چراغ امت، سلطان الاولیا ء سید السادات حضرت سید علیؒ ہجویری
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
اسلام میں سب سے بلند مقام انبیاء کرام ؑ
کا ہے اس کے بعد صحابہ کرامؓ ،اہل بیت عظام ؓ کا پھر اولیاء اﷲؒ کا درجہ ہے
جن کے کئی مراتب ہیں۔ اسلامی تاریخ میں بے شمار اولیاء اﷲؒ گزرے جنھوں نے
اخلاق ،پیار و محبت،حکمت کاہنر استعمال کرکے لوگوں کو اسلام سے روشناس
کروایا ان کی تٖفصیل بہت طویل ہے انہی برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں اہل
اسلام کا عقیدہ ہے کہ اولیاء اﷲ سے محبت اﷲ سے محبت ان سے دشمنی اﷲ سے
دشمنی ہے ،ہر مسلمان کے دل میں ان کی محبت رچی بسی ہے یہ محبت اﷲ تعالیٰ نے
لوگوں کے دلوں میں پیدا کی کیونکہ یہ اولیاء اﷲ ساری زندگی اﷲ ورسولؐ کی
اطاعت میں رہے تو اﷲ تعالیٰ نے انسانیت کے دل میں ان کی محبت والفت پیدا
فرما دی ۔انسانیت کی رہنمائی ہی ان اولیاء اﷲ کی متاع حیات ہوا کرتی ہے
جتنے بھی اﷲ والےؒ اس دنیا فانی کو چھوڑ گئے انہوں نے مادیت پر مبنی کوئی
جائیداد نہیں بنائی نہ ان کے بینک بیلنس ہیں نہ محلات،نہ جاگیریں،نہ ہی مال
ودولت بلکہ وہ شریعت وطریقت کے راستوں پر چل کر انسانیت کے عظیم رہبروں کی
صورت میں نمو دار ہوئے اور انسانیت کو پیغام حق سنا کر دنیا فانی سے کوچ
کرگئے یہی ان ؒ کی متاع زیست تھی جن پر آج انسانیت فخر کررہی ہے ۔ہمارا
ایمان ہے کہ ہر ولی اس ہستی کو کہتے ہیں جو شریعت کا پابند ہوتا ہے جب کوئی
انسان شریعت اسلامیہ کاپابند ہوجاتا ہے یعنی اس پر عمل کرنا شروع کردیتا ہے
تو وہ طریقت کے راستے پر چل پڑتا ہے جب وہ اﷲ والاؒبدرجہ ٔ اتم اس پر عمل
کرتاہے تو اﷲ کا مقرب بن جاتا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک انسان حضرت محمد
عربیﷺ کی شریعت کی مخالفت کرے اور وہ ولی ہو۔اﷲ کا ولی وہی ہوگا جو شریعت
کا پابند ہوگا ۔ایک بات یاد رہے کہ کوئی شخص بھی اپنی محنت وکوشش سے نبی ؑاور
صحابیؓ نہیں بن سکتا بلکہ نبی ٔ اخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے ختم نبوت کے بعد
اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی صحابی ہوگا بلکہ اولیاء اﷲ کا ایک لا
متناہی سلسلہ ہے ان اولیاء اﷲ کی صف میں سے ایک عظیم ترین ہستی حضرت سید
علی ہجویری ؒہیں جنھیں دنیا داتا گنج بخش کے نام سے جانتی ہے وہ غزنی کے
قریب ہجویر میں 1009 ء میں حضرت عثمان بن علیؒ کے گھر پیدا ہوئے اسی نسبت
سے آپ ؒ کے نام کے ساتھ بھی ہجویری لکھا جاتا ہے جبکہ لقب داتا گنج بخش
کنیت ابولحسن ہے۔ حضرت سید علیؒ کا خاندان علم وتقویٰ کے اعلیٰ درجے پر
