مخلص اور باہمت سیاسی قائد۔۔۔۔۔محمد علی جناح

دنیا کے نقشے پہ نمودار ہونے والی ایک نئی ریاست کی سیاسی تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی شخصیت محمد علی جناح جنہیں اس جدو جہد کے نتیجے میں’’قائد اعظم‘‘کا خطاب دیا گیا۔یہ ان کی پر خلوص اور ان تھک کوششوں کے سلسلے میں عوام کی طرف سے ان کے لئے خراج تحسین تھا۔برصغیر کے کونے کونے میں ان کا یہ خطاب اس قدر مقبول عام ہوا کہ لوگ انہیں ان اصلی نام کی بجائے ان کے خطاب سے انہیں پکارتے ہیں۔

ان کی شخصیت اور ان کے کردار کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اپنے اور پرائے سب اس کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ انتہائی نظم و ضبط کے مالک، دیانتدار، باہمت اور بہترین علمی قابلیت رکھنے والی شخصیت تھے۔

لیکن جب قومی کردار کے حوالے سے ان کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی شخصیت کے حوالے سے مزید عقدے کھلتے ہیں کہ وہ کس قدر باہمت اور اجتماعیت کا درد رکھنے والی شخصیت کے حامل تھے۔انہوں نے سیاسی جدو جہد کی آڑ میں کبھی اپنی ذاتی خوہشات کی تکمیل نہیں کی، نہ مال بنایا اور نہ جائیدادیں، نہ ہی انہیں لیڈری کا شوق تھا، انہوں نے ایک ایسی سیاسی حقوق کی جنگ لڑی جس کا مقصد اس خطے کے مسلمانوں کو ایک مضبوط اور آزاد ریاست مہیا کرنا تھا۔

ان کی شخصیت کے بارے میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ لکھتی ہیں
’’محمد علی اپنے گھوڑوں سے پیار کرتے تھے جو گردنیں تان کر سیدھے کھڑے ہوتے تھے اور طاقت اور خود اعتمادی کے مظہر ہوا کرتے تھے، انہوں نے دیکھا کہ فطرت کے قاعدے کے تحت زندگی ہمیشہ ہمودی خطوط پہ استوار ہوتی ہے،گھوڑے سیدھے اور تن کر کھڑے ہوتے ہیں، درختوں کا حال بھی ایسا ہوتا ہے، شاخوں پر پھول عموداً کھلتے ہیں، انسان سیدھا کھڑا ہو کر چلتا ہے، اسی طرح پرندے درندے بھی۔گنبد اور مینار آسمان کو چھو لینے کی تمنا کرتے ہیں، انہوں نے زندگی میں اصول بنا لیا کہ وہ نہ صرف سامنے دیکھیں گے بلکہ اپنا سر بلند رکھیں گے،وہ مشکلات کے آگے نہیں جھکیں گے بلکہ ان کا یہ چیلنج قبول کر کے ان پر قابو پا لینے کی جدو جہد کریں گے،وہ صنوبر کے اونچے درخت کی مانند بنیں گے طوفان جسے چھو سکتے ہیں ،جھکا نہیں سکتے۔‘‘(1)

اپنی صلاحیتوں پہ بھروسہ کرنا اور اپنے ارادے پہ ڈٹ جانے کی صلاحیت نے انہیں زندگی کی ہر مشکلات میں سر خرو کیا۔محترمہ فاطمہ جناح لکھتی ہیں
’’انہوں نے اپنی کوششوں سے بے پنا تجربہ حاصل کیا اور اسی لئے انہوں نے دوسروں کی جانب سے یہ کرو اور یہ نہ کرو یا ان کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا اچھا نہیں جیسے احکامات قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔‘‘(2)
’’وہ اٹھارہ برس کی عمر میں بیرسٹر کہلانے والے سب سے کم عمر ہندوستانی بن گئے۔‘‘(3)

نوجوانی ہی میں وہ اجتماعی شعور کے حامل بن گئے، اجتماعی جدو جہد، تنظیم سازی،خاص طور پہ نوجوانوں کے اندر شعور کو عام کرنا اور ان میں تنظیم پیدا کرنے کے حوالے سے ان کی گراں قدرکاوشیں ہیں۔ ایک دفعہ کیکسٹن ہال لندن میں جب وہ وہاں خود زیر تعلیم تھے لندن میں دیگر زیر تعلیم نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’کہ وہ تعلیم کے دوران عملی سیاست میں بالکل حصہ نہ لیں کیونکہ ابھی وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں انہیں خالصتاً علمی نقطہ نظر سے موجودہ دور کے سیاسی واقعات اور معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے جب وہ عملی سیاست کے میدان مین آئیں تو وہ لوگوں کو باخبر رکھنے اور ملکی ترقی کے لئے کوشاں رضاکار وں کا کردار ادا کر سکیں۔انہوں نے اپیل کی کہ طلباء خود کو ایک مربوط ادارے کے اندر منظم کریں چنانچہ اس اپیل کے نتیجے میں لندن میں سینٹرل ایسوسی ایشن آف انڈین سٹوڈنٹس قائم کی گئی۔‘(4)

