بچپن میں اخبار کا مطالعہ کرنے کی عادت بہت پختہ تھی۔ بچوں کے
ایڈیشن سے ہفتہ وار میگزین تک اور خبروں سے لے کر کالمز تک، پورا اخبار کھنگالا
جاتا تھا۔تب نوائے وقت میں ادبی ایڈیشن غالبا ہر منگل کو شائع ہوتا تھا۔ کبھی کسی
ادیب کا انٹرویو، کوئی مختصر افسانہ ، ادبی موضاعات پر مضامین اور شاعری اس ایڈیشن
کاحصہ ہوتی تھی۔ مطالعہ کا ازحد شوق ہونے کی وجہ سے میں کوئی ایک حصہ بھی ہرگز نہیں
چھوڑتی تھی۔ شاعری سے البتہ کچھ خاص لگاؤ نہیں تھاکہ بات کو نثر میں کہہ دینا اور
سن لینا ہی سب سے آسان اور دلچسپ طریقہ لگتا تھا۔ اگرچہ اقبال، غالب ، میر اور فیض
کے کلام کو اس کلیے سے اثتثناء حاصل تھا۔ خیر انہی دنوں کی بات تھی جب اخبار میں
شاعری کے کارنر پر ایک کلام پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ شاعر کا نام پیر نصیرالدین نصیر
تحریر تھا اور ان کی تصویر بھی ساتھ اْویزاں تھی۔ بظاہر بے حد رعب و دبدبہ سے
بھرپور شخصیت مگر کلا م اس قدر گداز، عمدہ اور دل کو چھو جانے والا تھا کہ میں ایک
لمحے کو سحر زدہ رہ گئی۔ خوبصورت استعاروں کا استعمال، خیالات کی گہرائی، اسلوب کی
انفرادیت، پختگی اور عمدگی، جی بھر کر حیرت بھی ہوئی اور بے حد اچھا بھی لگا۔ پیر
نصیرالدین نصیر سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ اور کیونکہ وہ سکول کا زمانہ تھا، سو
میری کم علمی کا یہ عالم تھا کہ تب تک ان کے بارے میں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک
ممتاز مذہبی رہنما ، عالم اور مبلغ بھی تھے۔ بعد ازاں، یہی کم علمی ایک نعمت ثابت
ہوئی کہ ان کی شاعری،شخصیت اور علوم و فنون سے وابستگی ا ور لگاؤبیحد خالص اور کسی
بھی قسم کے مذہبی یا فرقہ ورانہ تعصب سے مکمل طور پر پاک رہا تھا اور نہ ہی کسی
اندھی عقیدت کی بیڑیوں میں جکڑاجا سکا تھا۔ پیر صاحب سے اس پہلے تعارف کو خود ان کے
الفاظ میں بیان کرنا زیادہ برمحل ہو گا۔۔
دکھ پہنچے تو اشک آنکھ میں بھر آتا ہے
دل تڑپے تو لہجے میں اثر آتا ہے
کچھ بھی نہ کسی میں ہو تو کیا آئے نظر
کچھ ہو جو کسی میں تو نظر آتا ہے
اس دن کے بعد سے یہ عادت بن گئی تھی کہ جب بھی ہفتہ وار ادبی ایڈیشن آتا تھا تو پیر
صاحب کے کلام کو پڑھنا اولین ترجیح ہوتی تھی۔ ہر دفعہ ان کیعمدہ و منفرد شاعری پر
دل دادو تحسین کے ڈونگرے برساتا تھا۔ اتنے خوبصورت خیالات ، خوبصورت لب و لہجہ ،
مشکل سے مشکل ترین بات کو خوبصورتی کے ساتھ الفاظ کے پیرائے میں ڈھالنے والا اسلوب،
لطافت، باریک بینی اور متانت کاحسین امتزاج تھا جو ان کے کلام میں نظر آتا تھا۔ اسی
خوبصورتی نے میرے ذہن میں ان کا چہار لفظی تاثر ہمیشہ کے لئے نقش کر دیا جوکچھ یوں
تھا ۔۔ ’خوبصورت انسان۔ خوبصورت شاعر‘۔
پیر صاحب کی شاعری تنوع سے بھرپور تھی۔ شاعری کی کوئی صنٖف ان کی ہنر کمال کی دسترس
سے باہر نہ تھی۔ حمد، نعت ، مناقب، غزلیات، رباعیات غرض ہر صنف پہ پیر صاحب کو ملکہ
حاصل تھا۔ دلنشینپیرائے میں پیچیدہ اور نازک ترین احساسات کو اس شان سے ڈھالنا کہ
پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ پیر صاحب کی دیگر تصنیفات کے علاوہ ان کے
مجموعہ کلا م بھی مطبوع ہوئے۔ پیر صاحب کم و بیش 36 تصانیب کے خالق تھے۔ کئی تصانیف
شعرو شاعری کے مجموعہ جات پر مشتمل تھیں جن میں دین ہمہ است حمدو نعت، فیض نسبت،
مجموعہ مناقب، رنگ نظام رباعیات پر مشمل ہے، جبکہ پیمانہ شب، عرش ناز اور دست نظر
غزلیات کے مشہور مجموعے ہیں۔ پیر صاحب کی رحلت کے بعد ان کا جمع شدہ آخری متفرق
کلام کا مجموعہ متاع زیست کے نام سے شائع ہوا۔ ان کی شاعری سے انتخاب کرنا ایک کٹھن
مرحلہ ہے کہ بلا مبالغہ ہزاروں کی تعداد میں لکھی جانے والی حمد و نعت، مناقب،
رباعیات اور غزلوں میں سے کیا چنا جائے اور کیا چھوڑا جائے، یہ ایک مشکل فیصلہ ہے۔
ان کی منتخب شاعری پہ بات آئے تو نئی تصانیف وجود میں آ سکتی ہیں۔بہرحال ایک ادنیٰ
سی کاوش ملاحظہ فرمائیے۔ سب سے پہلے ایک حمد کے کچھ ا منتخب شعار ۔۔
تو رب کا بندہ ہے، پھر مانگ پھر مانگ
رب تیرا داتا ہے، پھر مانگ پھر مانگ
اس در سے مانگا ہے کُل انبیا ء نے
اصحاب و الاد خیرالوریٰ نے
شاہ و گدا اور سب اولیا نے
تو سوچتا کیاہے، پھر مانگ پھر مانگ
ہے اس کی تخلیق ساری خدائی
زیبا اسی کو ہے حاجت روائی
شایاں اسی کے ہے مشکل کشائی
وہ سب کو دیتا ہے، پھر مانگ پھر مانگ
اسی طرح سے نعت گوئی میں بھی ان کا ہنر عشق رسول ﷺ کے جذب میں گندھا نظرآتا ہے۔ان
کی لگھی گئی نعتوں کی تعداد بلا مبالغہ سینکڑوں کی تعداد میں ہے۔ ایک نعت کے کچھ
اشعارہیں۔۔
قربان اس آقا ﷺ پر کل حشر کے دن جس نے
اس امت عاصی کو کملی میں چھپانا ہے
ہر وقت وہ ہیں میری دنیائے تصور میں
اے شوق کہیں اب تو آنا ہے نہ جانا ہے
پرنور سی راہیں ہیں، گنبد پہ نگاہیں ہیں
جلوے بھی انوکھے ہیں، منظر بھی سہانا ہے
پیر صاحب کو فارسی اور عربی پر بھرپور کمال حاصل تھا سو ان کی شاعری میں نہ صرف جا
بجا عربی و فارسی تراکیب کا استعمال ملتا ہے بلکہ وہ مکمل طور پر عربی اور فارسی
میں شعر کہنے پہ عبور رکھتے تھے۔ ان کی ایک فارسی میں لکھی جانے والی بے حد خوبصورت
نعت کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔۔
اے خسر و خوباں ! شان من قربان نگاہت ، جان من
انوار جمالت ، رزق نظر دیدار رخت، ایمان من
شہکار خدا ، مختار خدا اے تاجور ذی شان من
ان کے عشق اور اظہار عشق میں فصاحت و بلاغت اظہار کا یہ عالم ہے کہ مناقب کے مجموعہ
جات میں، اہل بیتؓ ، ازواج مطہراتؓ، صحابہ کرامؓ ، اولیائے کرام، بزرگان دین سبھی
سے ان کے عشق او ر محبت کا اظہار حسینپیرائے میں ملتا ہے۔ ان کی تخلیق کردہ مناقب
بلاشبہ ان کی بے مثل اور لاجواب شاعری کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
چونکہ پیر صاحب سے تعارف کی پہلی صورت غزلیات تھیں، سو مجھے یاد ہے کہ تب حیرت بھی
ہوتی تھی کہ اتنے خوبصورت، با ہنر اور باکمال شاعر کو بطور شاعر وہ پذیرائی اور
