حضرت غوث اعظم جیلانی ایک عظیم داعی و مبلغ
(Muhammad Aman Ullah Misbahi, India)
حضرت غوث اعظم جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ کا دہد سیاسی اور
مذہبی لحاظ سے نہایت پر آشوب تھا، اسلام کی مرکزی طاقت بہت کمزور ہوچکی تھی،
سماج و معاشرہ ہر جگہ انتشار تھا، بدکاری اور فسق و فجو ر اپنی انتہا کو
پہنچ چکاتھا، اندلس میں ا سلامی حکومت کی مرکزیت ختم ہوچکی تھی، اور مصرمیں
سلطنت باطینہ قائم ہوچکی تھی، بیت المقدس پر حملے کی تیاری ہورہی تھی، اور
عباسی امراء ترک سرداروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے تھے ادھر ساری
عیسائی دنیا مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکی تھی، عیسائیوں کا لشکر اسلامی
ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے مسلم ممالک سرحدوں پر جمع ہورہا تھا
ادھر ملت اسلامیہ فرقہ بندیوں میں مبتلا تھی چنانچہ ان حالات میں ایک ایسی
روحانی قوت کی ضرورت تھی جو تمام طاغوتی طاقتوں کو مغلوب کر کے اپنے
عالمگیر اثر کے بعاعث بنی نوع انسان کو ازسر نودین اسلام پر قائم کرے اور
دین کی تقویت وغلبہ کا موجب ہو ایسے حالات میں حضرت غوث اعظم محی الدین
عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ رمضان المبارک ۴۷۰ھ میں گیلان کے قصبہ نیف
میں پیدا ہوئے قبل پیدائش اور وقت پیدائش و بعد پیدائش بے شمار کرامات کا
ظہورہوا۔ دعوت و تبلیغ:۔ شیخ عبدالوہاب اور شیخ عبدالرزاق بن کمہانی رحمۃ
اﷲ علیھما نے بیان فرمایا کہ ہم نے شیخ سید ناعبدالقادر رضی اﷲ عنہ سے ممبر
پر سنا کہ مجھے ایک بار حضور ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تو آپ نے فرمایا بیٹا !
تم و عظ کیوں نہیں کرتے میں عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ میں عجمی ہوں اور بغداد
کے فصیٰ کے سامنے کس طرح کلام کرسکتا ہوں تو حضور ﷺ نے حکم دیا اپنا منھ
کھولو جب میں نے اپنا منھ کھولا تو آپ نے سات بار میرے منھ میں لعاب دہن
ڈالا اور حکم دیا کہ لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کے احکام پہچاتے رہنا آپ فرماتے
ہیں کہ میں نے نماز ظہرادا کرنے کے بعد سلسلہ وعظ شروع کیا بہت سے لوگ جمع
ہوگئے لیکن میرا بدن کانپنے لگا تب میں نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کو
دیکھا کہ میرے سامنے کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ اپنا منھ کھولو جب میں نے
منہ کھولا تو آپ نے چھ بار اس میں لعاب دہن ڈالا میں نے عرض کی یا حضرت سات
بارکیو ں نہیں آپ نے فرمایا آداب رسول خدا کی پاسداری میں یہ کہہ کر آپ
غائب ہوگے پھر فرمایا کہ فکر غوطہ خور دل کے بحر ذخار میں معانی کے موتیوں
کی تلاش میں ہے ان موتیوں کو سینہ کے کنارے پر نکال کر قضہ گو زبان کے
حوالہ کردیتا ہے ایسے موتی دلوں کی گہر ائی میں رکھے جاتے ہیں وہ نیک طاقت
کے نفائس سے خریدے جاتے ہیں مشائخ فرماتے ہیں کہ ۵۲۱ھ میں پہلا خطبہ جو
جناب غوث پاک نے ممبر پر کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا تھا ابتدائی مجلس میں