جب وہ لندن میں زیر تعلیم تھے اس وقت بھی اپنے تعلیمی و دیگر اخراجات کے حوالے سے تنگ دستی کا شکار رہے کیونکہ ان کے والد کا کاروبار انتہائی خسارے کا شکار ہو چکا تھا اور وہ ان کی مستقل اور مناسب مالی مدد کرنے سے قاصر تھے،والد کے اصرار کے باوجود انہوں نے قانون کی تعلیم کو ترک نہیں کیا اور ہرحال میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔لہذا انہوں نے اپنے اخراجات کو مختصر کر لیا’’مختصر بجٹ کی وجہ سے انہیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے ملازمت بھی مل جاتی تو وہ اسے خوش آمدید کہتے‘‘(5)

خاندانی کاروبار میں خسارے کی وجہ سے انہوں نے نے اپنی ذاتی زندگی میں بہت سی مالی مشکلات جھیلیں بقول محترمہ فاطمہ جناح کے معاشی بد حالی کی وجہ سے ان کا خاندان: بمبئی،کھڈک میں واقع خوجہ محلے میں دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں منتقل ہوئے، اس زمانے میں وہ اپنے خاندان کی مدد کرتے تھے اور اپنے تمام بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات وہی برداشت کرتے تھے۔‘‘(6)

لیکن اس معاشی مسائل کے دور میں بھی انہوں نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور اپنی خدمات اور صلاحیتوں کو کبھی اپنا مال بنانے کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کے اجتماعی مقصد کو اپنے مد نظر رکھا اور ایسے کسی عہدے کو قبول نہیں کیا جس سے اس مقصد کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی۔
’’انتہائی مشکل اور حوصلہ شکن جدو جہد نے ان کی خود اعتمادی کی چمک کو ماند نہیں کیا تھا۔۔۔۔نہ ہی مکمل آزادی کی زندگی پر ان کا اعتماد متزلزل ہوا تھا اپنے سے بالاتر لوگوں کی سر پرستی اور سینئرز کی جانب سے ڈرانے دھمکانے یا ستائے جانے کے جواب میں ان کا رویہ بدستور جھک جانے یا شکست تسلیم کر لینے کے قطعی بر عکس تھا اسی وجہ سے سر چمن لال ستیلواڈ نے لکھا:
جناح نے ہمیشہ حتیٰ کہ اپنے جونئیر ہونے کے دنوں میں بھی بڑی جرات کا مظاہرہ کیا، انہوں نے کبھی فریق مخالف کے وکیل یا جج کو خود پر غالب نہیں ہونے دیا۔‘‘(7)

زندگی کے آخری دس سالوں میں انہوں نے سیاسی میدان میں پاکستان کے حصول کے لئے ان تھک محنت کی، وہ ایک مہلک بیماری ٹی بی کا شکار تھے لیکن اس عظیم لیڈر نے اسے چھپا کر رکھا، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اس بیماری کی وجہ سے تحریک پاکستان پہ منفی اثر پڑے۔۔۔۔دوران بیماری جب ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح انہیں کام چھوڑ کر آرام کا مشورہ دیتیں تو کہتے’’کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کسی جنرل نے چھٹی کی ہو جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہو‘‘(8)

ان کی بیماری کے حوالے سے فاطمہ جناح لکھتی ہیں’’یہاں تک کے سردی کے معمولی حملے سے بھی وہ کئی کئی روز بخار اور کھانسی کی اذیت میں مبتلا رہتے۔۔۔۔۔وہ ایک ایسی روح تھی جو خدمت کے لئے بے قرار تھی اور وہ روح ایک ایسے جسم میں تھی جو زیادہ کام اور خرابی صحت سے ٹوٹ چکا تھا کئی سال تک ان پر بخار کی سی کیفیت طاری رہی، بخار کے بار بار حملوں نے ان کے جسم کو کمزور کر دیا۔‘‘(9)

جب پاکستان معرض وجود میں آیا’’کامیابی کے اس عظیم لمحے میں قائد اعظم کی جسمانی صحت کسی بھی لحاظ سے تسلی بخش نہیں تھی‘‘(10)

محترمہ فاطمہ جناح لکھتی ہیں
’’پاکستان کی سرحد کے اس پار سے مسلمانوں کے قتل عام، آبرو ریزی، آتش زنی اور لوٹ مار کے خوف زدہ کر دینے والے واقعات نے قائد اعظم کے ذہن پر شدید اثرات مرتب کئے تھے۔جب وہ ناشتے کی میز پہ مجھ سے اس قدر بڑے پیمانے پر کئے جانے والے قتل عام کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھیں آنسووں سے نم ہو جاتیں۔‘‘(11)

