حضرت مولانامفتی عبدالمجیددین پوری شہیدرحمہ اللہ نے
تحریک آزادیٔ ہندکے دوران’’ تحریک ریشمی رومال‘‘ کے حوالہ سے پنجاب کی
مشہور روحانی ونورانی بستی ’’دین پور شریف‘‘میں 15جون1951کوآنکھ کھولی،آپ
کے والدمولانامحمدعظیم دارالعلوم دیوبندکے فاضل،شیخ العرب والعجم حضرت
مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ کے شاگرد،نہایت متقی وپارسا،تہجدگزارعالم دین
تھے،انہیں اپنی آرزواوردعاکی بدولت جنت المعلی میں مدفون ہونانصیب
ہوا۔مفتی صاحبؒ روحانی ونسبی دونوں اعتبارسے اعلیٰ نسبتوں کے حامل
تھے،خلیفہ غلام محمددین پوریؒ سے ہردوجہت سے تعلق رکھتے تھے،جن کے بارے میں
حضرت شیخ الہندؒ،مولانااشرف علی تھانویؒ اورعلامہ انورشاہ کشمیریؒ نے قابل
قدر،بلندپایہ توصیفی کلمات ارشادفرمائے ہیں۔
حکیم الاسلام قاری محمدطیب ؒکی تشریف آوری کے موقع پرمفتی صاحب شہیدؒکی
رسم بسم اللہ کروائی گئی،اورحضرت مفتی صاحبؒ نے حکیم الاسلام حضرت قاری
صاحبؒ ہی سے پہلاسبق پڑھا،اورپھرابتدائی درجات کی تعلیم آپ نے پنجاب ہی کے
دینی مدارس میں حاصل کی،بعدازاں درجات علیاکے لئے آپ ملک کی مایۂ نازدینی
در سگاہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن تشریف لائے،درجہ سادسہ سے
تخصص تک کی تعلیم یہیں اساطین اہل علم سے حاصل کی،1971ء میں امتیازی نمبرات
کے ساتھ سندفراغت حاصل کی۔
آپ کے مشہوراساتذہ میں محدث العصرعلامہ سیدمحمدیوسف بنوریؒ،مفتی اعظم
پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، مولانافضل محمدسواتیؒ،مولانابدیع
الزمانؒ،مولاناعبیداللہ درخواستیؒ اورمولانامنظوراحمدنعمانی مدظلہ شامل
ہیں۔
تعلیم سے فراغت کے بعدآپ کاابتدائی تقررجامعہ بنوری ٹاؤن میں ہی
ہوگیاتھامگرکچھ اعذارکی بناء پرحضرت علامہ سیدمحمدیوسف بنوریؒ سے تحریری
اجازت لے کرآپ اپنے علاقے خان پورتشریف لے گئے۔
ابتداءً آپ نے دین پورمیں امامت وخطابت اورتدریس کی خدمات سرانجام
دیں،پھرجامعہ اشرفیہ سکھرمیں کئی سال تک دورۂ حدیث تک کی کتابیں آپ کے
زیردرس رہیں،1996ء میں مولاناڈاکٹرحبیب اللہ مختارشہیدؒکے ایماء پرآپ اپنی
مادرعلمی جامعہ بنوری ٹاؤن تشریف لائے،دارالافتاء کے نائب رئیس مقرر ہوئے
اورتدریس بھی فرماتے رہے تاآنکہ بوقت شہادت آپ ہی جامعہ بنوری ٹاؤن کے
دارالافتاء کے مسئول تھے اوردورۂ حدیث کے استادحدیث بھی،ساتھ تخصص فی
الفقہ کے اسباق بھی آپ کے سپردتھے،ملک بھرمیں ہونے والی فقہی مجالس
وسیمینارمیں آپ دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کی نمائندگی فرماتے تھے۔
آپ کی زندگی کاطائرانہ جائزہ لیاجائے توہمہ وقت آپ دینی مشاغل میں مصروف
رہاکرتے تھے،اورایک ایک لمحہ علمی مصروفیات میں صرف ہواکرتاتھا۔
بنوری ٹاؤن میں افتاء ودرس کی ذمہ داریوں کے ساتھ آپ الحمراء
مسجدجمشیدروڈکراچی کے امام وخطیب اورجامعہ درویشیہ سندھی مسلم سوسائٹی میں
