ بعد میں
کوئی ہوسکتا ہے۔آپ کی 23 سالہ محنت کی کامیابی کا راز آپ کی اعلی ظرفی اور
بلند اخلاقی ہے۔اپنے ہی نہیں غیر بھی آپ کی ان صفات کا برسرعام اظہار کرتے
تھے۔آپ کی صفت رحمت ہی کو اگر دیکھ لیا جائے تو آپ کی اعلی ظرفی اور خوش
اخلاقی دنیا میں سب پر فائز نظرآتی ہے۔خود کائنات کے خالق گواہی دیتے ہیں
کہ"اے پیغمبر ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا
ہے"(الانبیاء)۔ آپ صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بے زبان جانوروں اور پہاڑوں
کے لیے بھی رحیم تھے۔آپ اگر رحیم نہ ہوتے تو آج دنیا آپ کے نام سے واقف نہ
ہوتی۔اللہ خود کہتا ہے"ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی کہ تم نے ان
لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا۔اگر تم ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرتے تو
یہ تمہارے اردگرد سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے"(سورہ آل عمرن)۔آپ بڑے دل والے
تھے،صابر وشاکر تھے،تبھی آپ نے فتح مکہ کے موقع اسلام کے اور اپنے سخت ترین
دشمنوں کو معاف کردیا،یہی نہیں انہیں پروٹوکول دیا،سفیان رضی اللہ عنہ جو
اس وقت تک مسلمان نہیں تھے کافروں کے سردار تھے،ان کی ایذارسانیوں کو معاف
کرکے ان کے گھر کو جائے امن قراردیا۔طائف کے موقع پر آپ کو لہولہان کیا
گیا،اوباش نوجوانوں کو آپ کے پیچھے لگاگیا،تاکہ وہ آپ کو پتھر ماریں،آپ کا
مذاق اڑائیں،فرشتہ آتا ہے یارسول اللہ ﷺ اگر آپ حکم دیں تو ان بدبختوں کو
ابھی نشان عبرت بنا دیا جائے،آپ کی رحمت نے جوش مارا،کہ نہیں یہ ناسمجھ
ہیں،یہ اسلام کو نہیں سمجھتے تو کیا ہوا، کل کو ضرور ان میں سے کوئی اسلام
کو سمجھےگا،آپ کی اس قربانی اور مشفقانہ فیصلہ کا اثر ہے کہ آج برصغیر
محمدبن قاسم ثقفی کی وجہ سے اسلام کی بہت بڑی آماجگاہ ہے،یہ محمد بن قاسم
اسی طائف کے رہنے والے تھے۔
اپنی امت سے اتنی محبت تھی،کہ ہر وقت ان کی آسانی کی فکر میں رہتے ۔ایک
صحابی آتے ہیں یارسول اللہ میں دن بھر کام کرتا ہوں،رات کو عشاءکی نماز
نہیں پڑھ سکتا،آپ نےشفقت فرماتے ہوئے کہا کوشش کیاکرو،عادت ڈالو۔ایک دوسرے
صحابی آپ کے دربار میں اپنے امام جناب معاذبن جبل کی شکایت لے آکر آتے ہیں
کہ عشاء کی نماز بہت لمبی پڑھاتے ہیں آپ نے سختی سے منع کردیا کہ لوگوں کو
تنگی میں نہ ڈالو۔آپ علیہ السلام خود جب نمازمیں بچوں کے رونے کی آواز سنتے
تو نماز مختصر کردیتے۔جی ہاں !یہ ہمارے نبی مکرم تھے جو مدینہ طیبہ میں
منافقین کی ریشہ دوانیوں سے باخبر تھے ،لیکن پھر بھی انہیں معاف کرتے اور
ان کا جنازہ پڑھاتے ہیں،انہیں اپنی قمیص مبارک پہناتے ہیں۔عبداللہ بن ابی
منافقین کا سردار،جس نے ساری زندگی اللہ کے محبوب کو تکلیفیں دیں،میدان جنگ
میں آپ کو دھوکہ دیا،آپ کی پاکیزہ بیوی امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عزت پر
حملہ کیا،جب فوت ہوا،تو ان کے بیٹے نے سفارش کی یارسول میں جانتا ہوں میرے
والد نے آپ کو ہمیشہ تکلیفیں دی ہیں،لیکن آپ مجھ پر احسان کیجیے ،مجھے اپنی
قمیص دیدیجئے ،میں اپنے والد کو پہناتاہوں،شاید اس سے میرے والد کے عذاب
میں نرمی ہو،اوران کاجنازہ بھی پڑھادیجئے۔آپ جنازہ پڑھاتے ہیں حضرت عمررضی