قائد اعظم محمد علی جناح ناتواں جسم، مسلسل بیماریوں سے لڑنے کے باوجود پر عزم تھے، کمزوری اورناتوانی کے باوجود پاکستان کے طول وعرض کے دورے کئے، کہیں مہاجرین کی حوصلہ افزائی کی تو کہیں، اداروں میں بہتری اور مضبوطی لانے کے لئے حکمت عملی پہ کام کیا۔

14اپریل1948کو پشاور میں سول سروس کے افسروں کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’میں آپ کو سب سے پہلی یہی بات بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو کسی سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہئے خواہ یہ دباؤ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ڈالاجائے یا سیاسی شخصیت کی جانب سے۔۔۔اگر آپ پاکستان کے وقار اور عظمت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے لازم ہے کہ آپ کسی قسم کے دباؤ میں نہ آئیں بلکہ قوم اور مملکت کے سچے خادموں کی حیثیت سے اپنا فرض دیانتداری اور بے خوفی سے ادا کرتے رہئے۔سول سروس کسی بھی مملکت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے حکومتیں بنتی اور شکست کھاتی رہتی ہیں وزرائے اعظم آتے جاتے رہتے ہیں وزارء حکومتوں میں شامل ہوتے ہیں اور الگ ہو جایا کرتے ہیں مگر آپ لوگ موجود رہتے ہیں لہذا آپ پر انتہائی اہم زمہ داری عائد ہوتی ہے کسی ایک یا دوسری سیاسی جماعت کی حمایت میں آپ کا ہر گز کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے اسی طرح آپ کو کسی ایک یا دوسرے لیڈر کی حمایت نہیں کرنی چاہئے، یہی آپ کا کام نہیں آئین کے تحت جو بھی حکومت بنے اور معمول کے آئنی طریقے سے جو بھی وزیر اعظم یا وزیر کی حیثیت سے برسر اقتدار آئے آپ کا نہ صرف فرض یہ ہے کہ آپ خلوص اور وفاداری کے ساتھ اس حکومت کی خدمت کریں بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ اپنی سروس کی اعلیٰ شہرت، اپنا وقار اور عزت و احترام قائم رکھنے کے علاوہ سروس کا استحکام بھی برقرار رکھیں،اگر آپ عمل اور دیانتداری کے ساتھ کام شروع کریں گے تو آپ ہمارے نظریات اور ہمارے خوابوں کے مطابق پاکستان کی تعمیر کریں گے ایک شاندار مملکت اور دنیا کی ایک عظیم ترین قوم۔۔۔۔اگر سیاسی رہنما آپ کے کام میں اس قسم کی مداخلت کر رہے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ وہ پاکستان کی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے بعض لوگ وزراء کو خوش نہ کرنے کے باعث ان کا نشانہ بنیں،میں توقع کرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو لیکن آپ مصیبت میں پڑ سکتے ہیں اس لئے نہیں کہ آپ کوئی غلط کام کر رہے ہیں ،قربانیاں دینی پڑتی ہیں میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر ضرورت پڑے تو آگے بڑھیں اور قربانی دیں،بلیک لسٹ ہونے اور پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورتحال کا مقابلہ کریں، اگر آپ میں سے چند لوگ بھی اپنی قربانیوں کا موقع دیں تو یقین رکھئے ہم جلد اس کا علاج ڈھونڈ نکالیں گے۔۔۔میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں مملکت کے ساتھ دیانتداری خلوص اور وفاداری کے ساتھ انجام دیتے ہیں تو آپ بلیک لسٹ نہیں رہیں گے،آپ ہی ہمیں ایک ایسی طاقتور مشینری کے قیام کا موقع فراہم کر سکتے ہیں جو آپ کو تحفظ کا مکم احساس فراہم کر سکے۔آپ کو ایک فضا قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایسے جذبے سے سرشار ہو کر کام کرنا چاہئے کہ ہر شخص کے ساتھ انصاف اور دیانتداری پر مبنی سلوک کیا جا سکے محض انصاف ہی نہ کیا جائے بلکہ لوگ محصوص کریں کہ ان کے ساتھ انصاف ہو رہا ہے‘‘(12)

مذکورہ بالا تقریر میں قائد نے ان بیماریوں کی نشاندہی کی ہے جو کہ بیوروکریسی اور سیاستدانوں میں پیدا ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کاموں میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے مداخلت کرتے ہیں، مثلاً سیاستدان اپنی کرپشن چھپانے کے حوالے سے بیورو کریسی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح بیوروکریسی اپنی مرضی کے سیاستدانوں کو حکومت میں لانے کے لئے بدیانتی کی مرتب ہوتی ہے۔

