قائید اعظم کی مثالی شخصیت اور ا صلاح معاشرہ

قا ئد اعظم محمد علی جناح ان شخصیا ت میں سے ہے، جنہوں نے سچائی اور خلوص کے ساتھ انسانیت کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا کیا۔ قائد اعظم عظمت کے اصولوں پر پورا اترتے تھے ۔اس لئے وہ حقیقی معنوں میں ہمارے قائد ہیں ۔ان کی بے غرضی کا یہ عالم تھا کہ انہوں سخت ڈسپلن سب سے پہلے اپنے اوپر نافذ کیا ۔عیش وآرام اور آسانی کی زندگی انہوں نے کبھی نہیں گزاری تھی ۔وہ اپنی ذاتی کامیابی اور آسائش کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔جن ضوابط کی امید وہ دوسروں سے کرتے تھے سب سے پہلے وہ خود کرتے تھے ۔کام کام صرف کام کا اصول دوسروں کے لئے بعد میں تھا اپنے لئے سب سے پہلے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر سے عرصہ میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ۔اور تخلیق پاکستان کا وہ کارنامہ انجام دیا

حق و صداقت کی زندگی سے ہی معاشرے میں مثبت تبدیلی کا مو جب ہے

کسی بھی شخصیت کے نظریات اور تصورات کو سمجھنے کیلئے اس کی ذاتی زندگی میں جھانکنا اور اس کی عوامی زندگی کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، محض کسی شخص کے ظاہری حال، حلیے اور وضع قطع کو دیکھ کر اس کی شخصیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، کیو نکہ حقیقت کا یہی کمال ہوتا ہے کہ حقیقت مانی نہیں جاتی، بلکہ وہ خود اپنے آپ کو منوا ہی لیتی ہے، جھوٹ تو جھوٹ ہی رہے گا چاہے کتنے ہی تواتر سے کیوں نہ بولا جائے اور سچ پہ لاکھ نقاب ڈالیں وہ وقتی طور پر چاند کی طرح بادلوں میں بھلے چھپ جائے لیکن ظاہر ہو کر ہی رہتا ہےـ

کہتے ہیں کہ جو لوگ چاند کی طرف منہ کر کے تھوکتے ہیں تو اپنا ہی چہرہ گندہ کرلیتے ہیں یہ مصرعہ اُن لوگوں پر بھی صادق آتا ہے جن کی تمام زندگی میرے اور آپ کے محترم قائد محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی کردار کُشی میں گزر گئی اے کاش اتنا وقت وہ اپنے کردار کی اصلاح کے لئے استعمال کرتے تو شائد اپنی آخرت کے لئے زادہ راہ جمع کرپاتےـ