سامعین کی تعداد بہت کم تھی لیکن آپ کی اس پہلی تقریر نے بغداد میں تہلکہ
مچادیا پھر تو انسانوں کا ایک دریا ہر وعظ میں اسقدر ہجوم ہونے لگا کے باب
الشامہ کی جامع مسجد حا ضرین کے لئے تنگ ہوگئی یہ دیکھ کر آپ نے عید گاہ
بغداد کے وسیع و عریض میدان کو اپنے مواعظ کے لئے پسند فرمایا، اﷲ تعالیٰ
نے اپنے محبوب بندے کو یہ خوبی عطا فرمائی تھی کہ ہزاروں نفوس کے مجمع میں
آپ کی آواز دور ونزدیک یکساں پہونچتی تھی اور ہر ایک بقدر اہلیت و صلاحیت
آپ کے ایمان افروز مواعظ سے استفادہ کرتا آپ پر بغداد کی معاشرتی سماجی اور
دینی زندگی کی بگڑتی ہوئی حالت پوشیدہ نہیں تھی ظلم و ستم جبرو داستبد ادتن
آسانی عیش و طرب میں ڈوبی زندگی کوہلاکت بھنو رسے نکال لا ناہی آپ کا مقصد
اصلی تھا اور اسی لئے آپ نے بغداد کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا آپ
کے مواعظ کا اصلی سبب یہی تھا کہ بندگان خدا کی اصلاح کی جائے چنانچہ آپ ہر
وقت ان برگشتہ نفوس کی اصلاح میں مصروف و مشغول رہتے، بڑے بڑے لوگوں کو ان
کی برائیوں پر بے دھڑک ٹوکتے اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ فرماتے اور کبھی
کسی کی انفرادیت و جاہت اور سطوت شوکت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، اور ایسا
ہوتا بھی کیوں آپ منجانب اﷲ ایک داعی و مبلغ کی حیثیت سے دنیا میں منتخب
فرمائے گئے تھے آپ نے اس وقت کے ظالموں ،عالموں، صوفیوں، فقیہوں سے خطاب
فرمایا اور وسلاطین وقت آپکی خدمت میں دعائے خیر کے حصول کے لے حاضر ہوتے
اس موقع پر آپ ان کو نصیحت فرماتے اور وعیدالٰہی سے ان کو ڈراتے آپ اعلان
کلمۃ الحق میں کبھی باک نہیں فرماتے آپ بادشاہ کو بھی اسی طرح ڈانٹ دیا
کرتے جیسے ایک عامی کو آپ کے ان مواعظ حسنہ اور دعوت و تبلیغ کا یہ اثر ہوا
کہ بغداد جو عیش و طرب کا کہوارہ اسندی و سرمستی کا ٹھکانہ تھا جہاں کے
نوجوان رئیس زادے اور شرفا ء آداب وشرافت و سیادت بھلاچکے تھے بہت جلد راہ
راست پر آگے ان کی سرمستیاں ماند پڑگیں ہزاروں افراد نے آپ کے دست حق پرست
پرتوبہ کی اور سینکڑوں یہودی اور عیسائی حلقہ بگوش اسلام ہوئے حضرت غوث
اعظم رضی اﷲ عنہ نے شریعت کے تن بے جان میں دوبارہ جان ڈالی اور آپ کی دعوت
و تبلیغ نے ہزاروں بھٹکے ہوئے انسانوں کو منزل مقصود سے ہم کنار کردیا حضرت
غوث اعظم نے ساری عمر دین اسلام کی بے لوث خدمت کی اور احیائے دین وسنت کے
لے پیش بہا کارنامے انجام دیئے جن کی وجہ سے آپ کا لقب محی الدین مشہور و
معروف ہوگیا جب تک آپ ظاہری اعتبار سے دنیا کے رنگوبو میں جلوہ افروز رہے
دین اسلام کی تبلیغ واشاعت فرماتے رہے اور عالم اسلام راحت وسکون کی سانس
لیتے رہے آپ نے اپنے بعداس امت مرحومہ اور دین اسلام کی رہبری کے لئے ا پنی
گراں قدر تصانیف کو اس امت کے حوالہ فرمایا جو آج عالم اسلام کے مبلغین کے
لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں زمانہ آج بھی ان سے فیض یاب ہورہا ہے اور
قیامت تک انشااﷲ ہوتارہیگا ۔(ماخوذ : دینی دعوت) |
|