ٹرمپ کی جیت کے بعد اب مجھے یہ سننے کو مل
رہا ہے کہ اس کی فتح کی پیشن گوئی تو امریکہ کے کسی ایسے جوتشی نے پہلے ہی
کردی تھی جس کی آ ج تک کوئی پیشن گوئی غلط نہیں ہوئی۔ اور کسی بابا وانگا
نے امریکہ کے صدر کے بارے میں سالوں پہلے ہی کچھ کہا تھا جو ٹرمپ کے جیتنے
سے پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ بات مجھے ایک ایسے شخص نے بتائی جو بیرون ملک
سے پی ایچ ڈی ہیں اور مارکیٹنگ کے استاد ہیں۔ شاید وہ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
–وہ اکثر ہم جیسے حقائق پسندوں اور دلیل کے متلاشیوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو
دلیل سے باہر سوچ ہی نہیں سکتے۔اب انھیں کیا بتاؤں کے میں ان پیشن گوئیوں
سے بیزار کیوں ہوا۔ تو حادثہ کچھ یوں ہوا۔
ہمارے بچپن میں بھی پاکستانی معاشرہ ایسا ہی تھا جیسا آج ہے- ایک روحانی
معاشرہ جہاں دنیا کا نظام حقائق کے تابع نہیں تھا بلکہ حقائق تکوینی نظام
کے تابع تھے۔انفرادی و اجتماعی زندگی میں کامیابی محنت اور کوشش سے زیادہ
مقدر کے تابع تھی۔ اس لیے مقدر جاننا بہت ضروری تھا۔ ورنہ ایسا ہوتا کہ ہم
ساری زندگی محنت کرتے رہتے مگر کامیابی نہ ملتی۔ اسی لیے نوجوانی سے ہی
ہماری خواہش تھی کے ہر معاملہ میں آنے والے معاملات کی خبر جانی جائے۔ اللہ
بھلا کرے کہ ہمارے میڈیا اور لکھاریوں کا جنھوں نے ہماری اس تشنگی کو پورا
کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اردو صحافیوں اور مشہور لکھاریوں کی مہربانی
سے ہم بابوں سے آشنا ہوئے اور ان سے قسمت کا حال پوچھنے چل پڑے۔ پہلے ہماری
ملاقات وقت کے ایک عارف سے ہوئی۔ عارف نے پیشن گوئی کی کہ تم نے زندگی میں
بہت سے کارنامے انجام دینے ہیں اور ایک مہینے کےاندر تمھاری ایک ڈائمینشن
(روحانی یا دنیاوی) کھل جائے گی۔سالوں بعد میں آج تک ڈائمینشن کی تعریف
ڈھونڈ رہا ہوں۔ ایک دن بابا اشفاق کی طرح ہمیں بھی راستے میں ایک مجذوب مل
گیا۔ ہم نے عقیدت میں چائے پلائی، جاتے ہوئے مجذوب نے دعائیں دیں اور کچھ
ایسی پیشن گوئیاں کیں جو اگر پوری ہوجائیں تو ملک ریاض صاحب کیا بیچتے ہیں
میرے سامنے۔ اسی طرح سے کئی بابوں نے کچھ ایسی پیشن گوئیاں کیں جن کی سمجھ
مجھے نہیں آسکی۔ اور بابوں کے غصے کی وجہ سے ان سے دوبارہ پوچھنے یا وضاحت
کی ہمت نہیں پڑتی۔بابوں کے ساتھ ساتھ پالمسٹوں اور جوتشیوں کو بھی آزمانے
کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ بھی مخفی علوم کے ماہر ہوتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں زمرد
نقوی جو ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں اور پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں اور ان کے
بقول ہر بات ہی انھوں نے پہلے بتائی ہوتی ہے۔ خیر انھوں نے فیس لے کر قسمت
کا حال بتانا شروع کیا کہ 2014 میں شادی ہوگی، 2015 میں بہت پیسہ اور
اختیار ، 2016 میں دنیا بھر کا سفر، اور 2028 میں روحانیت وغیرہ۔ آ ج لگتا
ہے کہ وہ ستاروں میں میری جگہ قدرت اللہ شہاب کی تقدیر پڑھ بیٹھے تھے۔
پالمسٹوں نے تو مبالغہ آرائی کی حد کردی۔
