سیالکوٹ ، پاکستان میں کھیلوں کے
سامان کے لئے مشہور ہے ۔ لیکن اِسی زمین نے ایک ایسے فرزند کو جنم دیا جس
کے لئے شاعری منطق اور فلسفہ کھیل تھا۔ ڈیڑھ صدی پہلے جب نرگس اپنی نوری پر
رورو کر بے حال ہونے کے قریب تھی۔اقبالؔ نے دنیائے بے ثبات میں اپنی آمد کا
نقش ثبت کیا۔علامّہ اقبال ؔکا اصل نام شیخ محمّداقبال تھا۔وُہ
9نومبر1877میں سیالکوٹ کے محلے چوڑی گراں میں پیدا ہوئے۔اُن کا تعلق ایک
کشمیری خاندان سے تھا۔علامّہ اقبال ؔکے والدکا نام شیخ نور محمّد،والدہ کا
نام امام بی بی اوربڑے بھائی کا نام شیخ عطا ء محمّدتھا۔علامہ اقبال ؔنے
اپنی قرآنی اورابتدائی دینی تعلیم سیالکوٹ میں واقع مسجد حکیم حسام الدین
میں مولاناغلام حسن سے حاصل کی۔اس کے بعدپانچویں جماعت 1888ـ میں اسکاچ مشن
ہائی اسکول سے امتیازی نمبروں سے پاس کی اور وظیفہ حاصل کیا ۔ 1888ـ میں ہی
مولوی میر حسن سے باقاعدہ عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی
تھی۔1891میں آٹھویں جماعت بھی اسکاچ مشن ہائی اسکول سے پاس کی۔1892میں مرزا
داغ دہلوی سے شاعری کی اصلاح لینا شروع کی۔1893میں گجرات سے میٹرک نمایاں
نمبروں سے پاس کیا اور 12 روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا۔ایف اے 1895میں اسکاچ
مشن کالج، سیالکوٹ سے پاس کیا۔1897میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے پاس کیا۔
1899میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ہی ایم اے (فلسفہ)کے مضمون میں گولڈ میڈل کے
ساتھ پاس کیا۔سید سلیمان ندوی ؒ نے اقبال ؔ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان
کرتے ہوئے جو اقبال ؔنے خود انہیں سُنایا۔ اقبال ؔ کہتے ہیں کہ جب میں
سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو روزانہ صبح اُٹھ کر تلاوت کرتا تھا ۔والد مرحوم
روزانہ نماز کے بعد اپنے وظائف سے فرصت پاکر مجھے دیکھ کر گزر جاتے تھے۔ایک
دن وُہ میر ے نزدیک آئے اور بولے کہ کبھی فرصت ملی تو تمہیں ایک بات بتاؤں
گا۔مختصرا یہ کہ میں نے چار دفعہ تقاضہ کرنے پر ایک دن حسبِ عادت ایک صبح
میں قرآن کی تلاوت کر رہا تھا تو کہنے لگے کہ جب تم قرآن پڑھا کرو تو یہ
سمجھو کہ قرآن تم پر ہی اُترا ہے۔یعنی اﷲ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام
ہے۔ڈاکٹر اقبال ؔ کہتے ہیں کہ اِن کا یہ فقرہ میرے دل میں اُتر گیااور اس
کی لذّت اب تک دل میں محسوس کرتا ہوں۔ 1905میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے
انگلستان کے شہر لندن چلے گئے۔1907کے بعد میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی
ڈگری حاصل کی۔1908میں لنکنز ان(Lincoln's Inn) سے بارایٹ لاء کی ڈگری حاصل
کی۔علامہ اقبالؔ27 جولائی 1908میں لاہور واپس آکر وکالت کے شعبے کوا پناتے
ہوئے چیف کورٹ میں وکالت کی پریکٹس شروع کی۔علامّہ اقبال ؔنے تین شادیاں
کیں۔پہلی شادی 1893میں کریم بی بی سے ہوئی۔اُس وقت آپ میٹرک پاس کر چکے تھے۔
کریم بی بی سے آپ کی ہاں ایک بیٹی معراج بیگم اور بیٹا آفتاب اقبال پیدا
ہوئے۔1909دوسری شادی سردار بیگم سے کی۔جن سے بیٹا جاوید اقبال اور بیٹی
منیرہ بانو پیدا ہوئیں اور تیسری شادی 1912میں مختار بیگم سے ہوئی۔اقبال ؔکو
اُردو کے علاوہ پنجابی، فارسی ، انگریزی، عربی اور جرمن پر مکمل عبور