اس تناظر میں آج ہم اپنے ریاستی نظام کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ کس طرح قائد کی اس سوچ اور ویژن کے خلاف ہماری بیورو کریسی اور سیاست دان اس بد نصیب وطن کا حشر نشر کر رہے ہیں، قائد نے اس وقت اس بیماری کی طرف نشاندہی فرمائی جو ریاستوں اور اقوام کو کمزور کرتی ہے، آج ہماری بیورو کریسی اور سیاستدان اسی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں، بیورو کریسی اپنے ذاتی مفادات کے تابع اس قدر گر چکی ہے کہ ملک بھر کے تقریباً تمام ادارے کرپشن، اقربا پروری، ناہلی کا شکار ہو کر اپنا کردار کھو چکے ہیں، صحت، تعلیم، انصاف،عزت نفس کا تحفظ کچھ بھی تو نہیں بچا اس معاشرے میں، سیاسی، ریاستی طاقت اور سرمایہ کی لاٹھی نے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں بدل کر رکھا ہوا ہے۔تمام ریاستی ادارے مفاد پرست اور کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ مل کر قومی خزانے لوٹ رہے ہیں، قائد کے بقول سچائی اور ایمانداری کے لئے قربانی دیتے ہوئے بلیک لسٹ ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔لیکن اس وقت افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بیورو کریسی اور سیاستدان دونوں حقیقی معنوں میں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے بلیک لسٹ ہیں، لیکن انہیں راہ راست پہ لانے والا اور اس ملک کو بچانے والا اب کوئی نہیں’‘‘

قائد نے جہاں سول بیورو کریسی اور سیاستدانوں کی وجہ سے ریاستی خرابیوں اور زوال کی طرف نشاندہی فرمائی وہیں فوجی بیورو کریسی کو بھی تنبیہ کی،سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ آئین اور ڈومینین کے وفادار رہیں گے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ پاکستان میں نافذا لعمل موجودہ آئین کا مطالعہ کر سکیں اور اس کے صحیح آئینی اور قانونی منشاء اور معانی کو سمجھ سکیں۔‘‘(13)افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قائد کے بعد اس ملک میں سب سے زیادہ آئین کی دھجیاں بکھیری گئیں، اور’’ آئین کو ایک ردی کے کاغذ سے تشبیہہ دی گئی‘‘اب اجتماعی طور ان تمام عناصر کی بددیانتی، اقربا پروی، ذاتی مفادات کی تکمیل اور ناہلی کی وجہ سے آج پوری قوم بحرانوں کا شکار ہو چکی ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ گذشتہ نصف صدی سے وہی کرپٹ مافیا چہرے بدل بدل کر اس ملک اور قوم کی تقدیر سے کھیل رہی ہے، ہر آنے والا دن پچھلے دن سے بدتر ہوتاجاتا ہے۔ قومی شعور اس سطح پہ سلب ہو چکا ہے کہ اس ملک کو تباہی کے دھانے پہ پہنچانے والے سیاستدانوں اورسول بیورو کریٹوں، فوجی آمروں کوڈھول کی تھاپ پہ اپنے اوپر مسلط کیا جاتا ہے۔کوئی ایسا سیاسی لیڈر سیاست کے افق پہ موجود نہیں جو قائد کے کردار اور ان کے ویژن کے مطابق سیا سی کام کر رہا ہو۔اقربا پروری، قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ، اداروں کی تباہی، میرٹ کا جنازہ نکالنے والے روز و شب قائد کا نام لیتے ہیں اور ان کی برسی پہ بڑے بڑے پروگرام قومی خزانے سے منعقد کرتے ہیں۔اور اس طرح مسلم لیگ کے نام پہ بننے والے مختلف گروپ آج مسلم لیگ کے اس عظیم قائد کے ویژن کا مزاق اڑاتے ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مخلص قائد کے کردار اور اس کے ویژن کو مد نظر رکھ کر اپنے وطن کو ان خرابیوں سے پاک کرنے کی جدو جہد کی جائے۔میں اپنی بات قائد کے اس قول پہ ختم کرتا ہوں کہتے ہیں ’’صرف مشترکہ کوششوں اور مقدر پہ یقین کے ساتھ ہی ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔‘‘(14)
(حوالہ جات)
کتاب میرا بھائی، تحریرفاطمہ جناح
(1) ایضاً،ص24
(2)ایضاً، ص28
(3)ایضاً، ص4
(4)ایضاً ‘ص49,48
(5)ایضاً، ص45
‘‘(6) ایضاً، ص58
(7)ایضاً، ص58
(8)ایضاً، ص61
(9)ایضاً،ص،71,68
(10)ایضاً، ص72
(11)ایضاً، ص 72
(12)ایضاً، ص78تا80
(13)ایضاً، ص83
(14)ایضاً، ص100
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 151597 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More