قا ئد اعظم محمد علی جناح ان شخصیا ت میں سے ہے، جنہوں نے سچائی اور خلوص کے ساتھ انسانیت کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا کیا۔ گو کہ دنیا کے ہر مہذب معاشرے کی بنیاد سچ کی پروش کی ہی پاداش میں کھڑی کی جاتی ہے مگر دوسری طرف اُس معاشرے کا بھلا کیا کیا جائے کہ جس معاشرے کی بنیاد تو حق و سچ کے اصولوں پر تو رکھی جائے مگر بعد میں اِس معاشرے کی بنیاد وںمیں جھوٹ اور مکروفریب کی مصنوعی خوبصورتی کی آمیزیش شامل کرلی جائے تو کسی ایسے معاشرے کا کیا بنے گا؟ جس کا اپنا دامن ہی رفتہ رفتہ جھوٹ اور مکروفریب کے ناسور سے جگہ جگہ سے چھلنی ہوگیا ہو تو پھر ایسا معاشرہ اور اِس معاشرے کے لوگ دنیا کے کسی بھی تہذیب یافتہ قوم کے مدمقابل کیسے کھڑا ہوسکتے ہیں کہ جس معاشرے کی خاصیت ہی یہ ہو کہ اِس معاشرے کا ہر فرد یہ جانے کہ جھوٹ تمام گناہوں کی ماں اور سچ سب برائیوں کا علاج ہے اور اِسی طرح دنیا کا جو بھی معاشرہ اِس کلیہ پر سختی سے کاربند رہا کہ سچائی کامیابی کا سبب اور جھوٹ رسوائی کا مؤجب ہے تو دوسری طرف یہ اِس پر بھی ڈٹا رہا کہ سچ کہنے کی عادت ڈالو چاہے وہ کتنی ہی کڑوی ہو سچ سننے کی عادت ڈالو چاہے وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو تو اِسے معاشرے نے ہی دنیا میں اپنا مثالی کردار ادا کیا اور آج بھی دنیا کی بہت سی اقوام اُس معاشرے کی تقلید کرتے ہوئے خود کو اِس جیسا بنانے کی جستجو میں مگن دکھائی دیتی ہیں کہ جن کی عمارت سچ کی مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح بابائے قوم کے فرمان کے مطابق !یہ وطن ہماری خوشیوں کا جہاں ہے اس کے لہلہاتے مناظر ہمارے ہیں جنہیں سرسبز ہمیں رکھنا ہے جو شجر قائد نے لگایا اس کی آبیاری ہمیں ہی کرنی ہے بابائے قوم کے یوم پیدائش کے موقع پر ہم عہد کرتے ہیں کہ ہمارے قدم بڑھتے رہیں گے ۔ماحول کی بہتری اور پاکستان کی ترقی کے لئے اور سدا بہار مستقبل کے لئے ۔قائد نے فرمایا! مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا۔پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہو تا ہوں ۔مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔(آل انڈیا مسلم فیڈریشن 15نومبر 1942ء)

ہمارے عظیم قائد نے خطبہ صدارت دستور سازاسمبلی 1947ء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی ۔

عید الضحیٰ کے موقع پر ہمارے قائد نے فرمایا۔ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ ،خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے ۔جیسے سونا آگ میں تب کر کندن بن جاتا ہے ۔(پیغام عید الضحیٰ 24اکتوبر 1947ء)

قائد نے فرمایا۔اگر پاکستان کو دنیا میں صحیح طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہے جس کا حقدار اس کے رقبے اس کی آبادی اور اس کے وسائل نے اس کو بنا رکھا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنی مضمر صنعتی صلاحیتوں کو اپنی زرعی صلاحیتوں کے پہلو بہ پہلو نشوونما دے اور اپنی معاشیات کو صنعتی بنیاد مہیا کرے ۔

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سیاسیات عالم کی ایسی ہی مثال ،غیر معمولی اور منفر د شخصیت ہیں ۔ عظمت کیا ہوتی ہے اور کیسے حاصل کی جاتی ہے ۔ اس بارے میں مفکرین کے اقوال تو بہت مل جاتے ہیں لیکن عظمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ بے غرض اور بے لوث ہو کر اجتماعی فلاح وبہبو د کے ایسے کام کیے جائیں جن سے انسانوں کی بڑی تعداد کو فائدہ ہو ۔

قائد اعظم عظمت کے اصولوں پر پورا اترتے تھے ۔اس لئے وہ حقیقی معنوں میں ہمارے قائد ہیں ۔ان کی بے غرضی کا یہ عالم تھا کہ انہوں سخت ڈسپلن سب سے پہلے اپنے اوپر نافذ کیا ۔عیش وآرام اور آسانی کی زندگی انہوں نے کبھی نہیں گزاری تھی ۔وہ اپنی ذاتی کامیابی اور آسائش کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔جن ضوابط کی امید وہ دوسروں سے کرتے تھے سب سے پہلے وہ خود کرتے تھے ۔کام کام صرف کام کا اصول دوسروں کے لئے بعد میں تھا اپنے لئے سب سے پہلے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر سے عرصہ میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ۔اور تخلیق پاکستان کا وہ کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے ۔انہوں نے اس عظیم مقصد کے لئے ذاتی آرام کو ترجیح نہیں دی ۔اور اپنی صحت داؤ پر لگا دی تھی۔قائد اعظم کی شخصیت سے اس کا اظہار ہو تا تھا ۔ان کے قول فعل میں تاثیر کی وجہ سے بھی ان کی عملی سچائی تھی ۔ان کی دیانتداری نے ان کی زندگی کو کرشماتی بنا دیا تھا۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ برصغیر کے مسلمان کے ان کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے کو تیار ہو جاتے تھے۔وہ مسلمانوں کو متحد کرنے والی طاقت تھے ۔کہ جس ملک کے بانی کا کردار بے داغ اور کرپشن سے پاک ہو ۔جس نے سیاست و قیادت کا اعلیٰ ترین معیارطے کر دیا ہو ۔اس کے ملک میں سب سے بڑا بحران ہی باکردار قیادت کا پیدا ہو جائے ۔ہونا تو یہ چائیے تھاکہ بانی پاکستان کے کردار کو سیاست کا بنیادی مقصد بنایا جاتا ۔قائد اعظم سے سیاست کے گرسب سیاستدانوں کو سیکھنے چاہئے تھے ۔نیک نیتی اور اخلاص ہی وہ بنیادی ہتھیار ہیں جس ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے ۔کردار کی بلندی نہ ہو تو کوئی بھی سیاستدان لیڈر نہیں بنا اور نہ ہی ہجوم کو ایک قوم بنا سکتا ہے ۔

