رواں سال کے آغاز میں اچانک الیکٹرانک اور
پرنٹ میڈیا کو مصا لحہ دار خبر ملی جو آج تک ان کیلئے ہاٹ ایشو بنی ہوئی ہے
۔پاناما پیپرز کے لیک ہوتے ہی جیسے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی دو ممالک کے
وزیر اعظم ہی مستعفی ہو گئے اور کئی ممالک میں اس کے خلاف تحریکیں اور
پراپیگنڈے آج بھی سر گرم ہیں ۔انہیں ممالک کی فہرست میں ایک نام اسلامی
جمہوریہ پاکستان کا بھی ہے جس کی بڑی بڑی شخصیات کے نام اس لیکس میں آئے
ہیں اور انہیں ناموں میں اس ملک کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور اسکی
فیملی کے نام بھی شامل ہیں جو کہ انتہائی قابل غور اور فکر طلب المیہ ہے کہ
ایک ملک جو اسلام کے نا م پر آزاد ہوا کے وزیر اعظم پر سنگین کرپشن کے
الزامات ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو جن شخصیات کے اس پاناما لیکس میں نام آئے
اور پوری تفصیلات منظر عام پر آئیں انہیں چاہئے تھا کہ خالی بیانات سے ان
الزامات کو رد کرنے کی بجائے پاناما پیپرز بنانے والے صحافیوں اور لیک کرنے
والے لوگوں پر ہرجانے کا نوٹس دائر کرتے اور انہیں غلط ثابت کر کے عوام کی
نظروں میں اپنی عزت برقرار رکھتے لیکن ایسا نہ ہوا جس کی وجہ سے اپوزیشن
جماعتوں اور لوگوں کو ان شخصیات کو آڑے ہاتھوں لینے کا بھرپور موقع مل گیا
جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔سب سے زیادہ فائدہ ان دو ممالک کی
اپوزیشن جماعتوں جن کے وزراء اعظم مستعفی ہوئے تھے نے اٹھایا اور اس کے بعد
پاکستانی اپوزیشن نے اٹھایا چاہے وہ خود بھی ان پیپرز میں سرفہرست تھے ۔
کئی تو ایسے بھی تھے جنہوں نے خالصتاََ اپنے مفاد کیلئے ملک کاامن و
استحکام ہی داؤ پر لگائے رکھا اور اپنا جمہوری حق جتلاتے رہے ۔ اس طرح
حکومتی جماعت اور اپوزیشن سمیت عوام کے مابین یہ معاملہ انا کی جنگ بن گیا
۔اگر دیکھا جائے تو انا بازی کی وجہ خود عوام ہی تھی کیونکہ ایسے اقدامات
اور بیانات دئیے گئے کہ جس کا رد عمل دئیے بغیر کوئی انسان نہیں رہ سکتا
مطلب دونوں جانب سے احمقانہ رویہ اختیار کیا گیا اور نوبت دھرنوں اور
احتجاجوں تک آ پہنچی ۔کرپشن کا جن تو اول دن سے ہی موجود ہے لیکن پرانا
ہوکر طاقتور ہونے کی وجہ سے اب بے لگام ہو گیا تھا جس کو دبوچنے اور قلع
قمع کرنے کیلئے ایک دیو کا ہونا ضروری ہو گیا تھا اوروہ دیو احتساب کی صورت
میں سامنے آیا ۔اول دن سے ہی جب پانام پیپرز پر وزیر اعظم میاں نواز شریف
سے جواب طلب کیا گیا تو انہوں نے مٹی پاؤ پالیسی کیلئے عوام سے درخواست کی
اور کمیشن بنا کر اس معاملے کی تشویش کروانے کا اظہار بھی کیا لیکن عوام اس
بار کمیشنوں سے تنگ آ چکی تھی کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ،بے نظیر بھٹو کیس ،نندی
پور پاور پراجیکٹ جیسے ہزاروں کیس آج تک نتیجہ تک نہیں پہنچے اور بات کو
دبا دیا گیا کیونکہ ان پر بھی کمیشنیں بنائیں گئیں تھیں اور اس سے بھی پہلے
جب الیکشن کمیشن نے پاناما پیپرز کے حوالے سے وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی
کاروائی کرنے سے معذرت کر لی تھی تو بھی یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ ان لیکس
کا نتیجہ کوئی پچھلے لیکس سے الگ نہیں نکلنے والا جس کیلئے تمام سیاسی
جماعتیں اور عوام ایک جٹ ہو گئیں ۔اس دورانیے میں میاں صاحب نے بھی احتساب
نامی دیو سے بہت بھاگنے کی کوشش کی اور پریشانی کی وجہ سے چار بائی پاس
آپریشن بھی کروائے ۔کافی دن ملک سے باہر بھی گزارے کہ کہیں معاملہ ٹھنڈا ہو
جائے اور یہ کیس بھی دب جائے۔ اسی اثناء میں خارجی پالیسی کے کمزور ہونے کی
وجہ سے روایتی حریف نے خوب فائدہ اٹھایا اور نہ صرف سرحد پر بلکہ پاکستان
کے اندر اور کشمیر میں خوب کھلم کھلا دہشتگردی کی ۔ دیکھا جائے تو یہ کہنا