اللہ عنہ کی غیرتِ ایمانی یہ گورانہیں کرتی،ہاتھ پکڑ کر روکتے ہیں کہ اس
منافق کا جنازہ مت پڑھائیے۔لیکن آپ کی رحمت اور شفقت یہ گوار نہیں کرتی،آپ
جنازہ پڑھاتے ہیں،اللہ حضرت عمر کی موافقت کرتے ہوئے آیت اتارتے ہیںکہ(اے
نبی )تم ان کے لیے استغفار کرویانہ کرو،اگر تم ان کے لیے سترمرتبہ استٖفار
کروگے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔یہ آپ کی رحمت اور شفقت ہی تو
تھی کہ آپ ایک یہودی کے جنازے کے لیے احتراما کھڑے ہوگئے۔
بخدا! ہمارے محبوب نبی ﷺانسانوں کے لیے ہی رحیم نہ تھے، آپ تو جانوروں اور
جمادات کے لیے بھی رحیم وشفیق تھے، کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کی قدم بوسی کرتا
اور آپ کی رحمت سے مستفید ہوتا تھا، آپ چلتے چلتے ایک باغ میں تشریف لے
جاتے ہیں،وہاں ایک اونٹ نے آپ کو دیکھتے ہی آوازیں نکالنا شروع کردیں،آپ اس
کے قریب جاتے ہیں،اس کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہیں،آپ نے اونٹ کے مالک
کوبلایاکہ یہ اونٹ شکایت کررہاہے،کیوں اسے چارہ نہیں ڈالتے،اس کا خیال
رکھاکریں۔احدپہاڑ پر جاتے ہیں وہ خوشی سے جھومنے لگتا ہے،آپ فرماتے ہیں
ٹھہر جا احد،تونہیں جانتا کہ تجھ پر ایک نبی ،صدیق اور دو شہید ہیں۔اسی جبل
احد کے بارے میں آپ فرماتے تھے کہ یہ جبل احد ہم سے محبت کرتاہےاور ہم اس
سے محبت کرتے ہیں۔
بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا خلاصہ اور پیغام محبت اور رحمت
ہے۔کہ کائنات کی ہر چیز سے محبت کی جائے،اس کے ساتھ نرمی اور شفقت کا برتاؤ
کیا جائے۔ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم اس نبی مکرم ﷺ
کادمتوبھرتےہیں،لیکناسنبیکیبہترینزندگی اور کامل سیرت کو اپنے لیے مشعل راہ
نہیں بناتے ۔اس ذات کے بلند اخلاق کے تذکرے تو کرتے ہیں،لیکن اپنے اخلاق ان
جیسے بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔نتیجتا ہمارہ معاشرہ باوجود اسلامی ہونے کے
اسلام سے دور ہے،باہمی نفرتیں ہیں،عداواتیں ہیں اور کدورتیں ہیں،بھائی
بھائی سے ناراض ہے،ماں باپ ،بچوں سے خفا ہیں۔ایک دوسرے کی غیبتیں،ایک دوسرے
کے خلاف سازشیں،سرعام کی جاتی ہیں۔آپ کی سنتیں تو دور رہیں،اللہ کے فرض
احکامات سے پہلو تہی کا ہرطرف بازار گرم ہے۔ہمارا دین تو زندگی کے ہرشعبے
کے لیے لیے ہمیں راہنمائی دیتا ہے ،لیکن افسوس ہم نے زندگی کے ہرہر شعبے سے
اسے نکال باہر کردیا،جس کی وجہ سے آج مجموعی طور پر پوری امت ذلت کی دلدل
میں دھنستی جارہی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہونے کے ناطے ہمارا فرض
بنتا ہے کہ ہم دوسروں کو معاف کرنا ،دوسروں کے ساتھ شفقت اور رحم کرنا
سیکھیں،آپ کی سیرت کو نہ صرف عام کریں،بلکہ خود کو اور لوگوں کو آپ کی سیرت
اپنانے کی طرف متوجہ کریں،آپ کی سیرت عام کرنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ آپ
کے مبارک تذکرے عام کیے جائیں،نہ صرف عام کیے جائیں بلکہ ان پر عمل بھی کیا
جائے،تاکہ نوجوان نسل اور بھولے ہوئے مسلمان اپنے نبی رحمت سے آشنا ہوکر ان
کی تعلیمات پر چلنے والے بن جائیں۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالاکردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے |
|