نجی زندگی کے علاوہ باقی معاملات میں پیشن گوئیاں ڈھونڈنی شروع کیں۔ تو ایک
جہان حیرت کھل گیا ۔اور ہم نے تمام پیشن گوئیوں پر ایمان لانا شروع کردیا
کیونکہ مذہب و روحانیت کا نام لینے والے لکھاری اور صحافی جھوٹ تو نہیں بول
سکتے ۔بابا شہاب،بابا اشفاق، اور بابا مفتی کے ذریعے معلوم ہوا کہ پاکستان
کے قیام کی پیشن گوئی تو 1847 میں ایک مجذوب کرگئے تھے اسی لیے جناب اشرف
علی تھانوی بھی 1940 میں جانتے تھے کہ پاکستان کاقیام لکھ دیا گیا ہے۔ یہ
پاکستان بابوں نے بنایا ہے اور وہ ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں –ساتھ ساتھ ملک
ٹوٹنے کی پیشن گوئی بھی بابے کرچکےتھے۔اسلام آباد کا قیام اور پوری دنیا
میں اس کے مقام کے بارے میں امام بری تین سو سال پہلے ہی لکھ چکے تھے۔ صفدر
محمود صاحب ایک عرصہ تک سبز آنکھوں والے کسی جرنیل کی آمد کا ذکر کرتے رہے
جو آکر تمام غلاظت کا اس ملک سے خاتمہ کردے گا۔ ہمیں سبز آنکھوں والا جرنیل
تو نہ ملا مشرف صاحب مل گئے۔ اسی طرح طالبان اور ملا عمر کے بارے میں پیشن
گوئی سنی کہ یہ وہی کالے جھنڈوں والے ہونگے جو قیامت سے پہلے دجال سے لڑیں
گے۔آجکل یہی پیشن گوئی داعش کے بارے میں سنائی دے رہی ہے۔ پھر 2006 میں ایک
ماموں صاحب مشہور ہوگے جنھوں نے ہمیں زلزلوں کی پیشن گوئیاں کرکے ڈرائے
رکھا۔ پھر شاہد مسعود صاحب نے قیامت برپا کردی، سالوں سے اوریا مقبول جان
دانائے راز کے رتبے پر فائز ہوکر قوم پر عذاب کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ 2014
میں غزوہ ہند کروارہے تھے جو تاخیر کے سبب 2016 میں ہونا تھا اور شاید اب
آگے منتقل ہوجائے۔ خاکوانی صاحب اپنے بابا جی کے حوالے سے متعدد بار انڈیا
کے ساتھ ایک ایسی جنگ کی پیشن گوئی کرچکے ہیں جس میں ایک دریا تین مرتبہ
خون سے بھر جائے گا۔ہارون رشید صاحب سالوں سے ایک بزرگ کی پیشن گوئی کی
دہائی دے رہے ہیں جس کے مطابق عمران خان وزیر اعظم بنیں گے۔ 2013 کے الیکشن
سے پہلے وقت کے عارف نے پیشن گوئی کی کہ عمران خان کی پارٹی کو ڈیڑھ کروڑ
ووٹ ملیں گے اور عمران خان وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ اور آجکل سی پیک سے
متعلق مذہبی پیشن گوئیاں سن رہا ہوں۔
ایک مدت تک خوش فہمیوں، جھوٹی امیدوں، اور ڈراوں کے بعد کچھ ایسے لوگوں کی
تحریروں سے واسطہ پڑا جو منکسر مزا ج تھے، جو حکم نہیں لگاتے تھے اور نہ ہی
پیشن گوئی نہیں کرتے تھے بلکہ صرف علم اور تحقیق کی بات کرتے تھے، جو اپنے
مؤقف پر نظر ثانی کی گنجائش رکھتے تھے۔جو سادہ زبان میں مشکل باتیں سمجھانے
کی کوشش کرتے تھے۔ ڈاکٹر مبارک علی ، عائشہ جلال، روبینہ سہگل، عباس جلال
پوری، سبط حسن،کےکے عزیز، مبارک حیدر، اور رفیق سندھیلوی۔ یہ وہ لوگ تھے
جنھوں نے ہم جیسے برین واشڈ لوگوں کو تاریخ، فلسفہ اور ادب کی ا، ب
سمجھائی۔ذہنوں میں دلیل کی حکمرانی رائج کی ۔اور اس قابل کیا کہ اپنی انا
کی خول سے باہر آئیں اور اپنی جہالت کا اعتراف کرکے علم حاصل کرنے کی کوشش
کریں۔ اور جو دن گزرتا ہے اپنی جہالت اور لاعلمی مزید آشکار ہوتی ہے۔ اسی
لیے اب پیشن گوئی سے بیزاری اور حقائق میں دلچسپی ہے۔ |