بھی غلط نہ ہو گا کہ جس طرح اب کی بار مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی
تحریک نے زور پکڑ رکھا ہے اگر پاکستان میں خارجی پالیسی مضبوط ہوتی اور
سیاسی بحران نہ ہوتا تو مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بہت سے روشن امکانات موجود
تھے اور بھارت کبھی بھی اس طرح کی ہٹ دھرمی اور ہرزہ سرائیوں سے کام نہ
لیتا جو وہ پچھلے کافی دنوں سے کر رہا ہے اس بیچ بے شک میاں صاحب نے تمام
سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انکی اپنی پالیسیوں اور
بڑے سیاسی خلانے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ بد
عنوانی ،نا اہلی ،اقربا پروری کے ناسور نے ملک و قوم کو نا قابل تلافی
نقصان پہنچایا ہے ۔یہ بھی لکھی پڑھی حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام بد عنوانی
کے زہر میں ڈوبے نظام کو مزید برداشت کرنے کوو ہرگز تیار نہیں عام آدمی ہر
قیمت پر گلے سڑے اور بدبو دار نظام سے نجات چاہتا ہے جس میں امیر ،امیر تر
اور غریب ،غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔چند افراد اور خاندان نا انصافی پر مبنی
نظام کا اندھا استعمال کر کے ملکی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں پاناما
لیکس ہوں یا بدعنوانی کا کوئی بھی معاملہ لوگوں کی خواہش ہے کہ انصاف کے
اعلیٰ ترین تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا
جائے ملک میں کئی ہفتوں سے اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں
محاذ آرائی کا ایک سلسلہ جاری ہے تحریک انصاف نے تو اس معاملے پر جارحانہ
احتجاج کی روش اختیار رکھنے کا اعلان کردیا تھا دوسری طرف پاناما لیکس اور
کسی بھی معاملے پر حکومت کی جانب سے تحقیقات کااعلان تو کیا جا رہا تھا
لیکن وہ وفاقی دارالحکومت کو بند کرنے جیسے اقدامات کو اپنے اختیار کیلئے
چیلنج خیال کر رہی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ بد عنوانی کی تحقیقات اور اس میں
ملوث عناصر کے احتساب کے نام پر سیاسی کھینچا تانی ایسی کشیدہ صورت اختیار
کر گئی تھی جو ملک کے سنجیدہ حلقوں کیلئے تشویش کا باعث تھی۔بد عنوانی کے
خاتمے جیسے عوامی مطالبے کی بنیاد پر سامنے آنے والا معاملہ دشنام طرازی کی
سیاست کا شکار ہوتا جا رہا تھا ۔اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ
نے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان رسہ کشی کو ختم کرنے کی عدالتی سعی جو
بظاہر ناکام ہو تی دکھائی دے رہی تھی ۔خیر ملک میں جاری سیاسی بحران اور
داخلی مسائل کو ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے بروقت بہت اچھا اقدام کیا ہے
اور اپنی پہلی سماعت میں جو دو ٹوک فیصلہ جاری کیا ہے اس سے اس بات کی امید
لگائی جا سکتی ہے کہ احتساب کے دیو نے کرپشن کے جن کو اپنے شکنجے میں جکڑ
لیا ہے۔اگر حکومتی جماعت اور اپوزیشن پہلے ہی مذکرات کے ذریعے اس بات پر
راضی ہو جاتے جو فیصلہ اب سپریم کورٹ کی جانب سے کیا گیا ہے تو یہ معاملہ
اتنے طول کا شکار نہ ہوتا او ر نہ ہی ملک میں اتنا بڑا سیاسی بحران پیدا
ہوتا کہ نہ تو مسئلہ کشمیر پر ٹھوس اقدامات کئے جا سکے اور نہ ہی بھارت اور
افغانستان کی جانب سے بڑھتی ہوئی دہشتگردی کو روکنے کیلئے کوئی دو ٹوک جواب
دیا جا سکا۔ عدالت عظمیٰ کو چاہئے کہ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے پاناما
لیکس کے ذمہ داران کو بھی کٹہرے میں لایا جائے اسی صورت میں ہی دودھ کا
دودھ اور پانی کا پانی کیا جا سکتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کرپشن کا جن
احتساب کے دیو کے منہ کا نوالا بنتا ہے یا خود کو بچانے میں کامیاب ہو جاتا
ہے ۔ |