قائد اعظم محمد جناح ؒ کومسلمانان برصغیر کے مشکل ترین دور کا سامنا رہا ہے۔ان میں تقسیم در تقسیم بھی تھی اور ان کا حوصلہ بھی نچلی سطح پر تھا۔لیکن انہوں نے ایک د؛ گرفتہ ہجوم کو قوم میں تبدیل کر کے تاریخ کا رخ تبدیل کر دیا۔بعد میں آنے والے سیاستدانوں کے لئے ان کا یہ کردار مشعل راہ ہونا چائیے تھا ۔لیکن ہم نے قائد اعظم کو اعلیٰ ترین سطح پررول ماڈل نہیں بنایا۔قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے بنیادہ مسائل کا ادراک رکھتے تھے ۔قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے دلی میں منعقدہ اجلاس میں انہوں نے کہا۔
’’مسلمان گروہوں اورفرقوں کی نہیں بلکہ اسلام اور قوم کی محبت پیدا کریں کیونکہ ان برائیوں نے مسلمانوں کو دوسو برس سے کمزور کر رکھا ہے ‘‘۔ایک دھان پان سی مہذب وشائستہ شخصیت نے صاف ستھری سیاست کر کے مخالفین کے عزائم کوناکام بناکر 14اگست 1947ء کو آزاد مملکت پاکستان کی بنیاد رکھ دی ۔لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہ ہم ان کے تدبر اورسیاسی بصیر ت کے ورثے کو آگے نہ بڑھا سکے ۔

لیکن بد قسمتی سے جو لوگ پاکستان کی ؛ پ ؛ کے بھی مخالف تھے جب اُنہوں نے یہ دیکھا کہ اُن کی تمام عداوتوں اور مخالفتوں کے باوجود بھی پاکستان معرض وجود میں آگیا ہے تو اُن سیاسی پنڈتوں نے پینترا بدلا اور لوگوں میں یہ ظاہر کرنے لگے کہ جناب تحریک پاکستان کے ہر اول دستے کے سپاہی تو ہم ہی لوگ ہیں اور یہ تو ہم ہی لوگ تھے جن کی وجہ سے آج پاکستان میں اسلام باقی ہے ـ

بہر حال ہمیں گونا گونی Diversity اور تکثریتُPluralism کے پیغام کو عام کرنا ہے، محبت کے ساتھ ایک مثالی معاشرہ جس کا خواب قائد نے دیکھا تھا، اور جو وقت کا تقا ضا بھی ہے۔ آج کا دن ہمیں محبت بھائی چارے اور وطن عزیزکے لئے خود کو وقف کرنے کا درس دیتا ہے آئیے ہم سب مل کر آج کے دن یہ عہد کریں کہ آپس کے گروہی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ پیارومحبت اور بھلائی کریں گے ۔اور اپنے پیارے پاکستان کی تعمیرو ترقی اور خوشحالی استحقام کے لئے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے ۔
 
shafiq ahmad dinar khan
About the Author: shafiq ahmad dinar khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.