فائز تھا ،آپ ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت عثمان بن علیؒ بمقام
غزنی سے حاصل کی بعد از حصول علم کیلئے خراسان،کرمان،عراق وشام،لبنان،آذر
بائیجان ودیگر بے شمار علاقوں کے اسفار کئے دعوت وتبلیغ میں آنے والی بے
شمار مصیبتیں،تکلیفیں آپ ؒ کو راہ حق سے نہ ہٹا سکیں آپ ؒ قرآن وحدیث اور
فقہ کے بلند پائیہ عالم ربانی تھے ،مادری زبان فارسی تھی تاہم عربی پر
دسترس حاصل تھی ۔آپ ؒ کے شیخ المشائخ کا اسم گرامی حضرت ابوالفضل ختلیؒ ہے
جن کا سلسلہ جنیدیہ سے تعلق تھا۔ جبکہ آپ ؒ نے ابو سعید ابولخیر ؒ اور
القاسم قسیریؒ سے بھی تعلیم حاصل کی۔آپؒ ابو حنیفہ ؒ کے مقلد تھے۔ آپؒ کے
دور میں مسلمان آپس میں اختلافات کا شکار تھے جس کے باعث دین اسلام کی جڑیں
کمزور ہورہی تھیں تو آپ ؒ بہت سے کتابیں تصنیف کیں جن کا موضوع تصوف تھا ۔آپؒ
کشف وکرامت کی حامل ہستی تھے۔
برصغیر ،لاہور آپ ؒ اپنے مرشد کے حکم پر1039 ء کو غزنی سے تشریف لائے تو
یہاں431 ہجری بمطابق 1041 ء آپ ؒ یہاں ایک مسجد اور مدرسہ تعمیر کیا جب آپؒ
لاہور تشریف لائے اس وقت غزنوی خاندان کی حکومت تھی برصغیر کے لوگوں کیلئے
آپؒ ایک نعمت عظمیٰ ثابت ہوئے آپ ؒ نے لاکھوں لوگوں کو دائرہ اسلام میں
داخل کیا ،اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا ، لوگوں کو اسلام کی طرف مائل
کیا اس وقت یہاں پر ہندوؤں کے جوگیوں، جادو گروں ہاتھوں لوگ یرغمال بنے
ہوئے تھے تو آپؒ نے ان کے جادوائی کرتبوں کو شان ولایت سے زمین بوس کیا
انھیں شکست فاش دی بعد میں وہ ہندوجوگیوں،جادو گر وں نے اسلام قبول کرلیا
اور آپ ؒ کے خادم بن کر زندگی گذاری ایک مرتبہ ایک شخص آپ ؒ کے پاس مرید
بننے کیلئے آتا ہے لیکن اس کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے میں اس
بزرگ کو دیکھ تو لوں کہ صاحب کرامت بھی ہیں یا نہیں چندوہ آپ ؒ کے پاس رہا
ظاہری کرامت نہ دیکھ پایا تو مطمعٔن نہ ہوا واپسی کیلئے اجازت چاہی تو حضرت
علی ہجویری ؒ نے استفسار فرمایا کہ بھائی کس مقصد کیلئے آئے تھے ؟تو اس نے
کہا کہ حضرت جی میں تو آپؒ کا مرید بننے آیا تھا مگر آپؒ میں تو میں نے
کوئی کرامت ہی نہیں دیکھی اس پر ولی اﷲ ؒ نے فرمایا بھائی تو نے مجھ میں
کوئی خلاف شریعت کوئی کام دیکھا تو اس نے کہا کہ نہیں تو حضرت نے فرمایا کہ
اس سے بڑی تجھے اور کونسی کرامت چاہیے ؟فرمان علی ہجویری ؒ ہے کہ نماز ایسی
عبادت ہے جو شروع سے آخر تک اﷲ کی راہ میں اس کے چاہنے والوں کی رہنمائی
کرتی ہے ۔وہ ہمیشہ اسی میں مشغول رہتے اور ان کے مقام نماز ہی سے ظاہر ہوتے