شیخ الحدیث کے منصب پرفائزتھے،جامعہ معہدالخلیل بہادرآبادکے شعبہ
دارالافتاء میں بھی تصویب افتاء کی ذمہ داری بھی آپ نبھاتے تھے۔فقہ وفتویٰ
کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے آپ کویدطولیٰ ،کامل شرح صدر اوربصیرت عنایت
فرمائی تھی،آپ کے فتاویٰ اس کابیّن ثبوت ہیں،کسی مسئلہ کے متعلق جب تک
کامل تحقیق ،معلومات نہ ہوتیں یااس چیزسے متعلقہ ماہرین کی آراء حاصل نہ
کرلیتے اس وقت تک توقف فرماتے،بلکہ بسااوقات بعض معاملات میں تحقیق وتفتیش
کے لئے آپ از خودمعائنہ کرنے کے لئے متعلقہ مقام/جگہ/ادارہ میں تشریف لے
جاتے۔
فقہی بصیرت ہی کی بناء پربارہایہ بھی دیکھنامیں آیاکہ ایک فتویٰ دیگرحضرات
کی تصحیح وتصویب کے بعدآخری مرحلہ کے لئے جب آپ کے دستخط کے لئے سامنے
آتاتوآپ کی دوررَس نگاہ اس میں پوشیدہ تنقیح کویاخامی کوجان
لیاکرتی،اوردیکھنے والے حیران رہ جاتے۔صرف جامعہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء
سے آپ کے مصدقہ جاری ہونے والے فتاویٰ کی تعدادایک محتاط اندازہ کے مطابق
ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔
حضرت مفتی صاحب شہیدؒان تمام مناصب کے باوجودانتہائی
ملنسار،منکسرالمزاج،مشفق ومتواضع انسان تھے،تواضع آپ کی خصوصی صفت تھی
جوآپ کی ہرہرادا اور قول وعمل سے عیاں تھی، ایسے ہی گوشۂ گمنامی میں رہنے
والے،تکبرکے تاج کودورپھینکنے والے متواضع اوردرویش صفت لوگوں کواللہ
تعالیٰ بامِ عروج تک پہنچاتے ہیں اورشہرت سے نوازکرہردل عزیزبنالیتے ہیں۔
آپ کے تلامذہ ومتعلقین اورفضلاء جامعہ کے مدارس ومکاتب ملک بھرکے قصبوں
اوردیہاتوں میں پھیلے ہوئے ہیں،آپ ان اداروں کی سرپرستی فرماتے ،دوردرازکے
علاقوں میں تشریف لے جاتے،حالات دریافت فرماتے اورپھران کی روشنی میں
مفیدوکارآمدمشوروں ونصائح سے نوازتے،کام کی ترغیب دیتے،حوصلہ افزائی
فرماتے اورجس قدرممکن ہوتاتعاون فرماتے۔
علم دین کے ساتھ ساتھ حکمت (علم طب) میں بھی آپ کومہارت حاصل تھی اورایک
عرصہ تک آپ مستقل مطب میں بھی تشریف فرماتے رہے۔
غرض ہرجہت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کوخوبیوں اورکمالات سے نوازاتھا،اورآپ
کافیض پوری آب وتاب کے ساتھ چہارسوپھیل رہاتھا،کہ دشمنان دین وملک نے آپ
کومع اپنے رفیق دارالافتاء ،محنت وجفاکشی کے پیکرمفتی صالح محمدصاحب کاروڑی
اورخادم باوفاحسان علی شاہ کے ہمراہ دن دیہاڑے کراچی کی مصروف ترین شاہراہ
پر31جنوری2013ء کوشہیدکردیااورآپ اپنے رفقائ کے ساتھ قافلۂ شہداء سے
جاملے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن میں جنازے کے بعد آپ کے جسدخاکی کوآبائی شہرخان پورلے
جایاگیا،اوردین پورشریف کے اس مقبرے میں سپردخاک کیاگیاجہاں اساطین اہل علم
ومعرفت،تقوی وروحانیت کے آفتاب ماہتاب(خلیفہ غلام دین پوریؒ،حضرت
سندھیؒ،حضرت درخواستیؒ وغیرہ)آرام فرماہیں۔ |