شہرت کیوں نہیں مل رہی تھی جس کے وہ حقدار تھے۔ یا پھر ان کی پیر ی کی گدی اس کی
راہ میں رکاوٹ تھی کہ لوگ ایک مذہبی رہنما کو عقیدت و احترام کے کاسے میں ڈھال کر
جس مسند پر بٹھا دیتے ہیں،،وہاں سے ایک جنبش حرکت بھی ان کو گوارا نہیں ہوتی۔ پیر
صاحب کی اپنی عاجزی کا تو یہ عالم تھا کہ اپنے ایک کلام میں دعا کرتے نظر آتے تھے۔۔
عالم پہ سدا کا راج رکھنے والے
عزت کا سروں پہ تاج رکھنے والے
بے لاج ہوں، میری لاج ہے تیرے ہاتھ
رکھ لے میری لاج، لاج رکھنے والے
پیر صاحب کی غزلیات پہ بات کی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ غزل گوئی میں
ایک منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ ایک بہت خوبصور ت غزل کے منتخب اشعار۔ ۔
نہ تم آئے شب وعدہ، پریشان رات بھر رکھا
دیا ا مید کا میں نے جلا کر تا سحر رکھا
بھری محفل میں نا حق راز الفت کر دیا افشا
محبت کا بھرم تو نے نہ کچھ اے چشم تر! رکھا
کوئی اس طائر مجبور کی بے چارگی دیکھے
قفس میں بھی جسے صیاد نے بے پال وپر رکھا
ایک جگہ وہ خودشاعری کے معیار پہ اپنی شعر گوئی کی طاقت سے روشنی ڈالتے یوں گویا
ہوتے ہیں ۔۔
شعر میں شرط ہے معیار تغزل ورنہ
کچھ بڑی بات نہیں صاحب دیوان ہونا
مختصر بحر میں لکھی ہوئی ایک غزل میں انسانی نفسیات کے دوہرے رنگوں کی کچھ اس طرح
سے منظر کشی کی ہے کہ قاری داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔
کھا گئے ہم بھی دھوکہ کچھ سمجھے کچھ تھے ، نکلا کچھ
لوگوں کا مت پوچھو حال محفل میں کچھ، تنہا کچھ
یہ بھی کیا دستور ہوا کہنا کچھ، تو کرنا کچھ
سب کچھ اوپر والے کا میرا کچھ ، نہ تیرا کچھ
قاصد! بات ہو دو لفظی وہ نہ سمجھ لیں کچھ کا کچھ
پیر صاحب کے مجموعہ کلام دست نظر میں شامل ایک غزل کے کچھ منتخب اشعار ۔۔
ستم کہئے، کرم کہئے، وفا کہئے ، جفا کہئے
عجب ان کی ادائیں ہیں، جو کہئے بھی تو کیا کہئے
ہوائے کوئے جاناں کو نسیم جانفزا کہئے
جمال روئے جاناں کو بہار دلکشا کہئے
کلام اپنا موئثر ہے، بیان اپنا مؤ قر ہے
خدا کی دین ہے یہ بھی، اسے فضل خدا کہئے
زہے قسمت جو آ بیٹھے ، وہ ہم سے بات کرنے کو
نہ کہئے حال درد دل، جوایسے میں، تو کیا کہئے
سن 2009میں پیر صاحب 58برس کی عمر میں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کے انتقال کی خبر نہ
صرف ان کے مریدین کے لئے بلکہ مداحین کے لئے اور ہر اس شخص کے لئے جو انہیں کسی بھی
طرح، کسی بھی حوالے سے جانتا تھا، ایک دھچکا تھی۔ ان کی وفات سے پاکستان ایک عالم
اور مذہبی رہنما سے ہی نہیں، بلکہ ایک بہت خوبصورت شاعر سے بھی محروم ہوا۔
پیر صاحب کی شاعری کی مداح ہونے کے ناطے میری دلی تمنا اور دل کی گہرائیوں سے دعا
ہے کہ کاش اردو ادب کا کوئی طالبعلم، پروفیسر یا کوئی یونیورسٹی پیر صاحب کی شاعری
پر تحقیقی مقالہ لکھنے کا کارنامہ سرانجام دے سکے۔ اللہ پاک پیر صاحب کو جنت
الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
ہم مہمان نہیں ، رونق محفل تھے
مدتوں یاد رکھوگے کہ کوئی آیا تھا
|