تھا۔علامہ اقبال نے اُردو کے علاوہ فارسی میں بھی کئی تصانیف تحریر
کیں،اقبالؔ نے اُردو زبان میں مندرجہ ذیل چار کتابیں تحریر کیں،۱۔ علم
الاقتصاد۔۲۔ بانگِ درا۔۳۔بالِ جبریل۔۴۔ ضربِ کلیم۔ان کتب کے علاوہ اقبال ؔکی
کتاب ـارمغانِ حجاز بھی تقریبا آدھی اُردو زبان میں ہے۔۱۔ علم
الاقتصاد۔اقبال ؔکی پہلی تصنیف علم الاقتصاد،ابتدائی معاشیات کے موضوع پر
1940میں شائع ہوئی۔اقبال ؔنے اس کتاب کو لکھنے میں علامہ شبلی نعمانی سے
اصلاح لی۔۲۔ بانگِ درا۔اقبال ؔکی پہلی شاعری کی کتاب بانگِ درا 1924 میں
شائع ہوئی۔۳۔ بالِ جبریل۔اقبال ؔکی دوسری شاعری کی کتاب بالِ جبریل 1935میں
شائع ہوئی۔۴۔ ضربِ کلیم۔اردو شاعری کے اس مجموعے ضربِ کلیم1936میں شائع کیا
۔ابتدا میں اقبالؔ کانگریس کے رکن تھے۔جب اقبالؔ نے یہ دیکھا کہ کانگریس
مسلمانوں کے لئے بہتر نہیں ہے تو انہوں نے 1923میں مسلمانوں کی دعوت پر
مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔اور 1926میں باقاعدہ سیاست میں آئے۔1926میں
پنجاب کونسل کے انتخابات میں اکثریت سے فتح حاصل کی۔پنجاب کونسل کے
انتخابات میں کامیابی کے بعد اقبال ؔکی کوششوں سے مذہبی رہنماؤں اور عبادت
گاہوں کے تحفظ کا قانون 1927میں پاس کرایا گیا۔اقبال ؔکے نزدیک نظامِ سیاست
ایک جماعت ہے ۔جس کا نظم و ضبط کسی نظامِ قانون کے ماتحت ہو اور جس میں روح
بھی موجود ہو۔30دسمبر 1930کو اقبال ؔنے تاریخی خطبہ الہٰ آباد میں فرمایا
کہ مجھے اس میں قطعا کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایوان ان مسلم مطالبات کی جو اس
قرار داد میں رکھے گئے ہیں پر زور تائید کریگاکہ یہ ایوان ان مسلم مطالبات
کو اِس قراداد میں رکھے گئے ہیں کچھ آگر برھانا چاہتا ہوں کہ پنجاب، سندھ،
بلوچستان اور سرحد کو ملا کر ایک واحد ریاست بنادی جائے لیکن خود اختیاری
سلطنت برطانیہ کے اندر ہی رہ کر یا اس سے علیحدہ ہو کر ضروری ہے اور ایک
متحدہ اور مستحکم شمال مغربی ہندوستانی مسلم ریاست میرے خیال میں تو
مسلمانوں کی حقیقی منزل ہے۔ اور کم از کم شمال مغربی ہندوستان کی تو یہ ہی
ایک منزل نظر آتی ہے۔علامہ اقبال ؔطویل علالت کے بعد 21 اپریل 1938کی صبح
پانچ بج کر پندرہ منٹ پر ہوا۔اقبال کی نمازِ جنازہ رات آٹھ بجے مولانا غلام
مرشد نے بادشاہی مسجد میں پڑھائی ۔اقبال ؔکو رات دس بج کر پینتالیس منٹ پر
شاہی مسجد اور شاہی قلعے کے درمیان حضوری باغ میں دفن کیا گیا۔مزارِ اقبال
کی تعمیر کا کام 1946میں شروع ہوا اور اسے 1950میں مکمل کیا گیا۔اقبال ؔکی
شاعری مسلمانوں کے لئے بانگِ درا اور ضربِ کلیم ثابت ہوئی، سوتوں کو بیدار
کیا،غافلوں کو ہشیار کیا،کاہلوں کو تیار کیا،انگریز کے عزائم جانچے، ہندؤ
کے ارادے بھانپے، ایک علیحدہ مسلم مملکت کا خواب دیکھااور اسے تعبیر کے
سانچے میں ڈھالنے کے لئے دامے درمے سخنے تیار ہو گئے۔ان کے جذبوں کی سچائی،
باتوں کی دانائی،اشعار کی صوت برصغیر میں نظام غلامی کی موت ثابت
ہوئی۔مصوّرِ پاکستان اپنے خواب کی مجسم نہ دیکھ سکے۔ لیکن آج اُن کی روح بے
قرار ہوگی کہ یہ پاکستان جرائم کا اڈّہ، مسائل کا گڑھ، عیوب زدہ معاشرہ ہے۔
تبھی تو ایک کربناک صدائے غم بُلند ہوتی ہے کہ
یارب دلِ مسلم کو وُہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو رُوح کو تڑپا دے
صحرا میں گونجتی ہوئی، ایک چیخ رہ گئی
تاریخ ساز جا چکا، تارخ رہ گئی |