۔
حضرت فرماتے ہیں کہ لوگ مجھے داتا گج بخش کہتے ہیں لیکن میرے پاس تو کچھ
بھی نہیں ،اے علی تو اس قسم کے خیالات کو اپنے دل میں جگہ مت دے یہ سخت
تکبر ہے۔گنج بخش ہویا رنج بخش یہ سب صفات ذات حق کیلئے مخصوص ہیں ۔ ا س
ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ؒ کو گنج بخش کا لقب آپ ؒ کی زندگی میں ہی ملا
اورمشہور ہوگیا مگر آپ ؒ کو یہ لقب پسند نہیں تھا۔درحقیقت لاکھوں مسلمانوں
کو آپؒ سے جو فیض روحانی ووجدانی حاصل ہوا وہ مسلمانوں کیلئے روحانی خزانہ
ہے جس کا فیض قیامت تک جاری وساری رہے گا ۔آپؒ کی عالمگیر شہرت یافتہ کتاب
کشف المحجوب جو فارسی میں لکھی گئی اہل طریقت کیلئے مرشد کا درجہ رکھتی ہے
اس کے کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں اس کتاب سے تصوف کے نام پر پھیلائی
گئی غلط فہمیوں کو جس انداز میں ردکیا گیا ہے سنہری حروف میں لکھنے کے قابل
ہے اس میں تصوف کی حقیقت کو کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یہ کتاب ایک
ایسا شاہکار ہے جس کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو حقیقی تصوف سے شناسائی
حاصل ہوئی اس کتاب میں جعلی تصوف اور جعلی پیروں کو مجرم قرار دے کر رد کیا
گیا ہے،حقیقی صوفی آپ ؒ نے اس شخص کو قرار دیا ہے جو رسول اﷲ ﷺ کے احکامات
کی پیروی کرے،اخلاق حسنہ پر عمل کرے،بدی، کینہ،جھوٹ،حسد،مکروفریب اور لالچ
سے پرہیز کرے۔ کشف المحجوب سے اہل طریقت آج بھی فیض حاصل کر رہے ہیں اور
قیامت تک فیض حاصل کرتے رہیں گے اس کتاب میں حضرت ؒ نے ایک ایک موضوع کو
تفصیل سے بیان کیا ہے ایک شخص کو صاحب مرتبہ بننے کیلئے اس کتاب کی تعلیم
حاصل کرنا ازحد لازم ہے۔ آپؒ کی وفات ایک روایت کے مطابق 1072 ء کو ہوئی
اور آپ ؒ قبر مبارک لاہور میں ہے ۔
آج کے پرفتن دور میں جب فرقہ پرستی کا ناسور بڑھتا ہی چلا جارہا ہے جس کے
باعث امت مسلمہ تقسیم در تقسیم ہوتی جارہی ہے مسلمان آپس میں ہی دست
وگریبان ہیں ۔انسانیت کو محبت والفت،امن وسلامتی کا درس دینے کی اشد ضرورت
ہے اس کیلئے مسلمانوں کو سیدعلی ہجویری ؒ جیسے اولیاء اﷲ کی تعلیمات کو
اپنی زندگیوں میں زندہ کرکے امت مسلمہ کو وحدت کی تسبیح میں پروکر اﷲ کی
زمین پر اﷲ کے نظام خلافت کے قیام،قرآن وسنت کے غلبے کیلئے یکجا کرنا ہوگا
تاکہ امت مسلمہ اقوام عالم کی قیادت وسیادت کا فریضہ سرانجام دے سکے جس کا
وعدہ اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان سے کیا ہے۔ایسا اولیاء اﷲ کی سنہری تعلیمات پر
عمل کرکے ہی ممکن ہو سکے گا۔
|
|